Topics
لفظ معجزہ کا ماخذ ’’عجز‘‘ ہے، مفہوم یہ ہے کہ کسی کام کو کرنے سے عاجز
ہونا۔ نبوت کی صداقت کے لئے خرق عادت کا ظاہر ہونا معجزہ ہے۔خرق عادت انبیاء کرام
کے علاوہ نوع انسانی کے دیگر افراد سے بھی صادر ہوئی ہیں۔ انبیاء اور روحانی طاقت
رکھنے والے انسانوں کے کتنے ہی واقعات اسکے شاہد ہیں۔ پاک طینت حضرات سے خرق عادات
کا اظہار رشد و ہدایت اور تنبیہہ کیلئے ہوتا ہے۔ روحانی سائنس کی پہلی کتاب ’’لوح
و قلم‘‘ میں ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ لکھتے ہیں۔
تصرف کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ معجزہ
۲۔ کرامات
۳۔ استدراج
استدراج وہ علم ہے جو اعراف کی بری روحوں یا شیطان پرست جنات کے زیر سایہ
کسی آدمی میں خاص وجوہات کی بنا پر پرورش پاجاتا ہے۔ صاحب استدراج کو اللہ تعالیٰ
کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی۔علم استدراج اور علم نبوت میں یہی فرق ہے کہ استدراج کا
علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے اور علم نبوت انسان کو غیب بینی کی حدود سے گزار کر
اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچا دیتا ہے۔
علمِ نبوت کے زیر اثر جب کوئی خارقِ عادت نبی سے صادر ہوتی ہے تو اس کو معجزہ کہتے
ہیں۔ ختمِ نبوت و رسالت کے بعد اولیاء اللہ سے صادر ہونے والی خارقِ عادت کرامت
کہلاتی ہے۔ معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل ہوتا ہے۔مستقل سے مراد یہ ہے کہ جب
تک صاحبِ تصرف اس چیز کو خود نہ ہٹائے وہ نہیں ہٹے گی۔ استدراج کے زیرِ اثر جو کچھ
ہوتا ہے وہ مستقل نہیں ہوتا اور اس کا اثر فضا کے تاثرات بدلنے سے
خودبخود ضائع ہوجاتا ہے۔ استدراج کے زیرِ اثر جو کچھ ہوتا ہے اس کو جادو کہتے ہیں۔
انبیاء کرام کو عطا کردہ معجزات قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں
ہیں:
’’پھر بچا دیا ہم نے اس کو، اور جہاز والوں کو اور رکھا ہم نے جہاز کو
نشانی جہان والوں کے لئے۔‘‘(سورۃ العنکبوت ۔آیت ۱۵)
’’اللہ تعالیٰ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے۔ ‘‘(سورۃھود ۔آیت 64)
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو کفار نے
مطالبہ کیا کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کوئی معجزہ کھائیں۔ قرآن کریم نے مکہ کے
منکرین کا مطالبہ ان الفاظ میں دہرایا ہے۔
وہ (محمد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام) ہمارے پاس اپنے رب کی طرف سے
کوئی نشانی کیوں نہیں لائے ہیں۔
(سورۃ طحہٰ ۔آیت 133)
اس پر اس کے رب کی طرف سے نشانیاں کیوں نہیں اتاری جاتیں؟
(سورۃ العنکبوت۔ آیت50)
تو انہیں چاہیئے کہ ہمارے پاس کوئی نشانی لائیں جیسے پہلے انبیاء بھیجے گئے
تھے۔
(سورۃ الانبیاء۔آیت5)
نبی سے ظاہر ہونے والی واضح دلیل کو اور انبیاء کی تعلیمات کو جھٹلانے والے
جادو و سحر کہتے تھے۔ قرآن کریم نے خارق عادت کے مطالبے کے جواب میں فرمایا:
’’اگر یہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں
کہ یہ جادو تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔‘‘(سورۃ القمر۔آیت 2)
’’کہہ دیجئے کہ بلاشبہ نشانیاں تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں۔‘‘(سورۃ
العنکبوت۔50)
تاریخ شاہد ہے کہ انبیاء کرام ؑ سے معجزات کا ظہور اتمام حجت کیلئے ہوا ہے۔
لیکن ناسعید لوگ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے۔
’’اور بچادیا ہم نے موسیٰ کو اور جو لوگ تھے اس کے ساتھ سارے۔ پھر ڈبو دیا ان
دوسروں کو اس چیز میں ایک نشانی ہے اور نہیں وہ بہت لوگ ماننے والے۔‘‘
(سورۃ الشعراء ۔آیت65تا67)
حضرت صالح ؑ کی قوم پتھر سے زندہ سلامت اونٹنی نکالنے کا معجزہ دیکھ کر بھی
راہ راست پر نہیں آئی تو قانون قدرت نے پکڑ لیا۔
’’حجر کے لوگ بھی رسولوں کی تکذیب کر چکے ہیں ہم نے اپنی آیات ان کے پاس بھیجیں
۔اپنی نشانیا ں ان کو دکھائیں۔مگر وہ سب کو نظر انداز کرتے رہے۔ وہ پہاڑ تراش تراش
کر مکان بناتے تھے اور اپنی جگہ بالکل بے خوف اور مطمئن تھے۔آخر کار ایک زبردست
’’چھنگاڑ‘‘ نے ان کو صبح ہوتے آلیا اور ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی۔‘‘
(سورۃ الحجر۔آیت80تا 84)
حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزات دیکھ کر صرف گنتی کے چند لوگ ایمان لائے۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے معجزات دیکھ کر بھی کفار مکہ کے دلوں میں ایمان کی روشنی داخل
نہیں ہوئی۔ جب آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہجرت کرکے مدینہ منورہ جانے کا حکم ہوا
تو کفار مکہ کے حصے میں رسوائی اور بدبختی آئی۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اور حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلا م پر ایمان لانے والے غالب اور فاتح بن کر دوبارہ مکے میں داخل
ہوئے۔
پاک باطن نفوس کے لئے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس معجزہ
ہے۔ انہیں ایمان سے سرفراز ہونے کے لئے کسی مافوق الفطرت واقعہ کی تلاش نہیں ہوتی۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ ، حضرت عثمانؓ، حضرت
علیؓ اور دوسرے نامور صحابہؓ معجزہ دیکھے بغیر ایمان لائے۔ہر نبی کو اس دور کے
ماحول، قوم کے مزاج، عقل و فہم اور افتادِ طبیعت کی مناسبت سے معجزات سے نوازا
گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ کا دور جادو ٹونہ اور طلسم کے عروج کا زمانہ تھا۔ آپؑ کو
یدبیضاء اور عصا کے معجزات عطا فرمائے گئے۔ فرعون کے دربار میں موجود ساحروں نے
رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں جو سانپ بن گئیں۔ حضرت موسٰی ؑ کو حکم ہوا:
’’ڈال اپنا عصا، پس وہ ان کے فریب کو نگل گیا۔ ‘‘(سورۃ الاعراف۔آیت 117)
اور جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کی سیرابی کے لئے دعا کی تو حکم ہوا۔’’پتھر پر
اپنا عصا مار تب پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔‘‘(سورۃ البقرہ ۔آیت60 )
حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانے میں علم طب عروج پر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ
ؑ کو مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو شفا دینے اور مردوں کو زندہ کردینے کا معجزہ
عطا فرمایا:
’’اور جب تو بناتا مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے، پھر دم مارتا اس میں
تو ہوجاتا جانور میرے حکم سے، اور چنگا کرتا ماں کے پیٹ کا اندھا اور کوڑھی کو
میرے حکم سے اور جب نکال کھڑا کرتا مردے میرے حکم سے۔ ‘‘(سورۃ المائدہ۔آیت110)
حضرت صالحؑ کے دور میں مجسمہ سازی اور سنگ تراشی کا فن عروج پر تھا۔ منکرین نے
اپنی ذہنی سکت کے مطابق ناممکن چیز کو ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا، حضرت صالحؑ نے
پہاڑ کی طرف اشارہ کیا، چٹان شق ہوگئی اور زندہ سالم اونٹنی اس میں سے نکل آئی اور
بچے کو جنم دیا۔
حضرت صالحؑ کی قوم کو تنبیہہ کی گئی:
’’یہ اللہ تعالیٰ کی اونٹنی ہے جو تمہارے واسطے نشانی ہے۔‘‘ (سورۃ
ھود۔آیت64)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد قرآن کریم علی الاعلان کہتا ہے:
’’اے لوگو! بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند پہنچ چکی ہے۔ ‘‘ (سورۃ
النساء ۔آیت174)
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مقدسہ کا ہر دور سمجھ بوجھ رکھنے
والوں کے لئے اللہتعالیٰ کی نشانی ہے۔
بعثت کے بعد حق و باطل کے مابین تفریق ظاہر ہوگئی۔ کعبہ کو مسمار کرنے کے ارادے سے
آنے والے اپنے لاؤ لشکر سمیت کھائے ہوئے بھس میں تبدیل ہوگئے۔ برسوں سے خشک سالی
کا شکار عرب، باران رحمت سے سرسبز ہوگیا۔
ایک ہزار سال سے جلائی ہوئی مجوسیوں کی آگ بجھ گئی۔ زلزلہ کی شدت سے کسریٰ
کے محل کے چودہ کنگرے گرگئے۔ ہمدان اور قم کے درمیان چھ میل لمبا چھ میل چوڑا
بحیرہ سارہ خشک ہوگیا۔ کوفہ اور شام کے درمیان وادی سماوہ کی خشک ندی میں پانی
جاری ہوگیا۔ معجزات اورخارق عادت کا احاطہ کرنا انسانی دسترس سے باہر
ہے۔تاریخ کے حوالے سے حیات طیبہ علیہ الصلوٰۃوالسلام میں جن خارق عادات کا ظہور
ہوا ہے زیر نظر صفحات میں بصد احترام و ادب پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ساتھ
ساتھ محض اللہ تعالیٰ کے کرم اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نسبت سے اس
عاجز نے معجزات کی سائنسی توجیہہ کے لئے قلم اٹھایا ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے صدقے میں اللہ تعالیٰ کامیابی عطافرمائے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان