Topics

معاشرتی نظام

معاشرتی زندگی میں اصل مسئلہ انسان کا وہ طرزِ عمل ہے جو اپنے گھر، اقربا، ہمسائے اور مخلوق میں قائم کیا جاتا ہے۔ معاشرتی دائرے میں بالعموم انسانی عظمت، میاں بیوی کے حقوق، والدین کے حقوق، اولاد کی تربیت، ہمسایوں سے حسن سلوک، مخلوق سے ہمدردانہ رویہ زیر بحث آتے ہیں۔ 

انسان کی عظمت 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تشریف آوری کے وقت لوگ نسلی، لسانی اور مفاداتی گروہوں میں تقسیم تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے قرآن کے ارشادات کی روشنی میں انسانوں کے درمیان مساویانہ حقوق کا درس دیا۔ 

’’اور ہم نے تمہیں مختلف قومیں اور خاندان بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرسکو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے بڑا عزت دار وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہوگا۔‘‘

(سورۃ الحجرات۔ آیت 13) 

’’ اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا اورعمدہ چیزیں ان کو عطا کیں۔‘‘ ( سورۃبنی

اسرائیل۔ آیت 70)

’’ ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے۔‘‘( سورۃ التین۔ آیت 4)

’’ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں اور تم خد ا سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے سوال کیا کرتے ہو اورقطع رحم سے ڈرو۔‘‘

(سورۃ النساء۔ آیت 1)

حجۃ الوداع کے خطبے کے موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کالے پر سوائے تقویٰ کے۔‘‘

’’اے گروہ قریش! اللہ نے تم سے جہالت کے غرور اور آباء پر فخر کرنے کو دور کردیا۔ لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے متعلق فرمایا

’’میری تعریف میں اسی طرح کا غلو نہ کرنا جس طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی تعریف میں نصاریٰ نے کیا میں صرف اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔‘‘(بخاری، باب الانبیاء، باب و اذکر...142/4)

حضرت بلال حبشیؓ ، حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت صہیب رومیؓ کو معاشرے میں مساوی درجہ پر رکھنا اور اپنے ساتھ ملانا ایک ایسا انقلابی اقدام تھا جس کی پیروی کے لئے آج بھی انسان محتاج ہے۔کوئی شخص خاندانی اور نسلی وقار کی بنیاد پر ترجیحی سلوک کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ ایک انسان اپنی صلاحیتوں کی بنا پر قابل قدر ہے۔ لیکن ایسی رعایت کسی شخص کو نہیں ملے گی جو بنیادی انسانی شرف کو مجروح کرے۔ 

حقوق کا تعین 

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاندان کی بنیاد کو نئی قوت بخشی۔ باپ کو گھر کا سربراہ بنایا ۔۔۔ ساتھ ہی گھر کے اندر ماں کو باپ کے مقابلے میں تین گنا درجہ دے دیا۔ بیٹے کے مقابلے میں بیٹی سے ترجیحی سلوک کا حکم دیا گیا۔ بیٹے اور بیٹی دونوں کی تربیت دینے کا حکم صادر ہوا۔ مرد اور عورت کے لئے ان کی فطرت کے مطابق علیحدہ علیحدہ اخلاقی معیار مقرر ہوئے۔

یتیم، غربا، بیواؤں کے حقوق

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معاشرے میں یتیموں اور بیواؤں کے حقوق کی نگہداشت کی خصوصی تعلیم دی ہے اور زکوٰۃ میں ان کی امداد کے لئے ایک حصہ مقرر کیا ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ’’ سب سے بہتر گھر وہ ہے جہاں یتیم کی اچھی طرح پرورش کی جائے اور ایسا شخص مجاہد کی طرح ہے جو محنت کرے اور پھر اس سے یتیموں اور بیواؤں کی امداد کرے۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بالخصوص ہدایت فرمائی کہ ’’بیواؤں کی شادی جلد از جلد کروا دینی چاہیئے۔ ‘‘

*ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاس بہت سے غلام آئے۔ حضرت فاطمہؓ کے ہاتھوں میں چکی پیستے پیستے چھالے پڑ گئے تھے انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اپنے ہاتھ دکھائے اور فرمایا کہ گھر کے کاموں کے لئے ان میں سے ایک خادم عنایت فرمائیے ۔

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:

’’ بدر کے یتیم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔‘‘(سنن ابن داؤد ۔جلد 2۔حدیث1213)

اولاد کے قتل کی ممانعت

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بچوں کے قتل، بچوں کو زندہ دفن کرنا اور انسانوں کو منت کے پورا کرنے یا کوئی مراد مانگنے کی خاطر بتوں کے سامنے ذبح کرنے سے روک دیا۔ چنانچہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام عورتوں سے بیعت لیتے تھے تو اس میں بچوں کو قتل نہ کرنے کی شر ط بھی ہوتی تھی۔

ظہار کی ممانعت

بعض لوگ غصے کی حالت میں اپنی بیوی سے ظہار کرلیتے تھے۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ اسے اپنی ماں کہہ کر اس سے ہمیشہ کے لئے ازدواجی تعلقات ختم کرلیتے اور پھر اس پر قائم رہتے تھے۔ اس سے سوسائٹی میں بے شمار پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس رسم کو حرام قرار دے دیا اور اس کا کفارہ مقرر کردیا اور مردوں کوآئندہ ایسا کرنے سے منع فرمادیا۔ 

’’جولوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جوانہوں نے کہی تھی ، تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کوہاتھ لگائیں،ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔اس سے تم کونصیحت کی جاتی ہے،اور جوکچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔اورجوشخص غلام نہ پائے وہ دومہینے کے پہ درپہ روزے رکھے قبل اسکے دونوں ایک دوسرے کوہاتھ لگائیں۔ اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلائے یہ حکم اس لئے دیاجارہا ہے کہ تم اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔

(سورۃ المجادلہ۔آیت3تا4)

مشرکین سے حسن سلوک

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلی مرتبہ معاشرے کو نظم وضبط کا پابند کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معاشرے میں اچھائی اور برائی کا تعین کرکے لوگوں میں شعور پیدا کیا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کو پہلی مرتبہ اس بات کا سبق دیا کہ اگر ایک معاشرے میں مختلف عقائد کے لوگ بستے ہوں تو ان کو کس طرح آپس میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ظرف پیدا کرنا چاہیئے اور ایک دوسرے کے رسم و رواج اورعقائد کا احترام کرنا چاہیئے۔

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاس یہود یا مشرکین میں سے کوئی ملنے آتاتھا تو احترام کے ساتھ خاطر تواضع فرماتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں کو بھی حکم دیا کہ ان کے جو رشتہ دار ابھی تک مشرک ہیں ان سے حسن سلوک کیا جائے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مشرکین مکہ کی امداد کے لئے قحط کے دوران مالی امداد بھی ارسال فرمائی۔یہی رواداری مسلمانوں کے لئے آئندہ مشعل راہ بنی اور سلمانوں نے دنیا کے تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اندر قبول کرکے حسن اخلاق سے ان کو گرویدہ بنالیا۔ 

اللہ تعالیٰ کا کنبہ مخلوق

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا!

*تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے ان میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارا وہ شخص ہے جو اپنے عیال کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔(مشکوٰۃ شریف ۔جلد 2حدیث444)

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا !

*سارے مومنین ایک جسم کی طرح ہیں اگر اس کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے۔(مشکوٰۃ شریف ۔جلد4 ۔حدیث880 )

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان