Topics

مسجد نبویؐ کی تعمیر

مدینہ میں قیام کے بعد سب سے پہلا کام مسجد نبویؐ کی تعمیر تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دست مبارک سے حدود امسجد کا تعین کیا۔ صحابہ کرام ؓ مسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ اینٹیں بنائیں، پتھر ڈھوئے، لکڑی چیری، گارا ملایا، جھاڑیاں صاف کیں، زمین ہموار کی، بنیادیں کھودیں، سیڑھیاں بنائیں، ان پر چڑھ چڑھ کر اینٹ گارا اوپر پہنچایا، رسّے باندھے۔ ہر فرد کے چہرے پر خوشی کے رنگ تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ہاتھوں سے مٹی اٹھاتے، پتھر لاتے، گارا بناتے اور مسجد کی تعمیر میں مصروف رہتے تھے اور فرماتے تھے کہ:

’’زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے، اے اللہ انصار اور مہاجرین کو بخش دیجئے‘‘۔

اس زمین میں کھجور اور دوسرے چند درخت بھی تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زمین ہموار کردی اور کھجوروں اور درختوں کو کاٹ کرقبلہ کی جانب لگادیا۔ اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا۔دروازے کے دونوں پَلّے پتھرکے بنوائے، دیواریں کچی اینٹوں اور گارے سے بنائی گئیں، چھت کھجور کے پتوں اور کھجور کے تنوں سے بنائی گئی۔ مسجد کی تعمیر میں سات ماہ کا عرصہ لگا۔ مسجد میں ان مہاجرین کیلئے کہ جن کے پاس رہنے کیلئے جگہ نہیں تھی اینٹوں اور گارے سے ایک بڑا چبوترہ بنایاگیا جو آج بھی صفہ کے نام سے مشہور ہے۔ صفہ میں قیام کرنے والے لوگوں کو ’’اہلِ صفہ ‘‘ اور ’’اصحاب صفہ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسجدکے ارد گرد چند مکانات بھی تعمیر کرائے جن کی دیواریں کچی اینٹوں کی تھیں اورچھتیں کھجور کے تنوں، شاخوں اورپتوں سے بنائی گئی تھیں۔ یہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ازواجِ مطہراتؓ کے حُجرے تھے۔ حُجروں کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان سے وہاں منتقل ہوگئے ۔

اذان کی ابتدا

مسجد نبویؐ جس دن مکمل ہوئی تمام لوگ تھک ہار کے مسجد کے فرش پر آرام کررہے تھے۔ ہلکی ہلکی دھوپ چھپر اور کھجور کے پتوں کے درمیان سے چھن کر آرہی تھی۔ سبز پتوں کا یہ سایہ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا۔ ہر شخص مسجد کی تعمیر کے مختلف پہلوؤں پر تبصرہ کر رہا تھا۔ سب بہت خوش تھے۔ حضرت علیؓ نے حضرت بلالؓ سے کہا:

’’میرے خیال میں مسجد میں ایک کمی ہے ۔‘‘

سب مسلمان حضرت علیؓ کی طرف متوجہ ہوگئے، انہوں نے اوپر چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:


’’
کچھ ایسا انتظام ہونا چاہیئے جس سے لوگوں کو نماز کے لئے بلایا جاسکے۔‘‘

حضرت عمارؓنے کہا

’’میرے خیال میں مسجد کی چھت پر ایک جھنڈا لگادیں۔ نماز کے وقت پرچم کشائی کرلیا کریں اور نماز کے بعد اتاردیں۔‘‘آس پا س کے سب لوگ گفتگو میں شامل ہوگئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ گفتگو دلچسپی سے سنتے رہے مگر خود کچھ نہیں فرمایا۔ کسی نے کہا:’’ہم چھت پر گھنٹیاں لگادیں۔‘‘ کوئی صحابیؓ بولے:’’گھنٹیاں توکلیسامیں لگتی ہیں‘‘۔کسی نے کہا:’’نقارہ بجاناچاہیئے۔‘‘ ایک بزرگ نے فرمایا ’’مناسب رہے گا کہ قرنا پھونکا جائے اس کی آواز بہت دور تک سنائی دیتی ہے۔‘‘ کوئی صاحب بولے: ’’قرنا تو مینڈھے کے سینگ سے بنایا جاتاہے یہ کوئی اچھی علامت نہیں۔‘‘اور پھر خاموشی چھاگئی۔ جھنڈا، گھنٹیاں، نقّارہ، قرنا کوئی بھی ان تجاویز سے پوری طرح مطمئن نہیں تھا۔ گھنٹیوں کی آواز دیر تک کانوں میں گونجتی رہتی ہے، نقارہ دورانِ خون کو تیز کردیتا ہے، جھنڈا ہوا کے رخ پر اڑتاہے اور مخالف سمت سے نظر نہیں آتا، پھر جھنڈا سوتے ہوؤں کو کیسے جگائے گا۔ اتنے میں حضرت عبداللہ بن زید ؓ آئے۔ شرمیلے اتنے تھے کہ ڈرتے تھے ان کی باتوں سے کوئی ناخوش نہ ہوجائے مگر خزرج کا یہ شرمیلا نوجوان اگلے ہی لمحہ ساری کائنات کو مرتعش کرنے والا تھا۔ حضرت بلالؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پا س بیٹھے تھے ۔انہوں نے محسوس کیا کہ حضرت عبداللہ ؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ حضرت بلالؓ وہاں سے اُٹھ گئے تاکہ حضرت عبداللہؓ ا طمینان سے بات کرلیں ۔حضرت عبداللہؓ نے نہایت دھیمی آواز سے کہا۔۔۔

یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام میں نے خواب دیکھاہے ۔۔۔

’’سبز کپڑے پہنے ہوئے ایک شخص ہاتھ میں ناقوس لئے جارہا ہے۔ میں نے اس سے کہا:

’’ اے اللہ کے بندے! یہ ناقوس تم مجھے فروخت کردو گے؟‘‘

اس سبز پوش نے پوچھا ’’تم اس کاکیا کروگے؟‘‘ 

میں نے کہا،

’’اسے بجاکر لوگوں کو نماز کیلئے بلاؤں گا۔‘‘

اس شخص نے کہا:

’’ نماز کیلئے بلانے کا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ بتاتا ہوں ۔تم اس طرح کہا کرو۔‘‘

اللّہ اکبر اللّہ اکبر

اﷲ سب سے بڑا ہے۔ اﷲ سب سے بڑا ہے۔

اللّہ اکبر اللّہ اکبر

اﷲ سب سے بڑا ہے۔ اﷲ سب سے بڑا ہے۔

اشھد ان لاالہ الااللّہ

میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲکے سوا کوئی معبود نہیں

اشھد ان لاالہ الااللّہ

میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲکے سوا کوئی معبود نہیں

اشھد ان محمدا رسول اللّہ

میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں۔

اشھد ان محمدا رسول اللّہ

میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں۔

حی علی الصلوٰۃ

آؤ نماز کی طرف۔

حی علی الصلوٰۃ

آؤ نماز کی طرف۔

حی علی الفلاح

آؤ کامیابی کی طرف

حی علی الفلاح

آؤ کامیابی کی طرف

اللّہ اکبر اللّہ اکبر

اﷲ سب سے بڑا ہے۔اﷲ سب سے بڑا ہے۔

لاالہ الااللّہ

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں

خواب سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ۔۔۔

’’عبد اللہؓ ! تمہار اخواب سچا ہے ۔نماز کیلئے اسی طرح بلایاجائے گا۔‘‘

اب سوال یہ تھا کہ یہ الفاظ کس انداز میں اورکیسے ادا کئے جائیں ۔میٹھے لہجے میں، نرم لہجے میں، اعلانیہ انداز میں ،مرد کی آواز میں ،عورت کی آواز میں،بچے کی آواز میں، کسی نوجوان کی آواز میں ،کسی بزرگ کی آوازمیں یا بیک وقت کئی لوگوں کی آواز میں ۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت بلالؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا:

’’بلالؓ تمہاری آواز میں۔‘‘

پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’عبداللہؓ تم بلالؓ کویہ الفاظ یاد کرادو۔‘‘

مسجد میں بیٹھے ہوئے سارے لوگوں کی نگاہیں حضرت بلالؓ پر مرکوز ہوگئیں۔ حضرت بلالؓ ابھی تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فیصلے کے سرور میں تھے۔انہوں نے سوچا کہ مجھ ناچیز سیاہ فام حبشی کے ذمہ یہ خدمت سپرد کی گئی ہے کہ میں مسلمانوں کو نمازکی سعادت کیلئے بلایاکروں۔یہ میرے لئے کتنی بڑی سعادت ہے۔پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔۔۔’’بلالؓ تمہاری آواز سب سے اچھی ہے ۔اسے اللہ کی راہ میں استعمال کرو۔‘‘حضرت زیدؓ جو حضرت بلالؓ کے پا س بیٹھے تھے ۔حضرت بلالؓ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’کاش میرے پاس اسلام کودینے کے لئے کوئی ایسا تحفہ ہوتا۔‘‘انہی باتوں میں نماز کا وقت ہوگیا تو اللہ کے رسول حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا اور ایک چھت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:

’’جاؤ چھت پر جاکر لوگوں کو نماز کے لئے بلاؤ۔‘‘

جس چھت کی طر ف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اشارہ فرمایا وہ مسجد سے ملحق بنونجار کی ایک خاتون کے گھر کی کچی چھت تھی۔ حضرت بلالؓ حسبِ حکم اس چھت پر چڑھ گئے اورا پنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر بلند آواز میں اذان دی ۔
پوری دنیا میں ہر روز پانچ دفعہ اذان کے الفاظ فضا میں گونجتے ہیں۔ مختلف ممالک میں طلوع و غروب کے اوقا ت کے فرق کی وجہ سے کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے جب دنیا کے کسی نہ کسی حصے سے اذان کی آواز بلندنہ ہورہی ہو۔حضرت بلالؓ اذان دے کر نیچے اترے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں اپنے پاس بٹھالیا۔سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ بہت دیرتک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کچھ نہیں فرمایا۔ حضرت بلال ؓ بھی خوشی سے سرشار تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’بلالؓ ،تم نے میری مسجد مکمل کردی۔‘‘ 

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان