Topics

نیا معاشرہ

ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیلاب اُمنڈ آیا اور آخرکار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلے میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو گئی۔ ان نوواردوں کی آبادکاری (Rehabilitation) کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیا تھا۔ آج سے چودہ سو سال پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نوآباد کاری (Colonization) اور شہری منصوبہ بندی (Town Planning)میں عظیم انقلاب برپا کردیا تھا۔ مختلف نسلوں، طبقوں، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آکر جمع ہورہے تھے۔ ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس ابھرے ، نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیدا ہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہروی کے رجحانات جنم لیں۔ جیسا کہ عام طور پر ایسے حالات میں ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کاایسا زندۂ جاوید کارنامہ ہے جو ماہرین عمرانیات کیلئے خاص توجہ اور مطالعہ کا مستحق ہے۔ 

مدینہ منو رہ میں دس سال کے عر صہ میں ایک بہترین فلا حی مملکت کا قیام عمل میں آگیا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انصار اور مہاجرین کے درمیان رشتۂ اخوت قائم کیا۔ رہائش اور روزگار جیسے مسائل کو فہم و فراست سے حل کیا ۔ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور صحت و صفائی پر خصوصی توجہ فرمائی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مدینے میں ایک ایسا نظام بنادیا جس سے مسلمانوں کو شہری سہولتیں حاصل ہوگئیں ۔ 

بھائی چارہ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مہاجرین کی رہائش کے متعلق شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ بنایا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مدینہ کو معاشی طورپر مستحکم کرنے کے لئے ایک انصاری مسلمان اور ایک مہا جر مسلمان میں رشتۂ اخوت قائم کیا اور فرمایا ’’تم بھائی بھائی ہو ۔‘‘ انصار کا ہر خاندان مہاجر کے ایک خاندان کو اپنے خاندان میں شامل کرلے، اس کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوجائے۔ 
بھائی چارے کا یہ فیصلہ اسلام میں اخوت کا سب سے بڑا عملی مظاہرہ تھا۔ اس بھائی چارے کا مقصد یہ تھا کہ جہالت کے زمانے کے رسم ورواج ختم ہوجائیں ۔عزت وغیرت جو کچھ ہو اسلام کیلئے ہو۔نسل،رنگ اور وطن کے امتیاز مٹ جائیں۔بلندی اور پستی کا معیار انسانیت و تقویٰ کے علاوہ کچھ نہ ہو۔انصار بھائی مہاجرین کو اپنے اپنے گھروں میں لے گئے۔ انصارنے اپنے گھر، جائیداد اور آمدنی کا نصف حصہ مہا جرین کوپیش کردیا دوسری طرف مہا جرین نے بھی اپنے لئے ذرائع معاش تلا ش کرلیے۔ یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا ۔ مہاجر مسلمان جب خود کفیل ہوگئے تو انہوں نے اپنے انصاری بھائیوں کی املاک شکریہ کے ساتھ واپس کردیں ۔

گلیاںStreets) )

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پیشتر مدینہ میں ناجائز تجاوزات عام تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے سختی سے منع کردیا ۔ گلی کی کم سے کم چوڑائی سات ہاتھ مقرر کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دیگر صحابہؓ کے مکانات مختصر تھے مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کشادہ مکانات کو پسند کیا اور فرمایا کہ 

’’خوش بخت ہے وہ شخص جس کی جائے رہائش وسیع اور پڑوسی نیک ہو۔‘‘ 

(امام بخاری، ادب المفرد۔22)

گلیوں میں روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ عرب چراغ کے استعمال سے واقف نہیں تھے حتی کہ ایک مدت تک گھروں میں چراغ نہیں جلتے تھے۔ بعد ازاں مسجدوں میں رات کے وقت روشنی کا معقول انتظام کردیا گیا۔ 

 

آب رسانی

مدینہ منورہ میں میٹھا پانی وافر مقدار میں نہیں تھا ۔ مہاجرین جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تو پانی کی کمی کا مسئلہ سامنے آیا۔ مدینہ میں چند گز کھدائی پر پانی نکل آتا تھا لیکن یہ پانی کھارا تھا۔ میٹھے پانی کے کنویں اور چشمے بہت کم تھے۔ خصو صاً مدینے کے لوگ کنواں ’’بیرروم‘‘ کا پانی استعمال کرتے تھے۔اس کا مالک ایک یہودی تھا جو پانی فروخت کرتا تھا۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش تھی کہ یہ کنواں لوگوں کے عام استعمال کیلئے وقف ہو جائے۔ چنانچہ حضرت عثمان غنی ؓ نے بڑی رقم دے کر کنواں خرید لیا۔ اس طرح اہل مدینہ کو سہولت کے ساتھ پانی ملنے لگا۔ اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سرکاری طور پر بھی کئی کنویں کھدواکر عوام کیلئے وقف کردیئے۔ 

باغات 

مدینہ باغوں کی سر زمین کہلاتا تھا۔ یہاں کے لوگ باغات کے بہت شوقین تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہر اور مسجد کی تعمیر کے وقت یہ کوشش کی کہ وہاں درختوں کو کم سے کم کاٹا جائے اور شہر میں زیادہ سے زیادہ درخت ہوں۔

حمام 

عربوں میں صفائی اور طہارت کا کوئی تصور نہ تھا۔ حتیٰ کہ یہودی جو اعلیٰ تہذیب و تمدن کے علمبردار اور دعویٰ دار تھے، بیت الخلا کے تصور سے ناآشنا تھے۔ بیت الخلا اور حمام ترقی یافتہ معاشرت اور شہری زندگی کا ضروری جزو ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عرب کے بادیہ نشینوں اور یہود و نصاریٰ جیسے مہذب لوگوں کو اسلوبِ زندگی بتاتے ہوئے بیت الخلا اور حمام کو رواج دیا اور اس ضمن میں ایسے آداب سکھائے جو عربوں کی حد تک ہی نہیں پوری نوع انسانی کے تہذیبی ارتقا کی سمت میں اہم قدم تھا۔ 

دراصل اسلام جسم و جان کی صفائی اور ظاہر و باطن کی پاکیزگی پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ وضو، طہارت، غسل کے احکامات اسی سلسلے کی کڑیاں اور تکمیلی مراحل ہیں۔ مسجدیں بنا کر وہاں طہارت خانے تعمیر کرنے کی ہدایت جاری کی۔ اسلام کے عمومی مزاج اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فرمان کے بعد گھر گھر غسل خانے بن گئے۔ ہر مسجد کے ساتھ طہارت خانے تعمیر کئے گئے۔ اس طرح گھر ، محلے، سڑکیں اور شاہراہیں صفائی ستھرائی کا مرقع بن گئیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چلتے پھرتے تھوکنے کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔ 



Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان