Topics

مذہبی رواداری

مذہب۔۔۔ اپنے پیروکاروں میں یقین پیدا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں۔مذہب ۔۔۔ تما م احساسات ،خیالات ،تصورات اور زندگی کے اعمال و حرکات کو ایک قائم بالذات اور مستقل ہستی سے وابستہ کردیتا ہے ۔

رواداری۔۔۔ کے لغوی معنی رعایت،حلم،منظور کرنااور ماننا ہیں۔مذہبی رواداری کا مفہوم یہ ہے کہ ’’تمام مذاہب کے پیروکاروں میں باہمی احترام و محبت اور رواداری کا جذبہ ہواور ہر فرددوسرے مذہب اور عقائد کا احترام کرے بلا تفریق مذہب، رنگ ونسل اور ذات برادری ایک دوسرے کی عزت وجان کااحترام کریں۔‘‘

میثاق مدینہ اور رواداری

پوری انسانی تاریخ میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام رواداری کے سب سے بڑے علم بردار ہیں۔ہجرت کے بعد مد ینہ میں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہو دکے سا تھ تا ر یخ سا ز معا ہدہ ’’میثا ق مدینہ‘‘ کیا جو غیر مسلم ر عا یا کے سا تھ پیغمبر اسلام حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کا پہلا معا ہدہ ہے ۔ یہ معا ہدہ مذہبی روا داری اور فراخ دلی کی ایک ایسی مثا ل ہے جس پر دنیا فخر کر تی ہے ۔’’میثا ق مدینہ ‘‘ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیا سی بصیر ت اور حسن تدبر کا مثا لی اور تا ریخی شا ہکا ر ہے ۔ جس سے اسلامی سو سا ئٹی کے مقا صد، مثالی مذہبی رواداری، قیا م امن او ر انسانی اقدار کے تحفظ میں بھر پور مدد ملی۔ ایک عظیم الشا ن ریا ست کی بنیاداور تنظیم و تدبیر حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کا وہ کا رنامہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔

اس تا ریخی معاہد ہ کی بدو لت غیر مسلمین اور مختلف مذاہب کے افراد و اقوام کے حقوق و فرائض اور مذہبی رواداری کا اصول و اضح ہو ا ، چنا نچہ یہو د مدینہ اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کو مذ ہبی رواداری پر مبنی اس تار یخی صحیفہ کی بد ولت مندرجہ ذیل حقوق و مر اعا ت حا صل ہو ئیں ۔

۱۔ اللہ تعالیٰ کی حفا ظت و ضما نت ہر فر یق کو حا صل ہے ۔

۲۔ مدینے کے غیر مسلم افراد کو بھی مسلما نو ں کی طر ح سیا سی اور مذہبی حقوق حا صل ہیں ۔ مدینے کے ہر گر وہ کو مکمل مذہبی آزادی اور اندرو نی خو د مختا ری حا صل ہے۔ 

۳۔ اسلام کے د شمنو ں سے مسلم اور غیر مسلم دو نو ں مل کر جنگ کریں گے اور مشترکہ طور پر جنگ کے اخر اجا ت بر داشت کر یں گے ۔

۴۔ مسلم اور غیر مسلم دونوں ایک دوسرے کے خیر خواہ ہیں ۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمسائے میں یہودی رہتے تھے اگر ان کے یہاں کوئی بچہ بیمار ہوجاتا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام عیادت کے لئے اس کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ 

بنوعریض نامی ایک یہودی قبیلہ مدینہ میں رہتا تھا اس کی کسی بات سے خوش ہو کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے لئے کچھ سالانہ وظیفہ مقرر فرمادیا۔غیر مسلم کا جنازہ بھی شہر کی گلیوں سے گزرتا اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں موجود ہوتے تو جنازہ دیکھ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کھڑے ہوجاتے تھے ۔

    انسا نیت کے تا جد ار اور حقو ق انسا نی کے علمبر دار حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت طیبہ میں مذہبی رواداری کے ثمرات کی شا ہد عہد نبو یؐ کی وہ جنگیں ہیں جو مشر کین مکہ ،یہو داورنصاریٰ کے سا تھ ہوئیں۔ مذہبی رواداری کا عنصر ان فتو حا ت و عسکر ی محا ذوں پر ہمیشہ غا لب رہا ۔عہد نبو یؐ کی جنگیں انسانی تاریخ میں غیر معمولی طور سے ممتا ز ہیں اس لیے کہ اکثر دو گنی اور بعض اوقات دس گنا طا قت سے مقا بلہ ہو ا اورفتح حا صل ہوئی ۔ عہد نبو یؐ کی مملکت ابتدا میں ایک مختصر مملکت تھی جوشہر کے ایک حصہ میں قا ئم کی گئی تھی۔۔۔ لیکن اس کی تو سیع بڑی تیزی سے ہوئی۔ اس تو سیع کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ صرف دس سال بعد جب حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کا وصال ہوا اس وقت مد ینہ ایک شہری مملکت نہیں بلکہ ایک وسیع مملکت کا دارالسلطنت تھا، تا ریخی شو اہد کی رو سے دس سا ل تک روزانہ تقر یباً۸۲۲ مر بع کلو میڑکا علاقہ اسلامی ریاست میں شامل ہوتا رہا۔

مکتوبات اور رواداری

۷ھ ؁ میں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایران،روم، مصر اور حبش کے دیگر حکمر انو اں کے نا م جو تبلیغی خطوط لکھے اس میں قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت لکھی گئی تھی :

’’ آپ کہہ دیں !اے الہا می کتا ب کے ما ننے وا لو ! آؤ ایک ایسی با ت کی طرف جو ہم میں او ر تم میں مشتر ک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پو جیں اور اس کا کسی کو شر یک نہ ٹھہرا ئیں اور ہم اللہ کو چھو ڑکر اپنے ہی میں سے کسی کو رب نہ بنالیں ۔ اگر یہ لوگ منہ مو ڑیں تو کہہ دو کہ گو اہ رہو ہم تو اس پر سر تسلیم خم کر چکے ۔‘‘ (سورۃآلِ عمران ۔آیت64)

حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے اس نفسیا تی حقیقت کا اپنے طر زِ عمل میں ہمیشہ خیال رکھا کہ کسی غیر مسلم کو برا کہنے سے اس میں ضد پیدا ہو جا تی ہے اس لیے اس سے گریز کیا اور وہ طرز عمل اپنایا جس سے اس کی اصلا ح ہو سکے اور وہ سنجید گی سے غور کر نے لگے۔

’’یہ لوگ اللہ کے سوا جن لوگوں کو پکارتے ہیں انھیں برا نہ کہو ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو برا کہنے لگیں۔ ہم نے تو اسی طرح ہر گروہ کیلئے اس کے عمل کو خوش نما بنادیا ہے پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹ کر آنا ہے ۔‘‘

(سورۃ انعام ۔آیت 108)

صلح ، روا دا ری اور انتہائی و سعت قلبی کی اس تعلیم میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ یہودی ٗ عیسائی اور صا بی اور دیگر مذاہب کے لو گ اپنے اپنے مذاہب کو تر ک کر یں بلکہ اپنے اپنے الہا می مذہب ہی کی تجد ید کرتے ہو ئے چند بنیادی امو ر پر عمل کریں یعنی اللہ تعالیٰ اورحضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو ما ننا ٗ مر نے کے بعد حساب کتا ب کا یقین کر نا اور ز ند گی بھر عمل صا لح کر نا۔حقیقت میں یہ ایک طر ح سے ایک بنیا دی مذ ہب مرتب کر نا تھا۔ 

’’آپ کہہ دیجیئے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ ہم پر اتار گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اور یعقوب ؑ اور ان کی او لاد پر اتا ر اگیا اور جو کچھ مو سیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اور دوسر ے انبیا کو اللہ کی طرف سے دیاگیا ، ان سب پر ایمان لائے ۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فر مانبردار ہیں ۔ جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے ، اس کا دین قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔‘‘( سورۃ آل عمران ۔آیت83تا85)

تمام انبیا پر نازل کر دہ تعلیما ت پر ایمان رکھنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ سب دین اسلام کے داعی ہیں۔

فر امین حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام اوررو اداری 

اسلا م سا رے طبقا ت انسا نی کے لیے ر حمت بن کر آیاہے ، اس نے غیر مسلم رعایا کو بھی اس سے محروم نہیں ر کھا اور ان کو اتنے حقو ق دیے جس کی نظیرنہیں ملتی ، حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے زما نہ میں قر یب قر یب پو را جز یر ہ العر ب زیرنگیں ہو چکا تھا۔ غیر مسلم رعایا کی حیثیت سے سب سے پہلا معا ملہ نجر ان کے عیسائیوں کے سا تھ پیش آیا ۔ ان کو حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے جو حقو ق دیے وہ تا ر یخ میں محفوظ ہیں۔

اس معا ہد ہ کی روسے حسب ذیل حقو ق متعین ہو تے ہیں :

۱۔ ان کی جا ن محفو ظ رہے گی ۔

۲۔ ا ن کی زمین ٗ جا ئید اد اور مال و غیر ہ ان کے قبضہ میں رہے گا ۔

۳۔ ان کی کسی مذہبی نظام میں تبدیلی نہیں کی جا ئے گی۔ مذ ہبی عہد ے دار اپنے اپنے عہد ہ پر برقراررہیں گے۔

۴۔ ان کی کسی چیز پر قبضہ نہیں کیا جا ئے گا ۔

۵۔ ان سے فو جی خد مت نہیں لی جا ئے گی ۔

۶۔ اور نہ ہی پیدا وار کا عُشر لیا جا ئے گا ۔

۷۔ ان کے ملک میں فو ج نہیں بھیجی جا ئے گی ۔ 

 ۸۔ اگر ان پر حملہ ہوا تو دفاع کیا جائے گا۔

۹۔ ان کے معا ملا ت و مقدما ت میں پو را انصا ف کیا جا ئے گا ۔

۱۰۔ ان پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہو گا ۔

۱۱۔ سود خو ری کی اجا زت نہیں ہو گی ۔

۱۲۔ کو ئی نا کر دہ گنا ہ کا مجرم بدلہ میں نہیں پکڑا جا ئے گا ۔

۱۳۔ اور نہ کو ئی ظا لما نہ زحمت دی جا ئے گی ۔

اسی زما نہ کے لگ بھگ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے کو ہ سنا ئی کے قر یب وا قع راہب خا نہ سینٹ کتھر ین کے را ہبو ں کو بلکہ سا رے عیسا ئیوں کو ایک سند نا مہ حقوق (Charter) عطا فر ما یا جس کے بارے میں بجا طو ر پر کہا گیا کہ دنیا کی تا ریخ رو شن خیا لی اور رواداری کی جو اعلیٰ تر ین یا د گا ر یں پیش کر سکتی ہے یہ ان میں سے ایک ہے۔یہ د ستا ویز جسے مو ر خین اسلا م نے حرف بحر ف قلم بند کیا ہے۔ و سعت نظری،روا داری اور آزاد خیالی کا حیرت انگیز نمو نہ ہے ۔ اس دستا ویز کی رو سے عیسائیوں کو ایسی استثنا ئی مراعا ت حا صل ہوئیں ۔۔۔ جو انھیں اپنے ہم مذہب حکمرانو ں کے تحت بھی نصیب نہ ہوئی تھیں ۔ 

حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے اعلا ن فرما دیا کہ اس دستاویزمیں جو احکا م د رج ہیں ، اگر کو ئی مسلما ن ان کی خلا ف ورزی کر ے گا یا ان سے ناجائز فا ئد ہ اٹھا ئے گا تو اس کے احکا م کی خلا ف ورزی کرنے والا اس کے دین کی تذلیل کر نے وا لا تصور کیا جا ئے گا ۔ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے عیسا ئیو ں کی حفا ظت، ان کے گر جا ؤ ں اور ان کے پادریوں کے مکا نو ں کی پا سبا نی اور انھیں ہر طر ح کی تکلیف سے بچا نے کی ذمہ داری سب پر عا ئدکی ہے ۔

عیسا ئیو ں سے یہ و عد ہ کیا گیا کہ 

۱۔ ان پر کوئی ناجا ئز ٹیکس نہیں لگا ئے جائیں گے ۔ 

۲۔ ان کا کو ئی پا دری اپنے علا قے سے نکا لا نہیں جا ئے گا ۔

۳۔ کسی عیسا ئی کو اپنا مذہب تر ک کر نے پر مجبور نہیں کیا جا ئے گا۔

۴۔ کسی راہب کو اس کے راہب خا نے سے خا رج نہیں کیا جا ئے گا ۔

۵۔ کسی زا ئر کو سفر زیات سے نہیں رو کا جا ئے گا ۔ 

۶۔ ان کو اس کی بھی ضما نت دی گئی کہ مسجد یں یا مسلما نوں کے رہنے کے مکا ن بنا نے کے لیے کو ئی گر جا مسما رنہیں کیا جا ئے گا

۷۔ جن عیسا ئی عورتو ں نے مسلما نو ں سے شا دی کر رکھی تھی ان کو یقین دلا یا گیا کہ وہ اپنے مذہب پر قا ئم رہنے کی مجازہو ں گی اور اس با رے میں ان پر کو ئی جبر نہیں کیا جا ئے گا ۔

۸۔ اگر عیسا ئیو ں کو اپنے گر جا ؤ ں یا خا نقاہو ں کی مر مت کے لیے یا اپنے مذہب کے کسی اور امر کے بارے میں امداد کی ضرورت ہو گی تو مسلما ن انہیں امداددیں گے۔

۹۔ اس امداد کو ان کے مذہب میں شر یک ہو نے سے تعبیر نہیں کیا جا ئے گا ۔ بلکہ اسے حا جت مندوں کی حا جت برآ ری اوراللہ تعالیٰ اور حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے ان احکاما ت کی اطا عت سمجھا جا ئے گا جو عیسائیوں کے حق میں صا در کیے گئے ہیں۔

۱۰۔ اگر مسلما ن کسی بیرونی عیسا ئی طا قت سے بر سر جنگ ہو ں گے تو مسلمانوں کی حدود کے اندر رہنے والے کسی عیسا ئی سے اس کے مذہب کی بنا پر حقارت کا بر تاؤ نہیں کیا جا ئے گا ۔ اگر کو ئی مسلمان کسی عیسا ئی سے ایسا بر تا ؤ کر ے گا تو وہ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی نا فر ما نی کا مر تکب تصور ہو گا ۔

فتح مکہ اوررواداری

عہد ر سا لتؐ میں اسلا م اور مسلمانو ں کا سب سے بڑا حریف اور دشمن گر وہ مشر کین مکہ کا تھا ۔ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے رحم و کر م عفوودرگز ر اور مذہبی رواداری کے حوالہ سے فتح مکہ ۱۰ رمضا ن ۸ھ ؁ ایسا تا ریخ سا ز وا قعہ ہے کہ جس کی نظیر مذاہب عا لم کی تا ریخ پیش نہیں کر سکتی ۔

اس مو قعہ پر حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے مشر کین مکہ کو مخا طب کرتے ہو ئے فرما یا !

’’تم پر کو ئی ملا مت نہیں۔۔۔ تم سب آزاد ہو ‘‘

صر ف یہی نہیں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے رواداری اور عا م معا فی کے اس مثا لی اعلا ن کے سا تھ امن کے قیا م اور استحکا م کے لیے مندرجہ ذیل ہدایا ت جا ری فرمائیں۔

۱۔ جوہتھیارپھینک دے........... اسے امان ہے۔

۲۔ جو خا نہ کعبہ کے اندر داخل ہوجائے......... اسے امان ہے ۔

۳۔ جو اپنے گھر میں بیٹھ جا ئے ......... اسے اما ن ہے۔

۴۔ جو ابو سفیا ن کے گھر میں پنا ہ لے......... اسے امان ہے ۔

۵۔ بھا گ جا نے والے کا تعاقب نہ کیا جا ئے ۔

۶۔ اور جو سامنے آئیں ٗیا سا منے نہ آئیں مگر غیر مسلح ہوں اور کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں........ ان سب کے لیے اما ن ہے ۔

خطبہ حجۃ الوداع اور رواداری 

حضرت آدمؑ تمام انسانوں کے باپ ہیں اور پو ری انسانیت بحیثیت مجموعی آپس میں بہن بھا ئی کے ر شتے میں منسلک ہے ۔ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے آخری خطبے میں وا ضح الفاظ میں فر مایا ہے!

اے لوگو ! اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں ۔ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عو رت سے پیدا کیا ہے اور تمہا رے خا ندان اور قبیلے ا س لیے ہیں کہ تم ایک دوسر ے کو پہچان سکو ۔ بلا شبہ اللہ تعا لیٰ کے نزدیک تم میں عزت والا وہ ہے جو سب سے زیا دہ متقی ہے ۔ اس  لیے کسی عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو عربی پر فضیلت نہیں ، اسی طرح کا لے کو گور ے اور گورے کو کالے پر کو ئی فضیلت نہیں ۔

اے لو گو ! آج کا دن اور اس مہینہ کی تم جس طرح حر مت کرتے ہو اس طر ح ایک دوسر ے کا نا حق خون کر نا اور کسی کا مال لینا تم پرحر ام ہے۔ 

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان