Topics

حجۃ الوداع

ہجرت کے بعد دس سال میں پیغمبرِاسلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جزیرۃالعرب میں روزانہ ۸۲۲؍ مربع کلو میٹر پیش قدمی فرمائی ہے۔ اسلام کے آغاز میں مسلمان اتنے تہی دست اور غریب تھے کہ پہلی تین جنگوں میں دو سپاہیوں کے پاس ایک اونٹ تھا۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور ان کے پاس صرف دو گھوڑے تھے۔ لیکن بعد میں مسلمان اتنے طاقتور ہوگئے کہ جنگ حنین میں ان کے پاس ایک ہزار گھوڑے تھے اور جنگ تبوک میں اسلامی لشکر کے پاس دس ہزار گھوڑے تھے۔

۔۔۔پہلی لڑائی میں مسلمانوں کے پاس چند افراد تھے۔ یہ لڑائی نخلہ کے مقام پر ہوئی۔

۔۔۔دوسری لڑائی میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی۔ 

۔۔۔جنگ احد میں سات سو مسلمان تھے۔ 

۔۔۔جنگ تبوک میں مسلمانوں کے پاس تیس ہزار سپاہی تھے۔ 

بعض جنگوں میں مسلمانوں کا نقصان بہت کم ہوا اور بعض میں انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

۹ھ ؁ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بیمار ہوگئے اور مدینے میں قیام پذیر رہے۔ اس سال سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سفیروں اور آنے والے قبائل کے نمائندوں سے ملاقات فرمائی۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پورے جزیرۃالعرب کے مذہبی، سیاسی اور عسکری پیشوا تھے۔

سفرِ حج

تاریخ شاہد ہے کہ ہجرت کے دسویں سال سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام چودہ ہزار مسلمانوں کے ساتھ حج کیلئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ 

اس حج کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ حجۃ الوداع ،حجۃ التمام، حجۃالبلاغہ اور حجۃ الاسلام۔

ہجرت کے دسو یں سال اعلان کیا گیا کہ اس سال حجاج کرام کا جو قافلہ فریضۂ حج اداکرنے کے لئے مکہ جائے گا اس قافلہ کے سالار رحمت اللعالمین، محبوب رب العالمین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود ہوں گے۔جیسے جیسے حج کا مہینہ قریب آرہا تھا، قافلے مدینہ پہنچنے لگے۔ ذی القعد کی پچیس تاریخ تھی، ہفتہ کا دن تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حضرت ابودجانہؓ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا، ازواج مطہرات ؓ کو اس سفر میں ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا۔ 

احرام کی نیت

جب ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے تو سب کو قیام کرنے کا حکم ملا۔ ذوالحلیفہ ایک چشمے کا نام ہے جو مدینہ سے پانچ یا چھ میل کے فاصلے پر ہے۔ ظہر کی نماز سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے احرام کے لئے غسل فرمایا، سر مبارک میں تیل لگایا، کنگھی کی اور خوشبو لگائی، پھر احرام کی باندھا اور دو رکعت نماز ادا کی، پھر تلبیہ فرمائی۔

تلبیہ کے کلمات یہ ہیں:

لبیک اللّٰھم لبیک

حاضر ہوں میں اے اللہ تعالیٰ، حاضر ہوں

لبیک لاشریک لک لبیک

حاضر ہوں میں،آپ کاکوئی شریک نہیں میں آپ کے دربارمیں حاضر ہوں

ان الحمد والنعمۃ

ساری تعریفیں آپ کے لیے اورساری نعمتیں آپ نے عطا فرمائی ہیں

لک والملک لاشریک لک

آپ سارے ملکوں کے بادشاہ ہیں ،آپ کا کوئی شریک نہیں

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ یہ سفر جاری رکھا اور یہ قافلہ اس وقت مکہ مکرمہ کے قریب پہنچا جب سورج غروب ہورہا تھا۔ یہاں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کا نام ذو طویٰ تھا۔ رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس گاؤں میں قیام فرمایا۔ تاکہ رات بھر آرام کرنے سے سفر کی تھکاوٹ دور ہوجائے اور جب اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کے لئے مکہ میں داخل ہوں تو تازہ دم ہو کر آگے بڑھیں۔ فجر کی نماز ذوطویٰ میں ادا کی پھر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر کو طے کرنے کے لئے مسلمانوں نے آٹھ رات دن راستے میں گزاریں ۔ 

طواف

ذوالحج کی چار تاریخ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ اہلِ مکہ بے تابی سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے منتظر تھے۔ اوربنی ہاشم کے معصوم بچے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر نظر پڑی تو سب کے چہرے دمک اُٹھے۔ خصوصاً بچوں کی خوشی اور مسرت تو دیکھنے کے قابل تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی خوشیوں اور مسرتوں کو دو بالا کردیا بچوں کو پیار کیا۔ کسی بچے کو سواری پر اپنے ساتھ بٹھالیا۔ کسی سے ہاتھ ملایا اور دعائیں دیں۔

باب بنی شیبہ کی جانب سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حرم میں تشریف لائے۔ 

جب کعبہ پر نظر پڑی توان الفاظ میں بارگاہ رب العزت میں التجا کی

’’اے اللہ! اپنے گھر کے شرف کو، اس کی عظمت کو، اس کی عزت کو اور زیادہ بڑھا۔‘‘

ایک اور روایت میں یوں مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب کعبہ شریف کی زیارت کرتے توان الفاظ میں التجا کرتے

’’اے اللہ! آپ ہی سلام ہیں۔آپ ہی میں سلامتی ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں سلامتی سے زندہ رکھ۔ اے اللہ! اس گھر کے شرف اور عزت اور تکریم اور رعب میں اضافہ فرما۔‘‘پھر حجر اسود کو بوسہ دیا اور طواف کیا۔ طواف سے فارغ ہونے کے بعد مقام ابراہیم پر تشریف لائے، دو رکعت نفل ادا کی اور یہ آیت تلاوت فرمائی:

’’مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنالو۔‘‘(سورۃ البقرہ۔آیت125) 

طواف سے فارغ ہونے کے بعد صفا و مروہ کی طرف تشریف لے گئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی:

’’بے شک صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ پس جو حج کرے اس گھر کا یا عمرہ کرے تو حرج نہیں اسے کہ چکر لگائے ان دونوں کے درمیان اور جو کوئی خوشی سے نیکی کرے تو اللہ تعالیٰ بڑا قدر دان اور خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘( سورۃ البقرہ۔ آیت 158)

سات چکر پورے کرنے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے احرام نہیں کھولا۔ کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنے ہمراہ قربانی کے جانور لائے تھے۔ آٹھ ذوالحج تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مکہ مکرمہ میں تشریف فرما رہے ۔آٹھ تاریخ کو مکہ سے منیٰ تشریف لے آئے۔ 

میدانِ عرفات 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نماز ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء منیٰ میں ادا کیں اور رات کو وہاں قیام کیا۔

سورج طلوع ہونے کے بعد۹ذوالحج کووہاں سے عرفات تشریف لے گئے۔ مسجد نمرہ کے پاس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ایک خیمہ نصب کیاگیا تھا۔ یہ جگہ میدان عرفات کے مشرقی جانب ہے۔ ۹ ذوالحج سن ۱۰ھ کو جب سورج ڈھل گیا توسیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوارہوکر وادئ نمرہ میں ’’جبل الرحمت‘‘ پر جلوہ افروز ہوئے ۔

خاتم الانبیاء حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری خطبہ

خطبہ حجۃ الوداع اسلام کا اساسی دستور اور بنیادی اصول کی حیثیت کا حامل ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خطبہ حجۃ الوداع وفات سے تقریباً اسّی روز قبل فرمایا:

’’لوگو!میری باتیں غور سے سنو !

کیونکہ شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم لوگوں سے نہ مل سکوں۔

اے لوگو!اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اورقبیلے اس لیے ہیں کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔اسی لئے کسی عربی کو عجمی پر اورکسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، اسی طرح کالے کو گورے پر اورگورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔

اے لوگو!

ایسا نہ ہوکہ قیامت میں تم دنیاکابوجھ سمیٹ کر اپنی گردن پر رکھے ہوئے آؤاور دوسرے لوگ آخرت کا سامان لائیں۔اگر ایسا کیا تو میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔ 

اے لوگو!۔۔۔۔۔۔ آج کا دن اوراس مہینہ کی تم جس طرح حرمت کرتے ہو اس طرح ایک دوسرے کا ناحق خون کرنا اور کسی کا مال لینا تم پر حرام ہے۔ خوب یاد رکھوکہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہ تمہارے سب کا موں کا حساب لیں گے۔

اے لوگو!۔۔۔۔۔۔جس طرح تمہارے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح تم پر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں۔ ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا۔ 

یاد رکھو!

اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ وہ عورتیں تم پر حلال ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان پر تم نے تصرف کیاہے ۔ پس ان کے حقوق کی رعایت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔ 

غلاموں سے اچھا برتاؤ کرنا۔ جیسا تم کھاتے ہو ویسا ان کو کھلانا۔ جیسے تم کپڑے پہنتے ہو ویسے ہی ان کو کپڑے پہنانا۔ اگر ان سے کوئی خطا ہوجائے اور تم معاف نہ کرسکو تو ان کو جداکردینا کیونکہ وہ بھی اللہ کے بندے ہیں۔ ان کے سا تھ سخت برتاؤ نہیں کرنا ۔

لوگو!میری بات غور سے سنو !

خوب سمجھو اور آگاہ ہوجاؤ!

جتنے کلمہ گو ہیں سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ سب مسلمان اخوت کے سلسلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ تمہارے بھائی کی چیز تم پر اس وقت تک جائز نہیں جب تک وہ تمہیں خوشی سے نہ دے ۔

خبر دار !۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمانۂ جہالت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے کچل دی گئی ہیں۔ زمانہ جہالت کے تمام خون معاف ہیں۔

خبر دار !۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناانصافی کو پاس نہ آنے دینا ۔ میں نے تمھارے لئے ایک ایسی چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اس کو مضبوط پکڑے رہو گے اور اس پر عمل کروگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ وہ چیز اللہ کی کتاب ہے۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی نئی امت نہیں ۔

خبر دار !۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کی عبادت کرتے رہو، صلوٰۃ قائم کرو۔ ماہِ رمضان کے روزے رکھو۔ اپنے اموال کی خوش دلی سے زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔ اپنے رب کے گھر (بیت اللہ) کا طواف کرو۔

مذہب میں غلو اور مبالغے سے بچو ،کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی عمل سے برباد ہوچکی ہیں۔

خبر دار !۔۔۔۔۔۔ میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا۔ 
اگر کوئی حبشی غلام تمہارا امیرہو اور وہ تمہیں اللہ کی کتاب کے مطابق چلائے تو اس کی اطاعت کرو۔

اے لوگو!

عمل میں اخلاص، مسلمانوں کی خیر خواہی اور جماعت میں اتفاق کی یہ باتیں سینے کو صاف رکھتی ہیں ۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ۹؍ ذوالحج کو زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک اپنی امت کے لئے اوربنی نوع انسان کے لئے اپنے رحیم و کریم رب کی بارگاہ میں انتہائی عجزو نیاز سے دعا فرماتے رہے ۔یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، تاریکی پھیل گئی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مزدلفہ کی طرف تشریف لے گئے۔ حضرت اسامہؓ بن زید کو اپنی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار کیا۔

جب صبح صادق طلوع ہوئی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نماز ادا کی۔ 

پھرحضرت فضلؓ بن عباس کو اپنے پیچھے اونٹنی پر سوار کیا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بطن محسرسے گزرے تو انہوں نے اونٹنی کی رفتار تیز کردی۔

’’یہ وہ وادی ہے جہاں ابرھہ کے ہاتھیوں کے لشکر پر اللہ تعالیٰ نے ابابیل کا لشکر بھیج کر تباہ و برباد کیا تھا۔ ‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام منیٰ پہنچے۔ سب سے پہلے جمرۃ عقبہ تشریف لے گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اونٹنی پر بیٹھے ہوئے کنکریاں ماریں۔ 
پھر وہاں سے واپس منیٰ تشریف لے گئے اور حاضرین کو اپنے دوسرے خطبے سے مشرف فرمایا ۔ سرورِ عالم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور اس کے بعد یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

’’جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، سا ل کو بارہ مہینوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں(ذی القعد،ذوالحج، محرم اور رجب) ان مہینوں میں جنگ و جدال جائز نہیں۔

اے لوگو!۔۔۔۔۔۔ آج کا دن اوراس مہینہ کی تم جس طرح حرمت کرتے ہو اس طرح ایک دوسرے کا ناحق خون کرنا اور کسی کا مال لینا تم پر حرام ہے۔ خوب یاد رکھوکہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے۔اور وہ تمہارے سب کا موں کا حساب لیں گے۔

خبر دار !۔۔۔۔۔۔ میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا۔ 
خبر دار !۔۔۔۔۔۔ جو حاضر ہیں وہ یہ کلام ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں نہیں ہیں خواہ وہ اس وقت موجود ہیں یا آئندہ پیدا ہونگے کیونکہ بہت سے وہ لوگ جن کو میرا یہ پیغام پہنچے گاسنانے والوں سے زیادہ اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘

’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میری بات کو سنا اور دوسروں تک پہنچایا۔‘‘

اے لوگو!۔۔۔۔۔۔ تم سے میرے متعلق سوال کیا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟‘‘

لوگوں نے عرض کیا :

’’ہم گواہی دیں گے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہمیں پہنچادیا ہے اور اپنا فرض پورا کردیاہے۔‘‘

تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا۔

’’یا اللہ تو گواہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

اس کے ساتھ ہی دین مکمل ہوگیا اور جبریل امین یہ مژدہ جانفزا لے کر نازل ہوئے ۔ 

’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کرلیا ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ۔ آیت 3)

فریضۂ نحر

خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام منیٰ کے اس مقام پر پہنچے جہاں جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام قربانی کیلئے سو اونٹ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ ان میں سے تریسٹھ اونٹ سرکار دوعالم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دستِ مبارک سے ذبح کیے۔ بقیہ سینتیس اونٹ حضرت علی مرتضیٰؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم کی تعمیل میں ذبح کیے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حکم دیا کہ اونٹوں کا گوشت، کھال اور سامان غریبوں میں تقسیم کردیا جائے اور حکم دیا کہ قربانی کا گوشت اجرت میں نہ دیا جائے۔ 

حلق 
قربانی سے فارغ ہوکرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے سرِ انور سے بال اُتروائے بال اتارنے کی سعادت حضرت معمر بن عبدؓاللہ کو حاصل ہوئی۔ 
حلق کے بعدحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ناخن کٹوائے اور خوشبو لگائی، پھر دعا فرمائی۔ 

طوافِ اضافہ

ظہر سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خا نۂ کعبہ تشریف لے گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طواف اضافہ کیا۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آبِ زم زم نوش فرمایا۔ 

طواف اضافہ سے فارغ ہونے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام منیٰ تشریف لے آئے اور وہاں نماز ظہر ادا کی۔ 

مقام عقبہ 

گیارہ ذوالحج کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اونٹنی پر سوار ہوکر عقبہ تشریف لے گئے۔ اس وقت رحمت اللعالمین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔

طواف الوداع

خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد رحمت عالم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی قیام گاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ ظہر اور عصر کی نماز ابطح میں ادا کیں۔ کچھ دیر آرام فرمانے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام بیدار ہوئے اور مکہ مکرمہ جاکر سحری کے وقت طواف الوداع کیا۔ اس طواف میں رمل نہیں تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمراہ جتنے صحابہ کرامؓ تھے ان سب نے نماز فجر سے پہلے طواف الوداع کیا۔ واپسی کے وقت حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے۔ ان کی حوصلہ افزائی کی اور مدینہ طیبہ روانہ ہوگئے۔ 
جب ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے وہاں رات بسر کی۔ فجر کی نماز وادی کے نشیب میں ادا کی۔ نماز کے بعد پھر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب مدینہ نظر آیا تو تین بار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تکبیر کہی اور فرمایا :

’’کوئی عبادت کے لائق نہیں بجز اللہ کے جو یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ساری بادشاہی اس کی ہے، سب تعریفیں اس کے لئے ہیں اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ ہم مڑ کر آنے والے ہیں، ہم لوٹ کر آنے والے ہیں، ہم عبادت کرنے والے ہیں، ہم سجدے کرنے والے ہیں، ہم اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو سچا کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور کفار کے لشکروں کو اکیلے شکست دی۔‘‘

یا اللہ! رفیق اعلیٰ سے ملادے

پورے ۲۳ برس کے وحی و نبوت کے بعد دین الٰہی مکمل ہوگیااور تمام پاک مسرتوں کا راستہ کھل گیا ایسی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس فانی دنیا سے تشریف لے جانے والے ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رمضان ۱۰ھ میں بیس دن اعتکاف فرمایا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اس سال دو مرتبہ قرآن کریم کا دور کرایا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا:

’’شاید میں اس سال کے بعدا س مقام پر تم لوگوں سے نہیں مل سکوں۔۔۔؟‘‘

جمرۃ عقبہ کے پاس فرمایا:

’’ مجھ سے تم اپنے اعمال سیکھ لو کیونکہ میں اس سال کے بعد غالباًحج نہیں کراسکوں گا۔‘‘

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان