Topics

حضرت ادریس علیہ السلام


یونانی زبان میں ہرنیس،عبرانی میں حنوک اور قرآن کریم میں ادریس ؑ نام ہے۔حضرت ادریس ؑ حضرت آدم ؑ کی چھٹی پشت میں حضرت نوح ؑ کے پردادا ہیں۔ آپؑ نے تمدن اور معاشرت کے قوانین وضع کئے ہیں۔ بابل انسانی آبادی اور تہذیب و تمدن کا سب سے پہلا شہر ہے۔ اب کوفہ کے نام سے مشہور ہے۔یہی شہر آپ ؑ کی جائے پیدائش ہے۔حضرت ادریس ؑ گندمی رنگ، مناسب قد، خوبصورت چہرہ، چوڑا اور بھرا ہوا سینہ، مضبوط بازو، سرمئی آنکھیں، ستواں ناک، باوقار گردن، شیریں مقال، سنجیدہ اور متین شخصیت تھے، چلتے ہوئے نظریں نیچی رکھتے تھے۔ تفکر آپ ؑ کا شعار تھا، علم و حلم میں ممتاز تھے۔ حضرت ادریس ؑ نے ابتدائی تعلیم اپنے جدّ امجد حضرت شیثؑ سے حاصل کی، حضرت ادریس ؑ کے اوپر ایک صحیفہ بھی نازل ہوا جس کا حبشی زبان میں ترجمہ آج بھی موجود ہے۔

’’اور اسمٰعیل ؑ ، ادریس ؑ اور ذوالکفل ؑ یہ سب صبر کرنے والے ہیں اور لے لیا ہم نے ان کو اپنی رحمت میں اور وہ نیک بختوں میں ہیں۔‘‘(سورۃ الانبیاء۔آیت85تا86)

حضرت ادریس ؑ سے پہلے بنی آدم ؑ میں جب فساد کی ابتدا ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے فرستادہ فرشتے نے حضرت ادریس ؑ کو پکارا:
’’
اے حنوک! اٹھو گوشہ تنہائی سے نکلو اور زمین پر چل پھر کر لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف بلاؤ، زندہ رہنے کا صحیح راستہ بتاؤ اور وہ طریقے بتاؤ جن پر انہیں عمل کرنا چاہیئے‘‘۔

حضرت ادریس ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوگوں کو جمع کرکے وعظ و تلقین اور ہدایت و تبلیغ کا کام شروع کردیا، مختصر سی جماعت کے علاوہ پوری قوم آپؑ کی مخالف ہوگئی۔مفسدین اور منکرین کی ریشہ دوانیاں جب حد سے بڑھ گئیں تو آپؑ نے اپنے حامیوں کے ساتھ مصر کی طرف ہجرت کی۔ دریائے نیل کے کنارے ایک سرسبز و شاداب خطہ دیکھ کر حضرت ادریس ؑ نے اپنی جماعت سے فرمایا:
’’
یہ مقام تمہارے بابل کی طرح سر سبز و شاداب ہے‘‘۔

حضرت ادریس ؑ نے اس جگہ کو ’’بابلیون‘‘ کا نام دیا اور ایک بہترین جگہ منتخب کرکے نیل کے کنارے آباد ہوگئے۔ حضرت ادریس ؑ کی زبان سے نکلے ہوئے لفظ ’’بابلیون‘‘ نے ایسی شہرت پائی کہ عرب کے علاوہ دوسرے قدیم اقوام کے لوگ بھی اس سرزمین کو بابلیون پکارتے رہے۔

ٹاؤن پلاننگ

حضرت ادریس ؑ کئی زبانیں جانتے تھے، حضرت ادریس ؑ نے دین الٰہی کے پیغام کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے اور بود و باش کے متمدن طریقے بھی بتائے اور اس کے لئے انہوں نے مختلف طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو رہن سہن کے طریقے سکھائے۔ حضرت ادریس ؑ کے شاگردوں نے زمین پر شہر اور بستیاں آباد کیں، ٹاؤن پلاننگ کے اصولوں پر بنائے گئے ان شہروں کی تعداد کم و بیش دو سو تھی، جن میں سب سے چھوٹا شہر ’’رہا‘‘ تھا۔ حضرت ادریس ؑ نے اپنے شاگردوں کو دوسرے علوم کی تعلیم بھی دی۔علم نجوم، علم ریاضی، فن کتابت، ٹیلرنگ، ناپ تول کے اوزان، اسلحہ سازی اور قلم حضرت ادریس ؑ کی ایجاد ہے۔ شہروں میں سڑکوں کا جال بچھایا، کاروبار کے لئے مارکیٹیں بنوائیں، کھیل کود کے میدان (Play ground) بنوائے، مکانات اور دوسری عمارتوں کو نقشے کے مطابق بنانے کی پلاننگ کی۔

ناپ تول کا نظام

حضرت ادریس ؑ سے پہلے میزان اور ناپ تول کا نظام نہیں تھا۔ آپ ؑ نے خریدار کو اس کا صحیح حق ملنے کے لئے ناپ تول کا نظام قائم کیا۔ علوم کو محفوظ کرنے، صنعت و حرفت اور ایجادات سے نوع انسانی کو آگاہ رکھنے کے لئے نیز مستقبل میں ان کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے حضرت ادریس ؑ نے ایسے ’’نقاش خانے‘‘ تعمیر کروائے جن میں صنعت و حرفت اور اپنے زمانے کی ایجادات کی تصاویر بنوائی تھیں اور ان تصویروں سے ایجادات کی تشریح کی گئی تھی تاکہ امتدادِ زمانہ اور انقلاب زمانہ کے بعد بھی نسل انسانی فائدہ اٹھاسکے۔طوفان نوح ؑ کی خبر بھی سب سے پہلے حضرت ادریس ؑ نے دی تھی، حضرت ادریس ؑ نے جو قواعد و ضوابط اور قوانین وضع کئے وہ اس زمانے کے تمام طبقہ ہائے فکر کے لئے قابل قبول تھے، کرہ ارض پر موجود آبادی کو انتظام و انصرام کی غرض سے چار حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کے لئے ایک گورنر مقرر فرمایا اور اس جغرافیائی تقسیم پر عمل درآمد کے لئے قوانین وضع کئے۔ حضرت ادریس ؑ علم منطق کے بھی موجد تھے، علم نجوم کے خواص اوراصطلاحیں حضرت ادریس ؑ نے وضع کیں۔

حضرت ادریس ؑ نے جو شریعت پیش کی اس کا خلاصہ یہ ہے :

۱۔ پرستش کے لائق ہستی وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔

۲۔ نیک اعمال سکون آشنا زندگی سے ہمکنار کرتے ہیں۔

۳۔ مادی دنیا اور اس سے تعلق رکھنے والی ہر شئے عارضی اور فنا ہونے والی ہے۔

۴۔ عدل و انصاف اور قانون کی پاسداری سے معاشرہ سے منفی طرزیں ختم ہوجاتی ہیں۔

۵۔ غور و فکر اور شرعی احکامات پر عمل کرنے سے بہترین نتائج مرتب ہوتے ہیں۔

۶۔ حرام مال سے دل زنگ آلود ہوجاتے ہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیئے۔

۷۔ طہارت و پاکیزگی کا اہتمام ایمان کا حصہ ہے۔

۸۔ ایام بیض (ہر قمری ماہ کی ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ تاریخ) کے روزے رکھنا اور زکوٰۃ دینا باطنی پاکیزگی اور مال و دولت کی محبت سے نجات کے لئے بہترین عمل ہے۔

۹۔حضرت ادریس ؑ نے اپنی امت کے لئے سال میں چند دن عید کیلئے مقرر فرمائے اور مخصوص اوقات میں نذر اور قربانی دینا فرض قرار دیا۔

انبیاء کی خصوصیات

حضرت ادریس ؑ نے اپنی امت کو یہ بھی بتایا کہ میری طرح اس عالم کی دینی اور دنیاوی اصلاح کے لئے بہت سے انبیاء تشریف لائیں گے ان انبیاء کی خصوصیات یہ ہوں گی:

۱۔ وہ ہر برائی سے پاک ہوں گے۔

۲۔ فضائل میں کامل ہوں گے اور ستائش کے قابل ہوں گے۔

۳۔ زمین و آسمان کے احوال سے واقف ہوں گے۔

۴۔ امراض کے لئے شفا بخش دواؤں سے واقف ہوں گے۔

۵۔ کوئی سائل ان کے پاس جاکر تشنہ نہیں رہے گا۔

۶۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں قبول فرمائیں گے، ان کی دعوت اصلاح کے لئے ہوگی۔

تین طبقات

حضرت ادریس ؑ نے نوع انسانی کو تین طبقات میں تقسیم کیا۔

۱۔ علما ۲۔ بادشاہ ۳۔ رعایا

حسب ترتیب ان کے مراتب مقرر فرمائے۔

علما کو پہلا اور بلند درجہ دیا گیا، اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے نفس کے علاوہ بادشاہ اور رعایا کے معاملات میں بھی جواب دہ ہیں۔ بادشاہ کو دوسرے درجے پر رکھا گیا کہ وہ صرف اپنے نفس اور امور مملکت کا جواب دہ ہے۔ رعایا چونکہ صرف اپنے نفس کے لئے جواب دہ ہے اس لئے وہ تیسرے طبقے میں شامل کی گئی۔ لیکن یہ طبقات نسل و خاندانی امتیازات کے لحاظ سے نہیں تھے۔
انجیل نیا عہد نامہ میں حضرت ادریس ؑ کی ایک پیشین گوئی درج ہے جس میں صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے لوگوں کی کردار کشی کرتے ہوے ان کی بیخ کنی اور انہیں راہ راست پر لانے کے لئے ایک رہبر اور نجات دہندہ کی خبر دی گئی ہے۔ پیشین گوئی جس ہستی کے لئے کی گئی وہ رحمت اللعالمین سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس ہے۔

’’ان پر افسوس! کہ یہ خائن کی راہ پر چلے اور مزدوری کیلئے حرص سے گمراہی اختیار کی اور مخالفت کرکے ہلاک ہوئے یہ تمہاری محبتوں کی ضیافتوں میں تمہارے ساتھ کھاتے پیتے وقت گویا دریا کی پوشیدہ چٹانیں ہیں، یہ بے دھڑک پیٹ بھرنے والے چرواہے ہیں، یہ بے پانی کے بادل ہیں جنہیں ہوائیں اڑا کر لے جاتی ہیں، یہ پتھر کے بے پھل درخت ہیں جو دونوں طرح سے مردہ اور جڑ سے اکھڑے ہوئے ہیں۔ یہ سمندر کی پرجوش موجیں ہیں جو اپنی بے شرمی کے جھاگ اچھالتی ہیں۔ یہ وہ آوارہ گرد ستارے ہیں جن کے لئے ابد تک بے حد تاریکی ہے۔‘‘(انجیل نیا عہد نامہ)

’’دیکھو! خداوند اپنے لاکھوں مقدسوں کے ساتھ آیا تاکہ سب آدمیوں کا انصاف کرے اور سب بے دینوں کو ان کی بے دینی اور ان سب کاموں کے سبب جو انہوں نے بے دینی سے کئے ہیں، ان سب سخت باتوں کے سبب جو بے دین گنہگاروں نے اس کی مخالفت میں کہی ہیں قصور وار ٹھہرائے‘‘۔

(انجیل یہودہ۔ ۱۴، ۱۱)

’’اور ذکر کر کتاب میں ادریس ؑ کا وہ تھا سچا نبی اور ہم نے اٹھا لیا اس کو ایک اونچے مکان پر۔‘‘(سورۃ مریم۔آیت56تا57)
بائبل میں ہے:

’’اور حنوک کی کل عمر تین سو پینسٹھ برس365 کی ہوئی اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور غائب ہوگیا کیونکہ خدا نے اسے اٹھالیا۔‘‘(کتاب پیدائش، باب ۵۔ آیت ۲۳۔۲۴)

حنوک کی انگوٹھی

حضرت ادریس ؑ کی انگوٹھی پر یہ عبارت کندہ تھی:

’’اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ صبر فتح مندی کی علامت ہے‘‘۔

کمر سے باندھنے والے پٹکے پر تحریر تھا:

’’حقیقی عیدیں اللہ تعالیٰ کے فرائض کی حفاظت میں مخفی ہیں 

اور دین کا کمال شریعت سے وابستہ ہے ۔‘‘

نماز جنازہ کے وقت ایک پٹکہ باندھے ہوئے تھے اس پر یہ جملے تحریر تھے:

’’سعادت مند و ہ ہے جو اپنے نفس کی نگرانی کرتا ہے اللہ کے سامنے انسان کی شفاعت کر نے والے اس کے نیک اعمال ہیں‘‘۔
حضرت ادریس ؑ کی بیان کردہ حکمت اور ان کے علوم پر تفکر کیا جائے تومنکشف ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تفویض کردہ امانت انسان کے پاس ہے۔ 
امانت ۔۔۔ خلافت و نیابت کے علوم اور تسخیر کائنات کے فارمولے ہیں، ان فارمولوں سے انسان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہوگئی ہیں۔ آدم زاد ان صلاحیتوں کے ذریعے نفع اور نقصان دونوں کے کام کرسکتا ہے۔طرز فکر اگر صحیح ہے اور انبیاء کرام اور ان کے وارث اولیاء اللہ سے ہم آہنگ ہے تو جو بھی عمل صادر ہوتا ہے یا جو بھی نئی تخلیق سامنے آتی ہے وہ مخلوق کے لئے سکون، آرام، راحت اور خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ اور طرز فکر اگر محدود ہے ذاتی منفعت اور انفرادی غرض کے خول میں بند ہے تو تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کسی بھی طرح اجتماعی طور پر یا انفرادی حیثیت سے نوع انسانی کے لئے فائدہ مند نہیں۔ 

انبیاء کرام کی طرز فکر میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ ہمارا مالک و مختار اللہ تعالیٰ ہے۔ ہر شئے سے دوسری شئے کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت قائم ہے۔ انبیاء کرام کی سوچ لامحدود ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے فرستادہ بندوں کی طرز فکر سے جو تخلیقات ظہور میں آتی ہیں ان سے مخلوق کو فائدہ ہوتا ہے۔ انبیاء کرام مظاہر کے پس پردہ کام کرنے والی حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں، حقیقت میں انتشار نہیں ہوتا ، حقیقت کے اوپر غم اور خوف کے سائے نہیں منڈلاتے۔حقیقی دنیا سے متعارف بندے ہمیشہ پرسکون رہتے ہیں۔ حقیقی علوم سے واقف برگزیدہ ہستیوں کے بتائے گئے سسٹم پر عمل کرنے سے نوع انسانی کو سکون ملتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘(سورۃ البقرہ۔ آیت 2تا3)

غیب پر یقین رکھنے سے مراد غیب کا مشاہد ہ ہے، یقین کی تکمیل مشاہدہ کے بغیر نہیں ہوتی۔

ہماری ماں ’’زمین ‘‘

زمین ایک قاعدہ اور ضابطہ کے تحت ہمیں رزق فراہم کررہی ہے ہم مکان بناتے ہیں تو زمین ہمیں مکان بنانے سے منع نہیں کرتی، زمین اتنی سنگلاخ اور سخت جان نہیں بن جاتی کہ ہم اس میں کھیتیاں نہ اگاسکیں اتنی نرم نہیں بن جاتی کہ ہم زمین کے اوپر چلیں تو ہمارے پیر دھنس جائیں۔سورج اور چاند ہماری خدمت گزاری میں مصروف ہیں، باقاعدہ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ چاند کی چاندنی سے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے اور سورج کی گرمی سے میو ے پکتے ہیں الغرض کائنات کا ہر فرداپنا اپنا کردار ادا کررہا ہے اور اس عمل سے ہمیں اختیاری اور غیر اختیاری فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یہ ایک تسخیری عمل ہے جو سب کے لئے یکساں ہے۔

تسخیر کائنات

اصل تسخیر یہ ہے کہ آدمی اپنے ارادے کے تحت سمندر سے ، دریاؤں سے، پہاڑوں سے، چاند سے، سورج سے، ستاروں سے اور دیگر اجزائے کائنات سے استفادہ کرے اور اس سے بھی اعلیٰ تسخیر یہ ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انگلی سے اشارہ فرمادیں تو چاند دو ٹکڑے ہوجائے۔ حضرت عمرفاروقؓ دریائے نیل کوپیغام بھیج دیں:

’’اگر تو اللہ کے حکم سے چل رہا ہے تو سرکشی سے باز آجا ورنہ عمر کا کوڑا تیرے لئے کافی ہے‘‘۔

اور پھر دریائے نیل کی روانی میں کبھی تعطل نہ ہوا۔ ایک شخص نے حضرت عمر فاروقؓ سے شکایت کی

’’یا امیر المؤمنینؓ! میں زمین پر محنت کرتا ہوں، بیج ڈالتا ہوں اور جو کچھ زمین کی ضروریات ہیں انہیں پورا کرتا ہوں لیکن بیج سوکھ جاتا ہے‘‘۔حضرت عمر فاروق ؓ ؓ نے فرمایا جب میرا اس طرف سے گزر ہوتو بتانا۔ حضرت عمر فاروق ؓ جب ادھر سے گزرے تو ان صاحب نے زمین کی نشاندہی کی۔حضرت عمر فاروق ؓ تشریف لے گئے اور زمین پر کوڑا مار کر فرمایا :

’’تو اللہ کے بندے کی محنت ضائع کرتی ہے جبکہ وہ تیری ساری ضروریات پوری کرتا ہے‘‘۔ 

اس کے بعد زمین لہلہاتی کھیت میں تبدیل ہوگئی۔ یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تخلیق کی ہے، کائنات کے تمام اجزا بشمول انسان اور انسان کے اندر کام کرنے والی تمام صلاحیتیں ایک مرکزیت پر قائم ہیں روحانی علوم کی روشنی میں انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ گیارہ ہزار صلاحیتیں ہیں ہر صلاحیت ایک علم ہے اور یہ علم شاخ در شاخ لامحدود ہے۔


Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان