Topics

چاند کے دوٹکڑے

اعلان نبوت کو آٹھ سال گزر چکے تھے۔ ایک رات ابوجہل ایک بہت بڑے یہودی عالم اور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آیااور تلوار لہراتے ہوئے کہا، 

’’تم سے پہلے نبیوں نے معجزات دکھائے ہیں تم بھی کوئی معجزہ دکھاؤ‘‘۔ 

یہ سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، 

’’کیا تم معجزہ دیکھ کر ایمان لے آؤگے۔ تم کیا دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘

ابوجہل سوچ میں پڑگیا تو یہودی عالم نے کہا، آسمان پرجادو نہیں چلتا ۔ابوجہل نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چودھویں کا چاند پوری آب و تاب کے ساتھ آسمان پر چمک رہا تھا۔ ابوجہل نے کہا چاند کے دوٹکڑے اس طرح کردو کہ چاند کا ایک ٹکڑا جبل ابوقیس اور دوسرا ٹکڑا جبل قیقعان پر آجائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انگشت شہادت سے چاند کی طرف اشارہ کیا۔ چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا جبل ابوقیس پر اور دوسرا ٹکڑا جبل قیقعان پر نمودار ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انگشت شہادت سے دوبارہ اشارہ کیا تو چاند کے دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے۔ یہودی عالم یہ معجزہ دیکھ کر ایمان لے آیا۔ مگر ابوجہل نے کہا،

’’محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) نے جادو سے ہماری نظر باندھ دی ہے۔‘‘

شق القمر کی گواہی قافلے کے مسافروں نے بھی دی جو مکہ کی طرف سفر کررہے تھے۔

***

اجرام فلکی میں سے چاند، زمین سے قریب ترین ہے۔ زمین سے چاند کافاصلہ دو لاکھ چالیس ہزار میل بتایاجاتا ہے۔ اسی طرح چاند کا قطر کم وبیش اکیس سو میل بتایا جاتا ہے۔ چاند کے (Mass) کی مقدار زمین کے (Mass) کی مقدار سے ۸۰ گنا کم بتائی جاتی ہے۔ جبکہ زمین کی کشش ثقل چاند کے مقابلے میں چھ گنا ہے۔سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ تقریباً پانچ ارب سال پہلے چاند اور زمین ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ شروع میں زمین کو اپنے محور کے گرد گھومنے میں ۴ گھنٹے ۴۵ منٹ کا وقت لگتا تھا، اب زمین ۲۴ گھنٹے میں گھومتی ہے۔

چاند زمین کے گرد گردش کے دوران مختلف مدارج سے گزرتا ہے۔ گردش کے ابتدائی ایام میں چاند کا جتنا حصہ سورج کی روشنی سے منور ہوتا ہے اسے ہلال کہتے ہیں۔ ہر رات اس کے روشن حصہ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ۱۴ دنوں میں چاند پورا ہوجاتا ہے۔ رفتہ رفتہ چاند گھٹنا شروع ہوتا ہے اور بالآخر آسمان پر سے غائب نظر آتا ہے۔ یہ پورا چکر تقریباً ساڑھے ۲۹ دنوں میں پورا ہوتا ہے اور ہر ماہ چاند مغربی افق پر نمودار ہوجاتا ہے۔

چاند کی سطح جو انسانی آنکھ سے اوجھل رہتی ہے، مصنوعی سیاروں کی مدد سے اس کی تصاویر حاصل کی گئی ہیں۔ چاند کی یہ سطح زیادہ تر پہاڑوں پر مشتمل ہے۔انسانی آنکھ سے روشن چاند کی سطح پر نظر آنے والے داغ دھبے دراصل ہموار ریگستانی میدان ہیں جو گردوپیش کی اونچائیوں سے نیچی سطح پر واقع ہیں اور روشنی کا انعکاس نہ کرنے کی وجہ سے یہ تاریک نظر آتے ہیں۔

اپالو مشن کی پروازوں کے دوران مئی ۱۹۶۷ء میںOribiter-4 راکٹ سے چاند کے چھپے ہوئے رخ کی تین ہزار کلو میٹر کی بلندی سے تصاویر لی گئیں۔ ان تصویروں میں ۲۴۰ کلومیٹر طویل اور کئی مقامات پر ۸ کلومیٹر چوڑی دراڑ دیکھی گئی ہے۔
چاند کی کشش سے سمندر کی لہروں میں مدوجزر اٹھتے ہیں۔چاند، سورج سے
۴۰۰ گنا چھوٹا ہے۔ زمین کے گرد اپنے بیضوی مدار پر گردش کرتے ہوئے چاند جب زمین کے قریب سے گزرتا ہے اور زمین اور سورج کے درمیان میں آجاتا ہے تب سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی، یہ سورج گرہن ہے۔ چاند گرہن کے وقت زمین سورج اورچاند کے درمیان میںآجاتی ہے۔

روحانی آنکھ سے نظر آنے والا چاند اس کے برعکس ہے جو ٹیلی اسکوپ سے نظر آتاہے۔ روحانی آنکھ سے نظر آتا ہے کہ چاند پر پہاڑ، جھیلیں، تالاب اور ریگستان ہیں۔ تالاب اور جھیلوں کے پانی میں پارے کا عنصر غالب ہے اور یہ پانی پارے کی طرح چمک دار ہے۔ چاند پرجنات کی مخلوق کی آمدورفت رہتی ہے۔چاند کی فضا میں گیس کی بُو ایسی ہے جیسے ویلڈنگ کرتے وقت بُو آتی ہے۔ چاند کی زمین پر چہل قدمی کرتے وقت جسم لطیف محسوس ہوتا ہے۔ اتنا لطیف کہ ہوا میں آسانی سے اڑسکتا ہے۔ لیکن لطیف ہونے کے باوجود جسم ٹھوس ہوتا ہے۔ چاند پر کوئی مستقل آبادی نہیں ہے۔ چاند ایک سیرگاہ ہے جہاں جسم مثالی جاسکتا ہے۔ دنیا کا کوئی فرد اس وقت تک چاندمیں داخل نہیں ہوسکتا جب تک جسم مثالی سے واقف نہ ہو۔ نہ صرف یہ کہ جسم مثالی سے واقف ہو بلکہ اپنے ارادے اور اختیار سے جسم مثالی کے ساتھ سفر کرسکتا ہو۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان