Topics

شق صدر کی حکمت

ایک روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے رضاعی بھائی عبد اللہ کے ساتھ بھیڑیں چرانے گئے ہوئے تھے۔ عبد اللہ دوڑتا ہوااماں حلیمہؓ ؓ کے پاس آیا اور چلّا کر کہا، 

’’اماں جان! جلدی آئیے میرے قریشی بھائی کو دو اجنبی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر اماں حلیمہؓ اور ان کے شوہر بھاگ کر چراگاہ پہنچے تو دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کھڑے ہیں اور چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ اماں حلیمہؓ فرط محبت سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لپٹ گئیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایا :

’’ سفید لباس پہنے دو اجنبی شخص میرے پاس آئے۔ انہوں نے مجھے زمین پر لٹا دیا۔ ایک نے میرے پیٹ کو سینے تک چاک کردیا۔ پھر اس نے میرے سینے سے دل نکالا اور اس میں سے خون کا ایک سیاہ قطرہ نکال کر پھینک دیا۔ پھر دوسرا شخص آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں چاندی کی طرح پانی سے بھرا ہوا طشت تھا اس نے میرے دل کو دھو کر سینے میں واپس رکھ دیا اور دل پر مہر لگا کر پیٹ اور سینے کو سی دیا۔‘‘
اماں حلیمہؓ اور ان کے شوہر نے حیران ہوکر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو دیکھا کیونکہ نہ تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لباس پر خون کا کوئی دھبہ تھا اور نہ جسم پر کوئی نشان تھا۔

اللہ تعالیٰ کے جن بندوں کو روحانی علوم عطا ہوئے ہیں وہ شق صدر کی حکمت اس طرح بیان کرتے ہیں :

انسان ستر ہزار پرت کا مجموعہ ہے۔جب اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق کوئی انسان عالم سماوات سے عالم عنصری پر آتا ہے تو اس کے اوپر ایک ایسا پرت غالب آجاتا ہے جس میں سر کشی ،بغاوت،عدم تعمیل ، کفران نعمت،نا شکری،جلد بازی،شک بے یقینی اور وسوسوں کا ہجوم ہوتا ہے ۔یہی وہ ارضی زندگی ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہے پھر پھینک دیا اسفل سافلین میں۔

’’پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچا کردیا۔‘‘ (سورۃ التین ۔آیت5)

انبیا ؑ نوع انسانی کا جوہر ہیں ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی خصوصی نعمتیں ،عنایتیں اورنوازشیں ہوتی ہیں۔ان میں ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انبیاؑ کے دل کو اسفل خامیوں سے پاک کر کے لالچ اور حرص و طمع سے بے نیاز کر دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں انبیاؑ کے قلوب ایمان و ایقان،علم ودانش،عرفان وآگہی اور انوار الٰہیہ سے منور ہوجاتے ہیں ۔ ہدایت ،معرفت،عظمت،اخلاص ،رحمت،علم و حکمت اور نبوت کیلئے ان کے دلوں کو کشادہ اور وسیع کر دیا جاتا ہے۔نورِنبوت کے زیراثر روحانی علم مشاہداتی علم ہے ۔اس علم کی روشنی میں انسان کی تخلیق کے بنیادی عناصر نور اور روشنی سے مرکب ہیں۔دنیا چھ سمتوں پر قائم ہے ۔یہ چھ سمتیں نور اور روشنی کے ہالے میں بند ہیں۔چھ سمتیں دراصل تین یونٹ ہیں اور ہر یونٹ کے دورخ ہیں۔روشنی مرکب،روشنی مفرد،روشنی مطلق،نورمرکب،نورمفرداور نور مطلق۔ اسفل زندگی روشنی مرکب ہے اور اسکا مخزن پیٹ میں ناف کے مقام اور سینے میں قلب کی جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے کے اوپر چونکہ تمام نعمتیں پوری کی ہیں اور ان کے اوپر دین کی تکمیل کردی ہے اس لئے عمر میں جب شعور اسفل زندگی کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے اور اسفل زندگی میں دلچسپی لینا شروع کرتا ہے،اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے بھیجے اور ننھے محبوب علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اسفل خیالات کے پیٹرن کو خالی کرکے اعلیٰ علیین خیالات سے بھر دیا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

(اے نبی)کیا ہم نے تمھارا سینہ تمھارے لئے کھول نہیں دیا؟(سورۂ انشراح۔آیت1)

یعنی انوار الٰہی کے ذریعے حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کا سینہ مبارک اطمینان اور سکون سے بھر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے سچائیوں،نیکیوں اور پاکیزہ خیالات کو قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے سرور قلب عطا فرمایا۔

اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی و نگہبانی کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پرورش ہوتی رہی ۔دنیا کے نشیب و فراز سے وقوف حاصل کرکے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سچائی ،پاکیزگی اور یقین میں جلوہ گر ہوئے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حالات زندگی ہمیں اس بات پر تفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ باعث تخلیق کائنات حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی تربیت کا دوربچپن سے شروع ہوا ہے۔چار برس کی عمر میں روح القدس فرشتے کے ذریعے قلب مبارک کی صفائی اس بات کی نشاندہی ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کا ہر امتی اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش میں اس قانون کا پابند رہے اور پاکیزگی کا اہتمام کرے تاکہ اسفل حواس شعوری زندگی پر غالب نہ آئیں اور بچے کے اندر پیغمبرانہ طرز فکر مستحکم طریقے پر منتقل ہوجائے۔

بتایا جاتا ہے کہ سورج زمین سے نو کروڑ میل کے فاصلے پر ہے ۔جب کوئی شخص سورج کو دیکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی میں نو کروڑ میل دور دیکھنے کی صلاحیت موجود ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے چار برس کی عمر میں حضرت جبرائیل ؑ کو دیکھا۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

’’ہم نے اسکو شب قدرمیں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے ۔فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔‘‘(سورۃ القدر)
روحانی قانون کے مطابق لیلۃ القدر میں حواس کی رفتار ساٹھ ہزار گنا ہوجاتی ہے اور جب حواس کی رفتار ساٹھ ہزار گنا ہوجاتی ہے تو نظروں کے سامنے فرشتے اور جبرائیل ؑ آجاتے ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی یہ فضیلت ہے کہ عام انسانی حواس کی رفتار سے حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی ذہنی صلاحیت ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہے۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان