Topics

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا انداز تربیت

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے منصب میں اہم ذمہ داری نوع انسا نی کی انفرادی و اجتماعی تربیت کرنا تھی۔ اجتماعی تربیت کے لئے بالعموم اور فرد کی تربیت کے لئے بالخصوص جو چیز سب سے زیادہ موثر ہے وہ شخصی نمونہ ہے ۔شخصیت کا انداز گفتگو اور عمل و کردار کا اسلوب وہ پہلوہیں جو تربیت میں نمایاں ترین اہمیت کے حامل ہیں ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو انسانیت کا ملہ کا نمونہ اور اسوہ حسنہ کا پیکر بناکر مبعوث فرمایا۔ جب حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے بارے میں حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا تو آپؓ نے فرمایا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا خلق قرآن ہے۔یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات طیبہ قرآن کریم کا عملی نمونہ ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دور میں صحابہ کرامؓ کی زندگی حضو ر علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ارد گرد گزرتی تھی۔ صحابہ کرامؓ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے۔

جب کوئی آیت نازل ہوتی تھی توحضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام بیان فرمادیتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کی مرکزیت رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ذاتِ اقدس تھی۔ جب کسی شئے کی مرکزیت قائم ہو جاتی ہے تو حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ جب ہم آسمان اور آسمانی علوم پر تفکر کرتے ہیں توہماری مرکزیت آسمانی علوم ہوتے ہیں اور جب ہم زمین پر پھیلی ہوئی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غوروفکر کرتے ہیں تو ہمارا ذہن اُن حقائق کی طرف متوجہ ہوجاتاہے جن حقائق میں زمین اور زمین کے معاملات ہیں۔

نور نبوتؐ

صحابہ کرامؓ کی مرکزیت نورِ نبوت تھی۔اس لیے ان کو آسمانی علوم سیکھنے میں دقت پیش نہیں آتی تھی۔سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے ارشادِ عالی پر وہ تفکر کرتے تھے اور تفکر کے نتیجے میں علم حاصل ہو تا تھا اور ان کے اوپر حقائق منکشف ہوتے تھے۔ رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کے شب و روز ان کے سامنے تھے۔ رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی گفتگو وہ نہایت توجہ سے سنتے تھے۔ رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی صحابہ کرامؓ کے سامنے تھی اور وہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے فرمان اور عادات پر صدقِ دل سے عمل کرتے تھے۔

آداب تربیت

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںآداب تربیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور نیک عمل کیااور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘(سورۃ حم السجدہ۔آیت33)

’’زمانے کی قسم ،انسان خسارے میں ہے ،سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے ،اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے ۔‘‘ (سورۃ العصر) 

’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو، کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ عمل ہے کہ تم وہ بات کہوجو کرتے نہیں۔‘‘(الصف ۔آیت2تا3)

جب تک آپ خود کو صراطِ مستقیم پر گامزن نہیں کریں گے آپ دوسروں پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ پہلے خود کو اسلام میں پوراپورا داخل کیجئے ۔جو کچھ دنیا کے سامنے پیش کریں ،پہلے خود اسکی خوبصورت تصویر بن جائیے ۔دین حق کے دائمی معجزہ کا امتیا ز یہ ہے کہ وہ خود اپنی دعوت کا سچا نمونہ ہوتا ہے ۔جو کچھ کہتاہے عمل اور کردار اس کا شاہد ہوتا ہے ۔جن اعمال و افعال میں وہ نوع انسانی کی بھلائی دیکھتا ہے خود اس پر عمل کرتاہے ۔ الٰہی مشن کی طر ف دعوت دینے میں، ہماری بات میں اس وقت ا ثر پیدا ہوگا جب ہم خود اس دعوت اور تعلیم کا نمونہ ہو ں اور ہما را رابطہ اللہ کے ساتھ ویسا ہی ہو جو ایک حقیقی بندے کااپنے رب سے ہوتا ہے ۔

جب بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوجاتا ہے تو اسے خوف اور غم سے نجات مل جاتی ہے جب وہ مخلصانہ دعوت دیتا ہے تو سعید روحیں اسکی آواز پر لبیک کہتی ہیں۔ جو لو گ اپنی تر بیت اور اصلاح کئے بغیر دوسروں کی اصلا ح و تر بیت کی با تیں کرتے ہیں وہ خسر الدنیا والا خرۃ کے مصداق ہمیشہ خسارے میں ر ہتے ہیں ۔ایسے لو گ دنیا میں بھی ناکام ہیں اور آخرت میں بھی ناکام رہیں گے ۔اللہ تعالیٰ اس بات کو ناپسند فرماتے ہیں کہ جو بات دوسروں کو بتائی جائے اس پر خود عمل نہ کریں ۔ 

’’اے نبی!اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ،اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اسکی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے ۔‘‘( سورۃ النحل ۔آیت25)
قرآن حکیم کی اس آیت سے ہمیں تین اصولی ہدایات ملتی ہیں ۔

۱۔ شرسے محفوط رہنے اور خیر کو اپنانے کے لئے حکمت کے ساتھ دعوت دی جائے ۔

۲۔ نصیحت اسطرح نہ کی جائے جس سے دل آزاری ہو۔نصیحت کرتے وقت آنکھوں میں محبت اور یگانگت کی چمک ہو ،اوردل خلوص سے معمور ہو۔

۳۔ اگر کوئی بات سمجھاتے وقت بحث و مباحثہ کاپہلو نکل آئے تو آواز میں کرختگی نہ آنے دیں ۔ تنقید ضروری ہوجائے تو یہ خیال رکھیں کہ تنقید تعمیری ہو ،سمجھانے کا انداز ایسا دل نشین ہو کہ مخاطب میں ضد،نفرت تعصب اورجہالت کے جذبات میں اشتعال پیدا نہ ہواور اگر مخاطب کی طرف سے ضد کا اظہار ہونے لگے تو خاموشی اختیار کرلیجئے۔

’’اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں اور ان سے کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمھاری طرف بھیجی گئی تھی،ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی پر قائم ہیں۔‘‘( سورۃ العنکبوت۔آیت46)

’’(اے پیغمبر )یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے بہت نرم مزاج ہو۔ورنہ اگر تم تندخواور سنگدل ہوتے یہ سب تمہارے گردو پیش سے دور ہو جاتے ان کے قصور معاف کردو ۔ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو،اور دین کے کام میں ان کوبھی شریک مشورہ رکھو،پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسہ پر کام کرتے ہیں ۔‘‘

(سورۃ آل عمران ۔آیت159)

’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اس نیکی سے دور کرو جو بہترین ہو۔تم دیکھوگے کہ تمھارے ساتھ جن کو عداوت تھی وہ اچھا دوست بن گیا ہے۔ ‘‘

(سورۃحم السجدہ۔آیت34)

مومنین کی جماعت

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ کرامؓنے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی کو پوری زندگی کا نصب العین بنالیا تھا۔اس زمانہ تربیت میں جو رنگ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام پر غالب آتا رہا اسی رنگ میں صحابہ کرامؓ بھی رنگے جاتے تھے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ مومنین کی ایک ایسی جماعت تیار ہوگئی ۔

۱۔ جو خدا شناس اور سچی خدا پرست تھی۔

۲۔ جوشرک کو چھوڑ کر اپنا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جوڑچکی تھی۔

۳۔ جس کا پورا بھروسہ اپنے خالق اور مالک پر تھا۔

۴۔ جس کا دل طمع سے پاک اور صرف اپنے خالق کی محبت سے لبریز تھا۔

۵۔ جس کو مخلوق سے محبت تھی،کیونکہ وہ اس کے رب کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہے۔ ہر ایک انسان کادرد اسکے دل میں تھا ،کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی قدر ت کا شاہکارہے۔

۶۔ وہ یہ جان گئے تھے کہ مومن کی طرز فکر یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر حالت کو چاہے وہ خوشی کی ہو یاغم وہ اعتدال میں رہتا ہے ۔کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں وہ کبھی ناامیدی کی دلدل میں نہیں پھنستا ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اس کا شعار ہوتا ہے ۔وہ یہ جانتا ہے جس طرح خوشی کا زمانہ آتا ہے اسی طرح مصائب کا دور آنابھی ایک ردِعمل ہے۔وہ آزمائش کے زمانے میں جدو جہد اور عمل کے راستے کو ترک نہیں کرتا کیوں کہ اس کی پوری زندگی ایک مسلسل جدو جہد ہو تی ہے۔مومن ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتاہے اور ہر آزمائش میں اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ثابت قدم رہتاہے۔

۷۔ صحابہ کرامؓ کو مرتبۂ احسان حاصل تھا۔ان کے لطائف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت سے رنگین ہو گئے تھے ۔ کیونکہ انکی توجہ زیادہ تر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق غور و فکر میں صرف ہوتی تھی۔

قرآن کریم نے ایسے تر بیت یا فتہ افراد کا سر اپا ان الفا ظ میں بیا ن کیا ہے ۔ 

’’جو لوگ ان پر ایمان لائیں اور ان کی حمایت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

(سورۃ اعراف۔آیت157)

’’جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اورشہیدہیں ۔ان کے لئے ان کا اجر اور انکانورہے۔‘‘

(سورۃ الحدید۔آیت19)

’’جو لوگ ایمان لاتے ہیں انکا حامی و مدگار اللہ تعالیٰ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکا ل لاتا ہے۔‘‘

(سورۃالبقرہ۔آیت257) 
’’
جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ،جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آجائے تو در گزر کر تے ہیں،جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں ، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ،ہم نے جو کچھ رزق ان کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں ،اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اسکا مقابلہ کرتے ہیں ،برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے،پھر جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ۔اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کیلئے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (سورۃالشوریٰ۔آیت 37تا42)

۸۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات اور دعوت کا اثریہ ہوا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے امتی پوری توجہ اور جذب وشوق کے ساتھ علم حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے ۔جہاں جہاں سے بھی ان کو علم حاصل ہو سکتا تھا انہوں نے حاصل کیا اور علم کی فضیلت نے انہیں علوم و فنون میں کرۂ ارض پر قائد اور رہنمابنا دیا۔

۹۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تربیت سے ایسے افراد تیارہوئے جو تاریخ انسانی کے مثالی کردار بن گئے اور آج تک روشنی کا ذریعہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کی تعریف میں فرماتے ہیں ۔

’’اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا ور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔‘‘(سورۃالبینۃ۔آیت 8)

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان