Topics

حرف چند

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ

اللہ تبارک وتعالیٰ کااحسان عظٰیم ہے کہ انہوں نے انسانیت کی رہنمائی کے لئے انبیاء کرامؑ کا ایک سلسلہ شروع کیا۔یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر خاتم النبیبن سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام پر ختم ہوا۔قرآن کریم نے انبیاء کا مشن یہ بتایا کہ یہ تمام رسول خوشخبری سنانے والے اور خبردار کرنے والے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور گروہ یعنی امت کیلئے ایک ہادی یا رسول بناکر بھیجا۔لکل قوم ِھاد کے الفاظ اس بات کی مکمل تصدیق فراہم کرتے ہیں۔ ان انبیاء کا کام اپنے دورکے بگڑے ہوئے فاسد عقائد کی اصلاح کرنا تھا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام انبیاء کی تعلیم کا مشن توحید کی تعلیم تھا۔جب توحیدی تعلیمات پرحرف آنے لگا اللہ نے اپنے بندے بھیج کر اُن کی اصلاح فرمائی۔

حضو ر ﷺ کی آمد سے قبل دنیا تاریکی کے گڑھوں میں یعنی قعر مذّلت گرچکی تھی۔قرآن مجید کے الفاظ ہیں ”کنتم شفا حقرۃ فانقذکم……الایۃ،تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر اس نے تم کو بچا لیا۔

حضور ﷺ کی بعثت کو انسانوں کیلئے احسان عظیم کہا گیا ہے۔فرمایا”لقدمن اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا“۔یہ اللہ کا احسان ہے مومنین پر کہ اُن پر رسول اللہ مبعوث ہوئے اور یہ دعائے خلیل اللہ اور مسیح علیہ السلام کی نوید تھی کہ آپ مکہ کی وادی میں جلوہ افروز ہوئے۔قیصرو کسریٰ کی حکومتوں کے مابین آپ کی پیدائش اس بات کی نوید تھی کہ آپ امت وسط کے امین ہیں ایسی امت کی آبیاری کریں گے جو افرط و تفریط سے پاک ہوگی۔ایسی امت جوقوم یہود کی افراط اور قوم مسیح کی تفریط کے مابین اعتدال قائم کرے گی جو دنیا پر حکمرانی کرے گی اور لوگوں کو بے شمار مسائل اور اغلال سے محفوظ رکھے گی۔

حضور ﷺ کی آمد سے قبل معاشرہ کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔پورے کا پورا معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار تھا۔آپس میں لڑائی جھگڑا معمولی بات تھی۔عورتیں خصوصی طور پرمشکلات کا شکار تھیں یہاں تک کے لڑکی کی پیدائش کو بھی عار سمجھا جاتا اور بعض قبائل تولڑکیوں کو زندہ درگور بھی کردیتے۔ایسی سوسائٹی کی اصلاح بہت ضروری تھی چناچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو مبعوث کیا۔

حضور ﷺ کی تعلیمات کا اگر جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ تمام انسانیت کیلئے مبعوث ہوئے یعنی قیامت تک کے انسانوں کیلئے آپ کی تعلیمات روشنی کا مینار ہیں۔دوسرے الفاظ میں آپ عالمگیرنبی ہیں۔یعنی قیامت تک آنے والے انسانوں کے پیغمبر ہیں اور آخری نبی ہیں۔اس طرح آپ کاملیت اور اکملیت کے درجہ پر فائز ہیں۔آپ نے دنیا کی تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔آپ کی شخصیت تاریخی شخصیت کہلاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ کی زندگی کا لمحہ بہ لمحہ ہمارے پاس محفوظ ہے۔بلکہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ ان لوگوں سے بھی کہے جن کو آپ ﷺ نے پیغام حق سنایا اور کہا کہ دیکھو میں نے آپ کے درمیان زندگی گزاری ہے اگر آپ کو معلوم ہے کہ میں نے زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر انگلی اٹھائی جاسکے تو یہ بات بھی مان لینی چاہیئے کہ جو پیغام میں سنا رہا ہوں وہ ازلی وابدی خدا کا پیغام ہے اور یہ پیغام لوگوں کی بھلائی کا پیغام ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی کو محفوظ اور آپ کے پیغام کو بھی محفوظ و مامون قرار دیا گیا ہے۔آپ ﷺ کی سیرت پت بے شمار کتب تحریر کی گئیں۔ ان میں سے ہر کتاب اپنی جگہ اعلیٰ وارفع مقام رکھتی ہے۔یہ کتابیں بعض تو ادبی رنگ میں لکھی گئی ہیں بعض میں رطب ویابس اور خلاف عقل باتوں کو سمودیاگیا ہے۔ بہرحال یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حضورﷺ کی شان میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں نے کیلئے ذریعہ نجات ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے ہے مغربی سیرت نگاروں میں ایسے بہت سے سیرت نگار سامنے آئے جنہوں نے حضور ﷺ کی زندگی پر اعتراضات بھی اٹھائے۔المحمد اللہ بے شمارمسلمانوں نے آپ کی زندگی  پر لگائے گئے الزامات کا مدلل جواب دیا جس کے بعد وہ عقل کے اندھے بے بس نظر آئے۔ ”فھیت الذی کفر“ کی تصویر بنے۔

فن حدیث کی طرح فن سیرت نگاری بھی روایت و درایت کے اصولوں کی پابند ہے۔سیر ت نگاروں نے تحقیقی اعتبار سے فن سیرت کا ایسا معیار قائم کیا جو دنیا میں اپنی مثا ل آپ ہے۔مشہور مستشرق اسپرنگر ”اصابہ“ کے دیباچہ میں لکھتا ہے ”نہ کوئی قوم دنیا میں ایسی گزری نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال جیساعظیم الشان فن ایجاد کیا ہو۔

حکیم عبدالرؤوف داناپوری نے کہا ہے کہ سیرت نگار کو سیرت سے پوری طرح واقفیت ہونی چاہیئے۔ مارگولیتھ لکھتا ہے کہ حضرت محمدﷺ کے سیرت نگاروں کا سلسلہ طویل ہے جس کو ختم کرنا ناممکن ہے لیکن ان میں جگہ پانا باعث شرف ہے۔

فن سیرت میں محمدبن اسحاق(م150ھ)کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔علامہ بلاذری کے بقول خلیفہ منصور عباسی کی فرمائش پر آپ نے سیرت کی کتاب تحریر کی جن میں معلومات کی فروانی تھی اور جس پر بعد میں آنے والے تمام سیرت نگاروں نے نہ صرف اعتمادکیا بلکہ اسے اولین ماخذ سیرت قرار دیا۔

اندلس کے سیرت نگاروں میں ابن عبدالبر کا نام آسمان کی بلندیوں کو چھو رہاہے۔انہوں نے سیرت کے فن میں ایسی مہارت حاصل کی جو اپنے تمام پیش روؤں پر فوقیت حاصل کر چکے۔وہ اندلس کے بہترین نمائندہ اور عروج سیرت نگاری کی روشن دلیل ہیں۔

افریقی سیرت نگاروں میں قاضی عیاض کانام”کتاب الشفا“ کی بدولت سیرت کی بلندیوں تک جا پہنچا۔مصر میں محمد حسین ھیکل کی کتات جدیدزمانے کے شکوک وشبہات کا ازالہ کرتی ہے۔ہیکل کی لکھی ہوئی کتاب مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہے اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

جب ہم برصغیر میں داخل ہوتے ہیں تو ہماری سب سے پہلی نظر سر سید احمد خاں پر پڑتی ہے۔ سر سید کا شمار برصغیر کے ان ناموں میں سے ایک نام ہے جنہوں نے مستشرقین کی گمراہ کن سرگرمیوں کا بہت مدلل اور موثر جواب دیا ہے۔

برصغیر میں سیرت نگاروں کے جو نام زیادہ سامنے آئے ہیں ان میں سلیمان منصور پوری،مولانا شبلی نعمانی، سید سلمان ندوی،سید مناظر احسن گیلانی،مولانا ادریس کاندھلوی،مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی،صفی الرحمان مبارکپوری،مولانا ثناء اللہ امرتسری،مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی،نعیم صدیقی،مولاناابوعلیٰ مودودی، پیرکرم شاہ الازہری،مفتی محمد شفیع،مولانا طاہرالقادری،عبدالماجد دریاآبدی، مولانا ابوالکلام آزاد،ڈاکٹرنصیراحمد ناصر،سید اسعد گیلانی،ڈاکٹر خالدعلوی اورڈاکٹر محمداکرم رانا شامل ہیں۔

جو کتاب ہمارے ہاتھ میں ہے وہ خواجہ شمس الدین عظیمی کی ”باران رحمت ﷺ“ ہے۔ یہ ایک ضخیم اور عمدہ سیرت کی کتاب ہے۔اس میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔جدید اور آسان طرز تحریر ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے محبت کی آئینہ دار ہے۔معاشرہ میں بڑھتی ہوئی بے چین،بے حس،تشدد اور انتہاپسندی کے خلاف عظیمی صاحب کی تصنیف اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ آپ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رواداری ہی ایک ایسی تعلیم ہے جو انسانوں کو بلاتفریق رنگ و نسل،مذہب و ملت، ذات وقوم،ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔یہ کتاب زمین پر بے انصافی،حق تلفی،خود غرضی،دولت پرستی کے خلاف سینہ سپر ہے۔عظیمی صاحب کا قلم تکوینی امور کی طرف بھی رہنمائی کرتاہے۔یہ کتاب سورج،بادل،بارش،پانی،سنگریزوں،آوازوں،پہاڑوں،نباتات،کھجور، لکڑی، ستاروں، پنگوڑوں اورچاندپر بھی گفتگوکرتی ہے۔

یہ کتاب حضور کے فرائض نبوت پر مدلل بحث کرتی ہے اور ساتھ ساتھ ان امور کی نشاندہی کرتی ہے جن میں اتباع سنت کا پہلونمایاں ہے۔

آپ نے اپنی اس کتاب میں تکوینی اور روحانی امور پر کھل کر بحث کی ہے۔میں یہ سمجھتا ہوح کہ ان امور پر قلم اٹھانا آسان کام نہیں اور نہ ہی ہر کس وناکس ایسا کرسکتا ہے۔یہ سیرت نگاروں کا ایک مخصوص گوشہ ہے جس پر عظیمی صاحب نے سیر حاصل بحث کی ہے۔میں اس تحریر پر ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور قائین کیلئے اسے ایک عظیم تحفہ قرار دیتا ہوں۔

باران رحمت“ علوم کا خزینہ ہے۔گنج گراں مایہ ہے۔اکثر کتابوں کو پڑھتے ہوئے انسان بوریت محسوس کرتا ہے۔دوچار صفحات پڑھ کر اُس کی تشنگی بجھ جاتی ہے۔جبکہ عظیمی صاحب کی سیرت کی یہ کتاب پڑھتے ہوئے انسان تشنگی محسوس کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے مزید پڑھے کیونکہ ہر لائن دوسر ی لائن اور ہر صفحہ دوسرے صفحہ سے مربوط ہے۔معلومات سے پُر یہ کتاب قاری کی نہ تو نظر ادھر ادھر ہونے دیتی ہے اور نہ ہی خیال اور یہ ہی کسی کتاب کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ قاری کے دل میں اتر جائے اور وہ اسے مزید سے مزید پڑھنے میں لگا رہے۔

اللہ کرے زور و بیان اور زیادہ“ آخر میں عظیمی صاحب کی زندگی کیلئے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں لمبی عمر نصیب فرمائے تاکہ ان کی تمام تر علمی رہنمائی ہمیں نصیب ہو اور وہ آفتاب نبوت کا یک چمکدار ستارہ بن کر ہمیشہ کیلئے جگمگاتے رہیں اور امر ہوجائیں۔

پروفیسر ڈاکٹر اکرم رانا

چیئرمین،شعبہ علوم اسلامیہ

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی،ملتان

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان