Topics

باب12 - سیرت طیبہ کے مقاصد

اہمیت اور ضرورت

زمانہ ایسابھی گزرا ہے جب گلشن زندگی پر خزاں کا پہرا تھا۔ہر طرف سکوت تھا۔وقت ، حرکت اور بے چینی ایک دوسرے سے ناآشنا تھے ۔مشیت خداوندی نے چاہا کہ تنہائی ختم ہواور سکوت حرکت میں تبدیل ہوجائے۔مخلوقات کا ظہور ہو تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ربوبیت کا مظاہرہ ہواور مخلوق اللہ تعالیٰ کی عظمت ، حکمت اور صناعی کو دیکھے اور اس کو پہچانے ۔مشیت کا ارادہ صدائے کن بن کر گونجا۔
’’
وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہوجا اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘(سورۃ یٰسین ۔آیت82)

زندگی نے انگڑائی لی اور حرکت کا آغاز ہوا۔مشیت الہٰی کی اسی چاہت اور خواہش کو حدیث قدسی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
’’
میں چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے مخلوق کو محبت کے ساتھ تخلیق کیا تاکہ میں پہچانا جاؤں۔‘‘

مشیت نے اپنے پروگرام کے مطابق ایک ایسا میڈیم تخلیق کیا جو کائنات اور خالق کے درمیان واسطہ اور رابطہ ہو اور شائستگی اور روشناسی کا منشا پورا کر سکے ۔جب یہ نور پیکر بشریت میں متشکل ہواتوحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام دنیا میں تشریف لائے ۔مخلوق کو خالق سے متعارف کرانے کا سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہو کرانسان کا مل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرپوراہوگیا۔حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے جس طرح مشیت کا منشاپورا کیا،

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ نبی پر درود بھیجتے ہیں اے لوگو !جو ایمان لائے ،تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔‘‘(سورۃ الاحزاب۔آیت56)

عرفان و گیان کی دنیا کے ماہ کامل حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے نوع انسانی کو یاد دلایا کہ انسان کا تخلیقی رشتہ اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہے ۔اس رشتہ کوفراموش کر نے کے بعدکوئی بندہ سکون و اطمینان حاصل نہیں کر سکتا ۔ انسانوں کے انسانوں پرحقوق ہوں یا انسان کا کائنات سے تعلق یہ سب اس بنیاد پر قائم ہے کہ ہمارا اور سب چیزوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہم اس کو پہچانیں۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ارشاد فرمایا کہ’’ بندہ خالق کواُس وقت پہچان سکتا ہے جب اس کا ہر عمل صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے معاشرت ،معیشت ، جنگ،امن، غرض زندگی کے ہر شعبہ میں اس ابدی راز کی عملی تفسیر پیش کی ہے کہ 

’’میری نماز ،میرے تمام مراسم عبودیت اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔‘‘

(سورۃ الانعام ۔ آیت162)

اللہ تعا لیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تما م عالمین کے لیے مبعوث فر ما کرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر دین کی تکمیل اور سلسلہ نبوت کو ختم کردیا۔ ا ب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بعد کو ئی پیغمبر نہیں آئے گا اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی شر یعت قیامت تک با قی رہے گی ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

’’اور ہم نے حضور( علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو تما م انسانوں کے لیے بشیر (خو شخبری سنانے والا) اور نذیر (خبر دار کر نے والا ) بنا کر بھیجاہے ،مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ۔ ‘‘

(سورۃ السباء۔ آیت 28)

’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لئے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ۔‘‘

(سورۃ المائدہ۔ آیت 3)

اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ کو اہل ایمان کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔ اس سلسلہ میں جب ہم کتب آسمانی اور تاریخِ انسانی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت طیبہ میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی بنا پر یہ تمام دنیا ئے انسانیت کے لئے تا قیامت لازمی نمونہ قرار پائی ہے۔ ان خصوصیا ت کی روشنی میں مطالعہ سیرت کی اہمیت اور ضرورت بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔ 

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان