Topics

باب 5 - اسلام میں جنگ کا تصور

جنگ سے مراد ہر وہ مقابلہ ہے جو دو مسلح گروہوں کے درمیان ہوتا ہے اور فریقین میں سے ایک کا یا دونوں کا یہ ارادہ ہو کہ باہمی تعلقات ختم کردیںیا مغلوب کردیں۔

جنگ دوطرح کی جاتی ہے :

۱۔ انصاف کے لئے ۲۔ ظلم کے لئے

۱۔۔۔انصاف کے لئے جنگ سے مراد وہ لڑائی ہے، جو ایسی قوم یا گروہ سے کی جائے جو دوسروں پر ظلم کا مرتکب ہو اور حق کی راہ میں رکاوٹ ہو۔ 

۲۔۔۔ ظلم کی لڑائی یہ ہے کہ کوئی قوم یا گروہ محض ظالمانہ طریقے سے دوسروں کے مال و اسباب پر قبضہ کرنا چاہتے ہوں۔ 
اسلام صرف انصاف کی جنگ کا حامی ہے اور ظالمانہ اور غاصبانہ جنگ سے منع کرتاہے۔انسانی معاشرے میں سب سے زیادہ اہمیت انسانی جان کی ہے۔ مذاہب اور شریعت میں احترام نفس کیلئے حکم دیا جاتا ہے۔ اس ہی اصول کی بنیاد پر انسانی معاشرہ منظم ہوتا ہے۔زراعت، تجارت، صنعت، ذرائع رسل و رسائل کی سہولت، اجتماعی زندگی کے مظاہر سب ایک ہی مقصد کی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ انسانی جان کی حفاظت و احترام ہے۔ انسانی جان اور اس کے ذرائع کو ختم کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ قرآن کریم نے حضرت آدم ؑ کے بیٹوں کے ایک واقعہ سے اس حقیقت کو واضح کیا ہے:

’’اسی بنا پر ہم نے بنی اسرائیل کو یہ لکھ کردے دیا کہ جو کوئی کسی کی جان لے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا زمین میں فساد کیا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کا خون کیاہے، اور جس نے کسی کی جان بچائی توگویا اس نے تمام انسانوں کو بچایا۔ ان لوگوں کے پاس ہمارے رسول کھلی ہدایت لے کر آئے، مگر اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو زمین میں حدسے تجاوز کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ المائدہ۔ آیت 32)

’’وہ اس جان کو جسے اللہ تعالیٰ نے محترم قرار دیا ہے بغیر حق کے ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایساکریگا وہ اپنے کیے کی سزا پائیگا۔‘‘(سورۃ الفرقان۔ آیت 68) 

’’اے محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام )کہوکہ آؤ!میں تم کو بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تم پرکیا کیا حرام کیا ہے۔تم پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو، والدین کیساتھ نیک سلوک کرو، اپنی اولاد کو مفلسی اور تنگدستی کے باعث قتل نہ کرو، ہم تم کو رزق دیتے ہیں ان کو بھی دیں گے، بدکاریوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ چھپی ہوئی ہوں یاکھلی ہوئی، کسی ایسی جان کوجسے اللہ تعالیٰ نے محترم قرار دیا ہے ہلاک نہ کرو سوائے اس صورت حال کے کہ ایسا کرنا حق کا تقاضہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کی تمہیں تاکید کی ہے شاید تم کوکچھ عقل آئے۔‘‘
(سورۃالانعام۔ آیت 151) 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انسانی جان کے احترام کی ہمیشہ تلقین فرمائی ہے۔

دو مثالیں

حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’بڑے گناہوں میں سب سے بڑاگناہ اللہ تعالیٰ کیساتھ کسی کو شریک کرنا ہے، پھر قتل نفس،پھر والدین کی نافرمانی کرنااورپھر جھوٹ بولنا۔‘‘(صحیح بخاری جلدا ول۔ حدیث 2478)

حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’مومن اپنے دین کی وسعت میں اس وقت تک برابر رہتاہے جب تک وہ کسی حرام خون کو نہیں بہاتا۔‘‘(صحیح بخاری جلد سوئم ۔ حدیث 1757)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نمازہے اور پہلی چیز جس کا فیصلہ لوگوں کے درمیان کیا جائیگا وہ خون کے دعوے ہیں۔‘‘ (سنن نسائی جلد سوئم۔ حدیث 293)

حضرت عبداللہؓ بن مسعودسے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کیا: ’’ سب سے بڑاگناہ کون سا ہے؟ ‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:

’’یہ کہ توکسی کواللہ تعالیٰ کا شریک بنائے حالانکہ اس نے تجھے پیداکیا۔‘‘

اس نے پھر پوچھا :’’اس کے بعد کون ساگناہ ہے؟‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:’’تواپنے بچے کو قتل کردے اس خیال سے کہ وہ تیرے کھانے میں شریک ہوگا۔‘‘(صحیح بخاری جلد سوئم۔ حدیث 1756)

انسانی جان کا احترام اُٹھ جائے اور انسانی حقوق پامال ہوں تو انفرادی و اجتماعی فساد پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ فتنہ و فساد بہت سی صورتوں میں رونما ہوتا ہے۔ یہ فتنہ افراد میں اور جماعتوں میں بھی ہوتا ہے۔ اس عمل سے افراد کے حقوق پامال ہوتے ہیں، نسلیں اور کھیتیاں برباد ہوجاتی ہیں اور مذہبی آزادی سے انسان محروم ہوجاتا ہے۔ 

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

’’یہ لوگ جب بھی خون ریزی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو بجھادیتے ہیں۔یہ لوگ زمین میں فساد برپاکرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کوپسند نہیں کرتے۔‘‘ (سورۃ المائدہ۔ آیت 64) 

طاقت کا استعمال اس وقت کرنا چاہیئے جب کوئی جماعت یا قوم وعظ و نصیحت پر عمل نہ کرے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

’’اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفاع نہ کرتا توصومعے اور گرجےِ معبدوں اورمساجد جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے، مسمار کردی جاتیں۔‘‘ (سورۃ الحج۔ آیت 40) 

دنیا میں کمزوروں، بے بسوں اور غریبوں پر ظلم ہوتاہو، انسانی حقوق پامال کئے جاتے ہوں، اخلاقی و مذہبی قدروں کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہو، افہام و تفہیم سے مسائل حل کرنا ممکن نہ رہے اور حق کی بالادستی قائم کرنا ضروری ہوجائے تو جنگ کی جائے۔

جنگ کا اسلامی تصور

اسلامی نقطۂ نظر سے جنگ اس صورت میں جائز ہے کہ آزادی اور امن و امان برقرار رکھا جائے۔ہرکام کرنے کے لئے دو چیزوں پر غور کرنا ضروری ہے۔

۱۔ مقصد کا تعین کیا جائے جو شریعت کے مطابق ہو۔

۲۔ مقصد کے حصول کیلئے جدوجہد کا تعین کیا جائے۔

مقصد حاصل کرنے میں اصول و ضوابط کا خیال رکھا جائے اور اصول و ضوابط اخلاص اور اخلاق پر مبنی ہوں۔ اگر مقصد کے حصول میں خلوص اور عوام الناس کی فلاح نہیں ہے تو مقصد کا حصول صحیح نہیں ہے۔جنگ کا مقصد اگر کمزور قوموں کی آزادی چھیننا ، لوٹ مار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا ظلم و ستم کا بازار گرم کرنا ہے تو ایسی جنگ کتنے ہی نظم وضبط کے ساتھ کی جائے وہ ظالمانہ اقدام ہے۔ جنگ میں لوٹ مار کرنا ،آگ لگانا، گھروں کو جلانا، معیشت کو تباہ کرنا، دوران جنگ اخلاقی قدروں کا احترام نہ کرنا، عصمت و عفت کی حفاظت نہ کرنا ظالمانہ اقدام ہیں۔جائز اور حق کیلئے جنگ کی تعریف یہ ہے کہ’’ مقصد نیک ہو اور مقصد حاصل کرنے کیلئے جو طریقے اختیار کیے جائیں وہ مخلصانہ ہوں۔‘‘

اسلامی تعلیمات کے مطابق جنگ میںیہ اصول مدنظر رکھا جاتا ہے کہ مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پاکیزگی، ہمدردی اور شریعت پر ہر حال میں عمل کیا جائے۔ اسلامی نقطۂ نظرسے جنگ کا اصل مقصد بالمقابل دشمن کو ہلاک کرنا اور اس کو نقصان پہنچانا نہیں ہے۔ بلکہ محض اس کے شر کو ختم کرنا ہے۔ قوت کااستعمال صرف انہی دشمنوں کے خلاف ہونا چاہیئے جو عملاً برسرپیکار ہوں یا حد سے تجاوز کرجائیں۔ اسلام نے دنیا میں رائج جنگی قوانین کے وحشیانہ طریقوں سے منع کیا ہے۔ اسلام نے ان غلط تصورات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے جو صدیوں سے رائج تھے۔ اسلام سے قبل لوگ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ جب مال و دولت کے لئے ، ملک کو فتح کرنے کے لئے، شہرت اور ناموری کے لئے، جنگ نہ کی جائے تو پھر جنگ کا کیا مقصد ہے۔۔۔؟ جس کے لئے انسان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے۔ 
چنانچہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلا کام یہ کیا کہ جہاد ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے معنی اور مقصد کا تعین فرمایا۔ اس بارے میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئی حدیثیں مروی ہیں۔

ایک شخص حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا:

’’کوئی شخص مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے جنگ کرتا ہے، کوئی بہادری دکھانے کے لئے جنگ کرتا ہے، یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! فرمائیے اس میں کون سی جنگ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف اس شخص کی جنگ قابل قبول ہے جو مخلصانہ طرزوں میں اللہ تعالیٰ کا بول بالاکرنے کے لئے جنگ کرے۔ ‘‘(بخاری شریف جلد دوم۔ حدیث 369)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’لڑائیاں دو قسم کی ہیں، جس شخص نے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جنگ کی اور امام کی اطاعت کی، اپنا بہترین مال خرچ کیا اور فساد سے پرہیز کیا تو اس کا سونا جاگنا سب اجر کا مستحق ہے اور جس نے دنیا دکھاوا اور شہرت کے لئے ناموری کے لئے جنگ کی اور امام کی نافرمانی کی اور زمین پر فساد پھیلایا تو اس کے لئے عذاب ہے۔ ‘‘(سنن ابو داؤد جلد دوم۔ حدیث 743) 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’قیامت کے دن سب سے پہلے تین قسم کے آدمیوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔ پہلا وہ شخص پیش کیا جائے گا جو لڑ کر شہید ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کا تذکرہ فرمائیں گے اور جب وہ ان کا اقرار کرلے گا تو اللہ تعالیٰ پوچھیں گے تونے میرے لئے کیا کیا؟ بندہ عرض کرے گا اللہ تعالیٰ میں نے آپ کیلئے جنگ کی، یہاں تک کہ میں شہید ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے:’’ تو نے جھوٹ بولا ہے تو نے اس لئے جنگ کی تھی کہ لوگ کہیں گے فلاں شخص بڑا طاقتور ہے، سو تیرا مقصد پورا ہوگیا۔ پھراللہ تعالیٰ اس کیلئے عذاب کاحکم دیں گے اور اسے منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘(جامع ترمذی جلد دوم۔ حدیث 264)

اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق اگر دنیاوی مقاصد کیلئے جنگ کی جائے تو جائز نہیں ۔

شہرت و ناموری کی طلب ، مال غنیمت کی طمع، شخصی اور قومی عداوت اور اس کا انتقام۔ غرض یہ کہ دنیا کی کوئی غرض ایسی نہیں جس کے لئے جنگ جائز ہو۔ جنگ محض اخلاقی اور دینی فرض ہے۔اسلام کی رُو سے جنگ صرف دوصورتوں میں جائز اور ضروری ہے ۔ ایک دفاع اور دوسری اصلاح۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’دین میں کسی طرح کا جبر نہیں۔اس لئے ہدایت گمراہی سے جدا ہے۔‘‘

(سورۃ البقرہ ۔ آیت256)

اسلام میں جنگ کا مقصد عقیدے کی آزادی اور دعوت تبلیغ میں آزادی اور امن وامان قائم رکھنا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے لڑتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنیوالوں کو پسند نہیں فرماتے۔ ‘‘ (سورۃ البقرہ۔ آیت 190)

جنگ کے قوانین 

۱۔ ایک مرتبہ میدان جنگ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک عورت کی لاش دیکھی۔ ناراض ہوکر فرمایا:’’یہ لڑنے والوں میں شامل نہیں تھی ۔‘‘ پھرسپہ سالار حضرت خالدؓ بن ولید کو طلب کیا اور ارشاد فرمایا:’’عورت اور اجیر کو ہرگز قتل نہ کرو۔‘‘
ایک اور روایت کے مطابق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عورتوں اور بچوں کے قتل عام سے منع فرمایا ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’کسی بوڑھے ضعیف کو قتل نہ کرو، چھوٹے بچے اور عورت کو قتل نہ کرو۔‘‘

فتح مکہ کے موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہدایت فرمادی تھی

’’کسی زخمی پر ظلم نہیں کرنا، کوئی جان بچاکر بھاگے تواس کا پیچھا نہیں کرنا اور جو اپنا دروازہ بند کرکے بیٹھ جائے اسے امان دینا۔‘‘
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے:

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب کسی محاذ پر فوج بھیجتے تھے تو ہدایت فرماتے تھے:

’’ بے ضرر خادموں کو اور خانقاہ میں رہنے والوں کو قتل نہ کرنا۔‘‘

۲۔ عرب راتوں کو آخر شب میں جب لوگ بے خبر سوتے ہیں اچانک حملہ کرتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو ختم کردیا اور قانون بنایا کہ صبح سے پہلے کسی دشمن پر حملہ نہ کیاجائے۔

۳۔ لوگ انتقام کی شدت میں آگ لگا دیتے تھے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس وحشیانہ عمل کو ختم فرمادیا۔‘‘(صحیح بخاری۔ جلد دوئم۔ حدیث 268)

۴۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دشمن کو باندھ کر قتل کرنے اور تکلیف دینے کی ممانعت فرمائی ہے۔

(صحیح بخاری جلد دوئم ۔ حدیث 269, 270)

۵۔ جب فوجیں کسی علاقے کو فتح کرتی ہیں تو فصلوں کو خراب کرنا، کھیتوں کو تباہ کرنا اور بستیوں میں قتل ان کے معمولات میں سے ہوتا ہے۔ مگر اسلام اس کو منع کرتا ہے۔ 

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

’’جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے، حالانکہ اللہ (جسے وہ گواہ بنا رہا تھا) فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ البقرہ ۔ آیت 205)
۶۔ دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا، ان کے اعضاء کی قطع و برید(جسم کے مختلف حصوں کوکاٹنا) کرنے سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فوجوں کو بھیجتے وقت ہدایت فرماتے تھے

’’بدعہدی نہ کرنا، غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا۔ ‘‘(ترمذی 162/4) 

۷۔ عرب کی جنگ میں بہت زیادہ شور ہنگامہ برپا ہوتا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی اجازت نہیں دی۔ 
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے

’’ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تھے اور جب کسی وادی میں پہنچتے تو زور و شورسے تکبیر و تہلیل کے نعرے بلند کرتے تھے ۔اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’لوگو! وقار کے ساتھ چلو، تم جس کو پکار رہے ہو وہ نہ بہرا ہے نہ غائب۔ وہ تو تمہارے ساتھ ہے، سب کچھ سنتا ہے اور بہت قریب ہے۔‘‘(بخاری کتاب۔ الجہاد۔ 16/4)

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان