Topics

نبوت کے بارہویں سال

نبوت کے بارہویں سال یثرب سے آنے والے لوگوں میں سے ۷۵ افراد نے اسلام قبول کیا اور اسلام کے لئے جان و مال قربان کرنے کے عہد کو دہرایا۔ جب یہ مسلمان مکہ پہنچ گئے تو در پردہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ رابطہ کیا اور آخرکار اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ دونوں فریق منیٰ میں عقبہ کے پاس جو گھاٹی ہے اس میں جمع ہوں اور یہ اجتماع رات کی تاریکی میں خفیہ طریقے پر ہو۔ 

اس اجتماع کے احوال انصارکے ایک قائد حضرت کعب بن مالکؓ اس طرح فرماتے ہیں:

’’ ہم لوگ حج کیلئے نکلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عقبہ میں ملاقات طے ہوئی اور بالآخر وہ رات آگئی جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات طے تھی۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک معزز سردار عبداللہ بن عمروبن حرام بھی تھے (جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے) ہم نے عبداللہ بن عمرو بن حرام سے کہا کہ ’’اے ابوجابر! آپ ہمارے ایک معزز اور شریف سربراہ ہیں اور ہم آپ کو آپ کے موجودہ حالات سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ آپ گمراہ نہ ہوجائیں۔ اس کے بعد ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور بتایا کہ آج عقبہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہماری ملاقات ہے ۔ عبداللہ بن حرام نے اسلام قبول کرلیا اور ہمارے ساتھ عقبہ تشریف لے گئے اور نقیب بھی مقرر ہوئے۔ 

ہم لوگ حسبِ دستور اس رات اپنی قوم کے ہمراہ اپنے خیموں میں سوئے لیکن جب تہائی رات گزر گئی تواپنے خیموں سے نکل کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ طے شدہ مقام پر پہنچ گئے۔ ہم سب ۷۵ آدمی تھے، ۷۳ مرد اور۲ عورتیں ۔ عورتوں میں ایک اُمِّ عمارہ ؓ نسیبہ بنت کعب تھیں جو قبیلہ بنو مازن بن نجار سے تعلق رکھتی تھیں اور دوسری اسماء بنت عمرو تھیں جن کا تعلق قبیلہ بنو سلمہ سے تھا۔ ہم سب گھاٹی میں جمع ہوکرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کاانتظار کرنے لگے اور آخر وہ لمحہ آ گیا جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب بھی تھے۔ وہ اگرچہ ابھی تک اپنی قوم کے دین پر ہی تھے مگر چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے معاملے میں موجود رہیں۔

مجلس مکمل ہوگئی تو دینی اور فوجی تعاون کو قطعی اور آخری شکل دینے کیلئے گفتگو کا آغاز ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچاحضرت عباسؓ نے فرمایا

’’خزرج کے لوگو! حضرت محمد( علیہ الصلوٰۃوالسلام )کی جو حیثیت ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ ہماری قوم کے وہ لوگ جو دینی نقطۂ نظر سے ہم سے متفق نہیں ہیں، ہم نے محمد( علیہ الصلوٰۃوالسلام) کوان سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ اپنی قوم اوراپنے شہر میں قوت و عزت اور طاقت و حفاظت کے ساتھ تشریف رکھتے ہیں۔ مگر اب تمہارے یہاں آنا چاہتے ہیں۔لہٰذا اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم انہیں جس مقصد کے لئے بلارہے ہو اسے پورا کروگے اور حضرت محمد( علیہ الصلوٰۃوالسلام )مخالفین سے محفوظ رہیں گے تب تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر تم انہیں اپنے پاس لے جانے کے بعد ان کا ساتھ چھوڑ دو گے تو پھر ابھی سے انہیں چھوڑ دو کیونکہ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں بہرحال حفاظت سے ہیں۔‘‘

حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عباسؓ سے کہا:

’’ آپ کی بات ہم نے سن لی۔ اب اے اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام! آپ گفتگو فرمائیں اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ہم سے جو عہدو پیمان چاہیں کرلیں ، ہم حاضر ہیں۔‘‘

اس کے بعد سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گفتگو فرمائی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے قرآن کی تلاوت کی اور اسلام کی دعوت دی ۔

بیعت کی دفعات

بیعت عقبہ کا واقعہ امام احمد ؒ نے تفصیل کے ساتھ روایت کیاہے۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے۔ ’’ہم نے عرض کیا:’’ اے اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام !ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کس بات پر بیعت کریں۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا

’’اس بات پرکہ 

۱۔ ہرحال میں بات سنوگے اورمانوگے ۔

۲۔ تنگی اورخوشحالی ہر حال میں مال خرچ کروگے۔

۳۔ بھلائی کاحکم دوگے ، برائی سے روکو گے ۔

۴۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوگے اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کی پروا نہیں کرو گے ۔ 

۵۔ جب میں تمہارے پاس آجاؤں گاتومیری مددکروگے اورجس طرح سے اپنی جان اوراپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو اس طرح میری بھی حفاظت کروگے۔

’’اورتمہارے لئے جنت ہے ۔‘‘

بارہ نقیب

بیعت مکمل ہوچکی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ تجویز رکھی کہ بارہ سربراہ منتخب کرلیے جائیں جو اپنی اپنی قوم کے نقیب ہوں اور اس بیعت کی دفعات پر عمل درآمد کیلئے اپنی اپنی قوم کے معاملات کے ذمہ دار ہوں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد پر فوراً ہی نقیبوں کا انتخاب عمل میں آگیا۔ ۹؍ نقیب خزرج سے منتخب کیے گئے اور ۳؍ نقیب اوس سے ۔ جب ان نقباء کا انتخاب ہوچکا تو ان سے، نقیب اور سردار ہونے کی حیثیت سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اور عہد لیا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’آپ لوگ اپنی قوم کے کفیل ہیں، جیسے حواری حضرت عیسیٰ ؑ کی جانب سے کفیل تھے اور میں اپنی قوم یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔‘‘ان سب نے کہا ’’جی ہاں‘‘۔ 

شیطان کی فتنہ انگیزی

معاہدہ مکمل ہوا ہی تھا کہ شیطان کو اس کا پتہ لگ گیا ۔ شیطان کو اس کی خبر بالکل آخری لمحات میں ہوئی تھی اور شیطان کے پاس اتنا موقع نہیں تھا کہ یہ خبر چپکے سے قریش کو پہنچادی جائے اور وہ اس اجتماع کے شرکاء پر حملہ کردیں۔ اسی لیے شیطان نے ایک اونچی جگہ کھڑے ہوکر نہایت بلند آوازسے پکار ا

’’خیمے والو ! محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام کودیکھو اس وقت بے دین اس کے ساتھ ہیں اورتم سے لڑنے کے لئے جمع ہیں ۔ ‘‘ 
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:’’یہ اس گھاٹی کا شیطان ہے۔ ‘‘

اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لوگوں سے فرمایاکہ وہ اپنے اپنے گھر چلے جائیں۔

قریش کا احتجاج

یہ خبر قریش تک پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ کیونکہ اس بیعت کے جو نتائج مرتب ہوسکتے تھے اس کا انہیں اچھی طرح اندازہ تھا۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی قریش کے ایک وفد نے اس معاہدے کے خلاف سخت احتجاج کیا

’’خزرج کے لوگو !ہمیں معلوم ہواہے کہ آپ لو گ محمد( علیہ الصلوٰۃوالسلام )کو لے جانا چاہتے ہیں اور ہم سے جنگ کرنے کے لئے ان کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں۔ حالانکہ کوئی عرب قبیلہ ایسا نہیں ہے جس سے جنگ کرنا ہمارے لئے اتنا زیادہ ناگوار ہو جتنا آپ حضرات سے ہے۔‘‘

قبیلہ خزرج کے دیگر لوگ اس بیعت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے کیوں کہ یہ مکمل رازداری کے ساتھ رات کی تاریکی میں ہوئی تھی۔ انہوں نے جواب دیا ’’ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں ہے۔ ‘‘

کفار کا تعاقب

قریش اس معاہدے کے بارے میں متفکر تھے بالآخر انہیں معلوم ہوگیا کہ بیعت کی خبر صحیح ہے۔ لیکن انہیں بیعت کی تصدیق اس وقت ہوئی جب حجاج اپنے اپنے وطن روانہ ہوچکے تھے۔ قریش نے تیز رفتاری کے ساتھ اہلِ مدینہ کا پیچھاکیا لیکن موقع نکل چکا تھا۔ البتہ حضرت سعدؓ بن عبادہ کو انہوں نے پکڑلیا اور مکہ لے گئے۔پورے راستے انہیں مختلف اذیتیں دیتے رہے۔ لیکن بعد میں جبیر بن معطم اور حارث بن امیہ نے آکر انہیں چھڑا دیا۔ 

ہجرتِ مدینہ

ہجرت کا مطلب ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر جان بچالی جائے۔ چنانچہ مسلمان مال و متاع چھوڑ کر مکہ سے مدینہ چلے گئے۔ 
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’مجھے تمہارا مقام ہجرت دکھایاگیا ہے یہ دو پہاڑیوں کے درمیان واقع ایک نخلستانی علاقہ ہے۔‘‘

مدینہ کا محل وقوع

مدینہ بلندی پرواقع ہے اس کے شمال اورجنوب میں دو پہاڑ ہیں۔ مدینے کے تین طرف یعنی مشرق ، مغر ب اورجنوب میں منجمد شدہ آتش فشاں پھیلا ہواہے ۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ 277 میل( 445 کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں جبل احد اور جنوب میں جبل عیر واقع ہیں۔ مشرقی جانب حرہ واقم اور مغربی جانب حرہ الوبر ہے۔ شہرمدینہ پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع مستطیل ہے۔ یہ علاقہ انتہائی زرخیز اور شاداب ہے۔ آب و ہوا معتدل اور خوشگوار ہے اور پانی ہلکا اور شیریں ہے۔وہاں جزیرۃ العرب کے دوسرے علاقوں کی نسبت بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ مدینے کے جنوب مشرق اور شمال مشرق میں کھجور کے گھنے باغات تھے۔ ساحل سمندر سے زیادہ فاصلہ نہیں۔ یمن اور شام کے درمیان کی قدیم تجارتی شاہراہ امام المبین یہیں سے ہوکر گزرتی تھی۔ جوفِ مدینہ میں پانچ زرخیز وادیاں تھیں:

۱۔ مذینیب ۲۔ مہزور ۳۔ زانونا ۴۔ بطحان ۵۔ قناۃ 

وادیوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی بستیوں کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ بستیاں ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واقع تھیں۔ بستیوں کے اس مجموعہ کو یثرب کہا جاتا تھا۔ 

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان