Topics

جنگ خیبر

’’ خیبر‘‘ایک بڑی آبادی یا شہر کا نام ہے۔ یہاں یہودیوں نے کئی مضبوط قلعے بنا رکھے تھے۔ یہ نہایت ہی زرخیز علاقہ ہے۔ کھیتی باڑی اور اجناس خورد و نوش اس جگہ کثرت سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس علاقے کی آب و ہوا قدرے غیر صحت مندہے۔ خیبر سرزمین عرب پر یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا۔اہلِ حق نے جب یہودیوں کو بد عہدی، جھوٹ ا ور فریب کے جرم میں مدینہ سے جلاوطن کیا توقبیلہ بنونضیر خیبر میں آکر آباد ہوگئے تھے۔خیبر کے یہودی بہادر اور طاقت ور تھے، مسلّح تھے، دولت مند تھے۔ خیبر کی سونا اُگلتی زمینوں اور سر سبز و شاداب نخلستانوں کی وجہ سے ان کی معاشی حالت بہت اچھی تھی، آمدنی (income) وافر تھی۔ آمدنی کا اکثر حصہ اہل اسلام کو نقصان پہنچانے اور ان کو تباہ و برباد کرنے کی سازشوں میں خرچ ہوتا تھا۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حدیبیہ کے سفرسے ذوالحجہ ۶ھ ؁ میں مدینہ طیبہ واپس تشریف لے آئے۔ یہاں آکر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خیبر کے یہودیوں کی سازشوں کے بارے میں آگاہی ہوئی کہ صلح حدیبیہ کے باوجود انہوں نے اپنی عداوت کے طور طریقے نہیں بدلے۔ وہ لوگ بدستور مسلمانوں کے تجارتی قافلوں کو خیبر کے مضافات سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ تاکہ مسلمان شمالی ملکوں سے اقتصادی رابطہ قائم نہ کرسکیں۔ یہود کی ریشہ دوانیوں کو ختم کرنے کے لئے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فیصلہ کیا کہ خیبر کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ لہٰذا مدینہ طیبہ میں بیس پچیس روز قیام کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت سباع بن عرفطہ غفاری ؓ کو مدینہ طیبہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ اسلامی فوج کے سپہ سالار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود تھے۔ اسلامی لشکر کی تعداد سولہ سو(۱۶۰۰) تھی جن میں سے چودہ سو پیدل اور دو سو گھوڑے سوار تھے۔

خواتین کی شرکت

غزوہ خیبر میں کچھ خواتین بھی شریک سفر ہوئیں۔ چند خواتین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام غزوہ خیبر میں یہودیوں کے خلاف جنگ کے لئے تشریف لے جارہے ہیں ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمیں بھی اپنے ہمراہ لے جائیں تاکہ ہم میدان جنگ میں زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی کرسکیں۔ انہیں وقت پر دوا اور پانی دے سکیں۔ ہم لڑائی کے دوران تیر اُٹھا اُٹھا کر لائیں گی اور مجاہدین کو دیں گی۔ اس طرح ہم سپاہیوں کی مدد کریں گی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کا یہ جوش اور جذبہ دیکھتے ہوئے اجازت عطافرمادی۔

جائے قیام کا انتخاب

خیبر سے تھوڑے فاصلے پر بنو غطفان کے قبائل آباد تھے۔ یہ قبائل یہودیوں کے معاون اور مددگار تھے۔ غزوہ خندق میں بھی یہ مسلمانوں کے خلاف رہے تھے ۔جب بنو غطفان کو اطلاع ملی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خیبر پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہوگئے ہیں تو انہوں نے اپنے جنگجو جوانوں کو جمع کیا تاکہ اہل خیبر کی مدد کے لئے روانہ ہوں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلیٰ حربی بصیرت سے کام لیتے ہوئے لشکر گاہ کے لئے ایسی جگہ منتخب فرمائی کہ خیبر اور غطفان کا درمیانی راستہ کاٹ ڈالا تاکہ بنو غطفان ، اہل خیبر کی مدد نہیں کرسکیں۔دوسری جانب بنو غطفان خیبر کی طرف ایک منزل طے کرچکے تو انہیں شور سنائی دیا وہ سمجھے کہ مسلمانوں نے ان کے اہل و عیال پر حملہ کردیا ہے۔ اس خیال سے وہ خوفزدہ ہوگئے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ خیبر کے یہودیوں کی امداد کے لیے آگے بڑھنے کے بجائے اپنے اہل و عیال کی حفاظت کریں۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا

دوران سفر ایک دن صحابہ کرامؓ نے جوش میں آکر نہایت بلند آواز سے نعرۂ تکبیر بلند کرنے شروع کردیئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا

’’آہستہ ۔۔۔ تم نہ کسی بہرے کو پکار رہے ہو، نہ غائب کو۔ تم جسے پکار رہے ہو وہ تمہارے پاس ہی ہے۔‘‘

جب یہ کاروان حدود خیبر میں داخل ہوا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کاروان کو قیام کا حکم دیا، سب ٹھہر گئے اور یہ دعا فرمائی:
’’
یا اللہ! آسمانوں اور جن چیزوں پر آپ سایہ فگن ہیں ان کے رب۔ اے سات آسمانوں اور جو انہوں نے اوپر اٹھایا ہوا ہے۔ ان سب کے رب! ہواؤں اور جن کو وہ اُڑا رہی ہے ان کے رب! ہم آپ سے ان کے اس گاؤں کی خیر اور اس کے باشندوں کی خیر کا سوال کرتے ہیں اور ہم اس گاؤں کے شر اور اس کے رہنے والوں کے شر سے پناہ مانگتے ہیں۔‘‘ 

پھر فرمایا:

’’اقدموا بسم اللّٰہ‘‘

اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو۔

خیبر کا محلِ وقوع

خیبر کا قلعہ بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم تھا اورہر حصہ متعدد قلعوں پر مشتمل تھا۔

۱۔حصون النطاۃ ۔۔۔اس حصہ میں تین قلعے تھے:

الف۔ الناعم        ب ۔ الصعب             ج۔ قلۃ زبیر

۲۔ حصون الشق ۔۔۔ا س حصے میں دو قلعے تھے۔

الف ۔ حصن ابی                   ب۔ حصن براء۔اس قلعہ کو البرید بھی کہاجاتاتھا۔

۳۔حصون الکتیبہ۔۔۔اس حصے میں تین قلعے تھے ۔

الف ۔ حصن القموص           ب۔ الوطیح ج ۔

سلالم

یہودی اپنے اپنے قلعوں میں مورچہ بند ہوگئے۔ انہوں نے اپنے اہل و عیال کو ’’الکتیبہ کے قلعے‘‘ میں ٹھہرا دیا۔اسی قلعے میں مال و اسباب کو بھی محفوظ کردیا۔ غلّے کے انبار اور اسلحہ کے ذخائر ’’قلعہ الناعم‘‘ میں جمع کردیئے گئے۔

جنگ کا آغاز

سب سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نطاۃ کے قلعوں کو فتح کرنے کا عزم فرمایا اور نطاۃ کے قلعوں میں سب سے پہلے قلعہ الناعم کا محاصرہ کیا اور جلد ہی الناعم کے بعد دوسرے قلعے بھی فتح ہوگئے۔ البتہ القموص نہایت مستحکم اور مضبوط قلعہ تھا اس کو فتح کرنا ایک مسئلہ بن گیا۔ ہر صبح مسلمان اس قلعے پر حملہ کرتے اور شام کو واپس آجاتے۔ کئی دن تک اس کا محاصرہ جاری رہا۔خیبر کی مضر آب و ہوا کے باعث حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بیمار ہوگئے توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا پرچم حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو عطا فرما دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فوج کی کمان سنبھال لی اور قلعہ پر حملہ کیا لیکن شدید مزاحمت کے باوجود کامیابی نہیں ہوئی۔ خراب موسم کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ ؓ بیمار ہوگئے۔ دوسرے روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی جگہ حضرت عمر ؓ کو فوج کی قیادت سونپ دی اور پرچم ان کے حوالے کردیا۔ مگر مضبوط قلعوں پر کوئی ضرب نہیں پڑسکی۔ 

فاتح خیبر

یہ صورت حال جب سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے عرض کی گئی توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’
کل میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس قلعے کو فتح فرمادیں گے۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد گرامی سب مجاہدین نے سن لیا۔ انکی یہ رات پیچ و تاب میں گزری۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ یہ سعادت اس کو نصیب ہو۔ جب صبح ہوئی تو سارے مجاہدین بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے۔ وہ یہ جاننے کیلئے ازحد بے قرار تھے کہ وہ کون خوش نصیب ہے جس کو آج پر چم عطا کیا جائے گا؟آشوبِ چشم کی وجہ سے حضرت علیؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ طیبہ سے روانہ ہوگئے تو حضرت علیؓ نے سوچا’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جہاد پر تشریف لے جائیں اور میں پیچھے رہ جاؤں بخدا !ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔‘‘چنانچہ حضرت علی ؓ خیبر تشریف لے آئے اور حالت یہ تھی کہ آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز جمعہ ادا فرما چکے تو جھنڈا منگوایا اور پوچھا:

’’علی ؓ کہاں ہے؟‘‘

عرض کیا :’’ ان کی دونوں آنکھیں دُکھ رہی ہیں اس لیے یہاں موجود نہیں۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں بلایا۔ جب حضرت علی ؓ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے سامنے تشریف لائے تو عرض کیا :’’مجھے نظر نہیں آتا۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’میرے نزدیک آجاؤ۔‘‘

سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں:’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرا سر اپنی گود میں رکھا اور لعاب دہن میری آنکھوں پر لگایا، تو اسی وقت میری آنکھیں ٹھیک ہوگئیں۔اور مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا پرچم عطا فرما دیا اور ہدایت فرمائی کہ پہلے دشمنوں کو اسلام کی دعوت دینا اور انہیں اللہ تعالیٰ کے حقوق سے آگاہ کرنا اگر تمہاری تبلیغ سے کوئی ایک آدمی بھی راہِ راست پر آگیا تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔حضرت علیؓ رخصت ہوکر قلعے کے سامنے تشریف لے گئے اور جاکر اپنا جھنڈا نصب کردیا۔ ایک یہودی نے اس قلعے کی چھت سے جھانکا اور پوچھا:’’آپ کون ہیں؟‘‘حضرت علیؓ نے فرمایا:’’میں علی ہوں۔ ‘‘یہودی کے منہ سے نکلا:’’اس خداکی قسم! جس نے موسیٰ ؑ پر توریت نازل کی آپ یہودیوں پر غالب آجائیں گے۔‘‘

مبارزت

یہودیوں نے حضرت علیؓ کی دعوت اسلام کو مسترد کردیا اور لڑائی کیلئے مدمقابل آگئے اور اپنا جنگجو آگے بھیجا۔ حضرت علیؓ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے آگے بڑھے اور پلک جھپکنے میں اس کا کام تمام کردیا۔ اس طرح یہودیوں کی طرف سے کئی جانباز جنگجو آئے اور کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ جنگ خیبر کے دوران حضرت علیؓ نے دس دن میں چار قلعوں کو فتح کیا۔ جبکہ بقیہ قلعوں میں رہنے والوں نے خود ہی ہتھیار ڈال دیئے۔

’’اور اس نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا وہ علاقہ دیا جہاں تم نے کبھی پیر بھی نہیں رکھا تھا وارث بنادیا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب ۔ آیت 27)

فتح خیبر کے بعد

فتح خیبر کے بعد پیغمبر اسلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہودیوں کے ساتھ مہربانی اور عفو و درگزر فرمایا۔ انہیں اجازت دے دی گئی کہ وہ خیبر چھوڑ کر چلے جائیں اور ساتھ گھریلو سامان لے جا سکتے ہیں۔ کھجوریں، مویشی اور غلہ اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جو یہودی خیبر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے انہیں وہاں رہنے کی اجازت مل گئی اور یہ رعایت بھی حاصل ہوگئی کہ وہ اپنا کاروبار کر سکتے ہیں۔ یہودیوں کی تمام مقدس کتابیں اور دوسرے اہم کاغذات بھی لوٹا دیئے گئے۔

اہمیت و نتائج

۱۔ خیبر کی فتح سے اسلام کی ملکی اور سیاسی حالت کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اسلام کے حقیقی دشمن صرف دو تھے۔ مشرکین اور یہود۔ اگرچہ مذہباً باہم مختلف تھے لیکن سیاسی اسباب کی بنا پر ان میں اتحاد پیدا ہوگیا تھا۔ یہودیوں نے تمام عرب کو اسلام کی مخالفت پر اُکسایا تھا۔ جس کا پہلا مظہر خندق کا معرکہ تھا۔ لیکن خیبر کی فتح کے بعد یہود کی قوت بالکل ٹوٹ گئی اور مشرکین کا ایک بازو جاتا رہا۔ 

۲۔ غزوہ خیبر سے پہلے تمام جنگیں دفاعی ہوئیں۔ یہ پہلی اقدامی جنگ تھی۔ یہ پہلا علاقہ ہے جسے فتح کرکے اسلامی ریاست میں شامل کیا گیا۔ 

۳۔ فتح خیبر کے بعد اسلامی ریاست کو یہ حق حاصل ہوگیا کہ وہ جب چاہیں جس وقت چاہیں یہود کو یہاں سے نکال سکتے ہیں۔ اس لئے یہود اپنی شرارتوں سے باز آگئے۔

۴۔ فتح خیبر کے بعد اگر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام چاہتے تو عرب کے جنگی دستور کے مطابق یہودیوں کو قتل کرواسکتے تھے لیکن حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان سب کو آزاد کردیا۔ اس حسن سلوک سے بعض لوگ مسلمان ہوگئے۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان