Topics

اُردو زبان میں سیرت نگاری

اردو میں سیرت النبیؐ کی منظوم ابتدا تو گیارہویں صدی ہجری میں ہو چکی تھی لیکن اردو نثر کے ارتقائی سفر میں سیرتِ محمدیؐ پر کتب کی تصنیف و تالیف تیرہویں صدی ہجری سے ہوئی جب محمد باقر آگاہ (۱۲۲۰ ھ)اور قاضی بدرالدولہ (۱۲۸۰ھ) نے سیرت نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بالترتیب ’’ریاض السیر‘‘ اور ’’فوائد بدریہ‘‘ تصنیف کیں۔اس دور کی سیرت کی کتابوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سید شاہ علی اپنی کتاب ’’اردو میں سوانح عمری ‘‘میں لکھتے ہیں،

’’مذہبی سوانح عمریوں میں سب سے پہلے پیغمبرِ اسلام کی سیرت پرغور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں ایک قسم ان قدیم وضع کی تصانیف کی ہے جو عربی و فارسی تصانیف کے انداز پر ہیں یا اُنسے ماخوذ ہیںیا ترجمہ کی گئی ہیں۔تیرہویں صدی ہجری میں ہی عربی اور فارسی کی بعض مشہور کتبِ مغازی و سیر کے اردو میں ترجمے کئے گئے، جیسے عربی کتاب مغازی کا ترجمہ ’’شوکتِ اسلام‘‘ کے نام سے ہوا۔ واقدی کی کتاب المغازی کے کئی تراجم کئے گئے جن میں سے ایک مولوی بشارت علی خاں کا ’’مغازی الصادقہ (ترجمہ مغازی رسولؐ)‘‘ کے نام سے اردو ترجمہ ۱۲۸۹ہجری میں ہوا۔ اسی طرح حافظ ابن قیّم جوزی کی ’’زادالمعاد‘‘ کے چند اجزا کا ترجمہ نواب مصطفےٰ خاں شیفتہ نے کیا۔ اسی دور میں فارسی کی عظیم الشان کتابِ سیرت ’’مدارج النبوۃ ‘‘(شیخ عبد الحق محدث دہلوی) کا اردو ترجمہ منہاج النبوۃ کے نام سے خواجہ عبد الحمید نے کیا جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ تینوں ترجمے لکھنؤ سے شائع ہوئے۔

سیرت نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر دنیا بھر کے مسلمان اسکالرز نے کتابیں لکھیں اور لکھ رہے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں غلامان مصطفی علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اس سلسلہ کو جاری رکھا۔ سر سید احمد خان کے ’’خطبات احمدیہ‘‘،مولانا حالی کے ’’مولود نامے‘‘ کے علاوہ ’’معراج نامے‘‘، ’’شمائل نامے‘‘، ’’نورنامے‘‘ لکھے گئے۔۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی میں جب علمائے اسلام کو کالے پانی کی سزائیں دی جا رہی تھیں عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم کے اظہار کا سلسلہ اسوقت بھی جاری رہا۔مفتی محمد عنایت کاکوری نے ایام اسیری میں سیرت پر بہترین کتاب ’’تواریخ حبیب اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘ لکھی۔ 

بیسوی صدی کے نصف اول میں بعض غیر مسلم مصنفین نے بھی سیرت رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام پر قلم اُٹھایا۔لکشمن پرشاد کی کتاب ’’عرب کا چاند‘‘،پنڈت سندر لال کی کتاب’’حضرت محمد اور اسلام‘‘، شردھے پرکاش کی کتاب ’’حضرت محمد صاحب‘‘،جے ایس دارا کی تصنیف ’’رسولِ عربی‘‘ سیرت نگاری کے تذکرہ میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اسی دورمیں مسلم مفکرین کی سیرت سے متعلق چند ایسی تصانیف سامنے آئیں جنہیں عوام میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کی پانچ جلدوں پر مشتمل مشترکہ کتاب ’’سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ‘‘ عوام و خواص میں مقبول ہوئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی ’’نشر الطیب‘‘، مولانا ثناء اللہ امرتسری کی ’’مقدس رسول ؐ ‘ ‘، مولانا ادریس کاندھلوی کی ’’سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ‘‘، ڈاکٹر حمیداللہ کی ’’رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیاسی زندگی‘‘، مفتی محمد شفیع کی ’’آداب النبی ؐ ‘‘، پیر کرم شاہ الازہری کی ’’ضیاء النبیؐ ‘‘، حکیم سعید کی ’’دانائے سبل‘‘، صفی الرحمن مبارکپوری کی ’’الرحیق المختوم‘‘ نے سیرت نگاری کی تاریخ و روایت کو برصغیر پاک و ہند میں عالمانہ شان کے ساتھ آگے بڑھایا۔
دنیامیں آج تک کسی بھی انسان کی سیرت پراتنی کتابیں نہیں لکھی گئیں اور نہ اتنا تحقیقی کام ہوا جتناحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت طیبہ پر ہواہے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حالات زندگی پر لکھنے والے سیرت نگاروں میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم سیرت نگار بھی بکثرت ہیں۔مشرق و مغرب کی علمی زبانوں میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت مبارکؐ پرتقریباً 56000 کتابیں لکھی گئیں ہیں۔
رحمتہ اللعالمین حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت طیبہ پر چودہ سو سال کے عرصے میں سیرت نگاروں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں اور سیرت نگاروں نے حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی حیات طیبہ کے ہر گوشے کو اُجاگر کیا ہے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایاہے:

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسے مجھ سے اپنے والدین اور عزیز واقارب سے زیادہ محبت نہ ہوجائے۔‘‘ (صحیح بخاری۔ جلد اول۔ حدیث نمبر 14,13)

ایک محتاط اندازے کے مطابق چودہ سو سال سے اب تک سیرت النبیؐ 100 مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر لکھے گئے رسائل، مقالات ، خطبات، ریسرچ مقالہ جات اور کتابچے اس کے علاوہ ہیں۔ سیرت النبی پر لکھی گئی پہلی کتاب کانام مغازی، عروہ بن زبیر ہے جبکہ دوسری کتاب سیرت ابن اسحق ہے۔پھر اسلام کاسورج عجم اور دنیا کے مختلف ممالک میں طلوع ہوا۔ غیر عرب لوگوں نے اسلام قبول کیا۔یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ خود رب کریم نے فرمایا ہے:

’’اے رسول (علیہ الصلوٰۃوالسلام)!ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا ہے۔‘‘

(سورۃ النشرح۔ آیت 4)

پاکستان، ہندوستان، انگلستان، انڈونیشیا، ملائشیا، عرب امارات، چین، جاپان، روس اور دیگر ممالک میں سیرت طیبہؐ پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی صحیح تعداد معلوم کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک ہماری معلومات ہیں ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:
پاکستان میں اب تک سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتب کی تعداد تقریباًدوہزارپانچ سو ہے جو اُردو ، انگریزی، عربی، پنجابی، سرائیکی، گوجری، سندھی، پشتو، بلوچی، ہندکو زبانوں میں لکھی گئی ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں 5000
؍ تا 8000؍زبانیں بولی جاتی ہیں، اِن میں سے 116سرکاری زبانیں ہیں۔جن میں سے 100؍سے زائد زبانوں میں سیرت النبیؐ لکھی گئی ہے۔سیرت طیبہ علیہ الصلوٰۃوالسلام سے متعلق جو کتابیں تفصیلاً یا اجمالاً مجھ عاجز بندے خواجہ شمس الدین عظیمی نے مطالعہ کی ہیں،ان کی تفصیل درج ذیل ہے: 

قرآن حکیم زبور انجیل

توریت صحیح بخاری مشکوٰ ۃ شریف

صحیح مسلم سنن ابن ماجہ ابن داؤد

13خواتین اسلام کی دینی اور علمی خدمات

 

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان