Topics

حضرت داؤد علیہ السلام

حضرت داؤد ؑ یروشلم کے ایک گاؤں ’’بیت اللحم ‘‘میں رہتے تھے۔آٹھ بھائیوں میں سب سے چھوٹے بھائی تھے۔ بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ رنگ انار کی طرح سرخ تھا۔ آنکھیں گول تھیں، چہرے پر ہلکی خشخشی داڑھی تھی۔ قد چھوٹا تھا لیکن نہایت وجیہہ تھے۔ بہادر اور طاقت ور تھے۔ جواں مردی کا یہ عالم تھا کہ شیر یا بھیڑیا اگر بکریوں اور بھیڑوں پر حملہ آور ہوتا تو آپؑ اسے مارڈالتے تھے۔

فلاخن 

حضرت داؤد ؑ فلاخن (رسی کا وہ پھندا جس میں پتھر رکھ کر شکار کرتے ہیں۔ اس کو گوپھن بھی کہتے ہیں) چلانے میں ماہر تھے ۔ فلاخن اور عصا ہر وقت ہاتھ میں رہتا تھا۔ فلاخن چلانے میں حضرت داؤد ؑ کی مہارت کا چرچہ عام تھا۔ فلاخن اتنی طاقت سے پھینکتے کہ جس پر بھی گرتا تھا، وہ بے ہوش یا ہلاک ہوجاتا تھا۔ گفتگو نہایت شیریں تھی۔ مہذب اور باادب تھے۔ پورے علاقے میں آپؑ کی قدر و منزلت تھی۔ بانسری اور بربط بجانے میں آپؑ کو کما ل حاصل تھا۔حضرت طالوت ؑ کے دربار تک آپ ؑ کی رسائی تھی۔ آپ ؑ نے عبرانی موسیقی، مصری اور بابلی مزامیر کو ترقی دیکر نئے نئے آلات ایجاد کئے۔حضرت سموئیل ؑ کو عمر کے آخری حصے میں وحی کے ذریعے حضرت داؤد ؑ کی نبوت اور بادشاہت کی بشارت دے دی گئی تھی۔ حضرت سموئیل ؑ بیت لحم تشریف لائے اور حضرت داؤد ؑ سے ملاقات کرکے انہیں خیر و برکت کی دعا دی۔

سپہ سالار جالوت

حضرت طالوت ؑ اور جالوت کی کثیر التعداد فوج کا جب آمنا سامنا ہوا تو فوج کا سپہ سالار جالوت زرہ اور خَود پہن کر میدان میں اترا اور رعب دار آواز میں للکارا۔آواز سے میدان جنگ میں گونجار پیدا ہوگئی۔ جب مد مقابل کوئی نہیں آیا تو حضرت داؤد ؑ نے حضرت طالوت ؑ سے اجازت طلب کی اور میدان میں آگئے۔ آپ ؑ کے ہاتھ میں نہ تلوار تھی نہ برچھی۔ ایک ہاتھ میں لاٹھی تھی اور دوسرے ہاتھ میں فلاخن اور کندھے پر سنگریزوں سے بھرا ہوا تھیلا تھا۔نو عمر اورکم قد و وقامت کے نوجوان کو دیکھ کر جالوت نے قہقہہ لگایا اور تمسخر سے بولا!
’’
کیا تو مجھے کتا سمجھ کر ڈنڈے سے بھگانے آیا ہے۔‘‘

حضرت داؤد ؑ نے تھیلے میں سے پتھر نکالا اور فلاخن میں رکھ کر جالوت کی طرف پھینکا۔ جیسے ہی پتھر لگا کبر و نخوت کا پتلا، دیوہیکل جالوت منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ حضرت داؤد ؑ آگے بڑھے اور اس کی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا۔فلسطینی فوج اپنے سردار کا کٹا ہوا سر دیکھ کر سراسیمہ ہوگئی۔ حضرت طالوتؑ کی فوج نے حواس باختہ دشمن پر حملہ کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر انکو فتح عطا فرمادی۔
شجاعت، بہادری اور جوانمردی کی وجہ سے حضرت داؤد ؑ کو بنی اسرائیل میں انتہائی مقبولیت حاصل ہوئی۔ حضرت طالوت ؑ نے اپنی بیٹی عینیاہ کی شادی حضرت داؤد ؑ سے کردی۔ اور ایک ہزار فوجی جوانوں کا دستہ آپ ؑ کی کمان میں دے دیا۔ 

’’اے داؤد! ہم نے کیا تجھ کو نائب ملک میں، سو تو حکومت کر لوگوں میں انصاف سے اور خواہش کی پیروی نہ کر کہ تجھ کو بھٹکادے اللہ کی راہ سے ، جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں انکو سخت عذاب ہے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلادیا۔‘‘(سورۃ ص۔آیت26)

جس وقت حضرت داؤد ؑ سردار مقرر ہوئے اس وقت آپؑ جزیرہ نما سینا کے جنوبی حصے میں مقیم تھے۔ حضرت داؤد ؑ نے وہاں کے امیر نابال کو پیغام بھیجا کہ:

’’جس اللہ نے تجھے وسائل اور مال و زر سے نوازا ہے اس کی راہ میں، اس کے دئیے ہوئے مال میں سے خرچ کر۔‘‘ نابال نے پیغام لانے والوں کیساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ بری طرح پیش آیا۔حضرت داؤد ؑ کو یہ بات ناگوار گزری اور آ پ ؑ چار سو جوانوں کے ساتھ نابال کی سرکوبی کیلئے روانہ ہوگئے۔ نابال کی بیوی دانشمند عورت تھی۔ اس نے تحائف اور دعوت کا اہتمام کیا اور حضرت داؤد ؑ سے ملاقات کرکے اپنے شوہر کی غلطی کی معافی مانگی۔حضرت طالوت ؑ کی وفات کے بعد حضرت داؤد ؑ نبوت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت داؤد ؑ ان نبیوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا فرمائی۔

علم و حکمت

حضرت داؤد ؑ کی شجاعت، علم و حکمت اور فکر و تدبر سے بنی اسرائیل کا شمار جلد ہی دنیا کی مہذب اقوام میں ہونے لگا۔ بہت سے علاقے بنی اسرائیل کے زیر تسلط آگئے اور ایک عالیشان سلطنت وجود میں آگئی۔ حضرت داؤد ؑ نے شرعی حدود جاری کیں۔ کافروں اور مشرکوں سے جہاد کیا۔ بنی اسرائیل کے مختلف قبائل میں باہمی تعلق کو استوار کیا اور بندگان خدا کو نیکی کی تلقین کی۔ اللہ تعالیٰ نے آ پؑ کو کمال درجے کا فہم وادراک اور عقل و دانش عطا فرمائی تھی۔

’’اور ہم نے ان کی سلطنت کو مستحکم کیا اور ان کو حکمت عطا کی اور بات کا فیصلہ کرنا سکھایا۔‘‘(سورۃ ص۔آیت 20)

حضرت داؤد ؑ کا معمول تھا کہ آپ ؑ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ نہیں رکھتے تھے اور رات کو عبادت کرتے تھے۔حضرت داؤد ؑ کو زبور عطا ہوئی۔ زبور کے لغوی معنی ٹکڑے کے ہیں۔ یہ کتاب تورات کے اصول و قوانین پر مبنی ہے۔ زبور پانچ کتابوں پر مشتمل ہے ہر کتاب میں متعدد ’’مرموز‘‘ ہیں۔ ہر مرموز اللہ کریم کی حمد و ثنا، عاجزی اور دنیا و آخرت میں بھلائی اور اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی دعاؤں پر مشتمل ہے۔

تکوین
حضرت داؤد ؑ کے ساتھ پہاڑ اور چرند پرند حمد پڑھتے تھے۔حضرت داؤد ؑ بہت خوش الحان تھے۔ جب آپ ؑ لحن کے ساتھ زبور کی تلاوت کرتے تھے تو چلتا پانی ٹھہر جاتا تھا۔ اڑتے ہوئے پرندے آپ ؑ کے قریب آکر بیٹھ جاتے تھے۔ پہاڑ اور چرند پرند آپ ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تسبیح کرتے تھے۔

’’ہم نے تابع کئے پہاڑ، اس کے ساتھ پاکی بولتے شام کو اور صبح کو اور اڑتے جاندار جمع ہوکر، سب تھے اس کے آگے رجوع رہتے۔ ‘‘ (سورۃ ص۔آیت18تا19)

شاہ ولی ؒ اللہ فرماتے ہیں

حضرت داؤد ؑ کے ہمراہ پرندوں اور پہاڑوں کے تسبیح کرنے کی توجیہہ ہے کہ قوی ہمت والا نفس جب کسی کیفیت سے بھر جاتا ہے تو اس کے قریب رہنے والے نفوس میں بھی اس کی کیفیت سرائیت کرتی ہے اور جب وہ کسی پتھر یا درخت سے کچھ سنتا ہے تو اس کی قوت دوسرے لوگوں میں بھی سرایت کرتی ہے اور پھر وہ بھی اسی طرح سنتے ہیں جس طرح اس نے سنا تھا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا، اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی(یہی حکم ہے)۔ اور ہم نے اس کیلئے لوہا نرم کردیا ۔ کہ تو پوری پوری زرہیں بنا اور جوڑوں میں اندازہ رکھ تو تم سب نیک کام کیا کرو۔ میں تمہارے اعمال دیکھ رہا ہوں۔‘‘
(سورۃ سبا۔آیت10تا11)

درخت گفتگو کرتے ہیں

علم لُدّنی کے عالم قلندر بابا اولیاء ؒ کتاب تذکرہ تاج الدین باباؒ میں لکھتے ہیں:

۱۔ یہ قانون بہت فکر سے ذہن نشین کرنا چاہئیے کہ جس قدر خیالات ہمارے ذہن میں دور کرتے رہتے ہیں ان میں بہت زیادہ ہمارے معاملات سے غیر متعلق ہوتے ہیں ان کا تعلق قریب اور دور کی ایسی مخلوق سے ہوتا ہے جو کائنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں اس مخلوق کے تصورات لہروں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔انا کی لہروں کے بارے میں چند باتیں فکر طلب ہیں سائنسدان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہے کہ زمانی و مکانی فاصلوں کو منقطع کردے البتہ انا کی لہریں لاتناہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہیں۔ زمانی مکانی فاصلے ان کی گرفت میں رہتے ہیں۔

۲۔ انسانوں کے درمیان ابتدائے آفرینش سے بات کرنے کا طریقہ رائج رہا ہے آوازوں کی لہریں سننے والوں کو مطلع کرتی رہتی ہیں ۔دیکھا گیا ہے کہ گونگا بہرا آدمی اپنے ہونٹوں کی جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو اپنا حال بتادیتے ہیں۔ درخت بھی آپس میں گفتگو کرتے ہیں یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں میں نہیں ہوتی بلکہ دور دراز ایسے درختوں میں بھی ہوتی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہی قانون جمادات میں رائج ہے، کنکروں، پتھروں، چرند پرند میں رائج ہے۔ مٹی کے ذرات میں بھی مِن و عِن اس ہی طرح تبادلۂ خیال ہوتا ہے۔ حضرت داؤد کے ساتھ چرند پرند اور پہاڑ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے تھے اُس میں بھی یہ ہی قانون کارفرما ہے۔

۳۔ ساری کائنات میں ایک ہی لاشعور کارفرما ہے اس کے ذریعے غیب و شہود کی ہر لہر دوسری لہر کے معنی سمجھتی ہے چاہے یہ دونوں لہریں کائنات کے دونوں کناروں پر واقع ہوں۔ تفکر اور مسلسل توجہ کے ساتھ ہم پیغمبروں اور سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز فکر حاصل کرکے اپنے سیارے اور دوسرے سیاروں کے احوال سے باخبر ہوسکتے ہیں۔ انا کی لہروں کا علم حاصل کرکے چرند، پرند، اشجار، پہاڑ اور کائنات میں بسنے والی ایک مخلوق یا بے شمار مخلوقات کی زبان سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ کے لئے جدوجہد کرنے اور مستقل مزاجی کے ساتھ مسلسل توجہ دینے سے ’’ذہن‘‘ کائناتی لاشعور میں تحلیل ہوجاتا ہے۔

ایجادات 

اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا فرمائی تھی۔ حضرت داؤدؑ لوہے کو ہاتھوں کے ذریعے ڈھالنے پر ملکہ رکھتے تھے۔ آثار قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ لوہے کا باقاعدہ استعمال پہلے پہل ۱۰۰۰ ؁ ق م سے ۱۲۰۰ ؁ ق م میں ہوا اور یہ حضرت داؤد ؑ کا زمانہ ہے۔حضرت داؤد ؑ کے زمانے میں لوہے کو پگھلانے اور اس سے چیزیں تیار کرنے کے طریقے دریافت ہوچکے تھے لیکن وہ اتنے پیچیدہ تھے کہ ان سے تیار کی جانے والی اشیاء بہت قیمتی تصور کی جاتی تھیں۔ حضرت داؤد ؑ نے آہن سازی کے نئے طریقوں کو فروغ دیا جس کی بدولت لوہے کا استعمال عام ہوگیا اور اس تحقیق کی بدولت حضرت داؤد ؑ کی قوم کو جنگوں میں بھی برتری حاصل ہونے لگی۔ کیونکہ اس زمانے میں جنگ کے دوران حفاظت کا سب سے مؤثر ذریعہ زِرہیں اور خَود (لوہے کی ٹوپی) تھے۔ حضرت داؤد ؑ نے آہن سازی کی صنعت کو عروج پر پہنچادیا۔
حضرت داؤد ؑ خوش الحان تھے اور آوازوں کے علم کے ماہر تھے۔

حضرت داؤد ؑ ذاتی اخراجات کے لئے رقم بیت المال سے نہیں لیتے تھے۔ بلکہ لوہے کی زرہیں بنا کر انہیں فروخت کرتے تھے۔
’’
پھر تمہیں کچھ خبر پہنچی ہے ان مقدمے والوں کی جو دیوار چڑھ کر اس کے بالاخانے میں گھس آئے تھے۔ جب وہ داؤد کے پاس پہنچے تو وہ انہیں دیکھ کر خائف ہوگیا۔ انہوں نے کہا، ’’ڈرئیے نہیں، ہم مقدمہ کے دو فریق ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے آپ ؑ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کردیجئے، بے انصافی نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راہ بتائیے۔ یہ میرا بھائی ہے ۔ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے۔ اس نے کہا کہ ایک دنبی میرے حوالے کردے اور اس نے مجھے گفتگو میں دبالیا۔‘‘ داؤد نے جواب دیا، ’’اس شخص نے اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملالینے کا مطالبہ کرکے یقیناًتجھ پر ظلم کیا اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں۔ بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں۔ اور ایسے لوگ کم ہی ہیں۔(یہ بات کہتے کہتے) داؤد سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کرلیا۔ تب ہم نے اس کا وہ قصور معاف کیا اور یقیناًہمارے ہاں اس کے لئے تقرب کا مقام اور بہترانجام ہے۔‘‘

(سورۃ ص۔آیت21تا25)

حضرت داؤد ؑ ذکر الٰہی میں مشغول تھے کہ دیکھا کہ بیت المقدس پر ملائکہ اتر رہے ہیں۔ بیت المقدس جالوت نے منہدم کرادیا تھا۔ حضرت داؤد ؑ نے رب کریم کے حضور دعا کی کہ بیت المقدس کی تعمیر کو ان کی نیکیوں میں سے ایک نیکی بنادے۔
حضرت داؤد ؑ کے دور میں لوگوں نے سنیچر(ہفتہ) کے دن کا احترام ترک کردیا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ کی شریعت کے مطابق بنی اسرائیل کو سنیچر(ہفتہ) کے احترام کی تاکید کی گئی تھی۔ انہیں حکم تھا کہ ہفتہ کا دن عبادت کے لئے مخصوص ہے اس روز شکار نہ کریں اور دنیاوی مشاغل ترک کردیں۔

ایلہ شہر میں آباد اسرائیلیوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جمعہ کے دن دریا کے کنارے بہت سے گڑھے کھود دیتے تھے اور نالیاں بنا کر دریا کا پانی گڑھوں میں جمع کردیتے تھے۔پانی کے ساتھ مچھلیاں بھی گڑھوں میں جمع ہوجاتی تھیں اور بنی اسرائیل اتوار کی صبح مچھلیاں پکڑ لیتے تھے۔ حضرت داؤد ؑ نے انہیں اس عمل سے باز رہنے کی ہدایت کی لیکن بنی اسرائیل نے ان کا کہنا نہیں مانا۔ نافرمانی کی وجہ سے ان کی شکلیں مسخ ہوگئیں اور وہ بندر بن گئے۔ عقل و حواس تو قائم رہے لیکن قوت گویائی ختم ہوگئی۔ ان کے جسم سے بدبو کے بھپکے اٹھنے لگے اور تین روز تک روتے روتے مر گئے۔

’’اور جان چکے ہوکہ جنہوں نے تم میں زیادتی کی ہفتے کے دن میں ، تو ہم نے کہا ہوجاؤ بندر پھٹکارے ہوئے۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔آیت 65)

شاہ ولی ؒ اللہ فرماتے ہیں

حضرت شاہ ولی ؒ اللہ نے شکلیں مسخ ہونے کی تشریح اس طرح کی ہے کہ

مچھلی فاسد المزاج اور بدبودار ہوتی ہے۔ اللہ کے حکم کے خلاف، نافرمانی کرکے جب بنی اسرائیل اس کو کھاتے رہے تو ان میں فسادِ مزاج سرائیت کرگیا اور ان کے جسم میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔ (اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منع کرنے کے بعد غذا حرام ہوگئی)۔ حلال خوراک سے جو انرجی بنتی تھی اس میں تبدیلی آگئی۔ یہ تبدیلی بڑھتے بڑھتے جب تکمیل کو پہنچ گئی تو ان کے جسموں پر بندروں کی طرح بال نکل آئے وہ بندر بن گئے اور ان پر ذلت و رسوائی مسلط ہوگئی۔

مفرد اور مرکب لہریں

حضرت داؤد ؑ کے ہاتھوں میں ایسی توانائی تھی کہ ’’لوہا‘‘ ان کے ہاتھوں میں موم کی طرح نرم ہوجاتا تھا اور وہ بڑی آسانی سے لوہے کو ہاتھوں سے موڑ کر زرہ اور کڑیاں بنالیتے تھے اور کڑیاں جوڑ کر زنجیر بن جاتی تھی۔

موجود ہ دور سائنسی دور ہے اور اس دور میں شعور نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ بڑے بڑے پیچیدہ معاملات کی تشریح آسان ہوگئی ہے۔لیزر شعاع اور عام روشنی میں یہ فرق ہے کہ عام روشنی سات مختلف رنگوں سے مل کر بنی ہے لیکن لیزرمفرد لہر( یک رنگ) شعاع ہے۔ عام روشنی کو منشور (Prism) میں سے گزارا جائے تو وہ سات مختلف رنگوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ لیکن لیزر شعاع منشور میں سے گزرنے کے بعد بھی اپنے ایک رنگ میں برقرار رہتی ہے۔ لیزر شعاع کا پھیلاؤ کم ہوتا ہے مثلاً عام روشنی کی بیم ۱۰۰۰ فٹ دور کسی دیوار پر ڈالی جائے تو روشنی تقریباً ۲۰۰ فٹ علاقہ میں پھیل جائے گی اور اس کی طاقت کم ہوجائے گی۔ جبکہ لیزر شعاع کا پھیلاؤ زیادہ سے زیادہ آدھا یا ایک فٹ ہوگا اور اس کی طاقت برقرار رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام روشنی میں شامل ہر رنگ کی لہر کا طول موج (Wave length) مختلف ہوتا ہے۔

جب ایک لہر کا فراز دوسری لہر کے نشیب سے ٹکراتا ہے تو وہ ایک دوسرے کو رد کردیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ روشنی اپنے منبع سے اخراج کے بعد مختلف سمتوں میں سفر شروع کردیتی ہے۔ جبکہ لیزر شعاع میں لہروں کے نشیب و فراز یکساں ہوتے ہیں اس لئے یہ ایک دوسرے میں پیوست اور متحد رہتی ہیں اور ایک سیدھ میں طویل فاصلہ طے کرلیتی ہیں۔کسی ایٹم کو جب عام حالت میں توانائی فراہم کی جاتی ہے تو وہ بلند سطح پر چلا جاتا ہے۔اس حالت کو برانگیختہ حالت کہتے ہیں۔ ایٹم دوبارہ اپنی عام حالت میں آنا چاہتا ہے چنانچہ وہ توانائی جو اس نے جذب کی تھی روشنی کے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں کی شکل میں خارج کرتا ہے۔ یہی پیکٹ فوٹون کہلاتے ہیں۔ اب اگر کوئی ایسا طریقہ استعمال کیا جائے جس کے ذریعہ یہ فوٹون ایک ہی سمت میں اور ایک ہی فیز میں حرکت کریں تو ہمیں طاقتور مفرد شعاع حاصل ہوجائے گی۔
تخلیق روشنی کے تانے بانے پر قائم ہے۔تخلیقی پروسس (Process) کے مطابق ہر فرد روشنی کے جال پر نقش ہے۔ یہ جال مفرد اور مرکب لہروں سے بنا ہوا ہے۔ ہر انسان میں مرکب لہروں کے ساتھ مفرد لہریں بھی موجود ہیں۔ 

حضرت داؤد ؑ جب لوہے کی زرہیں، خَود اور دوسری اشیاء بناتے تھے تو مفرد لہروں کو ہاتھوں میں سے گزار دیتے تھے اور ان کے ہاتھوں میں لوہا نرم ہوجاتا تھا اور وہ لوہے کو حسب منشا موڑ لیتے تھے اور انگلیوں میں مفرد لہروں کو جمع کرکے سامان حرب تیار کرلیتے تھے۔ 
ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں حضرت داؤد ؑ کے زمانے کی لوہے کی ہانڈی رکھی ہوئی ہے۔ جو اس طرح بنائی گئی ہے جیسے کمہار ہاتھ سے مٹی کی ہنڈیا بناتا ہے۔

کائنات کی ساخت دورخوں پر کی گئی ہے۔ کائنات میں بے شمار مخلوقات ہیں۔ ان مخلوقات میں ہمارے پیش نظر دومخلوق جنات اور انسان ہیں۔ یہ مخلوقات ہماری زمین کی طرح ہر عالم اور ہر زمین پرآباد ہیں۔ ہماری زمین پر بیشمار گیسس بھی ہیں۔ ان گیسس کو روشنیاں فیڈ کرتی ہیں۔ روشنی لہروں کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ جنات کی تخلیق میں مفرد لہریں اور انسان کی تخلیق میں مفرد اور مرکب لہریں کام کرتی ہیں۔ کپڑے کی مثال سے بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔

مثال

کپڑا تانے بانے سے بُنا جاتا ہے۔ تانے اور بانے کو شعاع یا لہر قرار دے دیا جائے تو یوں کہا جائے گاکہ متحرک لکیریں (دھاگے کے تار) اگرچہ ایک دوسرے سے الگ ہیں مگر ایک دوسرے میں پیوست بھی ہیں۔ اسی طرح مرکب لہروں کے بجائے ایک سیدھی لہر (ایک دھاگہ) سے کپڑا بنا جائے اور اس کپڑے کے اوپر اعضاء کے نقوش سے تصویر نقش ہو تو یہ جن کی تصویر ہوگی۔ اور اگر اس کپڑے پر بانے کی طرح ایک دوسری حرکت جو پہلی حرکت کے خلاف سمت میں آکر پیوست ہوجائے تو اس کپڑے کے اندر بہت سے نقش و نگار بن جائیں گے ۔ یعنی تانے بانے یا مرکب لہروں پر نقش و نگار کا نام آدمی ہے اوریہی انسان کی دنیا ہے۔

ایک لہر یا مفرد حرکت سے جنات کی دنیا تخلیق ہوئی ہے اور دوہری لہر یا مرکب حرکت سے انسان کی دنیا تخلیق ہوئی ہے۔ مفرد لہر سے بنا ہوا جسم، مادی آنکھ سے نظر نہیں آتا البتہ مرکب لہر سے بنا ہوا مادی جسم نظر آتا ہے۔مفرد لہر ہر شے میں سے گزر جاتی ہے۔ اگر انسان کے اوپر مفرد لہر کا غلبہ ہوجائے تو وہ ٹھوس دیوار میں سے گزر جاتا ہے۔ آسمانوں میں پرواز کرتا ہے۔ کسی شے کی ماہیت قلب کرسکتا ہے۔

1539 ڈگری سینٹی گریڈ

جب لوہے کو بھٹی میں ڈال دیتے ہیں تو بھٹی میں آگ کی تپش 1539 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتی ہے اس لئے لوہا نرم ہوجاتا ہے۔
حضرت داؤد ؑ جب اللہ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے علوم اور تفویض کردہ اختیارات سے ارادہ کرتے تھے تو لوہا انکے ہاتھوں میں موم ہوجاتا تھا۔ یعنی ان کے ہاتھ میں دور کرنے والی لہریں 1539 ڈگری سینٹی گریڈ ہوجاتی تھیں اور جب ارادے کی تکمیل ہوجاتی تھی تو انکے ہاتھ معمول کے مطابق کام کرتے تھے۔ 

حضرت سلیمان علیہ السلام

حضرت داؤد ؑ نے اپنا پایہ تخت جبرون سے منتقل کرکے یروشلم کو دارالخلافہ بنایا۔ حضرت سلیمان ؑ یروشلم میں پیدا ہوئے۔ 
’’
اور داؤد کو ہم نے سلیمان عطا کیا۔ بہترین بندہ، کثرت سے اپنے رب کی طرف رُجوع کرنے والا۔‘‘(سورۃ ص۔ آیت30) 
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’حضرت سلیمان ؑ کی والدہ نے حضرت سلیمان ؑ کو نصیحت فرمائی،

’’بیٹا رات بھر سوتے نہ رہا کرواس لئے کہ رات کے اکثر حصے کو نیند میں گزارنا انسان کو قیامت کے دن اعمال خیر سے محتاج بنادیتا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ، جلد اول۔ حدیث 1332)

حضرت سلیمان ؑ حضرت یعقوب ؑ کے واسطہ سے حضرت ابراہیم ؑ کی نسل میں سے ہیں۔

’’اور ہم نے اس کو بخشے اسحق اور یعقوب ،ہم نے ہرایک کو ہدایت دی اس سے پہلے او ر اس ابراہیم کی اولادمیں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو ہدایت دی۔‘‘(سورۃ الانعام۔ آیت84)

پرندوں کی بولیاں

حضرت داؤد ؑ کی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ؑ کو بھی خصوصیات سے نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کویہ خصوصیت عطافرمائی تھی کہ وہ چرند پرند کی بولیاں جانتے تھے ۔ 

’’اور بے شک ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا اور ان دونوں نے کہا سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے اپنے بہت سے مومن بندوں پر ہمیں فضیلت دی اور سلیمان ؑ داؤد ؑ کا وارث ہوا اور اس نے کہا اے لوگو !ہمیں پرندوں کی بولیوں والاعلم دیا گیا ہے اور ہمیں ہر چیز بخشی گئی ہے، بے شک یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔‘‘(سورۃ النمل۔آیت15تا16)

وراثت

علم وحکمت ، ہدایت ونبوت اور سلطنت و بادشاہت حضرت سلیمان ؑ کو وراثت میں ملی ،حضرت سلیمان ؑ کو اللہ تعالیٰ نے فہم و فراست ، علم و حکمت اور قوت فیصلہ کرنے کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمانؑ کا ایک واقعہ مذکور ہے۔
’’
اور اسی نعمت سے ہم نے داؤد و سلیمان کو سرفراز کیا ، یاد کرو وہ وقت جب دونوں ایک کھیت کے مقدمے کا فیصلہ کررہے تھے۔ جس میں رات کو دوسرے لوگوں کی بکریاں کسی کے کھیت میں چلی گئی تھیں اور ہم انکی عدالت خود دیکھ رہے تھے ،اس وقت ہم نے سلیمان ؑ کو صحیح فیصلہ Inspire کیا، حالانکہ حکمت اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔‘‘(سورۃ الانبیاء۔آیت78تا79)

عدالت

ایک شخص کی بکریوں نے کھیت میں کھڑی فصل کو چرلیا اور حضرت داؤد ؑ کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا۔ کھیت کے مالک نے بکریوں کے مالک پر تاوان کی ادائیگی کا دعویٰ کردیا۔حضرت داؤد ؑ نے فیصلہ سنایا کہ فصل کی مالیت چونکہ بکریوں کی قیمت کے برابر ہے اس لئے بکریاں بطور تاوان کھیت کے مالک کو دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان ؑ نے اپنے والد محترم سے عرض کیا:

’’اباجی اس فیصلے پر عمل درآمد سے ایک فریق کا فائدہ ہوگا اور دوسرافریق اپنی عمر بھر کی پونجی سے محروم ہوجائے گا،مناسب یہ ہے کہ بکریوں کا مالک کھیت میں ہل چلائے ، گوڈی کرے، پانی دے ، دیکھ بھال کرے اور جب کھیتی پک کر تیار ہوجائے تو پوری فصل کھیت کے مالک کو دے دی جائے۔ اس دوران بکریاں کھیت کے مالک کے پاس رہیں وہی بکریوں کا دودھ استعمال کرے اور ان کو اپنے کام میں لائے یعنی بکریوں پر اسے ہر قسم کا تصرف حاصل ہو اور جب بکریوں کا مالک فصل دے دے تو اسے بکریاں واپس کردی جائیں۔‘‘

مصر سے فرات تک

حضرت سلیمان ؑ کی حکومت مصر سے فرات تک تھی یہ دور، درخشاں دور تھا اس دور میں ان کی قوم کو جو عروج و استحکام ، جاہ و جلال حاصل ہوا اس کی مثال دنیاکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضرت سلیمان ؑ کی نبوت کے خصوصی امتیازات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ان کے کیلئے مسخر کردیا تھا۔

’’اورتُند و تیز ہوا کو حضرت سلیمان ؑ کیلئے مسخر کردیاجو اس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس کو ہم نے برکت دی تھی اور ہم ہر شئے کے جاننے والے ہیں۔‘‘

(سورۃ الانبیاء ۔آیت81)

’’اور سلیمان ؑ کیلئے مسخر کردیا ہوا کو صبح کو ایک مہینے کی مسافت (طے کراتی) اور شام کو ایک مہینے کی مسافت ۔‘‘(سورۃ السباء۔ آیت12)

’’اور مسخرکردیا ہم نے سلیمان ؑ کیلئے ہوا کہ چلتی ہے وہ اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ جہاں وہ پہنچنا چاہے۔‘‘(سورۃ ص۔ آیت36)

حضرت سلیمان ؑ جب چاہتے، صبح کو ایک مہینہ کی مسافت اور شام کو ایک مہینے کی مسافت کے برابر سفر کرتے تھے۔

سمندری بیڑہ

روایت ہے کہ حضرت سلیمان ؑ سمندر میں بحری بیڑے کے لئے راستے مقرر کر نے والے پہلے انسان ہیں۔ تجارتی ذرائع نقل وحمل کیلئے بحری بیڑہ اس زمانے میں سب سے مضبوط اور طاقتور نظام تھا، جہازوں کو بہترین انجینیئر ز چلاتے تھے ، ایک Fleetکا نام ’’ترسیسی بیڑہ ‘‘ تھا، ترسیسی بیڑہ، بحر روم کی بندرگاہ سے مغربی ممالک کی طرف جاتا تھا اور اس کا ایک سفر تین سال میں پورا ہوتا تھا۔ اس میں سونا چاندی ، ہاتھی دانت، مویشی، بھیڑ ، بکریاں اور دوسرے قسم کا سامان ہوتا تھا۔ 

ہوا کی تسخیر

قرآن حکیم نے حضرت سلیمان ؑ کے متعلق تین باتیں بیان کی ہیں:

۱۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ؑ کے لیے ’’ہوا‘‘ کو مسخر کردیا تھا۔

۲۔ ’’ہوا‘‘ ان کے تابع فرمان تھی ۔ شدید اور تیز طوف

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان