Topics
’’اور اے محمد ؐ ! یہ لوگ تم سے ذو القرنین
کے بارے میں پوچھتے ہیں ان سے کہو کہ اس کا کچھ حال تم کو سناتا ہوں۔ ہم نے اسے
زمین میں اقتدار عطا کررکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے، اس نے
پہلے (مغرب کی طرف ایک مہم کا)سروسامان کیا،حتیٰ کہ جب وہ غروب آفتاب کی حد تک پہنچ
گیا تو اس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا اور وہاں اسے ایک قوم ملی ہم
نے کہا اے ذوالقرنین! تجھے یہ قدرت حاصل ہے کہ تو ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی
کہ ان کے ساتھ نیک رویہ اختیار کرے۔ اس نے کہا جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو
سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب
دے گا اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اس کے لئے اچھی جزا ہے
اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے۔ پھر اس نے (ایک دوسری مہم کی ) تیاری کی یہاں تک
کہ طلوع آفتاب کی حد تک جاپہنچا ۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع
ہورہا ہے جس کے لئے دھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے۔ یہ حال تھا ان
کا اور ذو القرنین کے پاس جو کچھ تھا اسے ہم جانتے تھے پھر اس نے (ایک اور مہم کا)سامان
کیا یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو
مشکل ہی سے کوئی بات سمجھتی تھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ اے ذو القرنین! یاجوج اور
ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں تو کیا ہم تجھے کوئی خرچ اس کام کے لئے دیں
کہ تو ان کے اور ہمارے درمیان ایک بند تعمیر کردے ۔ اس نے کہا جو کچھ میرے رب نے
مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے
درمیان بند بنادیتا ہوں مجھے لوہے کی چادریں لادو آخر جب
وحشی اور صحرا نشین قبائل آباد تھے، یہ قوم اخلاقی اقدار سے بے بہرہ
اور متمدن زندگی سے غیر مانوس تھی، طلوع آفتاب کے ساتھ جوں جوں دھوپ پھیلتی وحشی
قوم میں توانائی آجاتی تھی اور آفتاب ڈھلنے کے ساتھ وہ کمزور اور لاغر ہوجاتے تھے،
سورج غروب ہوجانے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ ان کے جسم کی جان نکل گئی ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’پھر اس نے (ایک دوسری مہم کی ) تیاری کی
یہاں تک کہ طلوع آفتاب کی حد تک جاپہنچا ۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم
پر طلوع ہورہا ہے جس کے لئے دھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے یہ حال
تھا ان کا۔‘‘(سورۃ کہف۔آیت90)
یاجوج، ماجوج کے بارے میں طرح طرح کی قیاسی کہانیاں مشہور ہیں۔
ایک روایت یہ ہے کہ جہاں زمین کی حد ختم ہوتی ہے وہاں پہاڑوں کی ایک
جانب یاجوج، ماجوج کی قوم آباد ہے اور دوسری جانب ایک عابد و زاہد قوم آباد ہے اس
قوم میں بڑے دانا اور حکیم بھی موجود ہیں، یہ پہاڑ اتنے بلند تھے کہ ان کو عبور
کرنا مشکل تھا۔ پہاڑیوں کے درمیان کچھ حصہ میدانی تھا اس راستے سے یاجوج ماجوج آکر
نیک لوگوں پر حملہ آور ہوتے رہتے تھے اور لوٹ مارکرکے واپس چلے جاتے تھے۔
ذوالقرنین نے بستی کے نیک لوگوں کو نصیحت کی اور انہیں اللہ کے احکامات سنائے ان
لوگوں نے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوکر یاجوج، ماجوج کے ظلم و ستم کی شکایت کی اور
بادشاہ سے مدد کے خواستگار ہوئے۔ بادشاہ نے یاجوج، ماجوج کے بارے میں دریافت کیا
تو اسے بتایا ایک پہاڑ پر یاجوج اور اس کی اولاد، دوسرے پہاڑ پر ماجوج اور اس کی
اولاد رہتے ہیں۔
یاجوج، ماجوج یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں یہ دونوں اور ان کے
اہل خانہ طوفان نوح کے بعد بچ گئے تھے۔ یاجوج، ماجوج کے بارے میں من گھڑت باتوں
میں ایک ناقابل قبول بات یہ ہے کہ اس قوم کے بعض افراد کو تاہ قد ہیں، بعض افراد
کے قد تین فٹ اور بعض افراد کے قد ایک بالشت (بالشتئے) کے برابر ہیں ۔ بعض افراد
کے کان اتنے بڑے ہیں کہ زمین پر لٹکے رہتے ہیں جب سوتے ہیں تو یہ اپنا ایک کان
زمین پر بچھالیتے ہیں اور دوسرا کان اوڑھ لیتے ہیں۔
یہ قوم تہذیب و تمدن اور اخلاقی اقدار سے ناآشنا ہے رہن سہن جانوروں
کی طرح ہے۔ ان کے کھیتوں میں تل کی کاشت ہوتی ہے دوسری کوئی چیز نہیں اُگتی تل ہی
ان کی غذا ہے وہ لوگ Uncivilized ہیں، خدا کو نہ جانتے ہیں نہ مانتے ہیں۔
یاجوج، ماجوج کے بارے میں ظلم و ستم کی داستان سن کر سکندر ذوالقرنین
نے ان دو پہاڑوں کے درمیان دیوار بنانے کے احکامات جاری کردئیے چنانچہ لوہے کی بڑی
بڑی شیٹیں جوڑ کر ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر انہیں دونوں پہاڑوں کی Valley میں رکھ دیا گیا اور لوہے کی
چادروں کو آگ سے سرخ کرکے ان پر سیسہ پگھلا کر ڈال دیا یوں ایک عظیم الشان دیوار
جسے’’ سد سکندری ‘‘کا نام دیا گیا تیار ہوگئی۔
’’پھر اس نے (ایک اور مہم کا)سامان کیا یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے
درمیان پہنچا تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل سے کوئی بات سمجھتی تھی۔ ان
لوگوں نے کہا کہ اے ذو القرنین! یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں
تو کیا ہم تجھے کوئی خرچ اس کام کے لئے دیں کہ تو ان کے اور ہمارے درمیان ایک بند
تعمیر کردے ۔ اس نے کہا جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا وہ بہت ہے تم بس محنت سے
میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان بند بنادیتا ہوں مجھے لوہے کی چادریں
لادو آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیان وادی کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب
آگ دہکاؤ حتیٰ کہ جب (یہ آہنی دیوار)بالکل آگ کی طرح سرخ ہوگئی تو اس نے کہا لاؤ
اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا۔‘‘(سورۃ کہف۔92تا96)
ذوالقرنین ایک عظیم فاتح تھا۔ توحید اور آخرت پر ایمان رکھتا تھا۔ عد
ل و انصاف کرنے والا فیاض حکمران تھا۔ ذوالقرنین ایرانی فرماں رو ا تھا اس کا عروج
۵۳۵ قبل مسیح کے قریب شروع
ہوا۔ اس نے چند سالوں میں ’’میڈیا‘‘ اور’’ لیڈیا‘‘کی سلطنتوں کو فتح کرنے کے بعد ۵۳۹ ق م میں بابل کو بھی
فتح کرلیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستے میں مزاحم نہیں رہی اسکی فتوحات کا
سلسلہ سندھ اور’’ صغد‘‘ سے لیکر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف گریس(Greece)اور مقدونیہ تک وسیع
ہوگیا اور شمال میں اسکی سلطنت ’’قفقاز‘‘ اور’’ خوارزم‘‘ تک پھیل گئی۔ اس وقت کی
پوری مہذب دنیا پر اسکی حکمرانی تھی۔
ذوالقرنین کی فتوحات مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے تمام ساحل اور
مشرق میں باختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں۔ یاجوج، ماجوج کاکیشیا کے پہاڑی علاقوں کے
قبائل ہیں، کاکیشیا بحر خزر اور بحر اسود کے درمیان واقع ہے۔سکندر ذو القرنین
مختلف ممالک فتح کرتا ہوا مشرق کی جانب ایسے علاقے میں پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا کی
سرحد ختم ہوگئی تھی اور آگے ایسی وحشی قوموں کا علاقہ تھا جو عمارت بنانا تو
درکنار خیمے بنانا بھی نہیں جانتی تھی، سخت وحشی ہونے کے سبب نہ کوئی ان کی زبان
سمجھتا تھا اور نہ وہ کسی اور کی زبان سے واقف تھے۔
ذوالقرنین کے عدل کی تعریف اس کے دشمنوں نے بھی کی ہے۔ بائبل اس بات
پر شاہد ہے کہ وہ ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی
خداپرستی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کروایا اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے
لئے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمان کی تعمیر کا حکم دیا یاجوج، ماجوج کے شر سے
بچنے کے لئے دیوار تعمیر ہونے کے بعد ذو القرنین نے کہا!
’’اگر چہ میں نے اپنی بساط کے مطابق دیوار کو نہایت مضبوط بنادیا ہے
مگر یہ لازوال نہیں ہے جب تک اللہ چاہے گا یہ قائم رہے گی اور جب اس کی عمر ختم
ہوجائے گی تو اس کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اللہ کے علاوہ ہر چیز
کیلئے فنا ہے۔‘‘
اس واقعہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ذو القرنین جس کی عظمت کا حال سنایا
گیا ہے محض ایک فاتح نہیں تھا بلکہ توحید اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ عدل و انصاف
اور فیاضی کے اصولوں کا حامل تھا۔ذو القرنین اپنی رعایا کا ہمدرد اور ان کی دیکھ
بھال کرنیوالا بادشاہ تھا۔ اس میں دوسرے بادشاہوں کی طرح کبر و نخوت اور غرور نہیں
تھا۔
اہل تکوین قوموں کو عروج بخشنے کے لئے ذلت او رسوائی سے بچنے کے لئے
اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے اختیارات سے ترغیبی پروگرام بناتے ہیں۔ یہ پروگرام
ملائکہ ارضی انسپائر کرتے رہتے ہیں۔
جنوری ۱۹۶۰ء میں ایک مجلس میں حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے فرمایا۔
’’چینی قوم کے لئے فرشتے ایک لاکھ ترغیبی
پروگرام انسپائر کرتے ہیں یہ ایک ایسی محب الوطن قوم ہے کہ ایک پروگرام بھی رد
نہیں کرتی سب کا سب انسپائر یشن قبول کرلیتی ہے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان