Topics

میثاقِ مدینہ

جب ہم عرب کی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ کی اکثرآبادی اوس و خزرج کے قبائل پر مشتمل تھی۔ مدینہ میں اوس و خزرج کے علاوہ یہودیوں کی بھی ایک طاقتور جمعیت موجود تھی۔ وہ معاشی لحاظ سے بھی خوشحال تھے اور صاحب کتاب ہونے کے باعث علمی طور پر بھی اوس و خزرج پر فوقیت رکھتے تھے۔ بنو نضیر، بنو قینقاع اور بنو قریظہ وغیرہ یہودیوں کے مشہور قبائل تھے۔ جو مدینہ اور خیبر میں آباد تھے اور ان کے بڑے مضبوط قلعے تھے۔ مدینہ منورہ اور خیبر میں ان کے دینی اور علمی مدارس و مراکز قائم تھے۔ یہ لوگ اہل کتاب تھے اپنی علمی قابلیت اور آسمانی کتب کے علوم کی وجہ سے سرزمین حجاز کے مشرکین پر فوقیت رکھتے تھے۔ کتب سماویہ کے ذریعے یہ لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے احوال و اوصاف سے بخوبی واقف تھے لیکن حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو نبی نہیں مانتے تھے۔ دوسری طرف ان لوگوں نے اپنی دولت ، علم اور سیاسی جوڑ توڑ کی بنا پر اوس و خزرج کو آپس میں لڑا کر اس قدر کمزور کردیا تھا کہ اوس و خزرج یہود کے سامنے بالکل بے بس تھے ۔یہود ہمیشہ اسی پالیسی پر عمل کرتے رہے کہ اوس و خزرج باہم متحد نہ ہوں۔ اوس اور خزرج کا آخری معرکہ جنگ بعاث اس بات کا ثبوت ہے۔معاشرہ میں اس وقت تک اتحادپیدا نہیں ہوسکتاتھا۔ جب تک یہودیوں کوساتھ نہ ملایا جائے نیز اسلام کے اولین دشمن رؤساء مکہ ابھی مسلمانوں کی بیخ کنی کے درپے تھے اور کسی وقت بھی وہ مدینہ پر حملہ آور ہوسکتے تھے۔ ان تمام اندرونی اور بیرونی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کیلئے ایک وسیع البنیاد منشور کی ضرورت تھی۔ اسلئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ایسی دستاویز تیار کی جس میں مہاجرین و انصار کے علاوہ یہاں کے یہودیوں اور مشرکین کو بھی شامل کیا گیا۔ اس دستاویز کے ذریعہ مدینہ کے جملہ باشندوں بلا امتیاز مذہب و قومیت ، اندرونی و بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک اتحاد عمل میں آیا۔ 

یہ تحریری معاہدہ مدینہ کے مندرجہ ذیل طبقوں کے درمیان ہوا۔

۱۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۔ مہاجرین ۳۔ انصار ۴۔ مدینہ کے یہودی ۵۔ مدینہ کے غیر مسلم


میثاق مدینہ 

اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

یہ تحریر ی معاہدہ اللہ تعالیٰ کے نبی محمد علیہ الصلوٰۃوالسلام اور قریش و یثرب کے ان لوگوں کے مابین ہے جو مومن ہیں،اطاعت گزار ہیں ،جو ان کے تابع ہیں ،جو ان کے ساتھ شامل ہوجائیں اور ان کے ساتھ مل کر جنگ میں حصہ لیں۔
۱۔ یہ سب مسلمان دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ایک علیحدہ سیاسی وحدت ہیں۔

۲۔ قریشی مہاجر اسلام سے پہلے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے اور اپنے قیدیوں کا فدیہ ادا کیا کریں گے تاکہ مومنون کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہو۔

۳۔ بنی عوف کے لوگ اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے اور اپنے قیدیوں کا فدیہ ادا کرکے انہیں رہائی دلائیں گے تاکہ مومنوں کا برتاؤ آپس میں نیکی اور انصاف کی بنیاد پر مستحکم ہو۔

۴۔ بنی حارث اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کرنے اور اپنے قیدیوں کا فدیہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے تاکہ اہل ایمان کے باہمی تعلقات نیکی اور انصاف کے مطابق استوار ہوں۔

۵۔ بنو ساعد اپنے دستور کے مطابق خون بہاکی ادائیگی اپنے گروہ کے قیدیوں کا فدیہ دے کر رہائی دلوانے کے ذمہ دار ہوں گے تاکہ مومنوں کے تعلقات نیکی اور انصاف کی بنیاد پر قائم ہوں ۔

۶۔ بنوحشم اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے اور اپنے قیدیوں کا فدیہ دے کر آزاد کرائیں گے تاکہ مسلمانوں میں نیکی اور انصاف کی بنیاد پر خیر سگالی اور خیر خواہی کی فضا قائم ہو۔

۷۔ بنو نجار اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے اور اپنے قیدیوں کی رہائی کے لئے فدیہ کی ادائیگی کے ذمہ دار ہوں گے تاکہ اہل ایمان کے باہمی روابط بھلائی اور انصاف کی بنیاد پر مضبو ط ہوں۔

۸۔ بنو نیبت اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کرنے اور اپنے گروہ کے قیدیوں کا فدیہ ادا کرکے رہائی دلانے کے ذمہ دار ہوں گے تاکہ اہل ایمان کا باہمی میل جو ل بھلائی اور انصاف کا آئینہ دار ہو۔

۹۔ بنو اوس اپنے دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے اور اپنے قیدیوں کا فدیہ ادا کرکے رہائی دلائیں گے۔
اہل ایمان کی ذمہ داریاں

۱۰۔ اہل ایمان میں سے کوئی شخص مفلس ہے یا قر ض کے بوجھ تلے دباہوا ہے تو اس کے ساتھی ایسے شخص کو لازمی امداد دیں گے تاکہ اس کے حق کا خون بہایا فدیہ بخوبی ادا ہوسکے۔

۱۱۔ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی اجازت کے بغیر اس کے مولیٰ (معاہداتی بھائی)سے معاہدہ نہیں کرے گا۔

۱۲۔ ا ہل تقویٰ اور اہل ایمان متحد ہوکراس شخص کی مخالفت کریں گے جو سرکشی ،ظلم ،زیادتی اور گناہ کا مرتکب ہو۔ایسے شخص کے خلاف تمام اہل ایمان کے ہاتھ ایک ساتھ اٹھیں گے ،خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہو۔

۱۳۔ کوئی مومن کسی مومن کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کرے گا اور نہ کسی کے خلاف کسی کافر کو امداد دی جائے گی۔

۱۴۔ اللہ تعالیٰ کا ذمہ و عہد ایک ہی ہے ۔اہل اسلام کا ایک معمولی درجے کا فرد بھی کسی شخص کو پناہ دے کر سب پر پابندی عائد کرسکے گا۔اہل ایمان دوسروں کے مقابلے میں آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

۱۵۔ یہودیوں میں سے جو اس معاہدے میں شریک ہوں گے ،انہیں برابر کی حیثیت حاصل ہوگی۔ایسے لوگوں پر ظلم ہوگا اور نہ ان کے خلاف کسی کو مدد دی جائے گی۔

۱۶۔ اہل اسلام کی صلح ایک ہی ہوگی۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کے موقع پر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو چھوڑ کر دشمن سے صلح نہیں کرے گا اور یہ صلح سب مسلمانوں کے لئے برابر اور یکساں ہونی چاہیئے۔ 

۱۷۔ وہ تمام گروہ جو ہمارے ساتھ مل کر جنگ میں حصہ لیں گے باری باری انہیں آرام کا موقع دیا جائے گا۔

۱۸۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو جانی نقصان اٹھانا پڑے اس کا بدلہ وہ سب مل کر لیں گے۔

۱۹۔ بلاشبہ متقی مومن سب سے اچھے اور سب سے سیدھے راستے پرہیں۔

۲۰۔ اس معاہدے میں شریک کوئی مسلمان ،مشرک قریش کے مال وجان کو پناہ نہیں دے گا اور اس سلسلے میں وہ کسی مسلمان کی راہ میں رکاوٹ نہیں کھڑی کرے گا۔

۲۱۔ جوشخص کسی مومن کو قتل کرے گا اس کا ثبوت ملنے پر اس سے قصاص لیا جائے گا ۔ہاں اگر مقتول کا وارث خون بہا لینے پر راضی ہوجائے تو قاتل قصاص سے بچ سکتا ہے ۔تمام اہل ایمان پر لازم ہوگا کہ وہ مقتول کے قصاص کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ۔اس کے سواان کے لئے کوئی صورت جائز نہیں ہوگی۔

۲۲۔ کسی ایسے مسلمان کیلئے جو اس عہد نامے کو تسلیم کر چکا ہے اور اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے جائز نہ ہوگاکہ وہ ایسے شخص کو پناہ دے جو نئی بات نکالنے والا اور فتنہ انگیزی کرنے والا ہو۔جو ایسے شخص کی حمایت کرے گا یا اسے پناہ دے گاوہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غضب سے نہیں بچے گا۔

۲۳۔ اس عہد نامے کی پابندی کرنے والے لوگوں کے درمیان جب کسی معاملے میں اختلاف پیدا ہوجائے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد علیہ الصلوٰۃوالسلام کی طرف رجوع کریں گے۔

یہودیوں کے حقوق

۲۴۔ یہوی مسلمانوں کے ساتھ مل کرجب تک جنگ کرتے رہیں گے تو وہ اپنے حصے کے جنگی اخرجات بھی خود ہی برداشت کریں گے۔

۲۵۔ بنی عوف کے یہودی،مسلمانوں کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تصور ہوں گے۔یہودی اپنے دین پر رہنے کے مجاز ہیں اور مسلمان اپنے دین پر ۔

۲۶۔ بنو نجار کے یہودیوں کے بھی وہی حقوق ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کے ہیں۔

۲۷۔ بنو حارث کے یہودیوں کے حقوق بھی وہی ہوں گے جو بنو عوف کے یہودیوں کے ہیں ۔

۲۸۔ بنو ساعد کے یہودیوں کے حقوق بھی وہی ہوں گے جو بنو عوف کے یہودیوں کے ہیں ۔

۲۹۔ بنوحشم کے یہودیوں کے حقوق بھی وہی ہوں گے جو بنو عوف کے یہودیوں کے ہیں ۔

۳۰۔ بنو اوس کے یہودیوں کے حقوق بھی وہی ہوں گے جو بنو عوف کے یہودیوں کے ہیں ۔

۳۱۔ بنو ثعلبہ کے یہودی بھی انہی حقوق کے مستحق ہوں گے جن کے بنو عوف کے یہودی ہیں،مگر جو ظلم اور جرم کا ارتکاب کرے گا اس کی مصیبت اور اس کا وبال اس کی ذات اور اس کے گھرانے پر ہوگا۔

۳۲۔ جعفنہ ،بنی ثعلبہ کی شاخ ہیں۔لہٰذا جعفنہ کے یہودیوں کے حقوق بنو ثعلبہ کے یہودیوں کے حقوق کے برابر ہوں گے۔

۳۳۔ وفا شعاری کے صورت میں یہودی بنی شطیبہ کے حقوق وہی ہوں گے جو یہودی بنی عوف کے ہیں۔

۳۴۔ بنو ثعلبہ کے موالی کے حقوق وہی ہوں گے جو اصل کے ہیں۔

۳۵۔ یہودیوں کے تمام موالی کے وہی حقوق ہوں گے جو اصل کے ہیں ۔

قیام امن اور دفاع کی مشترکہ ذمے داریاں

۳۶۔ معاہدے کا کوئی فریق بھی حضرت محمدرسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اجازت کے بغیر کسی سے جنگ کرنے یا جنگ کے ارادے سے نکلنے کا مجاز نہیں۔

۳۷۔ زخم کا بدلہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔خونریزی کے مرتکب کی ذمہ داری اسکی ذات اور اس کے گھر پر عائد ہوگی ۔مظلوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہیں۔

۳۸۔ یہودی اپنے خرچ کے ذمہ دار ہوں گے مسلمان اپنے خرچ کے ذمہ دار ہوں گے۔

۳۹۔ اس معاہدے کے شریک کسی فریق کے خلاف اگر کوئی جنگ کرے گا تو تمام شرکاء ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔آپس میں مشورہ کریں گے،ایک دوسرے کی خیر خواہی اور وفا شعاری کا رویہ اختیار کریں گے اور عہد شکنی سے اجتناب کریں گے۔

۴۰۔ کسی شخص کو حلیف کی بد عملی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا ،مظلوم کی ہر حالت میں مد د کی جائے گی۔

۴۱۔ یہودی جب تک مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کرتے رہیں گے وہ جنگ کے اپنے مصارف خودبرداشت کریں گے۔

۴۲۔ معاہدے میں شریک تمام فریقوں کے لئے یثرب کا میدا ن مقدس و محترم ہو گا ۔

۴۳۔ پناہ حاصل کرنے والے کے ساتھ وہی برتاؤ ہوگا جو پناہ دینے والے کے ساتھ ہو رہا ہو۔نہ اسے نقصان پہنچایا جائے گا اور نہ وہ عہد شکنی کرے گا ۔

۴۴۔ کسی عورت کو اس کے خاندان والوں کی اجازت کے بغیر پناہ نہیں دی جائے گی۔

۴۵۔ اس معاہدے میں شریک افراد یا گروہو ں کے درمیان جھگڑا پیدا ہوجائے جس سے فتنہ فساد کا اندیشہ ہو تو اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد علیہ الصلوٰۃوالسلام کی طرف رجوع کیا جائے گا۔عہد نامے کی اس دستاویز میں جو کچھ درج ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ ہے اور وہ چا ہتا ہے کہ پوری احتیاط اور وفاشعاری کے ساتھ اس کی پابند ی کی جائے۔

۴۶۔ نہ قریش کو پناہ دی جائے گی اور نہ ان کے کسی معاون کو۔

۴۷۔ یثرب پر حملے کی صورت میں معاہدے کے شرکاء یعنی مسلمانوں اور یہودیوں پر لازم ہو گا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔
۴۸۔ اگر یہودیوں کو صلح کرلینے اور اس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی تو وہ اسے قبول کرلیں گے۔اسی طرح اگر یہودی مسلمانوں کو شرکت کی دعوت دیں گے تو اسے قبول کرنا بھی ان پر لازم ہوگا ۔ سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ کے دین کی مخالفت میں جنگ کرے گا تو اس سے صلح نہیں کی جائے گی۔

۴۹۔ معاہدے میں شریک ہر شخص اور ہر گروہ پر یثرب کے اسی حصے کی ذمہ داری ہوگی جو اس کے سامنے بالمقابل ہوگا۔

۵۰ ۔ اوس کے یہودیوں کو خواہ وہ موالی ہوں اصل وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اس معاہدے کو قبو ل کرنے والوں کو حاصل ہیں۔

۵۱۔ یہ عہد نامہ کسی ظالم اور خطا کار کو نہیں بچا سکے گا اور جو کوئی یہاں سے نکلے گا وہ مامون ہوگا اور جو یہاں رہے گا وہ بھی مامون ہوگا سوائے اس کے جو ظلم اور گناہ کرے گا۔

۵۲۔ اللہ تعالیٰ اس کا حامی و نگہبان ہے جو اس اقرار و عہد میں مخلص اور سچا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول علیہ الصلوٰوالسلام بھی اس کے حامی ہیں۔

میثاق مدینہ کے ثمرات

مورخین کے نزدیک یہ ایک دفاعی معاہدہ تھا ،لیکن اگر غور سے اس کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ ساز اور انقلاب انگیز دستاویز تھی۔اس کے نتیجے میں ایک ایسی نظریاتی اور فلاحی ریاست وجود میں آئی جس نے انسانی تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔ اس دستاویز میں ریاست کی بنیادی حکمت عملی(پالیسی) شہریوں کے حقوق و فرائض ،ریاست کے دفاع و استحکام کے لائحہ عمل ،خارجہ حکمت عملی(پالیسی) کے اصول و ضوابط اور ریاست کے وفاق میں شامل ہونے والی مختلف یونٹوں (اکائیوں)کے حدود کا رتفصیل سے بیان کر دیئے گئے ہیں۔

پہلی یعنی ایک ہجری میں اس میثاق کی رو سے یثرب کی سرزمین پر جو منظم ریاست قائم ہوئی وہ صرف ڈیڑھ سومربع کلو میڑ پر محیط تھی ،لیکن صرف دس سال میں اس میں اتنی توسیع ہوئی کہ۱۱ہجری میں پندرہ لاکھ کلومیڑ کے وسیع و عریض علاقے پر اس کا علم لہرارہا تھا۔پورا علاقہ امن و سلامتی کا گہوارہ تھا۔سب کے جان ومال اور عزت و آبرو محفوظ تھی۔پورا معاشرہ منظم تھا ،باہمی اعتماد، اتحاد ، تعاون اوررواداری کا دور دورہ تھا۔معاشرے کی تمام قوتیں پورے جوش وخروش سے انسانیت کی تعمیر و فلاح کی مثبت سر گرمیوں میں مصروف تھیں۔اس میثاق کو مرتب کرنے والی اس کے لئے زمین ہموار کرنے والی ہستی وہ تھیں جسے اللہ تعالیٰ کے آخری رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کومبعوث ہی اس لئے کیا گیا کہ وہ دین حق کو باطل پر غالب کردیں اور ظلم و ستم کی چکیوں میں پسی ہوئی انسانیت کو امن و سلامتی اور عدل و انصاف میسر ہو۔ابو عبیدہ کتاب الاموال میں لکھتے ہیں کہ یہ عہد نامہ یا معاہدہ جزیہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے لکھا گیا تھا۔اس وقت کچھ مالی مشکلات درپیش تھیں اس لئے یہ حکم تھا کہ اگر یہود مسلمانوں کے ساتھ کسی غزوہ میں شرکت کریں تو مال غنیمت میں سے ان کو بھی کچھ دے دیا جائے اس وجہ سے اس معاہدہ میں یہود پر شرط عائد کی گئی تھی کہ جنگی اخراجات میں ان کو بھی حصہ لینا پڑے گا۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان