Topics

باب 4- تبلیغ اسلام

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پرایمان لانے والی پہلی خاتون ان کی بیگم حضرت خدیجہ  ؓ تھیں اور اس کے بعد ان کے چچا کے بیٹے حضرت علی ؓابن ابی طالب مسلمان ہوئے۔ جنہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اولاد کی طرح پالا تھا۔ تیسرے مسلمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلام زید ؓ تھے۔ جنہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آزاد کردیا تھا لیکن وہ اپنے والدین کے پاس جانے پر رضا مندنہیں ہوئے اور انہوں نے کہا:            ”میں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو اپنے ماں باپ سے زیادہ عزیز رکھتاہوں۔

تین سال کی مدت تک حضرت خدیجہ ؓ، حضرت علی ؓ اورحضرت زید ؓ کے بعد کوئی اور شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے پرآمادہ نہ ہوا۔ جب حضرت ابوبکرؓ  مسلمان ہوگئے تو مسلمانوں کی تعداد چار ہوگئی۔

طرزِ تعلیم

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قاعدہ تھا کہ قرآن کی جو آیتیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوتی تھیں وہ مسلمانوں کو یاد کرادیتے تھے۔ جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کو وہ آیتیں پڑھ کر سناتے تھے۔ طریقہ یہ تھا کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی قربت کا ذکر فرماتے تھے، اللہ تعالیٰ کی عزت و جلال اور صفات کو بیان فرماتے تھے۔ اس پیغام کا ایک ایک لفظ ایسا تھا جو کفا ر کو مخالفت کے باوجود متاثر کردیتا تھا۔

آغازِ نماز

اللہ تعالیٰ کے احکام میں سب سے پہلے نماز فرض ہوئی۔ حضرت جبرائیل ؑ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ”عقبہ“ پہاڑ کے پیچھے وادی میں لے گئے۔ وہاں حضرت جبرائیل ؑ نے خود وضو کرکے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وضو کا طریقہ بتایااور نماز کے طریقہ کی تعلیم دی۔

ایک روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت علیؓ  نمازقائم کر رہے تھے۔ وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا ابوطالب پہنچ گئے۔ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت علیؓ  کو نمازقائم کرتے ہوئے دیکھتے رہے۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نماز پوری کرلی تو حضرت ابو طالب نے پوچھا: ”تم کیا کررہے تھے؟

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے، بت پرستی سے منع فرمایاہے اور اپنی عبادت کرنا فرض کیا ہے۔ نماز اداکرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اے چچا!آپ بھی اللہ تعالیٰ کے اس دین کو قبول کرلیں اور اس عظیم الشان کا م میں میری مد دکریں۔

حضرت ابو طالب نے کہا کہ

اے میرے عزیز! تم اطمینان کے ساتھ دین کی تبلیغ کرتے رہو۔ میں ہر طرح تمہاری مدد کروں گا۔ اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے۔

حضرت ابو طالب نے حضرت علی ؓ سے کہا:

بیٹا! محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام)کبھی تمہارے لیے بُرا نہیں چاہیں گے، محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام) جو کہیں ان کی بات پر عمل کرو۔

دعوت

تقریباً تین سال تک اسلام کی دعوت علیٰ الاعلان نہیں ہوئی۔ جو شخص خود مسلمان ہونے کی خواہش کرتا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اُسے کلمہ پڑھا کر مسلمان کرلیتے تھے۔ جوشخص شوق ظاہر کرتا اس کو قرآن سناتے۔ جو بندہ مسلمان ہوجاتا اس کو قرآن کریم کی آیتیں یاد کرادیتے تھے اور اُنہیں اسلام کی تعلیم دیتے تھے۔ بعثت کے تیسرے سال یہ آیات نازل ہوئیں۔

سو آپ کو جس بات کا حکم کیاگیااس کو صاف صاف سنادیجئے اور مشرکین کی پرواہ نہ کیجئے۔“ (سورۃ الحجر۔ آیت 94)

اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور ان لوگوں کے ساتھ عاجزی سے پیش آیئے جو اسلام میں داخل ہوکر آپ کی راہ پر چلیں۔“(سورۃ الشعراء۔آیت214تا215)

ان آیات کے نزول کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلانیہ تبلیغ شروع کردی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قریش کو مدعو کیا اور فرمایا:

اللہ تعالیٰ ایک ہیں۔وحدہ لاشریک ہیں“۔

سب رشتہ داروں،چچا اور انکی اولاد اور انکے رشتہ داروں کو مخاطب کرکے فرمایا:

ہر شخص کی نجات ایمان اور اس کے اعمالِ صالح پر موقوف ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں“۔

حمایت ِ اسلام

جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتوں کی پرستش سے منع فرمایاتو کفار نے دشمنی شروع کردی اور سب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن بن گئے۔ ان حالات میں حضرت ابوطالب نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حمایت کا اعلان کردیا۔ حضرت ابو طالب مکہ میں اتنی بڑی شخصیت تھے کہ ان کے مقابلے میں کسی کو آنے کی ہمت نہیں تھی اس لئے مشرکین مکہ شدید مخالفت کے باوجود کچھ نہیں کرسکے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ دیکھ کر مشرکین مکہ غیض و غضب میں بھر گئے اور مشورہ کرکے سب حضرت ابوطالب کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا:

آپ کے بھتیجے ہمارے خداؤں کو براکہتے ہیں، ہمارے عقائد کو بُرا کہتے ہیں۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمارے آباؤ اجداد کو گمراہ کہاہے۔ آپ اپنے بھتیجے کو ان باتوں سے روکیں یا ان کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں۔

حضرت ابوطالب نے ان لوگوں کو نرمی سے سمجھاکررخصت کردیا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے کام میں مشغول رہے اور قرآن پاک کی تعلیمات لوگوں کو اعلانیہ سناتے رہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تبلیغ سے بہت لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔ کفار نے جب یہ دیکھاکہ اسلام روز بروز پھیل رہاہے تو انہیں بے چینی لاحق ہوئی اور قریش کے ہر مجمع میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر ہونے لگا۔ آخر سب مل کرپھر حضرت ابوطالب کے پاس آئے۔

مشرکین مکہ نے کہا:

اے ابوطالب!آپ عمرمیں ہم سے بڑے ہیں،آپ کا مرتبہ بھی ہم سے زیادہ ہے۔ ہم سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، پہلے بھی حاضر ہوئے تھے ہم نے آپ سے درخواست کی تھی کہ اپنے بھتیجے کو اسلام کی تبلیغ سے روکیں لیکن اس سلسلے میں آپ نے کچھ نہیں کیا، اب ہم سے صبر نہیں ہوتا اور ہم اس بات کو برداشت نہیں کرسکتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)ہمارے عقائد کو برا کہیں۔ آپ اپنے بھتیجے کو روکیں یا پھر ہم ان کے ساتھ جنگ کریں گے۔

دھمکی دے کر مشرکین مکہ غصے میں اُٹھ کر چلے گئے۔

حضرت ابوطالب یہ صورتحال دیکھ کر بہت پریشان ہوئے، ان کویہ بات شاق گزری کہ قوم ناراض ہوگئی ہے اور دشمنی پر آمادہ ہے۔ حضرت ابوطالب نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بلایا اور آپ سے کہا:

اے محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام)تمہاری قوم جمع ہوکر میرے پاس آئی تھی اور قوم نے تمہارے بارے میں نازیبا گفتگو کی ہے، تم مجھ پر اور اپنے اوپر رحم کرو، مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جو میری برداشت سے باہر ہو۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے چچا سے فرمایا:

اگریہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اوربائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں اور چاہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی تبلیغ چھوڑ دوں تو یہ ممکن نہیں، دو صورتیں ہیں یاتو اللہ کی توحید کا غلبہ ہوگا، بت پرستی ختم ہوگی اور احکام الٰہی جاری ہوں گے یا میں دنیا میں نہیں رہوں گا۔

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے جب یہ گفتگو فرمائی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں سے تشریف لے گئے۔ 

حضرت ابو طالب پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی استقامت اور یقینِ کامل کا بہت زیادہ اثر ہوا۔ حضرت ابوطالب نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بلا یا اور فرمایا:

 ”اے عزیز!اے میرے بھتیجے! جو تمہارا دل چاہے کرو اور لوگوں سے بیان کرو۔ میں کسی حالت میں تمہیں دشمنوں کے حوالے نہیں کروں گا۔

منصوبہ

کفار مکہ کوجب یقین ہوگیا کہ حضرت ابوطالب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حمایت سے دستبردار نہیں ہونگے تو انہوں نے ایک اور منصوبہ بنایا۔ وہ لوگ عمارہ بن ولید کو ساتھ لے کر حضرت ابوطالب کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا:

اے ابوطالب! ہم تمہارے پاس عمارہ بن ولید کو لائے ہیں، یہ قریش میں سب سے زیادہ عقلمند ہیں۔ یہ تمہارا بیٹا ہوگا اور زندگی کے ہر معاملے میں تمہارا دست و بازو ثابت ہوگا۔ تم اپنے بھتیجے محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام) کو ہمارے حوالے کردو اور عمارہ کو ہم تمہارے سپرد کردیں گے۔“ 

حضرت ابوطالب نے کہا:

یہ بد ترین سودا ہے، تم ہمیں اپنا لڑکا دیتے ہوکہ ہم اسے کھلائیں پلائیں اور میرا لڑکا مانگتے ہوکہ تم اسے قتل کردو۔ یہ انصاف نہیں ہے جرم ہے۔ تم ہمیں ذلیل کرناچاہتے ہو، تم یہاں سے چلے جاؤ اور تمہارے دل میں جو آئے کرو۔

اسکے بعد قریش نے مشورہ کرکے طے کیاکہ جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے انہیں سزادینی چاہیئے تاکہ وہ لوگ اسلام چھوڑدیں اور واپس اپنے دین میں آجائیں۔یہ ظالمانہ تجویز مسلمانوں کیلئے بڑی مصیبت اور آزمائش تھی۔ اس وقت مسلمانوں کوبڑی تکلیف پہنچی۔ چیخ وپکار اور آہ و بکا سے مکہ کی زمین لرز گئی۔

جب حضرت ابوطالب نے کفارکی ظلم آمیز شرارتوں کو دیکھا توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حمایت کے لئے بنو ہاشم اور بنی مطلب کو دعوت دی سب جمع ہوگئے۔ ابولہب اس مجلس میں شریک نہیں ہوا۔ حضرت ابو طالب نے اپنے خاندان کو ایک جگہ جمع ہونے پر خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا:

قریش اگربہت ساری طاقت بھی جمع کرلیں تو بھی وہ بنی ہاشم کاکچھ نہیں بگاڑسکتے۔

 ایک طرف یہ منصوبے بن رہے تھے اور دوسری طرف کفارِ مکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قتل کے منصوبے بنارہے تھے۔ بار بار حضرت ابو طالب کے پاس آتے تھے، آپس میں مشورے کرتے اور مسلمانوں کو اذیتیں دیتے تھے۔ مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تبلیغ دین میں مصروف رہے اور قرآن پاک کی آیتیں لوگوں کو سنا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی خالقیت اس کی رزاقی او ر عزت و جلال کو بیان فرماتے تھے۔ نماز کے جو احکا م آچکے تھے اس کے ادا کرنے کاطریقہ بتاتے تھے۔ گناہوں کی برائیاں بیان فرماتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم میں یہ اثر تھا کہ جو آدمی مسلمان ہوجاتا تھا وہ برائیوں سے پاک ہوجاتا تھا۔ وہ ایمان میں کامل اور صبر و استقامت کا پہاڑ بن جا تا تھا۔

قرآن کریم کی آیتیں جن میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان ہوئی ہے، جو سنتا تھا متاثر ہوجاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسلام روزانہ ترقی کر رہا تھا۔ ہر گھر میں اسلام کا چرچا تھا۔ مخالفین شدت سے مخالفت کررہے تھے۔ مگر وہ حیرا ن تھے کہ ان کے گھروں کی عورتیں ان کے جوان بچے اور سمجھ دار لوگ جب قرآن کریم سنتے ہیں تو پھر کوئی خوف اور کوئی لالچ ان کو اسلام قبول کرنے سے نہیں روکتا۔ رحمت کا دروازہ

ایک مرتبہ مشرکین نے کہا ”اگر تم ہمارے لئے کوہِ صفا کو سونے کا بنا دو تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے۔

کیا واقعی؟“ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا

ہاں، یقینا۔“ سب نے یقین دلایا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعا کرنے کا ارادہ فرمایا توحضرت جبرایل ؑ امین نازل ہوئے اورعرض کیا

یا رسول اللہ (علیہ الصلوٰۃوالسلام)! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر آپ کی خواہش ہو تو صفا کی پہاڑی سونا بن جائے گی، لیکن اگر اس کے باوجود یہ لوگ ایمان نہ لائے تو پھر ان کے لئے توبہ و رحمت کا دروازہ بند ہوجائے گا اور میں ان کو ایسا عذاب دوں گا کہ پوری کائنات میں ایسا عذاب کسی کو نہ ملا ہوگا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی قوم کی ہٹ دھرمی سے واقف تھے۔ اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعانہیں فرمائی اور جبرایل ؑ امین کو جواب دیا کہ کوہِ صفا بے شک سونا نہ بنے لیکن ان کے لئے توبہ و رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھا جائے۔

پارلیمنٹ ہاؤس

اسی دوران حج کا موسم آگیا۔قریش کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ عرب کے وفود کے سامنے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نئے دین کی تبلیغ ضرو رکرینگے۔ لہٰذا اسکے توڑ کیلئے پہلے ہی اقدامات کرلیے جائیں۔ اس مقصد کیلئے وہ ”دارالندوہ“ میں جمع ہوئے۔

دارالندوہ قریش کا پارلیمنٹ ہاؤس تھا۔یہ کعبہ کے پہلو میں ایک ذی شان محل تھا۔ قریش جب کسی اہم اور خاص کام کو شروع کرنا چاہتے تھے تو اسی محل میں جمع ہوکر صلاح و مشورہ کرتے تھے۔

ولید بن مغیرہ کی سرداری میں گفت و شنید ہوئی۔ کسی نے کہا کہ پاگل مشہور کردیا جائے، کسی نے مشورہ دیاکہ کاہن کے نام سے شہرت دی جائے۔ کسی نے کہا شاعر کہا جائے لیکن ولید بن مغیرہ کسی بات سے متفق نہیں ہوا۔ بالآخر لوگوں نے اس سے پوچھا، تمہاری رائے کیا ہے؟

ولید بن مغیرہ نے کہا:”محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام)کو جادوگر مشہور کردیا جائے۔

طے پایا کہ مکہ کے تمام راستوں پر اپنے آدمی بٹھادیئے جائیں تاکہ اطرافِ عالم سے جو لوگ حج کے لئے آئیں ان کو یہ بتایا جائے کہ یہاں ایک جادوگر ہے جو اپنے کلام سے باپ بیٹے اور خاوند بیوی میں اور رشتہ داروں میں تفریق ڈالتا ہے۔ لہٰذا لوگ اس کے پاس نہ جائیں۔

قرآن کریم نے اس مجلس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیاہے:

اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی۔ ہاں خدا کی مار اس پر کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ پھر پلٹا اور تکبر میں پڑ گیا۔ آخر کار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے، یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔“(سورۃ المدثر۔ آیت 18تا25)

اس کام میں سب سے زیادہ پیش پیش ابولہب تھا۔ وہ محلّوں اور بازاروں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیچھے پیچھے چلتا تھا۔ جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تبلیغ کرتے تھے، ابو لہب چیخ چیخ کر کہتا تھا اس کی بات نہ سنو۔ لوگ جب حج سے واپس ہوئے تو ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نبوت کا اعلان فرمایا ہے، اس طرح پورے عرب اور قرب و جوارمیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چرچا ہو گیا اور کفار کی تدبیر اُلٹ گئی۔

زیرک سردار

کفار نے جب یہ دیکھا کہ ان کی تدبیریں ناکام ہورہی ہیں اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت عام ہو رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کی تعلیمات سے واقف ہورہے ہیں تو انہوں نے مشورہ کرکے مکہ کے سب سے چالاک اور زیرک سردار عتبہ بن ربیعہ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس بھیجا کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دنیاوی لالچ دے کر تبلیغِ دین سے روکنے کی کوشش کرے۔

عتبہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا،

 ”بھتیجے تم حسب و نسب میں ہم سے بہتر ہو۔ تم نے ہمارے آباؤ اجداد کے طریقے کو باطل قرار دیا ہے اور انہیں جاہل کہا ہے۔ آج مجھے تم اپنے دل کی بات بتا دو کہ تم کیا چاہتے ہو؟اگر تم دولت کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہو تو ہم تمہارے لئے اتنا سونا چاندی جمع کردیں گے کہ تم اہلِ مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ہوجاؤ گے۔ اگر سرداری چاہتے ہو تو ہم اس پر راضی ہیں کہ تمہیں قریش کا سردار بنادیں۔ اگر تم شادی کے خواہش مند ہو تو مکہ کی سب سے خوبصورت لڑکی کو تمہاری دلہن بنادیں گے اور اگر یہ سب نہیں ہے اور تم کسی جن یا ماورائی طاقت کے زیرِ اثر ہو جس کی باتیں تم لوگوں کو سناتے ہو اور اس سے چھٹکا را پانے سے عاجز ہو توہم تمہارے علاج کے لئے حاذق طبیب تلاش کرتے ہیں تاکہ وہ تمہارا علاج کرے اور تم صحت مند ہوجاؤگے۔

عتبہ کے طویل لیکچر کے بعد سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب میں سورۃحٰم السجدہ کی تلا وت کی۔

حٰم۔یہ خدائے رحمان اور رحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے، ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئیں ہیں،عربی زبان کا قرآن،اُن لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں! بشارت دینے والااور ڈرا دینے والا۔مگر ان لوگوں میں سے اکثر رُوگردانی کرتے ہیں اور وہ سن کر نہیں دیتے کہتے ہیں ”جس چیز کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے اس کے لئے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں،ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں اور ہمارے اورتیرے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا ہے۔تو اپنا کام کر،ہم اپنا کام کئے جائیں گے۔“     

                                                                     (سورۃ حم السجدہ۔ آیت1تا5)

عتبہ گم سم سنتا رہا۔ پھر اٹھ کر اپنی قوم میں واپس آگیا۔ عتبہ کو آتا دیکھ کر مشرکین نے ایک دوسرے سے کہا:

خدا کی قسم!ابو الولید (عتبہ) تمہارے پاس وہ چہرہ لے کر نہیں آرہا جو چہرہ لے کر گیا تھا۔

عتبہ نے کہا:

آج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے نہیں سنا تھا، خدا کی قسم! نہ وہ شاعری ہے، نہ جادو ہے، نہ نجومیوں کا کلام ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ تم سب اس کو اذیت دینے سے باز آجاؤ۔ جو کلام میں نے سنا ہے اس کی شان ظاہر ہونے والی ہے۔ میری بات مانو اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑدو۔ اگر عرب اس پر غالب آگئے توتمہارا کام دوسروں کے ذریعے انجام پائے گا اور اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی عزت ہماری عزت ہے۔ کیونکہ وہ ہمارے قبیلہ سے ہے۔لوگ حیرت سے اس کودیکھنے لگے پھر انھوں نے رائے قائم کی کہ عتبہ پر محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کا جادو چل گیا ہے۔

ایک روز جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کعبہ کا طواف کررہے تھے قریش کے سرکردہ افراد ان کے پاس آئے اور تجویز پیش کی کہاے محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام)! جس کی عبادت تم کرتے ہو اس کی عبادت ہم کریں اور جس کی عبادت ہم کرتے ہیں اس کی عبادت تم کرو۔ اس طرح ہم اور تم اس کام میں مشترک ہوجائیں۔

یہ روایت بھی ملتی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی کہ ایک سال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام قریش کے معبودوں کی پوجاکریں اور ایک سال قریش حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رب کی عبادت کریں۔ قریش کی اس قسم کی تجاویز کے جواب میں سورۃ الکافرون نازل ہوئی۔

کہہ دو! اے کافروں میں ان کی عبادت نہیں کرتاجس کی تم عبادت کرتے ہو۔ نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتاہوں اور نہ میں عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتاہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین اورمیرے لیے میرا دین۔ (سورۃ الکافرون)

ارشاد باری تعالیٰ

جب قریش کا کوئی حیلہ کارگر نہیں ہوا تو ایک بار پھر انھوں نے غور و خوص کیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت کو ختم کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے۔ قرآن نے اس کا جگہ جگہ تذکرہ کیاہے۔

یہ لوگ کہتے ہیں،”اے وہ شخص جس پر یہ ذکر نازل ہوا ہے، تو یقینا دیوانہ ہے۔“(سورۃ الحجر۔ آیت6)

ان لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود انہی میں سے آگیا۔ منکرین کہنے لگے کہ ”یہ ساحر ہے، سخت جھوٹا ہے۔“ (سورۃ ص۔آیت 4)

جب یہ کافر لوگ کلام نصیحت (قرآن) سنتے ہیں تو تمہیں ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ گویا تمہارے قدم اکھاڑ دیں گے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ ضرور دیوانہ ہے۔  (سورۃ القلم۔ آیت 51)

دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالاہے تاکہ وہ انہیں دیکھ کر کہیں ”کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہوا ہے؟“ ہاں! کیا اللہ تعالیٰ اپنے شکر گزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتے ہیں؟“(سورۃ الانعام۔آیت53)        

مجرم لوگ دنیامیں ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو آنکھیں مار مار کر ان کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ اپن

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان