Topics

کھجور کی تلوار

غزوۂ بدر میں حضرت عکاشہؓ بڑی دلیری سے لڑ رہے تھے کہ ان کی تلوار ٹوٹ گئی۔ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ہاتھ میں لکڑی کی چھڑی تھی۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چھڑی حضرت عکاشہؓ کو دے کر فرمایا۔

’’عکاشہؓ جاؤ جنگ جاری رکھو‘‘۔

حضرت عکاشہؓ نے چھڑی ہاتھ میں لی تو وہ مضبوط، چمکدار اور تیز دھار تلوار بن گئی۔ حضرت عکاشہؓ نے جنگ بدر کی فتح تک اس تلوار کو استعمال کیا۔ اس تلوار کا نام ’’العون ‘‘ تھا۔غزوۂ بدر کے دوران ہی ایک اور صحابی مسلمہؓ بن اسلم کی تلوار ٹوٹ جانے پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں کھجور کی تازہ ٹہنی عنایت کی جو تیز دھار تلوار میں تبدیل ہوگئی۔حضرت عبد اللہ بن حجشؓ کی تلوار ایک جنگ کے دوران ٹوٹ گئی توحضور سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں طلب کرکے کھجور کی شاخ عنایت کی اور دشمنوں پر حملہ کا حکم دیا۔ کھجور کی ٹہنی تلوار بن گئی۔ اس تلوار کا نام ’’عرجون ‘‘ ہے۔

***

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے:

’’ہم نے ہر چیز معین مقداروں سے تخلیق کی ہے۔‘‘(سورۃ القمر۔آیت 49)

مقداروں سے زمین پر مختلف چیزیں تخلیق پاتی ہیں۔ 

مثلاً لوہا۔۔۔ اس کے اندر معین مقداریں کام کر رہی ہیں۔ لکڑی۔۔۔ اس کے اندر معین مقداریں کام کر رہی ہیں۔ اگر لوہے اور لکڑی میں معین مقداریں کام نہیں کریں تو لکڑی لکڑی نہیں رہے گی اور لوہا لوہا نہیں رہے گا۔ معین مقداروں سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو مقداریں لوہے کے اندر کام کررہی ہیں وہ لکڑی کے اندر کام نہیں کرتیں۔ تخلیق کرنے والی معین مقداروں کا فارمولہ یہ ہے کہ لوہے کے لئے آٹھ مقداریں معین ہیں اور لکڑی کے لئے سات مقداروں کا تعین ہے۔ تو لکڑی کی معین مقداروں میں اگر لوہے کی اضافی ایک مقدار شامل کردی جائے تو لکڑی لوہا بن جائے گی۔

سونے (Gold) کے لئے پانچ معین مقداریں ہیں اور گیرو کے لئے چار مقداریں معین ہیں۔ سونے کو گیرو بنانے کا فارمولہ یہ ہے کہ سونے کی مقداروں میں سے ایک مقدار کم کردی جائے۔گلاب کے پھول میں چھ معین مقداریں کام کرتی ہیں جبکہ سیب کے پھول میں نو معین مقداریں کام کرتی ہیں۔ اگر سیب کے پھول کی معین مقداروں میں سے تین کم کردی جائیں تو سیب کاپھول گلاب کا پھول بن جاتا ہے اور اگر گلاب کے پھول میں تین مقداروں کا اضافہ کردیاجائے تو گلاب کا پھول سیب کا پھول بن جاتا ہے۔ 
یہ ایک پورا تخلیقی نظام ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سکھایا ہے جو لوگ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث اور صاحب تکوین ہیں۔ جس وقت سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھجور کی لکڑی حضرت عکاشہؓؓ، حضرت مسلمہؓ بن اسلم اور حضرت عبداللہ بن حجشؓ کو دی تو تخلیقی فارمولوں کے تحت مقداروں میں رد و بدل ہوگیا اور یہ رد و بدل قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق ہے۔

’’وہ اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار ہو۔ اس نے آسمانوں اور زمین کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے، سب کچھ اپنے پاس سے، اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔‘‘(سورۃا لجاثیہ ۔آیت12تا13)

’’آسمانوں اور زمین میں ہے‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کا سب رائی سے بھی چھوٹا ذرہ اور پہاڑ کے برابر ذرہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تصرف میں ہے۔

لکڑی میں روشنی

ایک رات جب تیز بارش برس رہی تھی۔ حضرت قتادہؓؓ بن نعمان انصاری نماز باجماعت کے لئے مسجد میں آئے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت قتادہؓ ؓؓ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں کھجور کی ایک شاخ دی اور فرمایا،

’’یہ شاخ دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ تمہارے پیچھے روشنی کرے گی۔‘‘

حضرت قتادہؓؓؓ کھجور کی شاخ لے کر گھر کی طرف چلے تو یہ شاخ مشعل کی طرح روشن ہوگئی۔

***

ہر شئے دو رخوں پر پیدا کی گئی ہے ایک رخ مادیت ہے اور دوسرا رخ باطن ہے۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ لیکن مادی رخ ہمیشہ باطنی رخ کے تابع ہوتا ہے۔ صلاحیت باطنی رخ میں ہوتی ہے۔ باطنی رخ سے اگر صلاحیت مادیت میں منتقل نہ ہو تو حرکت نہیں ہوتی۔ حرکت صلاحیت کا مظہر ہے اور ہر شئے کی صلاحیت الگ الگ بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ لکڑی کی صفت جلنا یا روشن ہونا ہے۔ جب لکڑی کا باطن رخ متحرک ہوا تو لکڑی روشن ہوکر مشعل بن گئی۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان