Topics

بادلوں کا سایہ

ایک دوپہر حضرت حلیمہ سعدیہؓ نے دیکھا کہ بچے دھوپ میں کھیل رہے ہیں۔ آپؓ نے بچوں کو سائے میں کھیلنے کی ہدایت کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رضاعی بہن نے اپنی والدہ کو بتایا،’’ اماں جان! میرے قریشی بھائی دھوپ کی تمازت سے محفوظ ہیں۔ بادل آپ پر سایہ کرتا ہے، جب آپ چلتے ہیں تو بادل آپ کے ساتھ چلنے لگتا ہے اور جب آپ ٹھہر جاتے ہیں تو بادل بھی رک جاتا ہے۔

’’اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں۔ پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے۔ جس طرح چاہتا ہے اور انہیں بدلیوں میں تقسیم کرتا ہے۔ پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں پر، جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہوجاتے ہیں۔

(سورۃ الروم۔آیت48)

بارش کا وسیلہ

                خشک سالی کی وجہ سے جب مکہ میں قحط پڑ گیا تو لوگ حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور کہا 

’’یا ابو طالب! بچے قحط کی وجہ سے بھوک سے رو رہے ہیں، کعبہ میں چل کر دعا کیجئے‘‘۔

حضرت ابو طالب نے کمسن حضرت محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ کعبہ میں آکر دعا کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر بادل چھاگئے اور موسلادھار بارش برسی، حضرت ابوطالب نے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں یہ شعر کہا: ’’وہ خوبصورت چہرہ جس کے فیضان سے بارش برستی  ہے‘‘۔

***

انسان کے مادی وجود کے اوپر روشنیوں کے دوغلاف ہیں اور ان دو غلافوں میں بجلی دوڑتی رہتی ہے۔ ایک غلاف میں روشنیاں پازیٹیو اور دوسرے غلاف میں نیگیٹو پازیٹیو ہوتی ہیں۔ ان روشنیوں کے فلو (Flow) سے حواس بنتے ہیں۔ حواس کی دو سطح ہیں۔ ایک سطح فرد کی ذہنی حرکت ہے اور دوسری سطح وہ ہے جو فرد کی ذہنی حرکت کو کائناتی سسٹم سے ملاتی ہے۔ حواس ہمہ وقت تقسیم ہوتے رہتے ہیں۔ حواس کی تقسیم سے ایک طرف اعضائے جسمانی بنتے ہیں اور دوسری طرف اعضائے جسمانی کی صلاحیتیں تخلیق ہوتی ہیں۔ جسمانی فعلیت میں یہی تقسیم کام کرتی ہے۔

آنکھ، ناک، کان، زبان، پیر، حواس کی تقسیم ہیں۔ آنکھ کا دیکھنا، کان کا سننا، پیر کا پیمائش کرنا زبان میں ذائقہ اور ناک میں سونگھنے کی حس جسمانی فعلیت ہے۔ اس کے برعکس حواس میں جوتحریکات ہوتی ہیں وہ ماورائی تحریکات ہیں جو تواتر کے ساتھ قائم رہتی ہیں۔
لمحات بہ یک وقت دو سطحوں میں حرکت کرتے ہیں۔ ایک سطح کی حرکت کائنات کی ہر شئے میں الگ الگ ہے۔ یہ حرکت شعور کی تعمیر کرتی ہے جو شئے کو اس کی منفرد ہستی کے دائرے میں دکھاتی ہے۔

دوسری سطح کی حرکت کائنات کی تمام اشیاء میں بیک وقت جاری ہے اگر کوئی شخص دوسری سطح کا ادراک حاصل کرلے جو ریاضت،مجاہدہ اور مراقبہ کے ذریعہ ممکن ہے توکائنات کے مخفی گوشے سامنے آنے لگتے ہیں۔ 

حدیبیہ میں کنواں

صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں نے ایسے پتھریلے علاقہ میں پڑاؤ ڈالا تھا جہاں پانی نہیں تھا۔ البتہ ایک کنواں تھا۔ جو عرصے سے خشک پڑا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک تیر حضرت ناجیہؓ کو دیتے ہوئے فرمایا :’’اس خشک کنوئیں میں اترو اور کنوئیں کے بیچ میں یہ تیر گاڑ دو۔‘‘

تیر گاڑتے ہی کنویں میں سے پانی کا چشمہ ابل پڑا۔

بنو سعد کا کنواں

بنو سعد بن ہذیم کا ایک وفد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں تبوک کے مقام پر حاضر ہوا اور عرض کیا ،

’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! ہمارے کنویں میں پانی بہت کم ہے۔ گرمیوں کا موسم ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہمارا خاندان پانی کی تلاش میں منتشر ہوجائے گا۔ ہمارے لئے دعا کریں کہ کنوئیں میں پانی پورا ہوجائے‘‘۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کنکریاں طلب کرکے ان کوہاتھ میں لے کر ملا اور فرمایا،

’’یہ کنکریاں بسم اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم پڑھ کر ایک ایک کر کے کنویں میں ڈال دینا۔‘‘

بنو سعد بن ہذیم کے وفد کے لوگ کنکریاں لے کر چلے گئے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت کے مطابق کنکریاں کنویں  میں ڈال دیں۔ کنویں میں کنکریوں کا ڈالنا تھا کہ کنویں میں پانی بھر گیا اور پھر پانی کی قلت نہیں ہوئی۔

تبوک کے راستے میں پانی

تبوک کے راستے میں وادی مشقق کی ایک چٹان میں پانی کا چشمہ تھا۔ چشمہ سے پھوٹنے والا پانی اس قدر تھا کہ صر ف تین آدمی اس سے سیر ہوسکتے تھے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آگے جانے والوں سے فرمادیا تھا کہ وہ چشمہ سے پانی اس وقت تک نہ نکالیں جب تک کہ ہم وہاں پہنچ نہ جائیں۔

منافقوں کا گروہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے وہاں پہنچا اوراس کا سارا پانی نکال کر ضائع کردیا۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام جب وہاں پہنچے تو انہیں اس امر کی اطلاع دی گئی۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سواری سے اُتر آئے اور چٹان کے نیچے ہاتھ مبارک رکھا اور دعا فرمائی تو چٹان سے پانی فوارے کی طرح ابل پڑا۔

سفر میں پانی

ایک سفر میں صحابہ کرامؓ نے عرض کیا،

’’ یا رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام! پانی نہیں ہے اور بہت پیاس لگ رہی ہے۔‘‘

حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہؓ نے دیکھا کہ ایک عورت پانی سے بھری ہوئی دو مشکیں اونٹ پر لے کر آرہی ہے۔ اس سے پوچھا کہ پانی کا چشمہ یہاں سے کتنی دور ہے۔ اس نے جواب دیا میرے قبیلے اور چشمے کے درمیان کافی فاصلہ ہے۔حضرت علیؓ اس عورت کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس لے گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے برتن منگوا کر ایک مشک میں سے تھوڑا ساپانی انڈیلا اور دعا فرمائی۔ پانی دوبارہ مشک میں ڈال دیا۔ صحابہ کرامؓ نے خوب سیر ہوکر پانی پیا اور برتن پانی سے بھر لئے لیکن مشکیں پانی سے بھری رہیں۔ عورت حیرت و استعجاب کی تصویر بنی یہ سارا ماجرا دیکھ رہی تھی۔ جب سب لوگ پانی پی چکے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، اس عورت کو کھجوریں دے کر رخصت کردو۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان