Topics

سیرت نگاری کا آغاز و ارتقا

سیرت نگاری اُسی روز سے شروع ہوگئی تھی جب سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رفقاء جلیل القدر صحابہ کرامؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقوال و افعال کو محفوظ کرنا شروع کردیا تھا۔اسی سلسلہ روایات کو تابعینؒ اور تبع تابعین ؒ نے ذوق و شوق کے ساتھ آگے بڑھایا۔یہ وہ لوگ تھے جن کی پرورش حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مقرب صحابہ کرامؓ کی آغوش میں ہوئی اوراُس ماحول میں اُن کی تعلیم و تربیت ہوئی جس میں رحمت اللعالمین حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی طرزِفکر رچی بسی ہوئی تھی۔یہ وہی دور تھا جب معاشرے کا ہر فرد اپنی زندگی کے ہرعمل میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اتباع کا خواہشمند تھا اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرزِفکر لاشعوری اور شعوری طور پر اپنانے کیلئے کوشاں رہتا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ اسی دور میں اسلام کی فتح و سربلندی، عظمت و رفعت کے ساتھ ساتھ تعلیماتِ نبویؐ کے منافی امور بھی فکر وعمل پر اثر انداز ہونا شروع ہوگئے تھے۔یہ ہر دو پہلو عوام و خواص کی اُس دلچسپی کا محرک بنے جو حیاتِ مبارکؐ کے حقیقی نقوش کی تلاش و جستجوپرمنتج ہوئی۔ 

سیرت طیبہ سے متعلق روایات اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مصدقہ اقوال کی تحقیق و تلاش نے وقت کے ساتھ ساتھ فنِ حدیث اور فنِ مغازی کے عنوان سے باقاعدہ علم کی صورت اختیار کرلی۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اقوال و افعال اور احکامات پر مشتمل راویات کو فنِ حدیث کے تحت جمع کیا جانے لگا اور اُن کی تصدیق و تحقیق کا معیار مقرر ہوا اور اس معیار تک پہنچنے کے اصول اور قاعدے مرتب ہوئے۔ اسی طرح سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م کی حیاتِ مبارکہ کے واقعات، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معمولات سے متعلق روایات اورروزمرہ زندگی کی جزئیات کی تحقیق و تدوین فنِ مغازی کے عنوان سے ہوئی اور یہی مجموعہ روایات سیرت نگاری کی اساس قرار پایا۔ گو کہ تحقیق و تصدیق اور طریقہ تشکیل ہر دو فنون میں یکساں اختیار کیا گیا لیکن معیار کا اطلاق جداگانہ رہا۔ یعنی احادیثِ نبوی کی تحقیق و تصدیق کے لئے جو معیار مقرر کئے گئے وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے حالات و واقعات کی تحقیق میں شامل نہیں ہوئے اس طرح وہ روایات جو فنِ حدیث کے مقرر کردہ معیار میں غریب کہلائیں وہ کتبِ سیرمیں شامل ہو گئیں۔ اس طرح محدثین اور سیرت نگاروں میں وقت کے ساتھ ساتھ فاصلہ بڑھتا چلا گیا۔ محدثین نے سیرت نگاروں کو اپنے سے کم تر سمجھا، واقدی کو اسی بنا پر اخباری کہا گیا ۔ 

اسی داخلی مخاصمت کو دشمنانِ اسلام نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا اور جب اٹھارویں صدی عیسوی میں اہلِ یورپ علمی طور پر بیدارہوئے اور امت مسلمہ کے علوم سے استفادہ کی جانب توجہ دی گئی تو اسلام کے مخالف یہود و نصاریٰ ان کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ وہ جان چکے تھے کہ امتِ محمدیؐ جب تک اپنے محبوب پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے گی یہود و نصاریٰ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے اسی لئے انہوں نے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مقدسہ کو اپنا ہدف بنایا اور حیاتِ مبارکؐ سے متعلق روایات،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقوال و افعال کی تدوین کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کی مرتب کردہ تحریروں سے دلائل اور حوالہ جات پیش کئے۔ جس سے یہ ثابت کیا کہ روایات اور احادیث کی ترتیب و تدوین کاکام پیغمبر اسلام سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پردہ فرمانے کے نوے سال بعد یعنی دوسری صدی ہجری میں ہوا۔اس طرح احادیثِ نبوی اور سیرتِ طیبہ کے ضمن میں صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ و آئمہ کی تحقیقی اور علمی کاوشوں کو یکسر غیر معتبر اور مفروضہ قرار دینے میں اس حد تک کامیاب ہوگئے کہ مسلمانوں کے اندر بھی احادیث نبوی کے منکر اور سیرت مبارکؐ میں غلوبیانی کا گمان کرنے والے گروہ پیدا ہوگئے۔

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے دورِ اولین سے ہی عروہ بن زبیرؓ، ابان بن عثمانؓ، شرجیل بن سعدؓ، وہب بن منبہؓ، عاصم بن قتادیٰ انصاریؓ، عبداﷲ بن ابی بکرؓبن حزم، مسلم بن شہاب الزہریؒ ، موسیٰ بن عقبہؒ ، معمر بن راشدؒ ، محمد بن اسحٰقؒ ، ابو معشر السندیؒ ، زیاد بن عبداﷲ البکائی ؒ ، ابن ہشام ؒ ، واقدیؒ اور ابنِ سعدؒ جیسے گرامی قدر حضرات نے سیرت نگاری کا عَلم بلندرکھا۔ انہی میں سے بعض حضرات جماعتِ محدثین میں بھی شامل رہے اور دیگر مستند محدثین کی طرح علومِ محمدی ؐ کی ترویج میں شبانہ روز مشغول رہے۔ جماعتِ محدثین میں صحابہ کرامؓ کے علاوہ جو اسمائے گرامی نمایاں ہیں وہ یہ ہیں، عبداﷲ ابنِ عباس، عبداﷲ ابنِ عمر، بشیر بن نہیک، کریب ، قتادہ بن دعامتہ، سردسی، ابوبکربن محمدبن عمرو بن حزم، محمد بن ابی بکر، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام بخاری، ابوالولید، سفیان ثوری، ابی سلمہ، ابی سفیان اور سفیان بن عینیہ۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ظاہری و باطنی زندگی کے حقیقی خدوخال دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ان صاحبان علم و دانش کی کوششوں ، محنت و لگن اور تحقیق و تصدیق کا بڑا ہاتھ ہے۔یہ انہی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ علمِ حدیث کی آغوش سے علم الرجال کی بنیاد پڑی جس کی بدولت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرتِ مطہرہ اور دیگر بندگانِ خدا کی سوانحِ حیات کے درمیاں خطِ امتیاز قائم ہوا۔

آج مسلم دنیا جس طرح باہم دست و گریباں ہے اور دشمنانِ اسلام کی ظاہری اور باطنی یلغار کا نشانہ بنی ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا طرزِ عمل سرچشمہ ہدایت سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ فکر و عمل میں باعثِ تخلیقِ کائنات،محسنِ انسانیت،صاحبِ خلق عظیم،پیغمبر اسلام حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام سے دوری اُمتِ مسلمہ کی ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔

ابتدائی سیرت نگار

تابعین کا تعلق مسلمانوں کی دوسری نسل سے ہے، ان میں بیشتر صحابہ کرامؓ کے خاندان اور قریبی تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ انہیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے محبت اور عقیدت ورثے میں ملی تھی۔ تابعین میں یہ ذوق پیدا ہوا کہ حیات مبارکؐ سے متعلق واقعات کو جمع کیا جائے تاکہ مسلمانوں کی زندگی کا کوئی عمل حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت کے خلاف نہ ہو۔تابعین کی اس نوجوان نسل میں حضرت ابان بن عثمانؓ ،حضرت عروہ بن زبیرؓ، حضرت شرجیل بن سعدؓ اور حضرت وہب بن منبہؓ کے نام نمایاں ہیں۔اس دور میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی رفاقت کا شرف حاصل کرنے والے صحابہ کرامؓ اور اُمہات المومنینؓ میں سے چند خواتین و حضرات ایسے موجود تھے جو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی گھریلو زندگی سے واقف تھے۔ حیاتِ طیبہؐ کے حالات اور واقعات جمع کرنے والے تابعین کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ان لوگوں سے مستفید ہوئے جن حضرات و خواتین نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی حیات مبارکؐ کو قریب سے دیکھا اور انہیں صحابہؓ کی خدمت گزاری کا شرف حاصل ہوا۔ان اولین سیرت نگاروں کے اسماء گرامی یہ ہیں۔

۱۔ حضرت ابان بن عثمانؓ 

آپ حضرت عثمان غنیؓ کے صاحبزادے ہیں۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وصال کے دس سال بعد ۲۰ھ ؁ میں پیدا ہوئے اور حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے وقت آپ کی عمر چودہ سال تھی۔ حضرت ابان بن عثمانؓ نے مدینہ منورہ میں اس وقت کے معروف علماء اور مشائخ سے حدیث، فِقہ، قرآن اور اس کی تفسیر کے علوم کی تعلیم حاصل کی۔ حضرت ابان محدثین میں خاص شہرت رکھتے تھے۔ آپ کے شاگردوں میں عبدالرحمن ابو زناد اور الزہری کے نام نمایاں ہیں۔

عبد الملک نے ۷۵ھ ؁ میں انہیں مدینہ کاگورنر مقرر کیا۔ ابان ۸۳ھ ؁ تک سات سال مدینہ کے گورنر رہے۔ گورنری کے زمانے میں خلیفہ ہرسال انہیں امیر حج نامزد کرتے تھے ۔ ابان بن عثمانؓ نے جعلی سکے بنانے والوں کو سزادی اور اہل مدینہ کے صاع (ناپ کے پیمانے )میں اضافہ کیا۔ انہیں اپنے والد کے فتاویٰ حفظ تھے۔ابان پہلے شخص ہیں جنہوں نے ایک خاص مجموعہ مغازی فراہم کیا۔ابان شعرو شاعری کے شوقین تھے۔ 

آپ نے حیات مبارکؐ سے ان روایا ت کو جمع کرنے کیلئے کوشش فرمائی جو محدثین نے اپنی کتابوں میں شامل نہیں کی تھیں۔ ان کی جمع کردہ روایات میں بیشتر روایات غزوات سے متعلق ہیں۔ آپ نے ۹۳ھ ؁ میں وفات پائی۔

۲۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ

حضرت عروہ بن زبیرؓ سنہ۲۳ھ میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ یہ حضرت عمرؓ کی خلافت کا زمانہ تھا۔عروہ بن زبیرؓ حضرت اسماء بنت ابو بکرصدیق ؓ کے بیٹے ہیں۔حضرت عائشہ صدیقہؓ آپ کی خالہ ہیں۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے وقت حضرت عروہ بن زبیر کی عمر ۱۲؍ سال تھی۔حضرت عروہ بن زبیرؓ، حضرت ابان بن عثمانؓ کے ہم عصر تھے۔حضرت عروہ نے مدینہ منورہ میں حدیث، فِقہ، قرآن اور تفسیر کے علوم میں مقام حاصل کیا۔ اگرچہ حضرت عروہ ؓ کا شمار ممتاز فُقہا اور محدثین میں ہوتا ہے لیکن آپ کا منفرد مقام ان روایات کو جمع کرنا ہے جنہیں ’’تاریخی آثار‘‘ کہا گیا ہے۔ حضرت عروہ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بعثت ، نزول وحی، خفیہ اور اعلانیہ دعوت حق، مشرکین کی ایذا رسانی اور ظلم و ستم ، ہجرت، غزوہ بدر، غزوہ احد اور دیگر غزوات سے متعلق تفصیلات لکھی ہیں۔

صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کا تفصیلی ذکر اور خاتم النبین علیہ الصلوٰۃوالسلام کے آخری وقت کے حالات اور واقعات سے متعلق آثار میں روایات شامل ہیں۔ ان روایات کے بیشتر راوی آپ کے خاندانی بزرگ ہیں۔ جبکہ حضرت علیؓ، حضرت سعدؓبن زید، حضرت عمروؓ بن نفیل، حضرت زیدؓ بن ثابت،حضرت عبدؓ اللہ بن جعفر، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت اُمّ سلمہؓ، حضرت اسامہ بن زیدؓ کے اسمائے گرامی بھی ’’آثار‘‘ کے راویوں میں شامل ہیں۔حضرت عروۃ بن زبیرؓ علم و عمل کے جامع تھے ۔سخت موسم میں بھی روزہ رکھتے اور رات کو قیام کرتے تھے۔حضرت عروۃ بن زبیرؓ نماز کو خوب احسن طریقہ اور کامل یقین سے ادا کرتے تھے اور قیام کو بھی خوب طویل کرتے تھے ۔ انہوں نے ایک شخص کوجلدی جلدی نماز ادا کرتے دیکھا۔جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو آپ نے اس کو بلاکر پوچھا:کیا تمہیں اللہ تعالیٰ سے کوئی حاجت نہیں ہے ؟

حضرت عروہ بن زبیرؓ حد درجہ سخی اور کھلے دل کے مالک تھے ۔ان کی سخاوت اور کشادہ دلی کا مظاہرہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ مد ینہ میں ان کا باغ ایک عظیم حیثیت رکھتا تھا جوکہ میٹھے پانی،گھنے درختوں اور کثیر تعداد میں کھجور کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔حضرت عروہ ؒ درختوں کو محفوظ رکھنے کیلئے باغ کے دروازے نہیں کھولتے تھے۔لیکن جیسے ہی پھل پکنے کامو سم آتا تو حضرت عروۃ ؒ لوگوں کے داخلہ کی سہولت کی خاطر ہر خاص وعام کیلئے دروازے کھول دیتے ۔لوگ آتے جی بھر کرپھل کھاتے اور بقدر ضرورت لے بھی جاتے تھے۔

اولاد کی تربیت

حضرت عروۃؒ نے اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دی۔ انہوں نے اپنے بچوں کو طلب علم کی تربیت دیتے ہوئے فرمایا : علم حاصل کرو اور اسکا حق ادا کرو ۔ کیونکہ اگر تم قوم کے معمولی لوگ ہوتو اللہ اس علم کے ذریعہ تمہیں بڑا مقام دے گا۔حضرت عروۃ ؒ اپنے بیٹوں کو رضائے الٰہی کے لئے ہدیہ کرنے کی بھی ترغیب دیتے تھے ۔وہ کہتے تھے شرم وحیا کی وجہ سے اپنے عزیز واقارب کو ہدیہ نہ دے کر اپنے رب سے ہدیہ نہ روکو ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ سب سے معزز ،مکرم اور پسندیدہ ہیں۔حضرت عروۃ ؒ نے زندگی کے 71سال نیکی ،تقویٰ اور اچھائی سے بھر پور گزارے ۔جب موت کا وقت قریب ہوا تو آپ روزہ سے تھے۔ ۹۴ھ ؁میں نواحِ مدینہ میں اپنے علاقہ مجاج میں انتقال کیا۔
(ابن سعدج ۵ ص۱۳۳)

عروہ کاطرز تحریر

اسناد
عروہ کچھ روایات میں تو سند کا ذکر کرتے ہیں مگر بعض روایات میں ان کو نظراندازکیا ہے۔ عروہ نے ثقہ روایوں سے جو اخبار حاصل کیے تھے وہ اپنے شاگردوں کو زبانی منتقل نہیں کئے بلکہ صدراسلام کے حوادث پر انہوں نے اپنی معلومات کو ترتیب بھی کیا تھا۔ اس طرح کے کئی مدون رسائل ہمیں ابن اسحق الواقدی او ر الطبری کی کتابوں میں مل جاتے ہیں ۔ 

قرآنی آیات اور اشعار 

حضرت عروہ کی تحریرمیں قرآنی حوالے زیادہ ہیں۔جہاں تک اشعار کا تعلق ہے تو ان کی روایات میں یہ اشعار کبھی توخود ان کی زبان پر جاری ہوتے ہیں اور کبھی واقعات میں شریک افراد سے منسوب ہوتے ہیں۔ 

۳۔ حضرت شرجیلؒ بن سعد

آپ حضرت عروہ بن زبیرؓ اور حضرت ابان بن عثمانؓ کے ہم عصر تھے۔ حضرت علیؓ کو آپ نے دیکھا تھا۔ آپ کے آباؤ اجداد مدینے کے انصار یا مکہ سے آنیوالے مہاجرین میں سے نہیں تھے بلکہ آپ کا تعلق جنوبی عرب سے تھا اور بنی خطمہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ مدینے میں پلے بڑھے اور علوم شرعیہ کی تعلیم حاصل کی۔ رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی حیات طیبہ سے متعلق روایات جمع کیں۔ آپ نے مہاجرین مکہ اور غزوہ بدر اور احد میں شرکت کرنے والے صحابہ کرامؓ کی فہرست مرتب کی۔ حضرت شرجیل بن سعد نے ۱۲۳ھ ؁ میں انتقال فرمایا۔اس وقت ان کی عمر سو سال تھی۔

۴۔ حضرت وہبؒ بن منبہ

وہب بن منبہ تابعین میں سے تھے جنوبی عرب کے باشندے تھے اور ان کے اجداد ایران کے تھے۔ ان کی ولادت ایران کے ایک ایسے خاندان میں ہوئی جواسلام سے پہلے نوشیروان کسریٰ کے عہد میں ایران سے آکرجنوبی عرب میں بس گیاتھا۔یہ لوگ انبا کہلاتے تھے۔ وہب ۳۴ھ میں پیدا ہوئے۔وہب بن منبہ صنعاشہر کے قاضی تھے۔

تعلیم

وہب نے مندرجہ ذیل اکابر صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں ۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ،حضرت ابو ہریرہؓ ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت عبداللہ بن وعمروبن عاص،حضرت جابرؓ ۔

تلامذہ
آپ کے شاگردوں کے نام یہ ہیں عبداللہ بن وہب، عبدالرحمان بن وھب،ان کے بھتیجے عبدالصمد علاوہ ازیں عمر وبن دینار،سماک بن فضل،عوف العرابی وغیرہ ،امام بخاری و مسلم ابوداؤدونسائی وترمذی نے ان کی روایات کوتحریر کیا ہے ۔

علمی مرتبہ 

محدث عقیلی فرماتے ہیں !


’’
وہب ثقہ تابعی تھے ۔‘‘

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں!

’’جمہور علماء کے نزدیک وہب ثقہ معتبر ہیں۔‘‘(تاریخ حدیث و محدثین:234تا236)

وہب بن منبہ 100 ؁ھ میں مکہ میں موجود تھے یہاں انہوں نے متعدد ممتاز فقیہوں سے ملاقات کی۔ وہب اہل کتاب کی روایات پرخاص توجہ دیتے ہیں ۔اہل کتاب کی روایات سے وہب کی خصوصی دلچسپی کا حال اس بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے 70 یا 72 صحائف سماوی کا مطالعہ کیا تھا ۔ قصص الانبیاء کی روایات میں خاص طور سے وہب ثقہ راویوں میں شمار ہوتے ہیں ۔
کئی دیگر کتا بیں بھی آپ سے منسوب ہیں۔ جن میں انبیاء کرامؑ کے قصے اور بنی اسرائیل کی روایات بیان کی گئی ہیں۔ انسانی تاریخ کے آغاز اور انبیاء کے واقعات پر مبنی آپ کا تعارف ’’المبتدا‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔کتاب الاسرائیلیات آپ کی تالیف ہے اور اپنے وطن یمن کی قدیم تاریخ پر لکھی ہوئی کتاب ’’الملوک ‘‘ بھی آپ کی تصانیف میں شامل ہے۔حضرت وہب بن منبہ کا انتقال مدینہ منورہ میں ۱۱۰ھ ؁ میں ہوا۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان