Topics

شفیق باپ

اولاد کی پرورش والدین کا اوّلین فریضہ ہے۔ ان کی غذائی ضروریات کو پورا نہ کرنا، ان کی صحت کا خیال نہ رکھنا، ان کی تعلیم و تربیت سے غفلت برتنا، قرآن کریم کی رُو سے جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔۔۔

’’جن لوگوں نے اپنی اولاد کو بیوقوفی سے بے سمجھی سے قتل کیا ان کے لئے سخت تباہی ہے۔‘‘

(سورۃ الانعام۔ آیت 140)

اچھا باپ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ بچوں کی پرورش اچھی طرح کرے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس میں ایک شفیق باپ اور ایک اچھے والد کی تمام خوبیاں تھیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اپنی اولاد سے نہایت محبت تھی اور ایک شفیق باپ کی حیثیت سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مختلف مواقع پر اپنی محبت کا اظہار فرمایا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ایک کامل و مکمل شخصیت تھے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے صاحبزادے ابراہیم کی پیدائش پر جس طرح خوشی اور مسرت کا اظہار فرمایا اور پھر ان کی وفات پر جو طرز عمل اختیار کیا وہ قابل تقلید ہے۔ 

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے زیادہ خاندان میں کسی کو عیال و اطفال پر مہربان نہیں دیکھا۔ حضرت ابراہیم کے دودھ پینے کا انتظام مدینہ کے بالائی حصہ میں ابو سیف کے گھر پہ تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام وہاں اکثر تشریف لے جاتے۔ حضرت ابراہیم کو گود میں لیتے اور پیار کرتے تھے۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمراہ ابو سیف کے گھر پہنچے (وہ حضرت ابراہیم کے رضاعی باپ تھے)۔ حضرت ابراہیم کو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اٹھایا اور ان کے منہ پر بوسہ دیا۔ حضرت ابراہیم اس وقت جان کنی کے عالم میں تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے عرض کیا :

’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! آپ رو رہے ہیں۔ ‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا،

’’ اے ابن عوفؓ یہ شفقت اور رحمت ہے۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پھر رو نے لگے اور فرمایا :

’’آنکھ روتی ہے اور دل غمگین ہے۔ ‘‘ (صحیح بخاری۔ جلد اول۔ حدیث 1223)

بیٹیوں سے محبت

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اپنی بیٹیوں سے بے حد محبت تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کے شوہر ابوالعاص ایک جنگ میں مسلمانوں کے اسیر ہوئے تو فدیہ کے لئے صاحبزادی نے ہار بھیجا تو حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلا م پریشان ہوگئے اور صحابہؓ کے مشورہ سے ہار واپس کردیا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ابو العاص کے متعلق ہمیشہ اچھی رائے کا اظہارفرماتے رہے کیونکہ انہوں نے حضرت زینبؓ کو کبھی دکھ نہیں دیا۔

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کو حضرت عثمانؓ کے نکاح میں دیا۔ حضرت رقیہ ؓ حضرت عثمانؓ کے ساتھ ہجرت حبشہ کیلئے روانہ ہوئیں تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا ، واللہ ! ابراہیم ؑ اور لوطؑ کے بعد عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بی بی کے ساتھ ہجرت کی۔حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے کردیا۔ 
حضرت سعید بن المسیّبؓ سے روایت ہے کہ حضرت رقیہؓ کی وفات کی وجہ سے حضرت عثمانؓ اکیلے ہوگئے اورحضرت حفصہؓ اپنے شوہر کی وفات کے باعث بیوہ ہوگئیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عثمانؓ کو اپنی صاحبزادی حضرت حفصہؓ سے نکاح کا پیغام دیا۔ حضرت عثمانؓ خاموش رہے۔ حضرت عمرؓ نے یہ بات حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام سے بیان فرمائی تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا، تمہیں اس سے بہتر رشتہ بتاؤں۔ میں حفصہؓ کو اپنی زوجیت میں لے لیتا ہوں ام کلثومؓ کا ہاتھ عثمانؓ کے ہاتھوں میں دے دیتا ہوں۔حضرت رقیہؓ کے انتقال کے موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام بے حد غمگین تھے اور بعد میں بھی اکثر اپنی صاحبزادی کو یاد کرکے اشک بار ہوجاتے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے بھی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو حد درجہ پیار تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مختلف مواقع پر ان سے اپنے قلبی تعلق کا اظہار فرمایا۔ حضرت فاطمہؓ جب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں تشریف لاتیں تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کھڑے ہوجاتے ان کی پیشانی چومتے اور اپنی جگہ بٹھاتے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا معمول تھا جب کبھی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ کے پاس جاتے اور سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے اپنی چہیتی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ سے ملاقات فرماتے۔

بچوں پر شفقت

بچوں پر شفقت کرنا ہر معاشرے کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معاشرتی اصول بتاتے ہوئے فرمایا ہے 

’’ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘ 

(سنن ابن داؤد۔ جلد سوئم۔ حدیث 1506)

اس اصول کو سب سے پہلے اپنانے والی ہستی خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بچوں پر شفقت کے حوالے سے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے نواسوں ، نواسیوں سے بہت پیار تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام حضرت امام حسینؓ اور حضرت امام حسن ؓ کو گود میں لے کر پیار کرتے تھے، ان کے لئے دعاکرتے تھے اور ان کی تعریف کرتے تھے۔ 

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت حسنؓ کو پیار کیا، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا میرے دس بچے ہیں میں نے کسی کوپیار نہیں کیا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’ جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘(بخاری شریف ۔ جلد سوم ۔ حدیث 935)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد نبوی میں خطبہ دے رہے تھے۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ دوڑ تے ہوئے آئے اور نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے گھر سے حضرت حسنؓ کو اپنے کندھوں پربٹھاکر گزر رہے تھے کہ کسی نے عرض کیا۔’’کیا اچھی سواری ہے ۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، ’’سوار بھی تو اچھا ہے۔‘‘

(مشکوٰۃ شریف۔ جلد پنجم۔ حدیث 782)

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام تشریف لے جا رہے تھے راستے میں حضرت حسینؓ کو کھیلتے دیکھا تو رک گئے اور آگے بڑھ کر اپنے دونوں ہاتھ پھیلادئیے اور نواسے کو سینے سے لگالیا۔حضرت حسینؓ دوڑتے ہوئے پاس آتے اوردوڑ کر نکل جاتے اور بہت خوش ہوتے اور جب دوبارہ دوڑتے ہوئے آئے تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اٹھاکر محبت سے اپنے سینے سے لگا لیا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس کچھ تحائف آئے، ان تحفوں میں سونے کا ایک خوبصورت چھلّہ بھی تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’یہ چھلّہ میں اسے دوں گا جو مجھے بہت پیاری ہے۔‘‘ پھر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ چھلّہ اپنی نواسی امامہ کو دے دیا۔(سنن ابن ماجہ۔ جلد سوئم۔ حدیث 525)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز ادا کررہے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نواسی امامہ آئیں اور نانا کے کندھوں پر سوار ہوگئیں۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام رکوع میں گئے تو امامہ کو گود میں لے کر نیچے اتار دیا۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام رکوع اور سجدے کے بعد کھڑے ہوئے تو نواسی کو اپنے کندھوں پر بٹھا لیا۔

(ابو داؤد۔ جلد اول۔ حدیث 913)

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سفر سے تشریف لاتے اور لوگ استقبال کے لئے نکلتے تو بچے بھی ساتھ ہوتے اور وہ معمول کے مطابق دوڑ کر ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے، جو بچے پہلے پہنچتے انہیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سواری پر بٹھا لیتے تھے۔
یہ شفقت مسلمان بچوں تک محدود نہ تھی۔ ایک مرتبہ کسی غزوے میں چند بچے بھی بے ارادہ مارے گئے،حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اطلاع ملی تو بڑا رنج ہوا۔ کسی کی زبان سے نکلا ’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام !وہ مشرکین کے بچے تھے۔ ‘‘

فرمایا:
’’
مشرکین کے بچے بھی تم سے بہتر ہیں۔ خبردار! بچوں کو قتل نہ کرو۔خبردار! بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہر جان اللہ تعالیٰ کی فطرت پر پیدا ہوتی ہے۔‘‘

حضرت جابرؓ اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیچھے نمازقائم کی پھرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ چلنے لگا۔سامنے سے چنداوربچے آگئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے سب کو پیار کیا اور مجھے بھی پیار کیا۔

اہل بیت کی تعلیم اور تربیت

بچوں کی تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے۔ گھر ایک سوسائٹی ہے۔ سوسائٹی کے افراد نمونہ ہوتے ہیں۔ گھر کے بزرگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو بُری عادتوں اور بُری باتوں سے دوررکھنے کی کوشش کریں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اے اہل ایمان! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچاؤ۔‘‘

(سورۃ التحریم۔ آیت 6)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے اہل خانہ کے ساتھ انتہائی درجے محبت اور شفقت فرمائی اور ان کی بہترتعلیم و تربیت پر بہت زیادہ توجہ فرمائی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بچوں کی تعلیم و تربیت قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق کی۔
اللہ تعالیٰ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اور اہل بیت سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:

’’اے نبیؐ! اپنی بیویوں سے کہو ،اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کردوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور دارِ آخرت کی طالب ہوتو جان لو کہ تم میں سے جو نیکوکار ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔نبیؐ کی بیویوں تم میں سے جو صریح فحش کا ارتکاب کرے گی، اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کے لئے یہ بہت آسان کام ہے۔اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل کرے گی اس کو ہم دوہرا اجر دیں گے اور اس کے لئے ہم نے رزق مہیاکر رکھا ہے۔ نبی ؐ کی بیویوں، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیاکروکہ دل کی خرابی میں مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑجائے۔، بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔ اپنے گھروں میں قرارسے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے سنگھار کا اظہار نہ کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰ ۃ دو اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دُور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے۔ یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں۔ بے شک اللہ لطیف اور باخبر ہے۔‘‘(سورۃ الاحزاب ۔آیت28 تا 34)

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان