Topics

خصائص نبوی علیہ الصلوٰۃوالسلام

رحمتہ اللعالمین علیہ الصلوٰۃوالسلام

قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔

’’سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے۔نہایت مہربان اور رحم فرمانے والاہے۔یوم جزا کا مالک ہے۔(سورۃ الفاتحہ ۔ آیت 1تا3)

رب کی تشریح یہ ہے کہ ایسی ہستی جو عالمین کوزندہ رکھنے کے لئے وسائل پیدا کرتی ہے ۔ 

ان وسائل کی تقسیم ایثار، محبت اور رحمت کے ساتھ کی جاتی ہے۔ ان وسائل کی تقسیم میں عدل و انصاف اور توازن برقرار رہتا ہے۔ ربوبیت پر غور کیا جائے تو وسائل کی پیدائش سامنے آتی ہے کیونکہ انسان اور زمین کے اوپر موجود تمام مخلوقات وسائل کی محتاج ہیں اگر مخلوقات کے لئے وسائل مہیا نہ کئے جائیں تو مخلوق کی زندگی موت میں تبدیل ہوجائے۔ 

وسائل سے مراد زمین، پانی، آسمان، بارش، ہوا، دھوپ، پھل ، اناج، فضا، مختلف گیسز، معدنیات، جمادات، نباتات ہیں۔ آکسیجن یا ہوا کے بغیر زندگی کا تصور نہیں قائم ہوتا۔ 

بے شک سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے عالمین کے لئے وسائل پیدا کیے اور صفت رحمت کے ساتھ ان وسائل کو عدل و توازن کے ساتھ قائم رکھا ہوا ہے۔ نوع انسانی اور زمین پر آباد تمام مخلوقات ان وسائل سے فیضیاب ہوتی ہیں۔ ان وسائل کے بغیر زندگی کا تصور قائم نہیں ہوتا۔ انسانی زندگی کی بقا اور تقاضوں کی تکمیل کے لئے جو وسائل ہمیں میسر ہیں ان وسائل کی ایک خاص تقسیم ہے۔مثلاً ہم ہوا استعمال کرتے ہیں اگر ہوامیں توازن نہ رہے اور ہوا کے طوفان آجائیں تو ہماری زندگی تہس نہس ہوجائے گی ہوا میں اگر آکسیجن کی مقدارقائم نہ رہے تو ہم زندہ نہیں رہیں گے۔اسی طرح اگر پانی کی تقسیم میں توازن نہ رہے تو پانی کا طوفان آجائے گا ،سیلاب میں انسان کی زندگی قائم نہیں رہتی بلکہ دنیا تباہ وبرباد ہوجاتی ہے ۔پتہ چلا کہ وسائل کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان میں توازن ہو تاکہ زندگی تباہ و برباد نہ ہو اور وسائل مخلوق کیلئے راحت و عافیت کا سبب بنیں ۔مخلوق کو آرام و آسائش مہیا کرنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ ان وسائل کو رحمت کے ساتھ تقسیم کیاجائے۔

ہر مخلوق وسائل کی محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ وسائل کی احتیاج سے ماورا ہیں۔رب العالمین نے جب کائنات بنائی اور اس کائنات کے لئے وسائل پیدا کئے تو پھر رب کائنات نے چاہا کہ وسائل تقسیم کرنے والی ہستی مخلوق ہو۔ اللہ تعالیٰ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں ۔نہ انہیں گھر کی ضرور ت ہے۔ انکا کوئی باپ ہے نہ ان کی کوئی ماں ہے ۔نہ ان کی کوئی اولاد ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے الحمد للہ رب العالمین کی صفت بیان فرمائی ہے جو عالمین کیلئے وسائل پیدا کرتا ہے۔عالمین وسائل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے۔ وسائل کی احتیاج تغیر کی نشانی ہے۔ اگر وسائل کی احتیاج ختم ہوجائے تو تغیر بھی ختم ہوجائے گا۔وسائل کی تقسیم میں یہ بات بنیاد ہے کہ وسائل کی تقسیم وہ کرے جو وسائل کی احتیاج سے آشناہو اور جو وسائل کی ضرورت ، حصول و استعمال کی صفات رکھتا ہو۔ وسائل کی تقسیم کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہستی پیدا فرمائی جس کے اندر وسائل کی حاجت رکھ دی اور جس کے اندر تقاضے پیدا کردیئے کہ وہ وسائل استعمال کرے۔ 

اللہ تعالیٰ نے وسائل تقسیم کرنے والی اس ہستی کیلئے فرمایا:

’’ اے نبی !ہم نے آپ کو تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

(سورۃالانبیاء۔آیت 107)

اللہ نے کائنات بنائی، ضروریات اور احتیاج پیدا کیں اور وسائل پیدا فرمائے۔ ان وسائل کی تقسیم کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو رحمت اللعالمین بنایا اور اپنے محبوب بندے کے اندر وسائل کی احتیاج رکھی کیونکہ اللہ تعالیٰ۔۔۔ خالق اکبر ہیں۔ 
اس طرح اللہ تعالیٰ نے نظام کائنات میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے اور مخلوق کے درمیان واسطہ بنایا۔اللہ تعالیٰ نے اس نظام میں وسائل تقسیم کرنے کے لئے جس ذات کا انتخاب فرمایا وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں یہاں غور و فکر کی ضرورت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کواللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین فرمایاہے۔۔۔

کائنات ایک دنیا کا نام نہیں ہے بلکہ ہماری دنیا کی طرح اربوں دنیائیں ہیں۔۔۔ 

*۔۔۔ایک کتاب المبین ہے۔

قرآن کریم میں کتاب المبین کا تذکرہ اس طرح ہے:

’’الر تلک آیت الکتاب المبین‘‘(سورۃ یوسف۔آیت1)

*۔۔۔ پھر لوح محفوظ ہے۔

’’بل ھو قرآن مجید۔ فی لوح محفوظ‘‘ (سورۃ البروج۔آیت 21تا22)

سیدنا محمد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وارث اہلِ بیت اور علم لدنی کے حامل اولیا ء اللہ روحانی علوم کی تشریح میں فرماتے ہیں:

*۔۔۔ ایک کتاب ا لمبین میں ۔۔۔ تیس کروڑ لوحِ محفوظ ہیں۔

*۔۔۔ ہر لوحِ محفوظ میں اسّی ہزار حضیرے ہیں۔

*۔۔۔ ہر حضیرے میں ایک کھرب سے زائد مستقل آباد نظام اور بارہ کھرب غیر مستقل نظام ہیں۔

*۔۔۔ ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہوتا ہے۔ ہر سورج Star کے گرد نو ، بارہ یا تیرہ سیارے گردش کرتے ہیں۔

سپر کمپیوٹر میں بھی حساب نہیں لگایاجاسکتا کہ ایک کتاب المبین میں کل کتنی زمینیں ۔۔۔ کہکشانی نظام ۔۔۔ چاند اور سورج کی زندگیاں ریکارڈ ہیں۔۔۔

ان عالمین میں انسانوں جیسی مخلوق بھی ہے جنات اور دیگر مخلوقات بھی آباد ہیں۔ کہیں مخلوق ٹرانسپیرنٹ ہے۔ کہیں سیاہ ہے اور کہیں نورانی ہے۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود ہیں۔ بھوک،پیاس، خواب، بیداری،محبت،غصہ،جنس،افزائش نسل وغیرہ۔ زندگی کا تقاضہ، ہر جذبہ اور ہر طرز ہر سیارہ میں جاری و ساری ہے۔ہرنظام میں الگ الگ سماوات، ارض،جبال،حیوانات،جمادات،نباتات،وغیرہ اسی طرح موجود ہیں جس طرح ہم اپنے نظام میں دیکھتے ہیں۔ان تمام عالمین میں جہاں کہیں بھی یہ بے شمار مخلوقات آباد ہیں وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام رحمت اللعالمین ہیں۔

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اس مادی دنیا میں بشر ہیں اور اس دنیا میں جہاں روشنی کی مخلوق آباد ہے۔ فرشتوں کی دنیا میں جہاں نورانی مخلوق آباد ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بحیثیت نور بشر ہیں۔ یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جس عالم میں ہیں چاہے وہ مادی عالم ہو، روشنی کا عالم ہو یا ٹرانسپیرنٹ عالم ہو، بحیثیت بشر کے موجود ہیں اور ان عالمین میں اللہ کی تجلیات و انوار مہیا کرنے کی حیثیت سے نور بھی ہیں۔ 

اول ماخلق اللہ نوری

الفاظ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعریف بیان نہیں ہوسکتی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’
اے نبی !کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لئے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہوجائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کریں۔‘‘(سورۃ الکھف۔آیت109)

اللہ تعالیٰ، رب العالمین ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ،رحمت اللعالمین ہیں۔ رب اللعالمین کے کلمات اور رحمت کی باتیں بھی ختم نہیں ہوتیں اور اگررحمت اللعالمین کی رحمت کو تلاش کیا جائے تو سارے الفاظ ختم ہوجائیں گے لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعریف و توصیف باقی رہے گی۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام رحمت اللعالمین ہیں لہٰذا اس نسبت سے جب مسلمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لے آتا ہے اور کلمہ پڑھ کر اپنی نسبت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم کرلیتا ہے تو مسلمان کو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی’نسبتِ رحمت‘ منتقل ہوجاتی ہے۔ ہر مسلمان چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک روحانی ، قلبی اور ظاہری رشتہ رکھتا ہے اس لئے اس کے اندر یہ صفات منتقل ہوجاتی ہیں۔ جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام عالمین کے لئے رحمت ہیں اسی طرح ہر مسلمان کو پوری نوع انسانی کیلئے رحمت کا ایک چلتا پھرتا کردار ہونا چاہیئے۔ 

جب انسان کے اندر رحمت ہوتی ہے تو اس کے اندر اخلاق حسنہ پیدا ہوجاتاہے۔ غصہ ختم ہوجاتا ہے۔ نفرت سے پاک ہوجاتا ہے حسد، کینہ، بغض اور غرور و تکبر کی جگہ محبت آجاتی ہے۔ یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات ہیں اور یہی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا اسوۂ حسنہ ہے۔ اس اسوہ حسنہ کی بنیاد اللہ کی قربت اور نسبت ہے۔ 

درود و سلام

’’اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ نبی پر درود بھیجتے ہیں ،اے لوگو !جو ایمان لائے،تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔‘‘(سورۃ احزاب۔آیت 56)

درود کے لفظی معنی ہیں رحمت، برکت، بخشش کی دعا، سلام، تسبیح اور تعریف۔ درود فارسی کا لفظ ہے۔ عربی میں ہم صلی اللہ کہتے ہیں۔ 

عربی لغت میں ’صل‘ کے مادہ سے بنے ہوئے تمام الفاظ یہ ہیں۔ اتصال، ایصال، وصل، وصال، صلوٰۃ اور مصلیٰ ۔۔۔ اور ان تمام الفاظ کے مفاہیم میں جو چیز مشترک ہے وہ ہے ’ربط اور تعلق‘۔اس طرح درود شریف کامفہوم ہے ’’اے اللہ!آپ اپنے حبیب حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میرا تعلق جوڑ دیں۔‘‘اس کا مطلب ہے کہ جو بات ماننے والے لوگ ہیں ان کو چاہیئے کہ وہ اپنا تعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م سے ا س طرح استوار کرلیں جس میں مکمل خود سپردگی ہو۔ اس خود سپردگی میں کوئی کمی یا کوتاہی نہ ہو اس طرح درود و سلام پڑھنے سے بندے کا تعلق اور ربط اللہ تعالیٰ کے حبیب علیہ الصلوٰۃوالسلام سے قائم ہو جاتا ہے۔درود شریف کا پڑھنا اپنی ناتوانی کا اظہار اور خواہش تعلق کی ایک درخواست ہے۔اللہ تعالیٰ کے بعد بزرگ ترین مقام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عقیدت کس طرح ہونی چاہیئے؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے :

’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ ‘‘

(سورۃ النساء ۔آیت80)

درود وسلام میں ایک بہت ہی لطیف بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل یعنی نماز ،روزہ،زکوٰۃ ،حج وغیرہ کا حکم اہل ایمان کو براہِ راست دے کر انہیں ان امور کا پابند فرمایا ۔لیکن درود شریف کا واحد حکم ہے کہ جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنے اور فرشتوں کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر درود بھیجتے ہیں،جس سے ظاہر فرمایا کہ اے اہل ایمان خبردار ہوجاؤاور اچھی طرح غور کرلو کہ اب جس امر کا تمھیں حکم دیا جانے والا ہے وہ بہت ہی اہم ہے اور سوائے درود شریف کے حکم کے قرآن مجید میں دیئے جانے والے احکام میں سے کوئی ایسا امر موجود نہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ منسوب کیا ہو۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں محسن اعظم کے احسان کے بدلہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کا حکم دیا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے بڑھ کر ہم پر کسی کا احسان نہیں۔ہم چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے احسان کے بدلہ سے عاجز ہیں ،لہٰذاا للہ تعالیٰ نے درود پڑھنے کا حکم دیاہے ۔

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ارشاد ہے :

جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھے ۔اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ صلوٰۃ بھیجتا ہے۔ (مسلم)

علامہ سخاوی لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م کے پا ک نام کو اپنے پاک نام کے ساتھ جس طرح کلمہ شہادت میں شریک کیا اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م کی اطاعت اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا ۔اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م پر درود کو ا پنے درود کے ساتھ شریک کیا ۔لہٰذا جیسا کہ اپنے ذکرکے متعلق فرمایا :تم مجھے یاد کرو میں تمھیں یاد رکھو ں گاایسے ہی درود شریف کے متعلق ارشاد فرمایاجو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود بھیجتے ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م سلام عرض کرنے والوں کی التجاؤں کو سننے ہیں ۔ مواہب لدینہ میں حدیث پاک ہے :

اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میرے سامنے کردی لہٰذا میں ساری دنیا کو اور جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے سب کا سب یوں دیکھ رہا ہوں جیسے اس ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔ (طبرانی) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسی برگذیدہ ہستی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور ان کے فرشتے بھی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور مومنین سے بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود و سلام بھیجنے کے لئے کہا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت مہربان اور محبت کرنے والی شفیق ہستی ہیں اور وہ رحیم و کریم ہیں اپنے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت و عقیدت رکھنے والے امتی کی ضرور بخشش فرمائیں گے۔مسلمانوں پر درود شریف پڑھنا فرض کر دیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ادب و احترام کے ساتھ اور کثرت کے ساتھ درود و سلام بھیجیں کیونکہ درودوسلام حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ مضبوط تعلق کا اظہار ہے اور جب تک حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ محبت اور احترام کا مضبوط رشتہ قائم نہ ہو ۔ایمان کی تکمیل نہیں ہو ئی ۔ 

’’جب درود و سلام کی آیت ناز ل ہوئی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م کے چہرہ انوار پر انار کے دانوں کی طرح سرخی تھی۔صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا ’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام !ہم چاہتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں اس آیت کی حقیقت سے آگاہ فرمائیے ۔‘‘ (نزہتہ المجا لس جلد دوئم صفحہ 119)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے فرمایا:

’’تم لوگوں نے مجھ سے ایک علم مکنون اور پوشیدہ راز کی بات پوچھ لی ہے ۔اگر نہ پوچھتے تو میں تاحیات اظہار نہیں کرتا ۔ہاں سن لو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے دودو فرشتے مقرر فرمادئیے ہیں کہ جب کوئی مومن بندہ میرا نام سنے اور مجھ پر درود بھیجے تو دونوں فرشتے بول اٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمھاری مغفرت فرمائے ان فرشتوں کی درخواست پر اللہ تعالی بذاتِ خود تمام فرشتوں کے ساتھ فرماتا ہے آمین۔

”ایک موقع پر ارشاد فرمایا ’’جو شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے مجھے اس کا درود پہنچتا ہے۔میں اس کے لئے دعا کرتا ہوں۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر فرما یا ہے جو تمھارا درود لے کر میرے پاس اس طرح آتا ہے جس طرح کوئی تمھارے پا س تحائف لے کر آتا ہے اور وہ عرض کرتا ہے کہ درود پڑھنے والے کا یہ نام ہے،یہ نسب ہے اور یہ خاندان ہے پھر میرے پاس موجود سفید صحیفے میں اس کو محفوظ کر لیتا ہے۔‘‘

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ درود شریف پڑھنا اور بارگاہ رسالت علیہ الصلوٰۃ والسلام میں درودو سلام کے نذرانے پیش کرنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔

ایسے بہت سے واقعات تاریخ میں موجود ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود پیش کرنے والے سعید افرد کی دعائیں قبول ہوئیں،مسائل حل ہوئے،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت با برکات نصیب ہوئی اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نظر عنایت عطا ہوئی۔
علامہ طبرانی کہتے ہیں کہ ’’مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی تومیں نے بہت محبت و عقیدت سے ایک درود شریف سنایا اسے سنتے وقت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے چہرہ اقدس پر مسکراہٹ تھی میں نے دیکھا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مسرور ہیں حتیٰ کے مجھے دندان مبارک نظرآئے دندان مبارک سے نور دمک رہا تھا۔‘‘

حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی ؒ تحریر کرتے ہیں ’’ہم ایک بار درود شریف پڑھتے ہیں تو درود پڑھنے والے پر اللہ تعالیٰ دس باررحمتیں بھیجتے ہیں ۔دس درجات بلند کرتے ہیں ۔دس نیکیاں عطا فرماتے ہیں۔ درودِ پاک سبب قبولیت دعا ہے ۔اسکے پڑھنے سے شفاعت حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام واجب ہوجاتی ہے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کا باب جنت پر قرب نصیب ہوگا ۔درود پاک تمام پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے اور تما م حاجات کی تکمیل کے لئے کافی ہے ۔درود پاک گناہوں کا کفارہ ہے ۔ درود شریف کی برکت سے مصیبتیں ٹلتی ہیں،بیماریوں سے شفا حاصل ہوتی ہے خوف دور ہوتا ہے۔ ظلم سے نجات حاصل ہوتی ہے اور دلوں میں اس کی محبت قائم ہوتی ہے ۔فرشتے اس کا ذکر کرتے ہیں ۔ اعمال کی تکمیل ہوتی ہے۔ دل وجان اور ذات ومال کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے ۔دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے ۔ درود پڑھنے والا خوش حال ہوتا ہے ۔اولاد سعید ہوتی ہے۔سکرات موت میں آسانی ہوجاتی ہے ۔دنیا کی تباہ کاریوں سے نجات ملتی ہے اور نجات حاصل ہوتی ہے ۔ ۔ ملائکہ درود پاک پڑھنے والے کااحاطہ کرلیتے ہیں۔ عظیم تر سعادت یہ ہے کہ درود شریف پڑھنے والے کا نام حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے تاجدارِ مدینہ حبیب کبریاحضو ر علیہ الصلوٰۃوالسلام کی محبت بڑھتی ہے۔محاسن نبویہ علیہ الصلوٰۃوالسلام دل میں گھر کر جاتے ہیں اور کثرت درود شریف سے صاحب لولاک علیہ الصلوٰۃوالسلام کا تصور دل میں گھر کر جاتا ہے اور خوش نصیبوں کو درجہ قربت نبوی علیہ الصلوٰۃوالسلام حاصل ہوتا ہے اور خواب میں سلطان الانبیاء والمرسلین رحمت العالمین حضور پر نور نبی کریم علیہ الصلوٰۃوالسلام کا دیدار فیضِ آثار نصیب ہوتا ہے ۔ قیامت کے دن تاجدارِ مدینہ سے مصافحہ کی سعادت نصیب ہوگی ۔ فرشتے مرحبا کہتے ہیں اور محبت رکھتے ہیں ۔‘‘(جذب القلوب۔باب7صفحہ266)

احیاء العلوم میں امام غزالی ؒ فرماتے ہیں:

اے نمازی جب توقعدہ میں بیٹھے تو تو اپنے دل میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو حاضر جان کر یوں عرض کر ’’اے اللہ تعالیٰ کے نبی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر نازل ہوں۔(احیاء العلوم)
حضرت ابوذرغفاریؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ارشاد فرمایا کہ’’ میں تم لوگوں کو آگاہ نہ کردوں کہ سب سے بڑا بخیل کون ہے تو مجلس میں موجود صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام!ہمارے ماں باپ آپ پر قربان :ہمیں ضرور آگاہ فرمائیے تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو میرا نام سن کر مجھ پر درود نہیں بھیجتا۔‘‘(کتب احادیث)
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص میرے روضہ پر حاضر ہو کر مجھ پر درود بھیجے میں خود اسے سنتا ہوں اور جو درود پڑھے مجھ تک پہنچا دیا جاتا ہے۔‘‘

(ابن قیم جوزی ،جلاء الافہام ۔تہذیب التہذیب)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا’’ جو کوئی مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور میں اس کے بدلہ میں اس پر درود بھیجتا ہوں اور اس کے علاوہ دس نیکیاں اس کے لئے لکھی جاتی ہیں ۔‘‘

ان تمام اور ان جیسے دوسرے بے شمار واقعا ت سے ثابت ہوتا ہے کہ عقیدت واحترام اور محبت کے ساتھ درود و سلام پڑھنے سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نسبت قائم ہوجاتی ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روحانی تعلق قائم ہوجاتا ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے امتی کو پہچانتے اورالتفات فرماتے ہیں۔دراصل حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر درود و سلام پیش کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہی قلبی تعلق اور نسبت قائم کرنا ہے ۔اللہ تعالیٰ اور فرشتے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر درود بھیجتے ہیں۔صلوٰۃ کا مفہوم اہل روحانیت ربط اور تعلق فرماتے ہیں۔یعنی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر درود پڑھنا درحقیقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م سے روحانی تعلق اور رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔اوپر بیان کردہ واقعات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ درود شریف کی بدولت خاص نسبت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اور بندہ کے درمیان قائم ہوجاتی ہے ۔سلف صالحین نے درود شریف پڑھنے کے کچھ آداب بیان کئے ہیں درود شریف پڑھتے ہوئے خاص اہتمام کیا جانا ضروری ہے یعنی پاک و صاف لباس زیب تن کیجئے ،جسم کو پاک کیجئے ،ماحول کو خوشبو میں بسائیے اور ادب واحترام کے ساتھ درود شروع کیجئے ،بے وضو درود شریف پڑھنے سے گریز کرنا چاہیئے۔درود شریف کا ترجمہ ضرور یاد کیجئے کیونکہ اس سے قلبی تعلق اور حضوری کی کیفیت طاری ہونے میں آسانی رہتی ہے ۔

صلی اللہ تعالیٰ علیٰ حبیبہ محمد وسلم

اے اللہ تعالیٰ اپنے حبیب محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام پر درود و سلام بھیجئے۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان