Topics

باب 1- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد سے قبل تاریخ عالم

مذہبی،سیاسی،اخلاقی اور معاشی حالات

ایران

عرب کی پہلی ہمسایہ سلطنت ایران تھی۔ ایران کا لفظ آریانہ سے مشتق ہے۔ جس کا مطلب ہے آریاؤں کی سرزمین۔اہل ایران کے عقائد کے بارے میں بریگیڈیئر جنرل پرسی سائیکس (Sir Percy Sykes) نے اپنی کتاب، ہسٹری آف پرشیا میں لکھا ہے:

آریہ قوم مظاہر پرستی کا شکار تھی۔ روشنی، شفاف آسمان،آگ، ہوائیں، حیات بخش بارشیں ان سب کی مقدس معبودوں کی طرح پرستش کی جاتی تھی۔ جبکہ ظلمت اور قحط سالی کو ملعون دیو تصور کیا جاتا تھا۔ اس مشرکانہ نظام میں آسمانوں کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ سورج کو آسمان کی آنکھ کہا جاتا تھا۔ روشنی کو آسمان کا فرزند۔ آسمانی دیوتا وارونا (Varuna) جسے یونانی یورانس (Ouranos) کہتے تھے۔ اس کو سب سے بڑے خدا کی حیثیت سے پوجا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ متھرا (Mithere) جو روشنی کا دیوتا تھا اس کی بھی پوجا کی جاتی تھی۔ وارونا اور متھرا کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ تھاانسانوں کے دلوں کے حال اور ان کے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور وارونا اور متھرا ہر چیز سے واقف ہیں۔                          (ہسٹری آف پرشیا۔جلد اول۔ص100)

اس مظاہر پرستی کے دور میں زردُشت کا ظہور ہوا۔زردُشت نے خدائے وحدہٗ لاشریک پر ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دی۔ لوگوں نے زردُشت کی تعلیمات کو قبول کرلیا۔ زردُشت ایک خدا، فرشتوں، اللہ کے منتخب بندوں، الہام، جنت اوردوزخ پر ایمان رکھتا تھا۔

 اسلام سے قبل کے دیگر مذاہب کی تعلیمات تحریف سے پاک نہ رہ سکیں اسی طرح زمانے کے حالات نے زردُشتی تعلیمات کوبھی خالص نہ رہنے دیا اور جو تعلیمات آج زردُشت سے موسوم کی جاتی ہیں یہ تحریف شدہ ہیں۔ زردُشت کی وفات کے بعد لوگ واپس مظاہر پرستی کا شکار ہوگئے۔ دو خداؤں کو ماننے لگے۔

۱۔   یزدان: خیر اور بھلائی کا خدا۔                             ۲۔  اہرمن: شر اور بدی کا خدا۔

اس بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

دو خدا نہ بناؤ۔خدا تو ایک ہی ہے۔“(سورۃ النحل۔آیت51)

 ساسانی بادشاہ اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ان کی رعایا انہیں خدا سمجھے۔ بادشاہ کو یہ اختیار تھا کہ جس کے بارے میں چاہتا مقدمہ چلائے بغیر اس کے لئے موت کی سزا کا حکم سنا دیتا بلکہ بادشاہ کی ماں اور اس کی بڑی ملکہ کو بھی یہ اختیارات حاصل تھے کہ وہ جس کو چاہیں موت کے گھاٹ اتار دیں۔بادشاہ کی قوت کا دارومدار عسکری قوت پر ہوتاتھا۔ ایران کا ہر شہری جس کی عمر پندرہ سال اور پچاس سال کے درمیان ہوتی اس پر لازم تھا کہ وہ فوجی خدمات ادا کرے۔ آمرانہ ملوکیت کا یہ نتیجہ تھاکہ بادشاہوں کو اپنی حفاظت کیلئے خصوصی انتظامات کرنے پڑتے تھے جب وہ دربار عام میں شرکت کیلئے جاتے تو اس وقت بھی کوشش کی جاتی تھی کہ کوئی بادشاہ کے قریب نہ آ سکے۔

پروفیسر آرتھر لکھتے ہیں:

شاہی تخت ہال کے سرے پر پردے کے پیچھے رکھا جاتا تھا۔اراکین سلطنت اور حکومت کے اعلیٰ عہداروں کو پردے سے مقررہ فاصلے پر بٹھایا جاتا تھا درباریوں کی جماعت اور دوسرے ممتاز لوگوں کے درمیان ایک جنگلاہوتا تھا اچانک پردہ اُٹھتا تھا اور شہنشاہ تخت پر بیٹھے، دیبا کے تکئے پر سہارا لگائے زربفت کا بیش بہا لباس پہنے جلوہ گر ہوتا تھا۔ تاج، جو سونے اور چاندی کا بنا ہوا اور زمرد، یاقوت اور موتیوں سے مرصع تھا۔ بادشاہ کے سر کے اوپر چھت کے ساتھ سونے کی زنجیر کے ذریعہ سے لٹکا رہتا تھا زنجیر اس قدر باریک تھی کہ جب تک تخت کے بالکل قریب آکر نہ دیکھا جائے نظر نہیں آتی تھی۔ اگر کوئی شخص دور سے دیکھتا تو یہی سمجھتا تھا کہ تاج بادشاہ کے سر پر رکھا ہوا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ اس قدر بھاری تھا کہ کوئی انسانی سراس کو نہیں اُٹھا سکتا۔ اس کا وزن ساڑھے اکانوے کلو تھا۔“(ایران بعہد ساسانیان ص530)

جو شخص بادشاہ کے حضور حاضر ہوتا تھا اس کو قدیم دستور کے مطابق سجدہ کرنا پڑتا تھا۔اس شاہانہ جاہ و جلال اور حفاظتی تدابیر کے باوجود بادشاہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرتا تھا۔ اسے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں اس کے دشمن اس کو قتل نہ کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لئے متعدد خواب گاہیں بنائی ہوئی تھیں۔ کسی شخص کو اس بات کا علم نہ ہوتا کہ بادشاہ آج کہاں سورہا ہے۔ کہتے ہیں کہ ارد شیر اول خسرو اول، خسرو دوم اور کئی دوسرے ساسانی بادشاہوں کے لئے چالیس مختلف جگہوں پر بستر بچھائے جاتے تھے اور اس پر بھی بعض وقت بادشاہ ان میں سے کسی بستر پر نہیں سوتا تھا بلکہ کسی معمولی سے کمرے میں بغیربستر کے ہاتھ کا سرہانہ بنا کر لیٹتا تھا۔

 معاشرہ مختلف طبقات میں بٹا ہوا تھا۔ ادنیٰ طبقے کے لوگ معاشرہ کے جس طبقہ میں پیدا ہوتے عمر بھر وہ اس طبقے کے ساتھ وابستہ رہنے پر مجبور تھے۔ ان کو اپنا آبائی پیشہ ترک کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ سلاطین اور امرا درجہ بدرجہ رعایا کے خدا اور دیوتا تھے۔ جن کو سجدے کئے جاتے تھے۔ان کے دربار میں کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کے خلاف کوئی لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ ان کے جرائم پر ان کو سزا نہیں دی جاتی تھی۔ عام طور پر نچلے طبقہ کا کوئی فرد اعلیٰ طبقہ میں منتقل نہیں ہوسکتا تھا لیکن اگر کسی شخص میں کوئی غیر معمولی جوہر ہوتا تو اس کا طرح طرح سے امتحان لیا جاتا اگر وہ ان آزمائشوں میں پورا اترتا تو پھر اس کو اعلیٰ طبقہ میں داخل ہونے کی اجازت مل جاتی تھی۔

معاشی لحاظ سے سوسائٹی دو طبقوں میں بٹی ہوئی تھی ایک طبقہ امرا، رؤسا، جاگیرداروں اور فوجی جرنیلوں کا مراعات یافتہ طبقہ تھا۔ ان کے پاس ملک کی ساری دولت سمٹ کر آگئی تھی۔

 دوسر اطبقہ عوا م کا تھا جن میں کاشت کار، مزدور، دستکار اور دوسرے لوگ تھے ان کے مقدر میں مفلسی اور محرومی لکھ دی گئی تھی۔ وہ صدیوں سے اس چکی میں پس رہے تھے۔

 کسانوں کی حالت قابل رحم تھی۔ ان سے ہر طرح کی بیگار اور جبری خدمت لی جاتی تھی، جب فوج جنگ کے لئے کوچ کرتی تو ان بے چارے کسانوں کے بڑے بڑے گروہ ان کے پیچھے گھسٹتے چلے جاتے تاکہ فوجیوں کی خدمت بجا لائیں اور ان کے حکم کی تعمیل کیلئے حاضر رہیں۔ اس پر مزید ستم یہ کہ ان غریبوں کی کسی قسم کی اجرت سے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی۔ قانون غریب طبقہ کی زیادہ حمایت نہیں کرتا تھا۔ امرا اپنے زیر فرمان کسانوں، غلاموں اور رعایا کی زندگی اور موت کا اپنے آپ کو مالک اورمختار سمجھتے تھے۔ نت نئے ٹیکس کاشت کاروں پر لگائے جاتے تھے جنہوں نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔ اس لیے بہت سے کاشتکاروں نے زراعت کا پیشہ ترک کردیا تھا۔

اگرچہ فوج میں بھرتی ہونے سے ٹیکسوں کا بوجھ کم ہوجاتا تھا لیکن انہیں بے مقصد اور خون ریز جنگوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوگ ناجائز طریقے سے روپیہ کمانے کی بیماری کابری طرح سے شکار ہوگئے تھے۔ اس طرح جرائم بے پناہ بڑھ گئے تھے۔ نت نئے ٹیکسوں سے سرکاری خزانہ میں جو دولت جمع ہوتی اس میں سے بہت کم حصہ عوام الناس کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ کیا جاتا تھا۔جو حکمران آئین سے آگاہ تھے وہ ملک میں سڑکیں بنانے، دریاؤں پر پل تعمیر کرنے، زیر کاشت زمینوں کو آبپاش کرنے کیلئے دریاؤں سے نہریں نکالنے اور بند تعمیر کرنے کی طرف توجہ دیتے تھے۔

لیکن بہت کم ایسے حکمران تھے جو ملکی آمدنی کو رفاہِ عامہ پر خرچ کرتے تھے۔ بادشاہ کا اپنا ذاتی خزانہ ہوتا تھا جس میں قیمتی اشیا جمع کی جاتیں تھیں۔ غنیمت کاسارا مال بادشاہ کی ذاتی ملکیت شمار ہوتاتھا۔ وسیع و عریض جاگیریں بادشاہ کی ذاتی ملکیت ہوتیں تھیں جس سے اس کو بے پناہ آمدنی ہوتی تھی۔ اس بے پناہ آمدنی کے باعث بادشاہوں کی زندگیاں عیش و عشرت سے گزرتی تھیں۔ امرا اور رؤسا کے لباس بے حد قیمتی ہوتے تھے اور اس سے ان کی شان وشوکت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ امراکلاہ سر پر پہنتے تھے جس میں قیمتی جواہرات جڑے ہوتے تھے۔

یونان

یونان کی حالت یہ تھی کہ

٭ بے شمار جان داروں اور بے جان چیزوں کو معبود کا درجہ حاصل تھا۔ جن میں پتھر، درخت، چوپائے اور پرندے شامل تھے۔شجر پرستی کو خاص اہمیت حاصل تھی۔

٭ یہ لوگ وہم پرست تھے۔ ارواح خبیثہ سے محفوظ رہنے کے خیال سے ٹہنیاں سر پر لپیٹ لی جاتی تھیں۔ عبادت کی ادائیگی کے وقت ان درختوں کی پتیوں سے بنا ہوا ہار خاص طور پر گلے میں ڈال لیا جاتا تھا۔ جس سے پہننے والا نہ صرف محفوظ ہوجاتا بلکہ مقدس بھی بن جاتا تھا۔ قدیم یونانی جانوروں کی پرستش میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔ ہر دیوتا کے ساتھ ایک جانور مخصوص کیا جاتا تھا۔

 ٭مرنے کے بعد بادشاہ کی روح کی پرستش کی جاتی تھی۔ اس کے متعلق عقیدہ تھا کہ وہ اس علاقے یا قبیلے کا اب بھی ویسے ہی حکمران ہے جس طرح وہ اپنی زندگی میں تھا۔

٭ عبادت گاہوں میں عورتوں، غلاموں اور اجنبیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ اس کے اندر صرف پروہت (پجاری) داخل ہوسکتے تھے۔

٭یونان کے ایک شہر میں بت خانہ تھاجس کو (ORACLE OF DELFI)کہتے تھے۔یہاں ایک بت کے خول میں پجاری بیٹھ کر لوگوں کے سوالوں کے جوابات اور مستقبل کی پیشین گوئیاں کرتا تھااور لوگ اس کو غیب کی آواز سمجھتے تھے۔

ہومر کے دور کے بعد امرا کے طبقہ نے تدریجاً بادشاہوں کے اختیارات حاصل کر لئے بادشاہ یا تو ناپید ہوگئے یا برائے نام رہ گئے۔ اس لئے پرانی بادشاہی کی جگہ حکومت عدیدہ (Oligarchi) عالی گارچی نے لے لی۔

 ساتویں صدی قبل مسیح تک امرا کے خلاف قرضوں سے دبے ہوئے کسانوں اور نئے تجارتی طبقوں نے حملے شروع کردیئے حکومت عدیدہ کے ذمہ دار ارکان عموماً عسکری اہلیت سے بے بہرہ تھے۔ وہ جنگوں میں شہروں کی حفاظت سے قاصر رہے اسطرح ہر شہری ریاست میں عدیدی تختہ الٹ دیا گیا۔

 تین طبقوں میں تقسیم معاشرہ۔

۱۔  بادشاہ……سیاسی اختیارات کے ساتھ ساتھ اسے سب سے بڑا مذہبی پیشوا ماناجاتا تھا اور وہ اپنے امرا کی مدد اور مشوروں سے حکومت کا کاروبار چلاتاتھا۔ بادشاہ اور اس کی ملکہ عام لوگوں کی طرح خود بھی کام کرتے تھے اور ڈیسوس نامی بادشاہ کو اس بات پر فخر تھاکہ وہ اپنے کھیتوں میں کام کرتاہے اوراس نے اپنا پلنگ خود بنایا ہے اوراس کی ملکہ پینی لوپی سوت کاتتی اورکپڑابنتی ہے۔

۲۔  دوسرا طبقہ امرا کاتھا…… ان کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ دیویوں اور دیوتاؤں سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کانسب زیوس دیوتا سے ملتا ہے جو کوہ اولمپس کے دیوتاؤں کے خاندان کا حاکم اعلیٰ ہے اسی دعویٰ کی بنا پر انہوں نے معاشرہ میں دیگر طبقات اور قبائل پر فوقیت حاصل کرلی تھی۔

۳۔  تیسرا طبقہ عوام کا تھا…… جنہیں جنگوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کا معاشی نظام غارت گری اور بحری قزاقی کے علاوہ تجارت اور کاشت کاری تھا۔ وہ مویشی پالتے اورغلّہ اُگاتے تھے۔خاص کاشت زیتون اور انگور تھے۔ اسلحہ ساز جنگی رتھ اور جنگ کیلئے اسلحہ تیارکرنے میں ماہر تھے۔

یونان میں زرعی زمینوں کی مقدار بہت کم تھی اس لئے خوشحال کسانوں کیلئے یہ ممکن تھا کہ وہ اپنے محدود قطعات اراضی میں کاشت کریں۔ لیکن غریب کسانوں کیلئے کھیتی باڑی کرنا ممکن نہیں تھا۔ وہ دولتمند ہمسایوں سے قرض لینے پر مجبور ہوجاتے تھے۔قرض خواہ گراں شرح سود پر انہیں قرضہ دیتے تھے۔ مقروضوں کیلئے قرضوں کی ادائیگی ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ محدود آمدنی میں سے اخراجات پورے کرنانہایت دشوار عمل تھا۔ جب مقررہ و قت پر قرض ادا نہ کرسکتے تو جائیداد ان سے چھین لی جاتی تھی۔ شخصی آزادی سے بھی انہیں محروم ہوناپڑتاتھا۔ ایسے شخص کو مجبور کیا جاتاکہ قرض خواہ کے باغوں میں مزدوری کرتا رہے۔  

روم

قدیم رومیوں کا عقیدہ دیوتا پرستی تھا۔ ان گنت معبود تھے۔ رومی زراعت پیشہ تھے۔ انہوں نے کھیتوں کیلئے دیویاں مقرر کر رکھی تھیں۔ گھریلو معبودوں میں ویسٹا تھی جو آگ کی دیوی کی محافظ سمجھی جاتی تھی۔ اس کی پروہت عورتیں (مذہبی امور کی نگران) ہوا کرتی تھیں۔ جن کو ”ویسٹا کی کنواریاں“ کہا جاتا تھا۔ ان کا کام یہ تھا کہ ہر وقت آگ روشن رکھیں۔ روم میں ایک بڑا آتش کدہ تھا جہاں کبھی آگ نہیں بجھتی تھی۔روم میں بھی یونان کی طرح بادشاہ پرستی، ارواح پرستی عام تھی۔ مذہبی رہنماؤں نے ہر خاص و عام کو یہ اجازت دے دی تھی کہ وہ جو چاہیں گناہ کریں اس کے بعد پادری صاحب سے معافی نامہ لے کر اس گناہ سے بری الذمہ ہوجائیں۔ ایک مذہبی فرقے کے نزدیک دین داری کا سب سے اہم جز رہبانیت تھی۔ ہر قسم کے آرام و آسائش سے جسم کو محروم کر کے ہر قسم کی تکلیف و عذاب میں خود کو تمام عمر مبتلا رکھنا بہترین عبادت تھی۔ کسی نے تمام عمر غسل نہ کرنے کی قسم کھا لی تھی، کوئی خود کو بوجھل زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھا، کسی نے سایہ میں بیٹھ نے کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا کسی نے خود کو اندھیری کوٹھڑی میں بند کرلیا تھا۔ ماں باپ، عزیز و اقارب اور اہل و عیال، دینداری کی راہ کے کانٹے تھے، ان سے نفرت کمالِ تقویٰ سمجھا جاتا تھا۔

سلطنت روم کی آبادی معاشرتی طور پر دو طبقات میں تقسیم تھی۔ ایک طبقہ امرا کا اور دوسراطبقہ عوام کاتھا۔ امرا خوشحال تھے اور ان کے پاس بڑی بڑی جائیدادیں تھیں۔

 آبادی کی بہت بڑی اکثریت کا تعلق عوام سے تھا وہ لوگ صرف جزوی حیثیت سے شہری تھے۔حکومت نے جمہوریت اور شہنشاہیت کے زمانہ میں درسگاہوں کی کبھی سرپرستی نہیں کی چنانچہ اس وقت کی درس گاہوں میں تعلیمی اخراجات بہت زیادہ تھے۔ وہی بچے درس گاہوں میں تحصیل علم کیلئے داخل ہوسکتے تھے جن میں تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت تھی۔

خوشحال رومی عیش و راحت کی زندگی بسر کیا کرتے تھے وہ دیہات میں اپنے لیے بنگلے تعمیر کرتے۔ ان کے کھانے پینے کا شوق جنون کی حدتک پہنچا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ ایک مرتبہ کھانا کھا کر عمداً قے کر کے پیٹ خالی کر دیتے تا کہ دوسری مرتبہ لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔کسانوں کیلئے آرام کے سامان نہ ہونے کے برابر تھے۔ بیروزگاری عام تھی اورحکومت نے کبھی اس سنگین مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔ چنانچہ نصف سے زیادہ آبادی خیرات پر گزر اوقات کرتی تھی۔

روم کا اقتصادی نظام مخلوط قسم کا تھا۔ اس میں نجی کاروبار کی اجازت بھی تھی اور اس میں بعض صنعتوں کو حکومت نے اپنی ملکیت میں لے لیا تھا۔ جاگیریں وسیع سے وسیع ترہوتی جارہی تھیں اور کاشتکار مجبوراً بڑے زمینداروں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے قحط سالی یا طغیانی کی وجہ سے ان کی زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی تھی لیکن ٹیکسوں کا بوجھ جوں کا توں ان پر باقی رہتا تھا۔ پے در پے جنگوں کی وجہ سے عام کاشتکار روز افزوں ٹیکسوں کے بوجھ کو برداشت کرنے سے قاصر تھے۔ صنعتی کارخانوں میں مزدوری کرنے والے لوگ آزاد تھے۔ حکومت اپنے کارخانوں میں زیادہ تر ایسی چیزیں بناتی جن کی فوج کو، افسر شاہی کو اور اہل دربار کو ضرورت ہوتی۔ملک روم کی معدنی دولت حکومت کی ملکیت تھی۔ لیکن پرائیویٹ ادارے کانوں کو حکومت سے کرایہ پر لیتے تھے۔ ریشمی پارچہ جات اور ارغوانی رنگوں کی ساخت صرف حکومت کے تصرف میں تھی۔ ان کے کارخانے شاہی محلات کے اندر ہوتے۔سب سے زیادہ قیمتی ریشمی کپڑا شاہی خاندان کے افراد کیلئے مختص تھا۔

مصر

مصر میں دیوتاؤں اور دیویوں کی فوج موجود تھی اور ان دیوتاؤں اور دیویوں کے پجاری بھی مختلف تھے۔ اس میں جانوروں کے سر رکھنے والے دیوتاؤں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ مطالعہ مصریات سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم مصر کا جاہل طبقہ ان دیوتاؤں کا معتقد تھا لیکن تعلیم یافتہ طبقہ ان دیوتاؤں کی پرستش نہیں کرتا تھا۔ مصری ابتدا سے حیات بعد الموت کے قائل تھے ان کایہ عقیدہ تھاکہ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کیا جاتاہے اوراس کو اس کے اعمال کے مطابق جز ا اورسزا دی جاتی ہے۔ اس عقیدے کے پیش نظر ان کے یہاں مردوں کی تدفین وتکفین کے بارے میں بڑی عجیب وغریب رسمیں تھیں۔وہ ان کی قبروں میں اورچیزوں کے علاوہ کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھ دیاکرتے تھے اورجب ان کاکوئی بادشاہ مرتاتو اس کیلئے پہاڑکاٹ کر وسیع وعریض مدفن تیارکیاجاتاجوکئی کمروں پر مشتمل ہوتاتھا۔اس میں داخلے کیلئے پہاڑی کاٹ کر وسیع وعریض راستہ بنایا جاتاجوچھ سات فٹ چوڑااورچھ سات فٹ اونچا دور تک پہاڑی میں چلاجاتا تھا۔ اس سے آگے کمرہ کے برابر ایک گڑھاکھود دیاجاتاپھر اس سے آگے ایک دوسرا کمرہ ہوتا۔ جس میں شاہی تابوت رکھاجاتا۔جس میں بادشاہ کی حنوط شدہ ممی(لاش) رکھی ہوتی، اس کے دائیں بائیں دوکمرے ہوتے جن میں بادشاہ کی ضرورت کاسامان شاہانہ انداز سے رکھ دیاجاتا۔سونے کے زیورات، سونے کا تخت،سنہری کرسی اوردیگر قیمتی اشیا کے علاوہ کئی برتنوں میں کھانے پینے کی چیزیں رکھ دی جاتیں، پانی سے بھرے ہوئے کئی مٹکے بھی رکھ دئے جاتے تھے۔ ماہرین آثارقدیمہ نے جو مقبرے دریافت کیے ہیں اور انکی کھدائی کی ہے وہاں سے یہ ساری چیزیں دستیاب ہوئی ہیں۔جن میں سے کئی چیزیں مصر کے عجائب گھر میں موجود ہیں۔

ان کا عقیدہ یہ تھاکہ دفن کرنے کے بعدبادشاہ دوبارہ زندہ ہوجائے گااور اس کو اس دنیاکی زندگی کی طرح خدام اور خادماؤں کی بھی ضرورت پڑے گی،اس لیے خادموں اورخادماؤں کی ایک جماعت اس کمرے میں کھڑی کردی جاتی اوردروازہ بند کردیاجاتااس کے سامنے مٹی اورریت کااس طرح ڈھیرلگا دیا جاتا کہ کسی کوپتہ نہ چلے کہ یہاں کوئی بادشاہ اپنے زیورات، اجناس اور خدام کے ساتھ مدفون ہے۔ بادشاہ کی میت پر تو جو گزرتی ہوگی وہ گزرتی ہوگی، لیکن ان زندہ خدام اورخادماؤں پر جو گزرتی ہوگی اس کا تصور کرکے ہی لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔

مصری معاشرہ میں سب سے اعلیٰ طبقہ مذہبی پیشواؤں اور امرا کا تھا جو تعداد میں بہت کم تھا۔ لیکن اختیارات اور اثر و نفوذ میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ ان کے خدام لاکھوں تھے۔ زمین فرعون کی ملکیت تھی۔ عمرانی نظام کا یہ اصول مسلم تھا کہ ہرشخص اوپر سے آئے ہوئے ہر حکم کی پابندی کرے۔ صرف سیاسی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ وہ اسے ایک مذہبی فریضہ بھی سمجھے۔ جو کام کسی کے سپرد کیا جائے اور جہاں کسی کو متعین کردیا جائے اسے چاہیئے کہ وفاداری سے اپنے فرض کو بجا لائے۔

قدیم مصر میں بادشاہ کو دیوتا تصور کیا جاتا تھا اور اس طرح اس کیلئے آداب پرستش بجا لائے جاتے تھے۔ بادشاہ ہی بڑے خداؤں کے سامنے اپنی رعایا کی نمائندگی کرتا ان کی طرف سے قربانیاں پیش کرتا تھا اور مذہبی تقریبات میں صدارت کے فرائض انجام دیتا تھا۔ بادشاہ کے تعلقات مذہبی پیشواؤں کے ساتھ عام طورپور دوستانہ ہوتے تھے لیکن جب کبھی کوئی کمزور بادشاہ تخت نشین ہوتا تو مذہبی پیشوا اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکے شاہی اختیارات سنبھال لیتے تھے۔

ایرانیوں کی طرح قدیم مصر میں بھی بادشاہ کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ یہ خدائی خاندان کا ایک فردہے اور خود خدا نے ہی اس کویہ حکومت اور سلطنت بخشی ہے۔ بادشاہ کو حسب ِ ضرورت مشورہ دینے کے لئے  علما و فضلا اور سن رسیدہ تجربہ کار لوگوں کی ایک مجلس مشاورت موجود ہوتی تھی لیکن بادشاہ ان کے مشورے اور فیصلہ کا پابند نہیں تھا۔

مصر معاشی لحاظ سے بہت خوشحال تھا۔ مصر میں دریائے نیل کا پانی زراعت کیلئے ازحد مفید ہے۔ ریگستان کا جو حصہ اس دریا کے پانی سے سیراب ہوتا ہے وہ قلیل مدت میں سرسبز و شاداب کھیتوں لالہ زاروں اور مرغزاروں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ رومیوں نے اسے تیس سال قبل مسیح میں فتح کیا اور ۰۴۶ء تک اس پر حکمران رہے۔ مصر کی آزادی کا اختتام اس کیلئے موت کا پیغام تھا۔ رومیوں نے مصریوں کو غلام بنالیاتھا۔ غلامی کے بعد اس کی معاشی حالت میں انحطاط اور زوال رونما ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ ملک کی تمام دولت پررومی قابض ہوگئے۔ روم کو سامان خورد و نوش پہنچانے کیلئے یہاں کے غلے پر ٹیکس لگایا گیا اور خزانے میں سونے چاندی پراضافی ٹیکس لگایا گیا۔ تین چار صدیوں میں مصر کی مالی حالت اتنی دگرگوں ہوگئی کہ ٹکسال میں سکے بننا بند ہوگئے اور لوگ جنس کے بدلے جنس فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

ہندوستان

مؤرخین کاکہنا ہے کہ قدیم ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تاریک دور تقریباً 500ء سے شروع ہوتا ہے، اس دور کی نمایاں خصوصیات حسب ذیل تھیں:

٭شرک جو ابتدا ہی سے ہندوستان کے خمیر میں داخل تھا، اب وہ حد اعتدال سے باہرہوگیا چنانچہ وید میں جو 33 دیوتاؤں کی تعداد تھی وہ بڑھتے بڑھتے کروڑوں دیوتاؤں تک پہنچ گئی۔                  

٭ ویدک عہد میں مندروں کے اندر بت پرستی عام رائج تھی۔

٭مندروں کے محافظین بد اخلاقی کے سرچشمے تھے جو لاکھوں کروڑوں ناواقف پرستش کرنے والوں کو مذہب کے نام پر لوٹ لیتے تھے۔

٭خدا کی تلاش جنگلوں اور پہاڑوں میں کی جاتی تھی، جسم کو سخت سے سخت ایذا اور تکلیف دینا انکی بہترین عبادت تھی۔

٭ فاسدخیالات، بھوت پریت اور سینکڑوں قسم کے اوہام ان کا مذہب تھا۔

جب آریاؤں نے ہندوستان پرقبضہ کیا تو جو قبیلہ جہاں آباد ہوتا گیاقبائلی نظام کے مطابق وہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوگئیں، اسلئے آریوں کے ابتدائی عہد میں ہمیں ہندوستان کاملک ان گنت چھوٹی چھوٹی ریاستو ں میں بٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ہر قبیلہ کا سردار ان کارا جا ہوتا تھا۔ اس کو مشورہ دینے کیلئے قبیلے کے بزرگوں کی ایک کونسل تشکیل دی جاتی تھی اور راجا فرائض جہاں بانی انجام دینے میں ان سے مدد لیا کرتا تھا۔ اس کے باوجود راجا مختار مطلق تھا۔ اس کا حق یہ تھا کہ وہ جس طرح چاہے رعایا سے ٹیکس وصول کرے۔ لیکن اس کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اپنی قوم یا قبیلہ کے سامنے کوئی تفصیلی رپورٹ پیش کرے کہ اس نے ان کے ادا کردہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم کہاں کہاں خرچ کی ہے،کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا بھی حق نہیں تھا۔

ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں باہمی چھیڑچھاڑ ہوتی رہتی تھی جو بسا اوقات قومی جنگ میں تبدیل ہوجاتی تھی۔ خون کے دریا بہتے۔ گاؤ ں اور قصبوں کو نذر آتش کردیا جاتا تھا۔ذات پات کے نظام نے ہندؤوں میں ایک قو میت کے تصور کوبھی پنپنے نہیں دیاتھا۔

جن خداؤ ں کی وہ پوجا کرتے تھے ان میں بھی یگانگت نہیں تھی۔ ہر گاؤں کا علیحدہ دیوتا ہوتا اور گاؤں والوں کی ہر ضرورت پوری کرنے کیلئے علیحدہ علیحدہ بت تھے۔ان بے شمار اختلافات نے ہندوستان کوایک ملک یا ایک مملکت اور اس کے باشندو ں کو ایک قوم بننے نہیں دیا۔

اہلیان ہند کو چار طبقات میں تقسیم کردیا گیا تھا۔

۱۔  برہمن              ۲۔ کشتری   ۳۔ویش     ۴۔شودر

 تمام طبقات کی درجہ بندی کردی گئی اور تفصیل سے ہر طبقہ کے فرائض بیان کردیئے گئے تھے اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سزائیں بھی مقرر کردی گئیں۔ آئین کے مطابق شودروں کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ ایسا اجتماع جس میں چھو ٹے طبقے کا کوئی فرد موجود ہو وہاں برہمن کو جانے کی اجازت نہیں تھی کہ وہ مقدس کتابوں کی تلاوت کرے۔ نہ شودروں کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ ان کنووں سے پانی بھر سکیں جن سے اونچی ذات کے ہندوپانی بھرتے تھے۔ وہ عام شہروں میں نہیں رہ سکتے تھے بلکہ شہروں سے الگ ان کی مخصوص آبادیاں ہوتی تھیں۔ شودروں کے نام سے ایک پوری قوم ایسی غلامی میں مبتلا تھی کہ دین و ایمان تعلیم و تربیت اور تہذیب و اخلاق ہر چیز سے محروم رہنا ان کا مقدر بنا دیا گیا تھا۔ وید کی آواز بھی ان کے کانوں میں پڑ جائے تو ان میں سیسہ پگھلا کر ڈال دینے کا حکم تھا۔ راجاؤں کی بیویوں کی کوئی تعداد قانوناً مقرر نہ تھی۔ قانون کی بنیاد مساوات انسانی پرنہیں بلکہ ذاتوں پر تھی۔ عورتیں فروخت کی جاتی تھیں۔

آریاؤں نے ہندوستان میں آباد ہونے کے بعد زراعت کو اپنا پیشہ بنالیا تھا۔ پنجاب کے زرخیز میدان گنگا اور جمنا کے درمیان کا زرخیز علاقہ ان کے تسلط میں تھا جہاں وہ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ضرورت کے مطابق اجناس خوردنی کی کاشت کرتے تھے اوراناج سے اپنی ضروریات پوری کرتے تھے۔اس وقت عالی شان محلات اور بڑے بڑے شہروں کو آباد کرنے کا رواج عام نہیں تھا۔لوگ کچے مکان یا سر کنڈے کی جھونپڑیاں بناکر گاؤں میں زندگی بسر کرتے تھے۔

چین

چین میں شانگ خاندان کے لوگ مختلف مظاہر فطرت کی پوجاکرتے تھے۔ زمین، دریا، ہوائیں، مشرق و مغرب وغیرہ ان کے معبود تھے۔ شانگ اگرچہ مہذب اورمتمدن تھے لیکن انکے یہاں اپنے دیوتاؤں کی قربان گاہوں پر انسانی قربانی کا رواج تھا اور عموماً جنگی قیدیوں کو بھینٹ چڑھایا جاتاتھا۔ بعض اوقات فوجی مہمیں صرف اس مقصدکیلئے بیرونِ ملک بھیجی جاتیں کہ وہ غیر چینیوں کو قید کر کے لے آئیں تا کہ ا ن کو قربانی کے طور پر انکے معبودوں کیلئے ذبح کیا جائے۔ وہ صرف ایسے دیوتاؤں کی پوجا کیا کرتے  تھے جن کا تعلق ان کے خیال کے مطابق بروقت بارش برسانے، عمدہ فصلیں اگانے اور جنگوں میں دشمن کو شکست دینے سے ہو۔ چین کے عوام بھی میت کے ساتھ قیمتی اشیاء کو دفن کیا کرتے تھے۔مالی لحاظ سے کمزور لوگ بھی اپنی استطاعت کے مطابق اس رواج کے پابندتھے۔

 چین میں تاج و تخت شاہی خاندان میں موروثی ہوتا تھا۔ لیکن بادشاہ کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین نہیں ہوتاتھا بلکہ اس کے بھائی کو تاج شاہی پہنایا جاتا تھا۔ بادشاہ کی اہم ذمہ داریوں میں فو ج کی قیادت تھی۔ وہی ملک کی افواج کا کمانڈر انچیف ہوتاتھا۔ مذہبی رسومات اور دیگر تقریبات بھی بادشاہ ہی سرانجام دیتا تھا۔ پروہتوں کی ایک تعلیم یافتہ جماعت اس سلسلے میں اس کی مدد کرتی تھی۔ پروہت علم نجوم کے ماہر ہوتے تھے۔ مذہبی رسومات ادا کرنے کیلئے بادشاہ کی اعانت اور رہنمائی کرتے تھے۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان