Topics

حضرت موسیٰ علیہ السلام

مصرکے بادشاہ فرعون نے خواب دیکھا اور نجومیوں نے تعبیر بتائی کہ ایک اسرائیلی لڑکے کے ہاتھوں تیری سلطنت ختم ہوجائے گی، فرعون نے حکم دیا کہ میری سلطنت میں اسرائیلی گھرانوں میں کوئی بھی لڑکا پیدا ہو تو اُسے قتل کردیا جائے اور اس کام کیلئے خصوصی عملہ مامور کردیا گیا۔جس وقت حضرت موسیٰ ؑ کی ولادت ہوئی ہر طرف جاسوسی کا جال بچھا ہوا تھا ۔ حضرت موسیٰ ؑ کے والد عمران، والدہ یوکبد اور دیگر اہل خاندان سخت پریشان تھے، تین مہینے تک انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ کو چھپا کر رکھا لیکن زیادہ عرصہ تک بچے کو شاہی جاسوسوں کی عقابی نظر سے چھپا کر رکھنا ممکن نہیں تھا۔حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ کے دل میں خیال آیا کہ تابوت کی طرح ایک صندوق بناؤ اس پر لال روغن کی پالش کرو اور بچے کواس صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں چھوڑ دو، حضرت موسیٰ ؑ کی بہن کی ڈیوٹی لگی کہ دریا کے کنارے کنارے چلتی رہے اور صندوق کو دیکھتی رہے۔صندوق بہتا ہوا محل میں پہنچ گیا وہاں ملکہ اور خادمائیں لطف اندوز ہورہی تھیں کہ صندوق پر ملکہ کی نظر پڑی۔ اس نے حکم دیا کہ صندوق کو تالاب میں سے نکال لاؤ۔صندوق کھولا گیا تو اس میں ایک حسین اور تندرست بچہ آرام سے لیٹا ہوا انگوٹھا چوس رہا تھا ، ملکہ بہت خوش ہوئی اس کی آنکھوں میں مامتا اتر آئی، شفقت و محبت سے بچے کو گود میں لے لیا، ملکہ نے سوچا کہ بچے کو بیٹا بناکر پالنا چاہیئے۔محل میں کسی نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ بچہ بادشاہ کی سلطنت کو ختم کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے، فرعون کے دل میں بھی یہ خیال آیا ایسا نہ ہو کہ یہی بچہ اسرائیل کاوہ لڑکا ہوجس کے بارے میں نجومیوں نے پیشین گوئی کی ہے۔ لیکن فرعون کی منظور نظر بیوی نے کہا کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے یہ بچہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے یا ہم اس کو اپنا بیٹا بنالیں ملکہ نے اس بچے کا نام موسیٰ رکھا۔

آیا کا انتظام 

ملکہ نے بچے کو دودھ پلانے کا کام شاہی دائیوں کے سپرد کردیا لیکن بچے نے کسی کا دودھ نہیں پیا، حضرت موسیٰ ؑ کی بہن نے محل میں جاکر ملکہ سے کہا میں ایک بہت اچھی آیا کا انتظام کرسکتی ہوں،وہ نہایت صحت مند اور خوبصورت عورت ہے، بچے کی اچھی طرح نگہداشت کرے گی اور اچھی طرح پرورش کرے گی۔ ملکہ نے کہا اسے حاضر کرو، حضرت موسیٰ ؑ کی بہن اپنی والدہ کو ساتھ
لے گئیں اور ملکہ کے سامنے پیش کردیا، حضرت موسیٰ ؑ نے اس خاتون کا دودھ پی لیا اور حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ کو دائی مقرر کردیا گیا۔
’’
اور (تجھے معلوم ہے) ہم تجھ پر پہلے بھی ایک مرتبہ احسان کرچکے ہیں؟ ہم تجھے بتاتے ہیں، اس وقت کیا ہوا تھا جب ہم نے تیری ماں کے دل میں یہ بات ڈالی تھی، ہم نے اسے سمجھایا تھا کہ بچے کو صندوق میں ڈال دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے، دریا اسے کنارے پر دھکیل دے گا، پھر اسے اٹھا لے گا جومیرا دشمن ہے نیز اس بچے کا دشمن بھی ہے اور ہم نے اپنے فضل خاص سے تجھ پر محبت کا سایہ ڈال دیا تھا ا ور یہ اسلئے تھا کہ ہم چاہتے تھے کہ تو ہماری نگرانی میں پرورش پائے، تیری بہن جب وہاں سے گزری تو اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتادوں جو اسے پالے پوسے؟ اور اسطرح ہم نے تجھے تیری ماں کی گود میں لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور غمگین نہ ہو۔‘‘
(سورۃ طٰہٰ۔آیت37 تا40)

حضرت موسیٰ ؑ جب جوان ہوئے تو نہایت قوی اور بہادر انسان تھے، انہیں یہ علم ہوگیا تھا کہ ان کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے اور مصری خاندان سے ان کا کوئی رشتہ نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے جب دیکھا کہ اسرائیلی نہایت ذلت و رسوائی اور غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور فرعون کی حکومت کے عامل ان پر مظالم ڈھاتے ہیں تو ان کی تمام ہمدردیا ں بنی اسرائیل کے ساتھ ہوگئیں۔

بیگار
حضرت موسیٰ ؑ کہیں جارہے تھے کہ دیکھاکہ ایک مصری ایک اسرائیلی کوبیگار کیلئے گھسیٹ رہا ہے حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھ کر اسرائیلی نے مدد کیلئے پکارا،حضرت موسیٰ ؑ نے مصری کو روکا اور کہا کہ نہایت بزدلانہ اورظالمانہ حرکت ہے۔ مگر مصری نے ان کی بات نہیں سنی، حضرت موسیٰ ؑ نے مصری کے ایک طمانچہ رسید کردیا، مصری برداشت نہ کرسکا اور مرگیا۔ حضرت موسیٰ ؑ کاارادہ اسے مارنے کا نہیں تھا افسوس و ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا:

’’یا اللہ! جو کچھ بھی ہوا نادانستگی میں ہوا، میں آپ سے مغفرت کا طلبگار ہوں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا ۔

مصری کے قتل کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور قاتل کی تلاش شروع ہوگئی۔ دوسرے دن حضرت موسیٰ ؑ نے پھر اسی اسرائیلی اور ایک مصری کو دست و گریباں دیکھا، اسرائیلی نے آپ ؑ کو دیکھ کر پھر مدد کیلئے فریاد کی حضرت موسیٰ ؑ مصری کو باز رکھنے کیلئے آگے بڑھے لیکن ساتھ ہی ناگواری سے اسرائیلی سے کہا:

’’تو بھی خواہ مخواہ جھگڑا کرتا ہے پھر فریاد کرتا ہے۔‘‘

اسرائیلی ڈر گیا اور سمجھا کہ موسیٰ ؑ مجھے ماردیں گے وہ بولا :

’’جس طرح کل تونے ایک مصری کو ہلاک کردیا تھا اسی طرح آج مجھے بھی قتل کرنا چاہتاہے۔‘‘

یہ خبر فرعون تک پہنچ گئی کہ مصری کا قاتل حضرت موسیٰ ؑ ہیں۔ فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ خاموشی کے ساتھ شہر چھوڑ کر مدین کی طرف چلے گئے۔ مدین پہنچ کر حضرت موسیٰ ؑ نے دیکھاکہ ایک کنویں پر پانی کیلئے جانوروں اور آدمیوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے دو لڑکیاں دور کھڑی ہیں۔

حضرت موسیٰ ؑ نے ان سے پوچھا کہ تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟

لڑکیوں نے بتایا کہ ہم کمزور ہیں، یہ طاقتور ہیں، زبردستی ہمیں پیچھے ہٹا دیتے ہیں، ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں وہ لڑ نہیں سکتے، ہم انتظار کررہے ہیں کہ سب چلے جائیں تو ہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں۔

حضرت موسیٰ ؑ سے یہ زیادتی برادشت نہیں ہوئی بھیڑ کو چیرتے ہوئے کنویں پر پہنچ گئے اور کنویں کا بڑا ڈول تنہا کھینچ کر لڑکیوں کے مویشیوں کو پانی پلادیا، لڑکیوں نے گھر جاکر اپنے والد حضرت شعیب ؑ کو سارا واقعہ سنایا، حضرت شعیب ؑ نے حضرت موسیٰ ؑ کو اپنے پاس بلایا خاطر تواضع کی اور حالات پوچھے۔ پیدائش سے لے کر مدین پہنچنے تک کے تمام واقعات سننے کے بعد حضرت شعیب ؑ نے فرمایا:
’’
خدا کا شکر کرو کہ تمہیں ان ظالموں سے نجات مل گئی،اب کوئی خوف نہ کرو یہاں میرے پاس رہو۔‘‘

شرافت
لڑکیوں میں سے ایک نے حضرت موسیٰ ؑ کی بہادری اور شرافت کی تعریف کی اور اپنے والد کو مشورہ دیا کہ اس مہمان کو مویشی چرانے اور پانی پلانے کیلئے رکھ لیجئے۔ حضرت شعیب ؑ نے بیٹی کے مشورہ کو قبول کرلیا اور حضرت موسیٰ ؑ سے فرمایا:

’’اگر تم آٹھ سال تک میرے پاس رہ کر میری بکریاں چراؤ تو میں اپنی اس بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کردوں گا اور اگر دو سال اور رہو تو یہی لڑکی کا مہر ہوگا۔‘‘حضرت موسیٰ ؑ وہاں ٹھہر گئے اور بکریوں کی دیکھ بھال شروع کردی دس سال کی مدت پوری ہونے پر حضرت شعیب ؑ نے اپنی بیٹی کی شادی حضرت موسیٰ ؑ سے کردی۔ ایک روز حضرت موسیٰ ؑ بکریا ں چراتے چراتے مدین سے بہت دور نکل گئے۔ رات ٹھنڈی تھی اہل خانہ ساتھ تھے لہٰذا آگ کی ضرورت پیش آئی سامنے کوہ سینا کی وادی میں آگ نظر آئی۔

’’موسیٰ ؑ نے اپنی بیوی سے کہا تم یہاں ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے، شاید اس میں سے کوئی چنگاری لاسکوں یا وہاں الاؤ پر کسی رہبر کو پاسکوں۔ ‘‘ (سورۃ طٰہٰ۔آیت 10)

حضرت موسیٰ ؑ ؑ نے دیکھاکہ عجیب آگ ہے درخت پر روشنی نظرآتی ہے مگر نہ درخت کوجلاتی ہے نہ بجھتی ہے یہ سوچتے ہوئے حضرت موسیٰ ؑ جو ں جوں آگے بڑھتے آگ اور دور ہوجاتی، حضرت موسیٰ ؑ کو خوف پیدا ہوا اور واپسی کا ارادہ کیا، مڑے ہی تھے کہ آواز آئی:
’’
اے موسیٰ ؑ ! میں ہوں، اللہ۔ پروردگار جہانوں کا پس اپنے جوتے اتار طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ میں نے تجھے اپنی رسالت کیلئے چن لیا ہے،پس جو وحی کی جاتی ہے اسکو کان لگا کر سن۔‘‘( سورۃ طحہ۔آیت11تا13)

لاٹھی
حضرت موسیٰ ؑ ؑ کے ہاتھ میں بکریاں چرانے کی لاٹھی تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’اسے زمین پر ڈال دے!‘‘(سورۃ طٰہٰ۔ آیت19)

حضرت موسیٰ ؑ نے ارشاد کی تعمیل کی، لاٹھی اژدھا بن کر دوڑنے لگی، پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا،

’’ اسے پکڑلو اور ڈرنا مت ہم اس کو اس کی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔‘‘

(سورۃ طٰہٰ۔ آیت 21)

تعمیل حکم میں حضرت موسیٰ ؑ نے بلاخوف و خطر اژدھے کو پکڑ لیا، اژدھا پھر لاٹھی بن گیا پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ،
’’
اپنا ہاتھ بغل میں رکھ کر نکال۔‘‘ (سورۃ طٰہٰ ۔آیت22)

حضرت موسیٰ ؑ نے ایسا ہی کیا ہاتھ بے حد روشن اور چمکتا ہوا نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کربھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ اور ان کو اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلاؤ۔اور اس میں ان لوگوں کیلئے جو صابر و شاکر ہیں نشانیاں ہیں۔‘‘ (سورۃ ابراہیم۔آیت 5)

حضرت موسیٰ ؑ مصر پہنچے اور اپنے بھائی ہارون ؑ کو لے کر فرعون کے دربار میں حاضر ہوئے، آپ ؑ نے فرعون سے کہا:

’’ہمیں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اور رسول بنا کر بھیجا ہے ہم تم سے دو باتوں کا مطالبہ کرتے ہیں ایک یہ کہ تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آ، اور کسی کو اس کے کاموں میں شریک نہ ٹھہرا۔ دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل پر ظلم کرنا چھوڑ دے اور انہیں آزاد کردے۔‘‘

مغرور فرعون

فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ کی رسالت کا مذاق اڑایا۔ اورحضرت موسیٰ ؑ پر اپنا احسان جتایا کہ اس نے ان کی پرورش کی ہے، مصری کو قتل کرنے کا طعنہ دیا اور آ پ ؑ کے پیغام کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا:

’’اے موسیٰ ؑ ! کیا میرے سوا بھی کوئی رب ہے؟‘‘

حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا:

’’میرا رب وہ ہے جو آسمانوں، زمین اور اس کے درمیان قائم مخلوقات کو پیدا کرنے والا ہے، تجھے اور تیرے آباؤاجداد کو بھی اس نے پیدا کیا ہے۔‘‘

حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ نہایت نرمی سے فرعون کو قائل کرتے رہے لیکن فرعون اپنی ضد پر اڑا رہااس نے حضرت موسیٰ ؑ کو پاگل اور مجنون کہا اور رعایا سے بولا:

’’میرے سوا کوئی خدا نہیں،میں تم سب کا پروردگار ہوں۔‘‘

ایک دن بھرے دربار میں فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا:

’’اگر تو سچا ہے تو اپنی نبوت کا کوئی معجزہ دکھا!‘‘

بہت بڑا جادو 

حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی لاٹھی زمین پر پھینک دی وہ اژدھا بن گئی پھر آپ ؑ نے ستارے کی طرح چمکتا ہوا یدبیضا دکھایایہ معجزہ دیکھ کر درباری کہنے لگے:’’یہ تو بہت بڑ اجادوگر ہے، پوری سلطنت کے جادوگروں کو جمع کرکے اس سے مقابلہ کرایا جائے، پھرضرور یہ شکست کھاجائے گا۔‘‘فرعون نے اسی وقت احکام جاری کردیئے ،مقابلہ کیلئے دربار کو خاص طور پر سجایا گیا ہزاروں قندیلیں روشن کی گئیں، مقابلہ کے وقت حضرت موسیٰ ؑ نے جادوگروں سے کہا:’’تم پہل کرو۔‘‘جادوگروں نے اپنی رسیاں میدان میں ڈالیں تو وہ سانپ بن گئیں، اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی 

(اللہ نے) فرمایا کہ ڈرو مت میں تمہارے ساتھ ہوں (اور) سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہوں۔(سورہ طٰہٰ۔ آیت 46)

حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی لاٹھی زمین پر رکھ دی اس لاٹھی نے اژدھا بن کر سارے سانپوں کو نگل لیا، جادوگر حقیقتِ حال جان کر ایمان لے آئے۔ فرعون نے غیض و غضب میں کہا:

تم سب نے موسیٰ ؑ مل کر سازش کی ہے،تم لوگوں نے میری اجازت کے بغیر موسیٰ ؑ کو خداتسلیم کرلیاہے۔
فرعون نے ان جادوگروں کے ہاتھ ،پیر کٹوا کر پھانسی کی سزا دے دی ، فرعون کی سرکشی اور ظلم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ اللہ نے ان پر جوئیں مسلط کردیں، کھانے پینے کی چیزوں میں مکھیاں پیدا ہوگئیں،زمین میں جانوروں کو ہلاک کرنے والے کیڑے پیدا ہوگئے ، غلہ اور اناج میں گھن لگ گیا، پانی میں مینڈکوں کی افزائش نسل ہوگئی اتنے زیادہ مینڈک ہوگئے کہ پانی کو ڈھانپ لیا۔

ہجرت 

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے ساتھ ہجرت کرجاؤ۔ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ بنی اسرائیل کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوگئے۔ فرعون نے بھی ایک بڑی فوج کے ساتھ تعاقب کیا اوربنی اسرائیل تک پہنچ گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے آگے ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحر قلزم تھا اور پیچھے فرعون کا لشکر ۔وحی نازل ہوئی:

’’اس وقت ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی دریا پر مارو۔ تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ (یوں) ہوگیا (کہ) گویا بڑا پہاڑ ہے۔‘‘(سورۃ الشعراء۔ آیت 63)

حضرت موسیٰ ؑ نے پانی پر لاٹھی ماری، پانی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور درمیان میں راستہ بن گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ اپنی قوم کے ساتھ بحر قلزم کے کنارے پہنچ گئے، فرعون اور اس کا لشکر بھی پیچھے پیچھے اسی راستے پر چل پڑا جب سمندر کے بیچ میں پہنچے تو سمندر کا پانی آپس میں مل گیا۔ فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوگیا۔ غرق ہوتے وقت فرعون چیخنے لگا:

’’میں موسیٰ ؑ اور اس کے اللہ پرایمان لایا۔‘‘

لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جسم کو آئندہ نسلوں کیلئے عبرت کا نشان بنادیاتاکہ لوگ دیکھیں کہ متکبر ، سرکش اور اللہ تعالیٰ کے منکرلوگوں کا کیا حشر ہوتاہے۔وادی سینا میں شدید گرمی تھی بنی اسرائیل گھبراگئے حضرت موسیٰ ؑ نے پانی کیلئے اللہ تعالیٰ سے د عاکی ، وحی نازل ہوئی 

’’اپنا عصا زمین پر مارو!‘‘(سورۃ الشعرا۔ آیت 63)

بارہ چشمے

حضرت موسیٰ ؑ نے زمین پر اپنا عصا مارا بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کیلئے بارہ الگ الگ چشمے جاری ہوگئے۔ قوم نے کھانے کامطالبہ کیا حضرت موسیٰ ؑ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے نہایت شیریں حلوہ ’’ من‘‘اتارا، دن کے وقت تیز ہوا کے ساتھ بٹیروں کے غول کے غول زمین پر اترے۔ بنی اسرائیل نے انہیں پکڑ کر بھونا اور کھایا یہ’’ سلویٰ ‘‘تھا۔اسی طرح روزانہ من و سلویٰ اُترتا رہا۔
قوم نے تیسر امطالبہ کیا کہ سایہ دار درخت اور مکان نہ ہونے کی وجہ سے ہم شدید گرمی سے پریشان ہیں۔حضرت موسیٰ ؑ نے دعاکی تو بادل سائبان بن کر آگئے اور ہر وقت سایہ رہنے لگا۔ 

ناشکری قوم نے نیا مطالبہ کیا:

’’ہم روز ایک ہی غذا کھاتے کھاتے تنگ آگئے یا موسیٰ ؑ ! دعا کرو کہ وہ ہمارے لئے زمین سے باقلا، کھیرا،مسور، لہسن اور پیاز جیسی چیزیں اگائے تاکہ ہم خوب کھائیں۔‘‘

حضرت موسیٰ ؑ نے رنجیدہ ہوکر فرمایا:

’’تم کس قدر ناشکرے اور نادان ہوکہ ایک عمدہ غذا چھوڑکر معمولی چیزیں مانگ رہے ہو، ناشکری نہ کرو اور اگر تمہیں انہی چیزوں کیلئے اصرار ہے توجاؤ کسی بستی اور شہر میں چلے جاؤ وہاں یہ چیزیں تمہیں وافر مقدار میں مل جائیں گی۔‘‘
بنی اسرائیل مصریوں کی غلا می سے آزاد ہوچکے تھے حضرت موسیٰ ؑ سے ا للہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ جب بنی اسرائیل مصری حکومت کی غلامی سے آزاد ہوجائیں گے تو تمہیں شریعت دے دی جائے گی وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیاتھا، حضرت موسیٰ ؑ نے قوم سے فرمایا:
’’
میرے پیچھے گمراہی میں نہ پڑجانا میرے اعتکاف کی مدت ایک ماہ ہے ہارون تمہارے پاس موجود ہیں یہ تمہاری اصلاح کرتے رہیں گے۔‘‘
’’
اور جب موسیٰ ہمارے وقت مقررہ پر (کوہ طور) آئے اور انکے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! مجھے اپنا دیدار کرا دیجئے کہ میں آپکو ایک نظر دیکھ سکوں۔ ارشاد ہواکہ تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے ۔ لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو۔ وہ اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔ پس جب انکے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس پہاڑ کے پرخچے اُڑا دئیے اور موسیٰ بیہوش ہوکر گر پڑے۔ پھر جب (موسیٰ ) ہوش میں آئے تو عرض کیا۔ بے شک آپکی ذات پاک ہے میں آپکی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا ہوں۔‘‘(سورۃ الاعراف۔ آیت143)

ٰؑ ’’اے موسیٰ! بے شک میں نے لوگوں میں تجھے اپنی پیغمبری اور ہم کلامی سے برتری دی ہے اور چن لیاہے پس جو میں نے تجھ کو دیا ہے اس کو لے اور شکر گزار بن اور ہم نے اس لئے تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر شے کی تفصیل لکھ دی ہے، پس اس کوقوت کے ساتھ پکڑ اور اپنی قوم کو حکم کرکہ وہ اس میں سے اچھے احکام پر عمل کریں عنقریب میں تم کو نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔‘‘(سورۃ الاعراف۔آیت 144تا145)

سامری

جب حضرت موسیٰ ؑ کو گئے ہوئے تیس دن سے زیادہ ہوگئے تو بنی اسرائیل پریشان ہونے لگے۔ ایک شخص سامری نے ان سے کہاکہ اپنے سونے کے زیورات میرے پاس لے آؤتاکہ میں تمہارے فائدے کی ایک بات کروں۔
سامری نے تمام زیورات کو ایک بھٹی میں پگھلاکرایک بچھڑا تیار کیااس کے اندر ایک مٹھی خاک ڈال دی اور بچھڑا بھائیں بھائیں بولنے لگا۔ سامری نے بنی اسرائیل سے کہا:

’’موسیٰ ؑ سے غلطی اور بھول ہوگئی کہ وہ خدا کی تلاش میں کوہ طور پر گیا ہے تمہارا معبود تو یہ ہے۔‘‘

بنی اسرائیل پھر گمراہ ہوگئے اور بت پرستی شروع کردی انہوں نے حضرت ہارون ؑ کی کوئی بات نہیں سنی ۔ حضرت موسیٰ ؑ جب کوہ طور سے تورات لے کر واپس آئے تو قوم کو بت پرستی میں دیکھ کر سخت ناراض ہوئے۔قوم نے کہا:’’ہم بے قصور ہیں ،سامری نے زیورات لے کر یہ سوانگ بنادیا اور ہم کو گمراہ کردیا۔‘‘حضرت موسیٰ ؑ نے بچھڑے کو دوبارہ آگ میں ڈال دیا اور سامری سے کہا:
’’
تیرے لیے یہ سزا تجویز کی گئی ہے کہ تو پاگلوں کی طرح مارا مارا پھرے اور جب کوئی انسان تیرے قریب آئے تو اسے بھاگتے ہوئے یہ کہے کہ مجھے ہاتھ نہ لگانا یہ دنیا وی عذاب ہے اور قیامتمیں ایسے نافرمانوں اور گمراہوں کیلئے جو عذاب مقرر ہے وہ تیرے لیے وعدہ الٰہی کی صورت میں پورا ہوگا۔‘‘

صاحب باطن

حضرت موسیٰ ؑ کے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ اس ملاقات کا ہے جو ان کے اورایک صاحب باطن کے درمیان ہوئی، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ:

’’ایک روز حضرت موسیٰ ؑ تبلیغ کررہے تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا اس زمانے میں سب سے بڑ اعالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے مجھے سب سے زیادہ علم عطا کیا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:'

’’ جبکہ موسیٰ ؑ نے اپنے نوجوان سے کہاکہ میں تو چلتاہی رہوں گا یہاں تک کہ دودریاؤں کے سنگم پر پہنچوں خواہ مجھے سالہاسال چلنا پڑے ۔‘‘(سورۃ الکہف۔ آیت60)

’’ انھوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت خاص عطا فرما رکھی تھی اور اپنے پاس سے علم خاص (علم لدنی ) سکھایاتھا۔‘‘

(سورۃ الکہف۔ آیت65)

حضرت موسیٰ ؑ نے مچھلی کو توشہ دان میں رکھا اور حضرت یوشعؑ کو ساتھ لیکر مرد صالح کی تلاش میں روانہ ہوگئے ، چلتے چلتے تھک گئے تو ایک مقام پر سر کے نیچے پتھر رکھ کر سوگئے، مچھلی زندہ ہوئی اور توشہ دان میں سے نکل کر سمندر میں چلی گئی مچھلی تیرتی ہوئی جہاں تک گئی وہاں پانی برف کی طرح جم کر ایک لکیر بن گیا یہ واقعہ حضرت یوشعؑ نے دیکھ لیا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ جب بیدار ہوئے تو ان سے ذکر کرنا بھول گئے دونوں نے اپنا سفر دوبارہ شروع کردیا۔ چلتے چلتے بہت آگے نکل آئے دونوں کو تھکن محسوس ہونے لگی تو ایک مقام پر رک گئے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے یوشعؑ سے کہا’’کچھ کھانے کو لاؤ‘‘ حضرت یوشعؑ نے بتایا کہ ہم جب چٹان پر سورہے تھے تو میری آنکھ کھل گئی ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔میں نے دیکھا کہ مچھلی توشہ دان میں سے نکل کر سمندر میں چلی گئی میں آپ کو یہ بات بتانا بھول گیا۔حضرت موسیٰ ؑ نے کہاجس مقام کو ہم تلاش کررہے تھے یہ وہی مقام تھا۔ دونوں واپس چٹان پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا ہے۔ 
حضرت موسیٰ ؑ نے کہا السلام علیکم اور بتایا کہ میرا نام موسیٰ ؑ ہے ۔ اس شخص نے پوچھا ، موسیٰ ؑ بن اسرائیل؟ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا:’’ہاں‘‘ پھر بولے میں آپ سے علم حاصل کرنے آیا ہوں ، جو اللہ تعالیٰ نے آپ کوسکھایا ہے۔

’’ ان سے موسیٰ ؑ نے کہا کہ میں آپ کی تابعداری کروں گاکہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھادیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے ۔‘‘

(سورۃ الکہف ۔آیت 66)

اس بندے نے جن کوخضرؑ کہاجاتاہے، کہا:

’’موسیٰ !تم میرے ساتھ رہ کر ان معاملات پر صبر نہیں کرسکو گے۔‘‘

حضرت موسیٰ ؑ نے کہا:

’’انشاء اللہ مجھ کو آپ صابرین میں سے پائیں گے۔‘‘

اس بندے نے کہا:

’’تو پھر شرط یہ ہے کہ جب تک آپ ؑ میرے ساتھ رہیں کسی معاملے میں مجھ سے سوال نہ کریں۔‘‘

حضرت موسیٰ ؑ نے منظور کرلیا۔ دونوں سمندر کے کنارے پہنچے اور اس بندے( خضرؑ ) نے ملاحوں سے کرایہ پوچھا ، وہ حضرت خضرؑ کو پہچانتے تھے اس لیے کرایہ نہیں لی

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان