Topics

مدینہ میں استقبال

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روانگی کی خبر مدینے پہنچ چکی تھی۔ اہلِ مدینہ چشم براہ تھے۔ روزانہ علیٰ الصبح شہر سے نکل کر انتظار کرتے اور دوپہر تک انتظار کرکے لوٹ جاتے تھے۔ ایک دن حسبِ معمول واپس جارہے تھے کہ ایک یہودی نے اونچے ٹیلے سے دیکھاکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رفقا سفید کپڑوں میں ملبوث تشریف لا رہے ہیں۔ ا س نے بلند آواز سے کہا:

’’عرب کے لوگو!جس کا تم انتظار کررہے تھے وہ آگئے ہیں۔‘‘

تمام شہر تکبیروں سے گونج اٹھا اور انصار بے تابانہ گھروں سے نکل آئے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے استقبال کے لئے سارا مدینہ اُمڈ آیا ۔مسلمان بچوں نے خوشی کے گیت گا کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خوش آمدید کہا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان بچوں کو پیار کیا اور دعائیں دیں۔یہ ایک تاریخی دن تھا جس کی نذیر سرزمین مدینہ نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ مدینہ کے شہری حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہوگئے ۔

’’اللہ آپ کے مولیٰ ہیں اور جبرائیل ؑ اورصالح مومنین بھی ۔ اوراس کے بعد فرشتے اس ( حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے مددگارہیں ۔‘‘ (سورۃ التحریم۔آیت 4)

قبا میں قیام

مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر قُبا کی بستی میں انصار کے چند خاندان آباد تھے۔ جن میں سب سے ممتاز عمرو بن عوف کا خاندان تھا اور کلثوم بن الہدم اس خاندان کے سردار تھے۔ مدینے پہنچ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قُبا میں قیام فرمایا اور میزبانی کا شرف کلثوم بن الہدم کو حاصل ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہاں چند دن قیام فرمایا اور وہاں ایک مسجد بنائی۔ ’’مسجد قبا‘‘ یہی وہ مسجد ہے جس کاقرآن نے شاندار الفاظ میں تذکرہ کیاہے ۔

’’یقیناًوہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے زیادہ لائق ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لئے) کھڑے ہو۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں پاک رہیں اور اللہ پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے ۔‘‘ (سورۃ التوبہ۔ آیت 108)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہجرت کے بعد حضرت علیؓ نے مکے میں تین روز تک قیام کیا اور لوگوں کو امانتیں واپس کیں اور مدینہ کی طرف سفر شروع کیا اور قُبا میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔قُبا میں کچھ دن قیام کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ تشریف لے گئے۔

مسجدِ جمعہ اور خطبہ

راستے میں جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بنو سالم کی آبادی میں پہنچے تو جمعہ کا وقت ہوگیا۔ چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسجد بنو سالم میں نماز جمعہ ادا فرمائی۔ یہی مسجد اب مسجد جمعہ کہلاتی ہے۔ ہجرت کے بعد یہ تاریخ اسلام کی پہلی نماز جمعہ تھی۔ نماز سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خطبہ ارشاد فرمایا۔

سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ میں اسی کی حمد کہتا ہوں۔ اسی سے مدد مانگتا ہوں، اسی سے مغفرت طلب کرتا ہوں، اسی سے ہدایت چاہتا ہوں اور اسی پر ایمان لاتا ہوں۔گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ وحدہ لا شریک ہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور نور دے کر بھیجا ہے۔۔۔ اس دور میں جب کہ رسولوں کی آمد منقطع ہوچکی ہے۔۔۔ علم کی کمی ہے اور گمراہی عام ہے، زمانہ ختم ہونے کو ہے، قیامت قریب ہے اور اس کا مقرر وقت نزدیک آپہنچا ہے۔جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس نے ہدایت پائی اور جس نے نافرمانی کی وہ بھٹک گیا، اس نے حد سے تجاوز کیا اور دور دراز کی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔

میں تمہیں تقویٰ کی تلقین کرتا ہوں کیوں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو جو بہترین تلقین کرسکتا ہے، وہ یہی ہے کہ اس کوآخرت کی طرف متوجہ کرے اور اسے تقویٰ کی نصیحت کرے، اس لئے تمہیں چاہیئے کہ جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ تم کو بچانا چاہتا ہے ، ان سے بچ کر رہو۔۔۔ اس سے بہتر کوئی نصیحت نہیں، نہ اس سے بڑھ کر کوئی وعظ ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے خوف کھاتے ہوئے اچھے عمل کرے گا، اس کا تقویٰ آخرت میں مطلوبہ کامیابی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔جو شخص اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کا معاملہ، خفیہ و ظاہر، درست رکھے گا، محض اس کی رضا کی خاطرتو اس کا دنیا میں بھی ذکر بلند ہوگا اور روزِ آخرت کے لئے بھی ذخیرہ ہوجائے گا۔۔۔ اس دن کے لئے جب ہر انسان آگے بھیجے ہوئے نیک اعمال کا سخت محتاج ہوگا۔جو شخص اس راستے پر نہیں چلے گا، وہ بروز قیامت اپنی بداعمالیوں کو روبرو دیکھ کر حسرت کرے گا کہ۔۔۔ ’’کاش! میرے اور ان اعمالِ بد کے درمیان طویل فاصلہ حائل ہوتا۔‘‘

اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان بھی ہے، اس کی ہر بات سچی ہے اور اس کا ہر وعدہ پورا ہوتا ہے۔ وہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ خود فرماتا ہے، نہ میری بات بدلتی ہے، نہ میں اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہوں۔پس اپنے تمام موجودہ آئندہ اور خفیہ و اعلانیہ کاموں میں تقویٰ پیش نظر رکھو کیونکہ ۔۔۔ جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بڑا اجر عطا فرماتے ہیں اور وہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔تقویٰ انسان کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے، اس کے عتاب سے اور اس کی سزا سے بچاتا ہے۔ تقویٰ سے قیامت کے دن چہرے منور ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی کتاب (قرآن) کا علم دیا ہے اور صحیح راستہ دکھا دیا ہے، تاکہ پتہ چل جائے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔اللہ تعالیٰ نے تم پر بے شمار احسانات کئے ہیں۔ اس لئے تم بھی اچھی روش اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرو اور جان لو کہ اللہ کی یاد دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا معاملہ درست رکھے گا اس کے معاملات کے لئے اللہ تعالیٰ خود کافی ہیں۔ان تمام احکامات کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم لوگوں پر نافذ ہوتا ہے،مگر لوگ اس پر کوئی حکم نہیں چلا سکتے، وہ سب کا مالک ہے اور اس کا مالک کوئی نہیں۔۔۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ 

میزبانی کا شرف

یہ نہایت تابناک تاریخی دن تھا۔ سارا مدینہ استقبال کے لئے جمع ہوگیا۔ انصار اگرچہ دولت مند نہیں تھے لیکن ہرایک کی یہی آرزو تھی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے گھرقیام فرمائیں۔ انصار کے جس مکان یا محلے سے گزرتے وہاں کے لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اونٹنی کی نکیل پکڑ لیتے اور عرض کرتے:

’’حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری جان، ہمارا مال سب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر قربان۔‘‘ 

اگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی ایک قبیلہ یافرد کی درخواست قبول فرمالیتے تو باقی لوگوں کی دل شکنی ہوتی اور رحمت اللعالمین علیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہ قبول نہیں تھا اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سب کے لئے دعائے خیر فرمائی اور فرمایا

’’اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معمور ہے ۔‘‘

چنانچہ اونٹنی مسلسل چلتی رہی اور اس مقام پر پہنچ کر بیٹھ گئی جہاں آج مسجدِ نبویؐ ہے۔لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نیچے نہیں اترے یہاں تک کہ اونٹنی اُٹھ کرتھوڑی دور گئی۔پھر مُڑ کر دیکھنے کے بعد پلٹ آئی اور اپنی پہلی جگہ بیٹھ گئی ۔اس کے بعد حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اونٹنی پر سے اتر آئے،یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ننھیال ’’بنونجار ‘‘ کا محلہ تھا۔اونٹنی جس جگہ بیٹھی وہ کھلا میدان تھا۔ جہاں لوگ اپنی کھجوریں دھوپ میں خشک کیا کرتے تھے۔ یہ میدان بنی نجار کے دو یتیم بھائیوں کی ملکیت تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قیمت ادا کرکے جگہ خرید لی اور مسجد نبویؐ کی تعمیر کے لئے مخصوص کردی گئی۔ جس جگہ اونٹنی بیٹھی سب سے قریب حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا گھر تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی میزبانی کا شرف آپؓ کے حصے میں آیا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سات ماہ تک یہیں قیام فرمایا۔ اسی وقت سے سن ہجری کا آغاز ہوا۔ چند دن بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ازواج ام المومنین حضرت عائشہؓ ، حضر ت سودہؓ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دونوں صاحبزادیاں حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت ام کلثومؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ اور ام ایمن ؓ بھی آگئیں۔ ان سب کو حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ لے کر آئے تھے۔ البتہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک صاحبزادی حضرت زینبؓ، حضرت ابوالعاصؓ کے پاس رہ گئیں اور وہ جنگِ بدر کے موقع پر تشریف لائیں ۔

انتخاب دارِ ابو ایوب کی وجہ بظاہر یہ بات تعجب خیز معلوم ہوتی ہے کہ اہل مدینہ تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے پاس ٹھہرانے کے لئے قدم قدم پر التجائیں کرتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قیام کیلئے مدینہ بھر میں صرف حضرت ابو ایوب ؓ کا مکان منتخب کیا! ۔۔۔ اس میں آخر کیا حکمت ہے؟

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت سے طویل عرصہ قبل ایک بہت بڑا بادشاہ گزرا ہے، جس کا نام تُبَّعْ ابن حَسَّان تھا، وہ زبور کا پیروکار تھا اور بہت نیک انسان تھا۔ ایک مرتبہ تقریباًڈھائی لاکھ افراد کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ میں حاضر ہوا اور زیارت کے بعد کعبہ پر ریشمی غلاف چڑھایا۔ واپسی پر جب اس کا گزر اس جگہ سے ہوا، جہاں اب مدینہ طیبہ آباد ہے تو اس کے ساتھ سفر کرنے والے چار سو علماء نے خواہش ظاہر کی کہ ہم یہاں مستقل طور پر قیام کرنا چاہتے ہیں۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ہماری مذہبی روایات کے مطابق یہ جگہ ایک عظیم نبی احمدؐ کی جلوہ گاہ بنے گی۔ ہم یہاں اس لئے رہنا چاہتے ہیں کہ شاید ہمیں اس نبی کے دیدار اور خدمت کی سعادت حاصل ہوجائے۔ نیک دل بادشاہ نے نہ صرف یہ کہ انہیں اجازت دے دی، بلکہ سب کے لئے مکانات بھی تعمیر کر ادیئے اور رہائش کی جملہ ضروریات مہیا کردیں۔ پھر ایک مکان خصوصی طور پر بنوایا اور آنے والے نبی کے نام ایک خط لکھا جس میں اقرار کیا کہ میں آپ پر ایمان لاچکا ہوں اور اگر آپ کا ظہور میری زندگی میں ہوا تو آپ کا دست بازو بن کر رہوں گا۔ اس کے بعد یہ دونوں چیزیں۔۔۔ مکان اور خط۔۔۔ اس عالم کے حوالے کردیں جو ان میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار تھا اور کہا کہ فی الحال تم اس مکان میں رہو اور یہ خط سنبھال کر رکھو، اگر تمہاری زندگی میں اس نبی کا ظہور ہوگیا تو یہ دونوں چیزیں میری طرف سے ان کی خدمت میں پیش کردینا، ورنہ اپنی اولاد کو یہی وصیت کرجانا، تاکہ یہ دونوں چیزیں نبی ؐ تک پہنچ جائیں۔ 

اس وصیت پر نسلاً بعد نسل عمل ہوتا رہا اور وہ چیزیں اس پر ہیز گار انسان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہیں۔اسی طرح طویل عرصہ گزر گیا۔ اب اس مرد صالح کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاریؓ اس مکان کے محافظ و نگہبان تھے اور خط بھی انہی کے پاس محفوظ تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں خط پیش کیا گیا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس خط کو پڑھواکر سنا اور اس کے مندرجات سے اتنے مسرور ہوئے کہ تین دفعہ فرمایا ’’میرے نیک بھائی تبع کو خوش آمدید۔‘‘

کاشانۂ سعادت

امام مسلم نے صحیح میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ

’’جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام میرے گھرمیں قیام پذیر ہوئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نیچے والے حصہ میں رہائش اختیار کی۔ میں اور میری زوجہ اُمِّ ایوب اوپر والی منزل میں تھے۔ میں نے عرض کیا، ’’یا رسول اللہ (علیہ الصلوٰۃوالسلام) ! میرے ماں باپ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر قربان ہوں۔ مجھ سے یہ بات برداشت نہیں ہوتی کہ میں اوپر والے مکان میں رہوں اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نیچے والے مکان میں ہوں۔ مہربانی فرماکرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اوپر والی منزل میں تشریف لے جائیے ہم نیچے والے حصہ میں آجائیں گے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا

’’میرے لئے اور ملاقات کیلئے آنے والوں کیلئے یہ امر آرام دہ ہے کہ ہم نیچے والے حصے میں رہیں۔‘‘

چنانچہ حضو ر علیہ الصلوٰۃ والسلام نیچے والے حصہ میں سکونت پذیر رہے اور ہم اوپر والی منزل میں رہے۔ 

چند روز بعد حضرت ابو ایوبؓ بار بار بصد عجزو نیاز عرض کرتے رہے یا رسول اللہ (علیہ الصلوٰۃوالسلام) ! حضور بالاخانے میں تشریف لے جائیں، ہمارا دل گوارا نہیں کرتا کہ ہم اوپر ہوں اور حضور نیچے ہوں۔ چنانچہ ان کے شدید اصرار پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اوپر والے حصے میں منتقل ہوگئے اور حضرت ابو ایوبؓ اپنے کنبہ کے ساتھ نیچے تشریف لے آئے۔‘‘

دُعا

اس دوران مدینہ میں بخار کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ کئی صحابیؓ بخارمیں مبتلا تھے ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی خبر دی ۔توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا فرمائی:

’’یا اللہ ! ہمارے لیے مدینہ کو اسی طرح محبوب کردیجئے جیسے مکہ محبوب تھا یا اس سے بھی زیادہ اورمدینہ کی فضاصحت بخش بنادیجئے اور اس کے اناج کے پیمانوں میں برکت دے دیجئے‘‘۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اورحالات بدل گئے۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان