Topics

باب10 - فرائض نبوت قرآن حکیم کی روشنی میں

تلاوت آیات

قرآن پاک اللہ تعالیٰ کے اسماوصفات پر مشتمل علوم کی دستاویز ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جن تجلیات و انوارات پر کائنات تخلیق کی اسکاعلم اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔ ان تخلیقی قوانین اور فارمولوں میں تسخیر کائنات کا علم مخفی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے کتاب اور حکمت کو اپنی نعمت بتایا اور اس نعمت کی تکمیل سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کی ہے۔حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کتاب و حکمت کی یہ نعمت عالمین میں تقسیم فرما رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’درحقیقت اہلِ ایمان پر اللہ تعالیٰ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک پیغمبربھیجا جو اُس کی آیات تلاوت کرتے ہیں،اُ ن کی زندگیوں کو سنوارتے ہیں اور ان کو کتاب اورحکمت کی تعلیم دیتے ہیں ،حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ
صریح (کھلی) گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘(سورۃآل عمران۔آیت164)

یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بعثت کے مقاصد یہ تھے۔ 

۱۔ تلاوت آیات

۲۔ تزکیہ نفس

۳۔ تعلیم کتاب

۴۔ تعلیم حکمت

تلاوت آیات کا مفہوم

تلاوت کے لغوی معانی’’پڑھنا اور مطالعہ‘‘ کرنا ہیں ۔ مفہوم یہ ہے کہ ’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک اس طرح پہنچادیں کہ عملی زندگی قرآن کے مطابق ہوجائے۔قرآنی آیات کو سمجھ کر غور و فکر کے ساتھ پڑھا جائے اور پھر اس پر عمل کیا جائے معنی اور مفہوم پر غور کیا جائے۔ اس طرح بندے کے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں ،دماغ کے کروڑوں سیلزکھل جاتے ہیں اور انسان باطنی دنیا کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ۔جب کوئی بندہ غور وفکر کے ساتھ قرآنی آیات پڑھتا ہے تو اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اور ہم نے قرآن کو سمجھنا آسان کر دیا ہے،کوئی ہے سمجھنے والا؟‘‘(سورۃقمر۔آیت17)


انبیاء کی سنت

قرآن کریم کی ابتدائی آیات غارِ حرا میں نازل ہوئیں جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فطرت کی نشانیوں اور حقیقت کی تلاش میں غور و فکر فرمایا کرتے تھے ۔آیات الٰہی پر تفکر انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کی حیثیت سے امت مسلمہ پر لازم ہے کہ غور و فکر کی تعلیمات اور سنت پر عمل پیرا ہو کر شعوری ارتقا اور ذہنی وسعت حاصل کرے۔ غار حراکی سنت امت مسلمہ کے لئے اس بات کا پیغام ہے کہ باطن میں موجود انوارات اور روشنیوں کو تلاش کر کے ان کے اندر تفکرکیا جائے۔قرآن پاک کا دعویٰ ہے کہ دین مکمل کر دیا گیا ہے یعنی نوع انسانی کی معاشرتی ،علمی ،اخلاقی اور روحانی ترقی کے اصول و قوأعد واضح طور پر بیان کر دیئے گئے ہیں۔قرآن پاک نوع انسانی کا ورثہ ہے۔ یہ کسی ایک قوم کے لئے مخصوص نہیں ہے ۔نوع انسانی میں جو قوم اس ورثہ سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ، قرآن اس کی رہنمائی کرتا ہے ۔

’’حالانکہ یہ تو سارے عالمین کے لئے ایک نصیحت ہے۔‘‘(سورۃ القلم ۔آیت52)

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:

’’یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔ہدایت ہے متقیوں کے لئے ۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔آیت2)

متقی لوگ کون ہیں۔۔۔ ؟ 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘(سورۃ البقرہ۔آیت3)

غیب پر ایمان کا مطلب ہے یقین اور یقین مشاہدے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔متقی کی دوسری نشانی بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’نماز قائم کرتے ہیں۔جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘

(سورۃ البقرہ۔آیت 3)

نماز قائم کرنے کا مطلب ہے ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوتا ہے اور رزق خرچ کرنے سے مراد ہے کہ ان کا ایمان ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ خرچ کر رہے ہیں یہ ہمارا نہیں بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا ہے ۔ جتنے بھی وسائل ہمارے لئے موجود ہیں جیسے ماں باپ ، بیوی بچے ، کاروبار،پیدائش ،موت یہ سب اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔جب یہ صفات کسی انسان کے اندر آجائیں گی اس کو قرآن کریم سے ہدایت ملے گی اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

اہل یورپ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

’’اور لوہا اُتارا جس میں بڑافائدہ ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں۔‘‘

(سورۃ الحدید۔آیت 25)

جس قوم نے قرآنی اعلان پر تفکر کر کے کوشش اور جد و جہد شروع کی وہ کامیاب ہوتی رہی اور آج بھی کامیاب ہے ۔اہل یو رپ لوہے ،تانبے اور زمین کے اندر خزانوں کی تلاش میں جب سر گرداں ہوئے تو قانونِ قدرت کے مطابق ان کے اوپر زمین کے خزانوں نے خود ہی اپنی افادیت ظاہر کرنا شروع کر دی اور انہوں نے لوہے،تانبے اور دیگر دھاتوں کے مرکب سے ایسی ایجادات میں کامیابی حاصل کر لی کہ وہ اقوامِ عالم میں ممتاز ہو گئے ۔ہواؤں میں اڑنازندگی کا معمول بن گیا ہے سمندروں اور دریا کی سطح پر تیرنا اور ہزاروں لاکھوں ٹن سامان اِدھر سے اُدھر پہنچانا ایک عام بات بن گئی ۔ ان کی ذہنی کاوشوں سے زمین کے فاصلے سمٹ گئے ۔دنیا کی خبریں اس کونے سے اُس کونے تک پہنچنے لگیں ۔اسٹیم اور بھاپ کی دریافت سے ریل گاڑیوں کا نظام قائم ہوا۔ زمین کے اندر سے گیس اور پٹرول نکلاتو موٹر کاریں زمین پر دوڑنے لگیں ، لاسلکی نظام کے تحت دور دراز رہنے والے ،رشتہ دار ،پیارے دوست ایک دوسرے کے قریب آگئے ۔ انہوں نے بادوباراں کے نظام سے باخبر ہو کر ایسے انکشافات کئے کہ جن سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق حوادث سماوی سے محفوظ رہ سکے ۔

یہ سب اس لئے ہوا کہ ان مفکرین اور دانشوروں نے صحیفۂ کائنات کے مطالعہ کے بعد اس کے قوانین اور آیات کو اپنی اور نوعِ انسانی کی بہتری کے لئے استعمال کیا۔ایجادات و ترقی اور علم و ہنر کا سورج آج جو مغرب میں روشن ہے ،کبھی مشرق میں چمکتا تھا اور جب مشرقی اقوام نے بالعموم اور مسلمانوں نے بالخصوص علم وہنر کے اس سورج سے اپنا رشتہ منقطع کر لیا تو علم وہنر نے بھی مسلمانوں سے اپنا رشتہ توڑ لیا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔‘‘

(سورۃالرعد۔آیت11)


قرآن اور مسلمان

ہم جب قرآن اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت مبارک ؐ کو پڑھتے ہیں اور مسلمانوں کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اس لئے کہ قرآن کی حقیقی تعلیم اور مسلمانوں کے عمل میں بہت بڑا تضاد واقع ہو چکا ہے۔ قرآن جس راہ کا تعین کرتا ہے اورمسلمان جس راستے پر چل رہا ہے یہ دونوں ایسی لکیریں ہیں جو آپس میں نہیں ملتیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کواپنا نائب بنایا ہے ۔اس کے اندر اپنی صفات کا علم پھونکاہے ،نائب کامفہوم یہ نہیں ہے کہ اگر مملکت کا صدر اپنے اختیارات کو استعمال کرنے میں کاغذ قلم کا محتاج نہ ہوتو اسکا نائب اختیارات استعمال کرنے میں کاغذ قلم کا محتاج ہو۔مسلما ن کے پاس ماورائی علوم کاجتنابڑا سرمایہ موجود ہے ،وہ اسی مناسبت سے مفلوکُ الحال ہے۔ مسلمان کے اسلاف نے اس کے لئے حاکمیت اور تسخیر کائنات کے بڑے بڑے خزانے ترکہ میں چھوڑے ہیں لیکن وہ بد نصیب قوم ہے جس نے ہیرے کو پتھر سمجھ کر قدر نہیں کی اور خزانے سے مستفیض ہونے کی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کیا یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ مسلمان نے تفکر کی راہ چھوڑدی ہے۔

کتنی مضحکہ خیز ہے یہ بات کہ قرآن کائنات پر ہماری حاکمیت اور سرداری تسلیم کر رہا ہے ، ہمارے اوپر حاکمیت اور سرداری کے دروازے کھول رہاہے اور ہم قرآن کو محض برکت کی کتاب سمجھ کر طاقوں میں سجائے رکھتے ہیں اور قرآن پر صحیح طرح عمل نہیں کرتے ۔
قرآن میں تفکر اگر ہماراشعار بن جائے اور ہم اس تفکر کے نتیجے میں میدان عمل میں اُتر آئیں تو ساری کائنات پر ہماری سرداری مسلم ہے۔
افسوس کہ ہم ان خزانوں کو نظر انداز کر کے دوسروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں ۔قرآن کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے شمس و قمر ،نجوم،ارض وسماوات سب کو ہمارے لئے مسخر کر دیا ہے اور اس حاکمیت کوحاصل کرنے کے طریقے بھی بتادیئے ہیں ۔
لیکن ہماری زندگی محض دنیا کے حصو ل تک محدود ہوگئی ہے ۔ہم اعمال کے ظاہری پہلو کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں مگر باطن میں بہتے ہوئے سمندر میں سے ایک قطرۂ آب بھی نہیں پیتے ۔ تسخیر کائنات کے فارمولوں کے ماہر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں :
اے منافقو!

کلامِ نبوت سنو!

آخرت کو دنیا کے عوض فروخت کرنے والو!

حق کو مخلوق کے عوض بیچنے والو!

باقی کو فانی کے بدلے کاروبار کرنے والو !

تمہارا بیوپار سراسر خسارے کا سودا ہے ،تمھارا سرمایہ تمہیں برباد ی کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے افسو س تم پر،تم اللہ تعالیٰ کے غضب کا ہدف بن رہے ہو۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان