Topics

باب 8 - اسوۂ حسنہ اور اس کے عالمگیر اثرات

اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:

’’یقیناً اﷲ کے رسول (علیہ الصلوٰۃوالسلام) تمہارے لئے بہترین مثال ہیں۔ ‘‘

(سورۃ الاحزاب۔ آیت 21)

اسلامی نظریہ کی بنیاد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اسوۂ حسنہ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوری زندگی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت مبارکؐ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت مبارکؐ کسی خاص جماعت، کسی خاص قوم، کسی خاص ملک اور کسی خاص زمانے کے لئے مخصوص نہیں ہے۔بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والے ہر انسان کے لئے کامل نمونہ ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر عمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے تمام پہلو ہمارے سامنے ہوں اور ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پسندیدہ عمل پر عمل کریں اور ناپسندیدہ عمل پر عمل نہ کریں ۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا ہر لمحہ تاریخ عالم کے صفحات پر موجود ہے۔ گھر کے فرد سے خاندان کے سربراہ ۔۔۔ قریبی دوست سے دور کی قرابت داری۔۔۔ معاش و روزگار میں معمولی مزدور سے آجر(اُجرت پرکام لینے والا) ۔۔۔محکوم سے حاکم غرض انسانی معاشرے کا کوئی بھی فرد، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہؐ سے رہنمائی حاصل کرسکتاہے ۔ 

آئیے ! حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت مبارک کے بے شمار روشن پہلوؤں میں سے چند کا مطالعہ کریں ۔

گفتگو

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گفتگو نہایت دل آویز تھی ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام جب فصیح و بلیغ آواز میں لوگوں کو مخاطب فرماتے تو حاضرین مسحور ہوجاتے تھے ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بات مختصر لیکن جامع ہوتی تھی۔الفاظ کے درمیان میں معمولی سا وقفہ ہوتا تھا تاکہ ذہن نشین ہوجائے۔(ابن ماجہ)

حضرت ام معبدؓ فرماتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م شیریں کلام اور واضح بیان تھے۔ نہ بہت کم گو تھے کہ ضروری بات میں بھی سکونت فرمائیں اور نہ زیادہ گو تھے کہ غیرضروری امور میں مشغول ہوں۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی گفتگو ایسی تھی جیسے موتی کے دانے پرودیئے گئے ہوں۔(نشر الطیب)

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ہمیشہ غوروفکر میں محو رہتے تھے۔ اشارہ پورے ہاتھ سے فرماتے تھے۔ تعجب کے اظہار کے وقت ہاتھ پلٹ دیتے تھے۔(شمائل ترمذی عن ہند بن ابی ہالہ)

چلنے کا انداز

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام باوقاراور درمیانہ رفتار کے حامل تھے۔ یوں لگتاتھا جیسے بلندی سے اتر رہے ہوں ۔ سفر کے دوران اِدھر اُدھر توجہ نہیں فرماتے تھے۔ (طبقات ابن سعد جلد 2۔ص 389)

حضرت امام حسن مجتبیٰ ؓ ہند بن ابی ہالہؓ سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب پیدل چلتے تھے تو معلوم ہوتا تھاکہ بلندی سے اتر رہے ہیں اور جب کسی طرف متوجہ ہوتے تھے توجسم اطہر ادھر کر لیتے تھے (محض چہرہ مبارک اور آنکھوں کو ادھر ادھر نہیں کرتے تھے)۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نظریں بالعموم نیچی رہتیں اور آسمان کی طرف اُٹھنے کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی تھیں۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے زیادہ سبک رفتار کسی کو نہیں دیکھا گویا کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے لئے زمین لپیٹ دی گئی ہے۔ ہم بڑی کوشش سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاس پہنچتے، جب کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام بڑے اطمینان و وقار کے ساتھ چلتے تھے جتنا سفر دوسرے لوگ بہت کوشش سے طے کرتے تھے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام بغیر کوشش کے بآسانی طے کرلیتے تھے۔ 

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ایسی رفتار سے چلتے تھے کہ اس میں جلدی ہوتی تھی نہ سُستی۔

(ابن عساکر) 

پاکیزگی اور طہارت 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بچپن سے انتہائی صفائی پسند تھے۔ جسم مبارک نہ صرف پاک و صاف ہوتا تھا بلکہ اس سے انتہائی اچھی خوشبو آتی تھی۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام خوشبو کا استعمال بھی باقاعدگی سے فرماتے تھے اور بال سلجھا کر رکھتے تھے۔ آنکھوں میں سرمہ لگاتے، دن میں کئی بار مسواک فرماتے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دانتوں سے روشنی نکلتی محسوس ہوتی تھی اور جلد میں ایک خاص چمک و حسن تھا جو ہر انسان سے مختلف اور خوب تر تھا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے پہلے عربوں میں صفا ئی اور طہارت کا کوئی احساس نہیں تھا۔ اہل عرب بیت الخلا کے تصور سے آگاہ نہ تھے۔ صرف مکّے والوں کا ہی یہ حال نہیں تھا بلکہ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام جب مکے سے ہجرت کر کے مدینے تشریف لائے اس وقت مدینہ بیماریوں کا گھر تھا۔ وہاں کی آب و ہو ا بدبو دار تھی۔ اہل عرب پانی کی کمی کی وجہ سے نہاتے کم تھے۔ ایک ہی لباس کو ہفتوں پہنے رہتے تھے۔ وہ لوگ کثافت اور گندگی میں رہنے کے عادی ہوچکے تھے۔ 

ان حالات میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اہل عرب کو جسمانی اور روحانی پاکیزگی سے روشنا س کر ایا اور پوری نوع انسانی کو طہا رت و پاکیز گی کا ایک اعلیٰ معیار عطا فرمایا۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے وضو اور غسل کے آداب سکھائے ۔ لو گوں کو جسمانی صفائی کے ساتھ ساتھ گھر وں کی صفائی کاحکم دیا۔ علا قے کو صاف کر ایا ۔ مسجدیں بنا کر وہاں وضو خانے تعمیر کر نے کی ہدا یت فرمائی ۔ پانی کی فراوانی کیلئے کنویں کھدوائے۔ گھر وں میں غسل خانے اور بیت الخلا تعمیر کرائے ۔ عربوں کا معمول تھا کہ راستے میں رفع حاجت کر دیا کرتے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اس ناپسند یدہ عمل سے منع فرمایا اور اہل عرب کو پاک وصاف رہنے کا سلیقہ سکھادیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طہارت و پاکیز گی مسلمانوں کی پہچا ن بن گئی ۔ 

جو صحابہ کر امؓ طہارت کا اہتمام کر تے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف میں فرمایا ہے۔ 

’’ اس مسجد میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو پسند کر تے ہیں کہ وہ پاک و صاف رہیں اور اللہ تعالیٰ پاک و صاف رہنے والوں کو پیا ر کرتا ہے۔‘‘(سورۃ التوبہ۔ آیت 108)

ایک مر تبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہو ا اور آسمانوں کے بارے میں در یا فت کر نے لگاحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فر مایا ۔ 

’’ تم میں سے ایک شخص آتا ہے اور آسما نوں کی خبریں در یا فت کرنے لگتا ہے ۔ مگر اس کو اپنے سامنے کی چیزیں نظر نہیں آتیں یعنی اس کے ناخن پرندوں کے پنجوں کی طرح بڑھے ہوئے ہیں ۔ جن میں میل بھرا ہوتا ہے۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا

’’ جو شخص کھانا کھانے سے پہلے وضو کر ے اس کی عمر بڑھ جاتی ہے اور اس کا بدن بیما ری سے محفوظ رہتاہے۔ ‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا 

’’ ٹوٹے ہوئے گلاس سے پانی نہ پیو کیو نکہ اس میں جراثیم ہوتے ہیں ۔ ‘‘

خوش مزاجی 

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ عید کا دن تھا۔ کچھ کنیزیں بیٹھی اشعار گارہی تھیں کہ اسی دوران حضرت ابوبکر ؓ تشریف لے آئے۔ اور کہا: ’’نبی حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے گھر میں یہ گانا بجانا کیسا؟‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا

’’ابوبکرؓ ! رہنے دیجئے۔ ہر قوم کے لئے تہوار کا ایک دن ہوتا ہے اور آج عید ہے۔‘‘

ایک مرتبہ تہوار کے دن کچھ حبشی بازیگر کرتب دکھارہے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ کرتب خود بھی دیکھے اور حضرت عائشہ ؓ کو بھی دکھائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان بازیگروں کو شاباشی بھی دی۔(بخاری) 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک روز صحابہ کرامؓ کے ساتھ کھجوریں نوش فرما رہے تھے۔ حضرت علیؓ بھی تشریف رکھتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دیگر حاضرین کھجوریں کھا کھا کر گٹھلیاں حضرت علیؓ کے آگے رکھتے جارہے تھے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ’’ گٹھلیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ کھجوریں علیؓ نے کھائی ہیں۔‘‘ حضرت علیؓ بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کی آغوش تربیت کے پروردہ تھے۔ انہوں نے برجستہ عرض کیا کہ دیکھنے والا یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ میں نے گٹھلیاں چھوڑدی ہیں۔ جن کے سامنے گٹھلیاں نہیں ہیں وہ شاید کھجوریں گٹھلیوں کے ساتھ کھاگئے ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اور دیگر صحابہ کرامؓ اس حاضر جوابی سے بہت لطف اندوز ہوئے۔ 

حضرت صہیبؓ مشہور صحابی رسول ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پہنچے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اس وقت کھجوریں کھارہے تھے۔ حضرت صہیب ؓ بھی کھجوریں کھانے لگے توحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا :

’’آنکھ آئی ہوئی ہے اور کھجوریں کھارہے ہو۔‘‘ 

حضرت صہیبؓ نے عرض کیا:

’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! میں اچھی آنکھ والی طرف سے کھا رہا ہوں۔‘‘ 

اس حاضر جوابی پرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام مسکرادیئے۔ 

گھریلو کام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد بھی سادہ زندگی بسر کی۔ ہمیشہ اپنا کام خود کرنے کو ترجیح دی ۔ غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے ۔ غریب سے غریب بیمار کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تھے ۔کسی مجمع میں جاتے تو جہاں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتے تھے۔

ازواج مطہراتؓ کے کام میں بھی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م ہاتھ بٹاتے۔ کپڑوں میں پیوند لگاتے۔ گھر میں جھاڑو دے لیتے۔دودھ دوھ لیتے، بازار سے سوداسلف خرید لاتے۔ڈول درست کرتے۔ اونٹ کو باندھ دیتے ۔ نیز غلا م کے ساتھ مل کر آٹا گوندھ دیتے تھے۔(بخاری )

صحا بہ کرامؓ مل کر کوئی کام کرتے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے ساتھ شریک ہوجاتے اور مزدور کی طرح کام کرتے تھے  مسجد نبوی کی تعمیر میں دیگر صحابہؓ کی طرح حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی بہ نفس نفیس کام کیا۔ خود اپنے دست مبارک سے اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے تھے ۔ غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی کے دوران صحابہ کرام ؓ کسی کام میں عاجز ہوجاتے تھے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعاون حاصل کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ایک سخت چٹان کو توڑنا ناممکن ہوا توحضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م نے تین ضربات سے اسے توڑ دیا۔ (واقدی۔ المغازی جلد دوم۔ صفحہ450-451)

صبر

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس سراپا صبر ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طائف کے سرداروں سے ملاقات کی اور انہیں حق و صداقت کا پیغام دیا جس کو انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پیچھے وہاں کے اوباش لڑکوں کو لگادیا۔آوارہ لڑکوں نے اتنے پتھر مارے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے جوتے خون سے بھر گئے۔

حضرت جبرائیل امین ؑ حاضر ہوئے اور کہا کہ اگرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اجازت دیں تو بستی والوں پر پہاڑ الٹ دیئے جائیں۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔۔۔

’’میں مخلوق کے لئے زحمت نہیں رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے بندے پیدا فرمائے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو رنج میں مبتلا کرنے کے لئے ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا کہ اپنی بیویوں کو طلاق دیدیں۔ ابو لہب کی دونوں بہوئیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بیٹیاں تھیں۔ ابو لہب نے انہیں طلاق دلوا کر باپ کے گھر بھیج دیا اور پیغام بھیجا کہ ابو لہب کے بیٹوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان کی بیویاں ’’محمد‘‘ جیسے شخص کی بیٹیاں ہوں۔ کیونکہ آج ’’محمد‘‘تمام لوگوں کی نفرت کا شکار ہے اور ایسے شخص سے تعلقات رکھنا مکہ میں شرم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔حضرت خدیجہؓ اس واقعہ سے بہت غمگین ہوئیں لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں تسلی دیتے ہوئےصبر کی تلقین فرمائی۔

ایفائے عہد

معاملات کو خوش اسلوبی سے نبھانابھی اسلامی تعلیمات میں بہت اہم ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حضرت جابرؓ سے کچھ ادھار لیا اور وعدہ کے مطابق نہ صرف ادھار لوٹا دیابلکہ کچھ زیادہ بھی عطا کیا۔ (ابو داؤدجلد 3۔حدیث642 )

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک صاحب کو ایک کم عمر اونٹ کے بدلے پوری عمر کا جوان اونٹ واپس دیا اور فرمایا ’’لوگوں میں سب سے اچھا وہی ہے جو دوسروں کو ادائیگیاں اچھی طرح کرتاہو۔

(ابوداؤد۔جلد 3۔حدیث642 2346,، نیز مسلم ترمذی)

اہلِ مکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی صداقت ، خوش معاملگی اور امانت و دیانت پر بعثت سے پہلے بھی یقین رکھتے تھے اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کوصادق اور امین کہتے تھے ۔ ہجرت کے وقت بھی بہت سے لوگوں کی امانتیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاس تھیں۔جن کی واپسی کیلئے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م نے حضرت علیؓ کو ذمہ داری عطا کی۔

جنگ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد کفار کے مقابلہ میں بہت کم تھی اور مسلمانوں کیلئے ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت و اہمیت تھی۔ اس موقع پر دو صحابی حذیفہ بن یمانؓ اور ابوحسیلؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔۔۔یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! ہم مکہ سے آرہے ہیں۔ راستے میں کفار نے ہمیں گرفتار کر لیا تھا اورہمیں اس شرط پر رہا کیا ہے کہ ہم لڑائی میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ساتھ نہیں دیں لیکن یہ مجبوری کا عہد تھا ۔ ہم ضرور کافروں کے خلاف لڑیں گے اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کاہر طرح ساتھ دیں گے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’ نہیں !تم اپنا وعدہ پورا کرو اورمیدانِ جنگ سے چلے جاؤ۔ مسلمان ہر حال میں اپنا وعدہ پورا کرتاہے۔‘‘

پردہ پوشی اور عدم تجسس 

دوسروں کے خفیہ معاملات کی ٹوہ لگانے کے بجائے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ہمیشہ پردہ پوشی کا حکم فرمایا۔ 

’’جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے وہ گویا کسی زندہ دفن کی جانے والی بچی کو زندگی بخشتا ہے۔‘‘(باب داؤد 200-5 حدیث4891)

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے عیب چھپائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائیں گے۔(مسلم۔ البر حدیث 2580/ ترمذی)

عیبوں کو کریدنا بدترین، تباہ کن اور اخلاق سوز عیب ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منبر پر تشریف فرماکر حاضرین کو بلند آواز میں تنبیہہ فرمائی

’’مسلمانوں کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں کے عیوب کے درپے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چھپے ہوئے عیوب کو طشت ازبام کردیتے ہیں اور جس کے عیب افشا کرنے پر اللہ تعالیٰ متوجہ ہوجائے تو اس کو رسوا کرکے ہی چھوڑتے ہیں اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندرچھپ کر ہی بیٹھ جائے۔‘‘(ترمذی)

مہمان نوازی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عملی زندگی میں ہمیں مہمان نوازی کا روشن پہلو ملتا ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام بنفسِ نفیس خودمہمانوں کی خاطر تواضع فرماتے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلا کر بہت خوش ہوتے تھے اور اس کی ہر طرح سے خاطر مدارت کرتے تھے، کھانے کیلئے باربار اصرار فرماتے تھے۔ جب مہمان خوب اچھی طرح کھا  ہی لیتا تھا،اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام مطمئن ہوتے تھے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’ جو شخص اللہ تعالی اور یوم قیامت پر ایمان رکھتاہے اُسے چاہیئے کہ مہمان کی خاطر تواضع کرے۔ مہمان سے خندہ پیشانی سے ملے۔ مکان میں ٹھہرائے، جس قدر ہوسکے عمدہ کھانے کھلائے، حال احوال پوچھے۔

مہمان داری کا تین دن تک حق ہے اس سے زیادہ ہو تو اﷲ تعالیٰ کے پاس مزید اجر ہے۔‘‘

طائف سے بنو ثقیف کا وفد جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہواتوحضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م نے خود بنفسِ نفیس اس وفد کے تمام لوگوں کی خاطر تواضع کی حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام دشمنی کا مظاہرہ کیاتھا۔

۹ھ ؁ ہجری میں نجران سے ساٹھ آدمیوں پر مشتمل عیسائیوں کا ایک وفد حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان لوگوں کو مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا اور انہیں اپنے طریقہ کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی عطا فرمائی۔ 

طیور اور حیوانات پر شفقت

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت و شفقت صرف انسانوں ہی تک محدود نہ تھی بلکہ چرند ، پرند ، نباتات ،جمادات ، جنات پر بھی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی رحمت محیط ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام صحابہ کرام ؓ کو جانوروں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کاارشاد فرماتے تھے۔ بدحال جانوروں کو دیکھ کر اشارہ فرماتے کہ ان بے زبانوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو۔ان پر سواری بھی اچھی طرح سے کرواور ان کو چارا وغیرہ بھی اچھی طرح کھلایاکرو۔

(ابوداؤد۔ 49-3 حدیث 2548)

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام جانوروں کے منہ پر داغ لگانے اور ان کی شکلیں بگاڑنے سے منع فرماتے تھے۔(ابوداؤد 57-3

حدیث 2546)

پرندوں کے انڈے چرانے سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام منع فرماتے تھے ۔ اسی طرح ان کے گھونسلوں سے چھوٹے بچے اٹھانے سے بھی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے منع فرمایاہے۔ 

(ابوداؤد۔ 469-3۔حدیث 3089)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک صحابیؓ حاضر ہوئے ۔ ان کے پاس چادر میں چھپے ہوئے کسی پرندے کے بچے تھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تم ان پرندوں کو کہاں سے پکڑ کر لائے ہو ؟ 

صحابیؓ نے عرض کیا کہ ایک جھاڑی سے آواز آرہی تھی ۔ جا کر دیکھا تو ایک پرندے کے خوبصورت بچے تھے ۔ میں نے ان کو

گھونسلہ سے نکا ل لیا ۔جیسے ہی ان بچوں کی ماں کو خبر ہوئی تو وہ وہاں پہنچ گئی اور میرے اردگرد چکر کاٹنے لگی ۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ناراض ہوکر فرمایا۔ 

’’ فوراًجاؤ اور بچوں کودوبارہ احتیاط کے ساتھ گھونسلہ میں رکھ آؤ تاکہ ان بچوں کی ماں کو قرار آئے ۔‘‘

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان