Topics

غزوہ تبوک

رجب ۹ ہجری کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام غزوۂ تبوک کے لئے روانہ ہوئے۔ تبوک اس راستے پر واقع تھا جو اس زمانے میں مدینہ منورہ سے شام کی طرف جاتا تھا۔ اس غزوے کا سبب یہ بنا کہ شام سے آنے والے تاجروں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اطلاع دی کہ رومیوں کا ایک بڑا لشکر شام میں جمع ہورہا ہے او ر وہ لوگ سلطنتِ اسلامیہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فیصلہ فرمایاکہ رومیوں کے لشکر کو اسلامی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا جائے ۔ یہ بہت طویل سفر تھااور شدید گرمی کا موسم تھا۔ ان دنوں پورا عرب قحط کی لپیٹ میں تھا، اس لئے اہل مدینہ تقریباً تہی دست تھے، اسی بنا پر اس کو ’’غزوۃُ العُسرَۃ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ، یعنی تنگدستی والا غزوہ۔ ظاہر ہے کہ ایسی بے سرو سامانی کے عالم میں آگ کی طرح تپتے ہوئے صحراؤں کو عبور کرنا آسان کام نہیں تھا۔ منافقین سخت گھبرائے ہوئے تھے اور اہلِ ایمان کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے کہتے پھرتے تھے کہ اس گرمی میں جنگ نہیں کرنی چاہیئے!

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:


’’
پس اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ان کی کسی جماعت کی طرف لوٹا کر واپس لے آئے پھر یہ آپ سے میدان جنگ میں نکلنے کی اجازت طلب کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں سکتے اور نہ میرے ساتھ تم دشمنوں سے لڑائی کرسکتے ہو۔ تم نے پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا پس تم پیچھے رہ جانے والوں میں بیٹھے رہو۔‘‘(سورۃ التوبہ۔ آیت 83)

حضرت عثمان ؓ کا عطیہ

یہ سفر چونکہ طویل تھا اور مشکل حالات میں پیش آرہا تھا ، اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے واضح اعلان فرمادیا تھا کہ تبوک جانا ہے ، تاکہ ہر شخص اس فاصلے کو مد نظر رکھ کر تیاری کرے۔ اس غزوے کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اہلِ ثروت کو تنگ دستوں کی تیاری کی ترغیب دی۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا فرمان سن کر حضرت عثمانؓ گھر تشریف لے گئے اور ایک ہزار دینار لاکر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کردیئے۔ 

حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا ایثار

جو لوگ عطیہ دے رہے تھے انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمراہ جہاد کے لئے بھی جانا تھا، اس لئے سب نے اس بات کا خیال رکھا کہ عطیہ دینے کے بعد گھر میں کم از کم اتنا بچ جائے کہ ہماری غیر موجودگی میں گھر والوں کو فاقے نہ کرنے پڑیں، مگر حضرت ابوبکر صدیق ؓ ان سوچوں سے ماورا تھے اور ان کا اندازِفکر سب سے نرالا تھا۔آپؓ کے گھر میں جو کچھ تھاسب کاسب اُٹھا لائے۔ یہ دیکھ کرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا ۔۔۔ ’’ابوبکرؓ! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے ؟‘‘تو انہوں نے بصد اعتماد جواب دیا۔۔۔ ’’ان کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کو چھوڑ آیا ہوں۔‘‘

اہل خیر

حضرت عثمانؓ اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے علاوہ بھی تمام اہلِ خیر نے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور حسبِ استطاعت مجاہدین کے لئے امداد فراہم کی۔حضرت عمر فاروق ؓ اپنا نصف مال لے کر آئے ۔حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ ایک سو اوقیہ سونا لے کر آئے ۔مسلمان عورتوں نے اپنے زیورات پیش کر دیئے۔کسی صحابہؓ نے سواری کے لئے اونٹ فراہم کئے اور کسی نے گھوڑے ۔کوئی صاحب غلّہ لے آئے اور کسی نے ہتھیار دیئے۔

روانگی 

شب و روز کی مسلسل جدوجہد اور تیاریوں کے بعد آخر کار تیس ہزار افراد پر مشتمل عظیم لشکر تیار ہوگیا۔ ثنیۃ الوداع کے پاس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس لشکر کا آخری معائنہ کیا اور قبائل کواحکامات صادر فرمائے۔ علقمہ خزاعی اور ان کے والد کو راستہ بتانے کے لئے ساتھ لیا اور رجب ۹ ہجری کو بروز جمعرات تبوک کی جانب روانہ ہوئے۔ 

جنگ میں شرکت سے معذرت کرنے والے 

بہت سے لوگ روانگی کے وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمرکاب نہیں ہوسکے اور پیچھے رہ گئے۔ ان میں زیادہ تعداد تو منافقین کی تھی، جنہوں نے مختلف قسم کے حیلے بہانے کرکے ساتھ جانے سے معذوری ظاہر کردی تھی،اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست کو مسترد کردیا اور ایسے لوگوں کے بار ے میں آیات نازل ہوئیں۔

’’جو لوگ اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی آپ (علیہ الصلوٰۃالسلام) سے یہ درخواست نہیں کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے اللہ تعالیٰ متقیوں کو خوب جانتا ہے ایسی درخواستیں توصرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک میں پریشان ہورہے ہیں۔‘‘ (سورۃ التوبہ۔آیت 44تا 45)

لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جو بعض مجبوریوں کی بنا پر ساتھ تو نہیں نکل سکے تھے مگر بعد میں لشکر کے ساتھ جا ملے تھے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ بھی ایسے لوگوں میں شامل تھے۔حضرت ابوذر غفاریؓ کا اُونٹ بیمار تھا۔ اس لئے وہ بھی ساتھ نہیں جاسکے اور اُونٹ کے علاج معالجے میں مصروف رہے۔ خیال تھا کہ اُونٹ صحت یاب ہوگیا تو بعد میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جاملوں گا۔ چند دن بعد اُونٹ تندرست ہوگیا تو حضرت ابوذر غفاریؓ نے اس پر سامان لادا اور سوار ہوکر چل پڑے، مگر راستے میں اُونٹ پھر بیمار ہوگیا اور چلنے کے قابل نہیں رہا۔ اب مزید تاخیر ناقابلِ برداشت تھی، اس لئے انہوں نے سامان اُتار کر اپنے کندھوں پر رکھا اور اُونٹ کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔
اس شدید گرمی میں اتنا بھاری بوجھ اُٹھا کر صحرا میں تنہا سفر کرنا آسان کام نہیں تھا۔ مگر عشق کا جذبہ موجزن ہو تو کوئی مشکل ، مشکل نہیں معلوم ہوتی۔ طویل صحرا نوردی کے بعد آخر کار وہ لشکر کے قریب پہنچ گئے۔ صحابہ کرامؓ نے حیرت سے کہا

’’ یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! ایک آدمی تنِ تنہا اور پیادہ چلا آرہا ہے!‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔۔۔ ’’ اس کو ابوذر غفاریؓ ہونا چاہئیے۔‘‘

چند لمحوں بعد سب نے تصدیق کردی کہ واقعی حضرت ابوذر غفاریؓ ہیں۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔۔۔ ’’ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے، یہ تنہا جئے گا، تنہا مرے گا اور تنہا اُٹھایا جائے گا۔‘‘
جب ابوذر غفاریؓ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو پیاس سے بے حال تھے۔ پانی پی کر حواس بحال ہوئے تو اپنی داستان بیان کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ۔۔۔ ’’ ابوذر غفاریؓ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے ہر قدم کے عوض تمہارا ایک گناہ معاف فرمایا ہے اور ایک درجہ بلند کیا ۔یہ مژدہ جانفزا(خوشخبری) سن کر حضرت ابوذر غفاریؓ ہشاش بشاش ہوگئے۔

قوم ثمود

لشکر اسلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سربراہی میں تبوک کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں مقام حجر سے لشکرکا گزر ہوا۔ جہاں قوم ثمود نے اپنے مکانات تراش کر بنائے تھے چونکہ اس مقام پر عذابِ الٰہی نازل ہوچکا تھا۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حکم دیا کہ کوئی شخص یہاں قیام کرے نہ پانی پئے ۔ 

طلبِ بارش

سفر کے دوران ایک دفعہ پانی ختم ہوگیا اور لوگ پیاس کی شدت اور گرمی کی حدت سے بے چین ہوگئے۔ یہ دیکھ کرحضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کیا۔۔۔ ’’ یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی دعا سے ہم پر برکتیں نازل فرمائی ہیں، آج بھی دعا فرما دیجئے۔‘‘حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی وقت دعا کیلئے ہاتھ اُٹھادیئے بادل گھِر آئے اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ چند ہی لمحوں میں جل تھل ہوگیا اور خشک ندی نالوں میں پانی رواں ہوگیا۔ صحابہ کرامؓ نے جی بھر کر پانی پیا اورپانی سے برتن بھرلئے۔ ایک صحابیؓ بیان کرتے ہیں کہ بارش صرف اس حصے میں ہوئی تھی جہاں لشکر مقیم تھا۔ باقی سارا صحرا بدستور خشک تھا۔ اس قدر گرم موسم میں اتنا طویل سفر بذاتِ خود ایک مسئلہ تھا، پھر سامان خورد و نوش کی کمی نے مزید مسائل پیدا کر رکھے تھے۔ کبھی غلہ ختم ہوجاتا تھا، کبھی پانی، مگر قربان جائیں ان حوصلہ شکن حالات میں بھی ان نفوسِ قدسیہ کے صبر و ثبات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ بالآخر یہ کاروان عزم و ہمت مصائب و مشکلات کی گھاٹیاں عبور کرنے میں کامیاب ہوگیا اور منزلِ مقصودکے قریب جاپہنچا۔

تبوک میں قیام اور واپسی

تبوک جانے کا مقصد رومیوں سے جہاد کرنا تھا، کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اطلاع ملی تھی کہ انہوں نے اسلامی سلطنت پر حملہ آور ہونے کے لئے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے۔ مگر جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پیش قدمی کرتے ہوئے خود ہی سرحد پر جاپہنچے تو رومیوں پر ہیبت چھا گئی اور ان کو سامنے آنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تبوک میں پندرہ بیس دن قیام فرمایا۔ اس دوران حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ارد گرد آباد مختلف قبیلوں کے سرداروں سے ملاقاتیں کیں اور صلح کے معاہدے کئے۔ وہ لوگ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حسنِ اخلاق اور اعلیٰ ظرفی سے بہت متاثر ہوئے اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں بہت سے تحائف پیش کئے۔ 
اس غزوے میں اگرچہ لڑائی تو نہیں ہوئی مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے رفقاء کی شجاعت و بہادری کی ہر طرف دھاک بیٹھ گئی اور پھر زندگی بھر کسی کوحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ 

اہمیت و نتائج

تبوک کا سفر مسلمانوں کے لئے بے حد فوائد اور حکمتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ 

۱۔ غزوہ تبوک کے موقعہ پر جب رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے صحابہ کرامؓ کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی تو صحابہ کرامؓ اپنی استطاعت کے مطابق مال لے کرحاضر خدمت ہوگئے۔ اس طرح مالدار لوگوں کو اجر عظیم جنت کی بشارت اور اپنا مال فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔ جبکہ فقرا اور غریب صحابہ کرام ؓ کی دستگیری ہوئی اور یوں لشکر اسلام تاریخ اسلام میں پہلی مرتبہ اتنی کثیر تعداد میں جمع ہوا۔ 

۲۔ اس موقعہ پر منافقین جوکہ بظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے اور خود کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سچا جاں نثارکہتے تھے۔ان کا راز فاش ہوگیا۔

’’جب تم ان کے پاس لوٹ کر جاؤگے تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان کو معاف کرو سو ان کی طرف توجہ نہ کرنا یہ ناپاک ہیں اور جو کام یہ کرتے رہے ہیں ان کے بدلے کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔‘‘(سورۃ التوبہ ۔ آیت 95)

۳۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا ایسا رعب اور دبدبہ ڈال دیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں کرسکے اور یوں دشمن کا ٹڈی دل لشکر میدان سے فرار ہوکر روم کے شہروں میں بکھر گیا۔

۴۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے عمل مبارک سے یہ ظاہر فرمادیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے دین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے تو سب کام چھوڑ کر دین حنیف کی عظمت کے لئے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہیئے اور ایسے وقت قوم کے قائد کو لشکر کے ساتھ پیش پیش رہنا چاہیئے۔ اس غزوہ کے بعد عرب کے اندر اور باہر موجود کفار کو پھر ہمت نہیں ہوئی کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں آتے۔ 

۵۔ اس غزوہ میں عیسائی حکمرانوں میں سے ایلاء کا حاکم یوحنا نہ صرف جزیہ دینے پر رضامند ہو گیا بلکہ اس نے مال کثیر بھی پیش کیا اس کے علاوہ جرباء اور اذرح کے باشندوں نے بھی اطاعت قبول کرلی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان لوگوں کو ایک امان نامہ لکھوا کردیا ۔

۶۔ مذکورہ حالات کو دیکھ کر جزیرہ نما عرب کے اندر اور باہر جو قبائل ابھی تک اس امید پر زندہ تھے کہ مسلمان گو پورا عرب فتح کرچکے ہیں مگر رومی وہ طاقت ہے جو مسلمانوں کوشکست دے دیں گے ۔ وہ لوگ رومیوں کے آلہ کار بنے ہوئے تھے۔ غزوہ تبوک میں رومیوں کے بھاگ جانے سے اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ اب مسلمانوں کی عظیم روحانی اور اجتماعی قوت کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اس لئے انہوں نے پرانے دوستوں پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا اور مسلمانوں کے حمایتی بن گئے۔ اس طرح مسلمانوں کی سرحدیں وسیع ہوگئیں۔ 

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان