Topics

عرب


عرب میں اسلام سے قبل مختلف مذاہب تھے۔

٭…… کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے تھے۔

اور جو تم ان سے پوچھو کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو بول اٹھیں گے کہ خدا نے، تم کہو کہ خدا کا شکر ہے۔“ (سورۃ لقمان۔ آیت 25)

٭…… کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے قائل تھے لیکن قیامت، جزا اور سزا کے منکر تھے۔ قرآن کریم نے قیامت کے ثبوت کے بارے میں فرمایا ہے:

کہہ دو کہ وہی دوبارہ زندہ کرے گا جس نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا۔

                                                                         (سورۃیٰسین۔آیت 79)

٭…… کچھ لوگ جزا اور سزا کومانتے تھے لیکن نبوت کے منکر تھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

کہتے ہیں یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا ہے پیتا ہے اور بازار میں چلتا پھرتا ہے۔

                                                                    (سورۃ الفرقان۔ آیت 7)

عرب میں زیادہ تر تعداد بت پرستوں کی تھی۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے لوگ بھی عرب میں آباد تھے۔

                          ۱۔  بت پرست                           ۲۔  عیسائیت                              ۳ ۔یہودیت

                          ۴ ۔ صائبین                                  ۵۔  آتش پرست    ۶۔  حنفیت۔

۱۔  اہلِ عرب کی اکثریت بت پرست تھی۔ جن خداؤں کو یہ لوگ مانتے تھے ان کے بُت بنالئے تھے اور جابجا عظیم الشان بت کدے قائم ہوگئے تھے۔ یہ رواج اس قدر عام ہوگیا تھا کہ جہاں خوب صورت پتھر مل گیا، اُٹھا لیا اور اسکی پرستش شروع کردی۔ جہاں کوئی پتھر نہ ملا،مٹی کا ایک تودہ بنالیا۔ ایک بکری لاکر اس کا دودھ اس پر ڈالا، پھر اس کے گرد طواف کیا اور یوں وہ ایک معبود بن جاتا تھا۔ عقل میں فتور نے عام و خاص کو بُت پرستی میں مبتلا کردیا تھا۔ ان کے بتوں پر کتے پیشاب کردیتے تھے۔ ان پر مکھیاں بھنبھناتی تھیں۔ شرک کا غلبہ اتنا زیادہ تھا کہ مشرکین یہ نہیں سوچتے تھے کہ جس کی عبادت کرتے ہیں اس میں اتنی طاقت نہیں کہ اپنے اوپر سے مکھی اُڑادے۔ خانہ کعبہ اور اس کے اطراف میں تین سو ساٹھ (360) بت تھے۔ ۲۔  قبل از اسلام عرب کے بہت سے علاقوں میں عیسائی مذہب رائج تھا۔ بنوقضاء کا تعلق عیسائیت سے تھا۔ اس کے علاوہ قبیلہ غسان اور ربیعہ بھی عیسائیت کے ماننے والے تھے۔ قبیلہ طے کا رئیس حاتم طائی بھی عیسائی تھا۔ نجران کے لوگ بھی عیسائی تھے۔

۳۔  پانچویں صدی قبل مسیح میں بخت نصر نے جب یہودیوں کو نیست نابود کرنا چاہا تو یہودی عرب چلے آئے۔ بنو حرث بن کعب۔ بنو کنانہ۔ حمیر۔ کندہ یہودی قبیلے تھے۔ خیبر کے لوگ بھی یہودیت میں داخل ہوگئے تھے۔ یثرب میں بنو نضیر۔ بنو قینقاع اور بنو قریظہ۔ یہودی قبائل تھے۔

۴۔  سید سلیمان ندویؒ نے ارض القرآن جلد دوم میں بیان کیا ہے کہ صائبین کا اصل مولد بابل تھا۔ ستاروں اوربتوں کی پوجاکرتے تھے۔ ان کا قبلہ قطب شمالی تھا۔ صائبین میں روزوں کے دن مقرر تھے۔ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ جو مصری فرعون کے ساتھ ڈوبنے سے بچ گئے وہ قطب شمالی کی جنت میں آرام کررہے ہیں۔ صائبین حضرت یحییٰ  ؑ کو سچا نبی مانتے تھے۔

۵۔ آتش پرست ایران سے ہجرت کرکے عرب کی مشرقی سرحدوں اور یمن میں آباد ہوگئے تھے۔ آگ کی پوجا کرتے تھے۔ آگ کو خدا کا نور اور نیکی کی علامت سمجھتے تھے۔

۶۔  قبل از اسلام کچھ لوگ سلیم الفطرت بھی تھے جو یہ جانتے تھے کہ عرب میں جہالت اور بدی نے دین کی حقیقت کو چھپا رکھا ہے۔ یہ لوگ دینِ حنیف پر قائم تھے۔ حنیف کا لفظ حضرت ابراہیم ؑکے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لوگ فطرتاً بدی اور برائی سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ لوگ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کی تلاش میں رہتے تھے اور توحید کے ماننے والے تھے۔ ان کی تعداد بہت کم تھی۔ توہم پرستی اور بت پرستی سے اکتا کر حق کی تلاش میں رہتے اور اپنے آپ کو عبادت میں مصروف رکھتے تھے۔

قبل از اسلام عرب کی سیاسی حالت بہت خراب تھی۔ عرب میں کوئی باضابطہ حکومت نہیں تھی۔ یہاں کے لوگ مختلف قبائل میں تقسیم تھے۔ کوئی بھی ان پر حکومت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ کیونکہ یہاں پر زیادہ تر حصہ ریگستان اور صحرا پر مشتمل تھا۔ کوئی روزگار نہیں تھا۔ کوئی پیداوار نہیں تھی۔ باقاعدہ آبادیاں نہیں تھیں۔ کوئی باقاعدہ حکومت قائم نہیں تھی۔ اس لئے کسی فاتح نے اس کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر کسی نے حملہ کیا بھی تو ان کو شکست دیتے ہوئے آگے نکل گیا یہاں پر اپنی حکومت قائم نہیں کی۔ اسی لئے عرب کے لوگ فطرتاً آزاد تھے اور کسی کے زیر اثر رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔

عرب میں قبل از اسلام ہر وقت جنگ و جدل کا بازار گرم رہتاتھا۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑنا اور ایک دوسرے کو قتل کردینا سر کاٹ لینا، ان کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے اور ہر خاندان دوسرے خاندان سے برسرِ پیکار تھا۔ ہر بچہ اپنے باپ اور عزیزوں کے قاتل سے انتقام لینے کے جذبہ میں پرورش پاتا تھا۔جوان ہوکر اس مقدس فرض کو انجام دیتا تھا اور اس طرح ایک لڑائی کا سلسلہ برسوں تک قائم رہتا تھا۔ ان ہی لڑائیوں کو مؤرخین اور اہل ادب ایام العرب کہتے ہیں جن کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے۔ان لڑائیوں میں بے رحمی اور سفاکی کی حالت یہ تھی کہ جب ایک گروہ دوسرے گروہ پر قبضہ کر لیتاتو اسکے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرلیتا اورسب کو قتل کردیتا۔عربوں میں جوئے کا بھی عام رواج ہوگیا تھا، اس کی کئی صورتیں تھیں۔ عرب کے مال و دولت کا تمام تر سرمایہ اونٹوں اور بکریوں کی تجارت تک محدود تھا۔ بعض اوقات کسی شرط پر بازی ہار جانے پر لوگ مال و دولت کے بعد گھر کی خواتین اور بچوں پر بازی لگا دیتے تھے۔ یہ قمار بازی اکثر مار پیٹ اور لڑائی پر ختم ہوتی تھی۔ سود خوری کا عام رواج تھا۔ تمام دولتمند سود کا لین دین کرتے تھے۔ عربوں میں لوٹ مار کا عام رواج تھا۔ بعض قبائل نے راہزنی کو اپنا ذریعہئ معاش اور عام مشغلہ بنا لیا تھا۔ تاجروں اور سوداگروں کے قافلے بغیر کسی بھاری انعام کے کسی میدان سے بسلامت گزر نہیں سکتے تھے۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کی عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت کردیتا تھا اورمویشیوں کو ہانک کر لے جاتا تھا۔مراعات یا فتہ طبقے میں کوئی صاحب اگر اس الزام میں پکڑے جاتے تو وہ چھوڑ دیے جاتے تھے۔

عورتوں کووراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا، ایک مرد جتنی عورتوں سے شادی کرنا چاہتا تو اس پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ جس عورت کو جس وقت چاہتا بغیر وجہ کے چھوڑ دیتا تھا۔دوحقیقی بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرلیتے تھے،عورت جب بیوہ ہوجاتی تو گھر سے باہر ایک نہایت تنگ کوٹھڑی رہنے کو اور خراب سے خراب کپڑے پہننے کودیئے جاتے تھے۔خوشبواستعمال نہیں کرسکتی تھی۔ جس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی اس کو سخت رنج ہوتا اور شرم کے مارے لوگوں سے چھپتا پھرتاتھا۔

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تواس کا منہ کالا پڑجاتا ہے اور غصہ کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ اس خوشخبری کے رنج سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ ذلت کے ساتھ اس کو قبول کرے یا زندہ زمین میں دفن کردے۔

                                                                    (سورۃ النحل۔ آیت 58تا59)

رفتہ رفتہ دختر کشی کی رسم جاری ہوگئی،لڑکی پیدا ہوتی تواس کو میدان میں لے جاکر گڑھا کھودتے اورزندہ دفن کردیتے تھے۔

 عرب کے شہر میں رہنے والے لوگوں کو حضرمی کہاجاتا تھا اور دیہات میں رہنے والے لوگوں کو بدوی کہاجاتا تھا۔شہری لوگوں کے معاش کا ذریعہ تجارت تھا اور دیہات میں رہنے والے لوگوں کا معاش زراعت اور حیوانات کی پرورش کرنا تھا۔

عرب کے تین طرف بحری سواحل واقع ہیں۔ اس قدرتی جغرافیائی تقسیم کی بدولت عرب کے ہر حصے کو دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ تجارتی سہولتیں حاصل ہیں۔ اس وجہ سے اہل عرب نے تجارت کی دنیا میں بڑی شہرت حاصل کی۔ عرب تاجر عام طور پر خوشبودار اشیاء، گرم مصالحہ جات، لوہا، سونا اور دیگر قیمتی جواہرات، چمڑا، کھالیں، زین پوش، گھوڑے، بھیڑ، بکریاں وغیرہ برآمد کیا کرتے تھے۔ ان کی درآمدات میں کپڑا، غلّہ، سامان آرائش، ہتھیار وغیرہ شامل تھے۔

عرب میں وہ مقامات جو سر سبز و شاداب تھے۔ مثلاً یثرب، نجد، یمامہ خیبر، جذان، طائف، نجران، ربھا۔ یہاں کاشت ہوتی تھی۔ دوسرے پھلوں کے علاوہ کھجور یہاں کا مشہور پھل تھا۔

 عرب کا جغرافیائی پسِ منظر

عرب کی وجہ تسمیہ

عرب کی وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف رائے ہیں۔

۱۔   اہل لغت بتا تے ہیں کہ عرب اور اعراب کے معنی فصاحت اور زبان آوری کے ہیں۔چونکہ اہل عرب اپنی زبان آوری کے سامنے دنیا کی دیگر زبانوں کو کمتر سمجھتے تھے اس لئے انہوں نےاپنے آپ کو ”عرب“اور دنیا کی تمام قوموں کو عجم کہہ کر پکارا۔

۲۔     بعض کی رائے یہ ہے کہ عرب اصل میں عربۃتھا۔قدیم اشعار میں عرب کی بجائے عربۃ آیا ہے۔ عربۃ کے معنی سامی زبانوں میں دشت اور صحرا کے ہیں۔چونکہ عرب کا بڑا حصہ دشت وصحرا ہے اسلئے تمام ملک کو عرب کہنے لگے۔

زمین کی ناف

 جغرافیائی اعتبارسے عرب ایک جزیرہ نما ہے۔ جسکے تین اطراف پانی ہے اور ایک طرف خشکی ہے۔ مغرب میں بحیرہ قلزم آبنائے سویز اور بحیرہ روم ہیں۔ مشرق میں خلیج فارس اور بحر عمان ہیں۔ جنوب میں بحر ہند ہے اور شمال میں عراق اور شام ہیں۔

عرب محل وقوع کے اعتبار سے دنیا کے وسط میں واقع ہے۔ براعظم یورپ، براعظم افریقہ اور براعظم ایشیا کے فاصلے یہاں سے برابر ہیں اسی وجہ سے مکہ کو ناف زمین کہا جاتا ہے۔

طبعی حالت

عرب میں کوئی دریا نہیں ہے۔ پہاڑوں سے چشمے جاری رہتے ہیں یہ چشمے پھیل کر تھوڑی دور تک مصنوعی دریا بن جاتے ہیں پھرریگستان میں جذب ہوجاتے ہیں یا سمندروں میں گرجاتے ہیں۔ عرب میں کچھ وادیاں بھی ہیں۔ عرب کا وہ حصہ جو ساحل سمندر کے قریب ہے سرسبز و شاداب اور زرخیز ہے۔ عرب میں سونے اور چاندی کی کانیں بکثرت ہیں۔ قریش کی تجارت کا دارو مدار چاندی کی تجارت پر تھا۔ پیٹرول بکثرت ہے جس نے سعودی عرب کو دنیا کا امیر ترین ملک بنا دیا ہے۔

آب و ہوا

 محل و قوع کے اعتبار سے ہر مقام کی آب و ہوا مختلف ہے لیکن عموماً ”گرم خشک“ ہے۔ عرب کا شمار دنیا کے گرم و خشک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ گرمی اتنی شدید ہوتی ہے کہ بعض اوقات برداشت سے باہر ہوجاتی ہے۔ بارش بہت کم ہوتی ہے۔ برسات کے موسم میں کبھی کبھار بارش ہوتی ہے۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں کم ہوتی ہیں۔ زیادہ تر غذائی اجناس باہر کے ممالک سے آتی ہیں۔ یہاں کا مشہور پھل کھجور ہے۔

عرب کی علاقائی تقسیم

علاقائی لحاظ سے عرب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

          ۱۔  حجاز                       ۲۔  نجد                     ۳۔  یمن    ۴۔  تہامہ   ۵۔  العروض

۱۔   حجاز…… عرب کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کا کل رقبہ ڈیڑھ لاکھ مربع میل ہے۔ حجاز میں اکثر حصہ ریگستان اور صحرا پر مشتمل ہے۔ اس کے مشہور شہر مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور طائف ہیں۔

۲۔   نجد…… اس کے معنی بلند کے ہیں۔ یہ صوبہ عرب کے درمیان میں واقع ہے۔ یہاں پہاڑ اور وادیوں کا سلسلہ ہے۔ یہ صوبہ تیل کے چشموں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ریاض اس کا صدر مقام ہے۔

۳۔   یمن…… اس صوبہ کا کل رقبہ پچھتّر ہزار مربع میل ہے۔ یہ صوبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس علاقہ میں گندم جو اور باجرہ پیدا ہوتا ہے۔

۴۔  تہامہ…… تہامہ کے معنی ساحلی علاقہ کے ہیں یہ حجاز کے جنوب میں واقع ہے۔ نشیبی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ میدانوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ گرمی کی انتہائی شدت ہے۔

۵۔   العروض …… یہ علاقہ یمامہ، عمان اور بحرین پر مشتمل ہے۔

یمامہ……   نجد اور یمن کے درمیانی علاقہ کو یمامہ کہتے ہیں۔

عمان……  یہ صوبہ عرب کے مشرق میں ہے۔ اس کا رقبہ بیاسی ہزارکلومیٹرہے۔ یہاں کی خاص پیدا وار کھجور ہے اس کا صدر مقام مسقط ہے۔

بحرین……  بحرین کو الاحساء بھی کہتے ہیں۔ یہ عمان اور خلیج فارس کے درمیان واقع ہے۔ اس کے بعض حصوں میں نہروں سے آبپاشی ہوتی ہے۔ کہیں کہیں چونے کا پتھر بھی ملتا ہے دہران میں تیل کے چشمے ہیں۔

عرب قبائل

عرب میں قبائلی نظام رائج تھا۔ ہرقبیلے کا ایک سردار ہوتا تھا جو شیخ کہلاتا تھا۔ قبیلے کے لوگ سردار کا چناؤکرتے تھے۔ قبائلی تعصب بہت زیادہ تھا۔ ان قبائل میں ذرا ذرا سی بات پر جھگڑا ہوجاتا تھا اور جنگ کی صورت اختیار کرلیتا تھا۔ اگر دو قبیلوں میں لڑائی شروع ہوجاتی تو وہ کئی نسلوں تک جاری رہتی تھی۔ اسی طرح ایک دفعہ گھوڑے دوڑانے پر بنو عبس اور بنو ذبیان کے درمیان جھگڑا ہوا۔ دونوں قبیلے کئی برسوں تک آپس میں لڑتے رہے۔

عرب کے دو بڑے قبیلے تھے:                                 ۱۔   قبیلہ عدنان                             ۲۔   قبیلہ قحطان

۱۔   قبیلہ عدنان

 یہ قبیلہ حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے تھا۔ ان کے مشہور سردار کا نام مضر تھا۔ اسی نسبت سے یہ مضرمی بھی کہلاتے ہیں۔ ان کے دیگر قبائل، بنی بکر۔ بنی قیس۔ بنی تمیم۔ بنی تغلب اور بنو قریش وغیرہ ہیں۔ ان تمام قبائل میں قبیلہ قریش خانہ کعبہ کا متولی ہونے کی بنا پر سب سے زیادہ معزز سمجھا جاتا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے ہے۔

۲۔  قبیلہ قحطان

 یہ لوگ قحطان کی اولاد میں سے تھے۔ ان کا اصلی وطن یمن تھا۔ اسی نسبت سے یمنی کہلائے۔ یہ عدنانی عربوں کی نسبت متمدن تھے۔ ان کی سلطنتیں غسان اور حیرہ تھیں۔ اس خاندان میں ایک مشہور بادشاہ تھا۔ جسے سرخ لباس پہننے کی وجہ سے ”حمیر“ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے قبیلہ بنی قحطان حمیری بھی کہلائے، ان کا قبیلہ بنو خزاعہ مکہ میں آباد تھا۔ اسی طرح مدینہ منورہ میں اوس اور خزرج بھی اسی قبیلہ سے تھے۔

اہل عرب کی خصوصیات

عربوں کی سخاوت مشہور ہے۔اگر قحط سالی کے ایام میں بھی ان کے پاس مہمان آجاتے تو اپنی سواری کا جانور ذبح کر دیتے۔جو شخص ان کی پناہ میں آجاتا اس کی پوری حفاظت کرتے۔بہادر اور ذہین تھے۔اگرچہ وہ لکھنے پڑھنے سے عاری تھے لیکن اپنی یاداشت کے بل بوتے پر انہوں نے اپنی جنگوں اور دیگر اہم واقعات کی تفصیلات کو محفوظ رکھا۔وہ صرف اپنے سلسلہ نسب سے ہی پوری طرح باخبر نہ تھے بلکہ اپنے گھوڑوں کے نام اور ان کے نسب ناموں کو بھی پوری طرح جانتے تھے۔عربوں کی دانشمندی دنیا میں مشہور تھی۔

شعر و شاعری سے ان کو خاص دلچسپی تھی۔یہ شاعروں کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور ہر قبیلہ اپنے شاعر پر فخر کرتا تھا۔عکاظ کے میلوں میں شاعراپنا کلام سنایا کرتے تھے۔ ان کی شاعری کے خاص موضوعات بزرگوں کی تعریف،عشق و محبت اور جنگوں میں بہادری کے کارنامے ہوتے تھے۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان