Topics

نور اول

خصوصیات نبویہ از احادیث

’’میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔‘‘

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

’’اللہ زمین اور آسمان کا نور ہے۔مثال اس نور کی ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں رکھا ہو چراغ ۔ یہ چراغ ایک فانوس میں ہو اور یہ فانوس ایسا ہو جیسے ایک ستارہ مو تی کی طرح چمکتا ہوا جو روشن کیا جاتا ہو زیتون کے مبارک درخت (کے تیل) سے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے خواہ نہ چھوئے اسے آگ۔ روشنی پر روشنی۔ رہنمائی عطا فرماتا ہے اللہ اپنے نور کی جسے چاہے اور بیان کرتاہے اللہ یہ مثالیں لوگوں کیلئے اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتاہے۔‘‘(سورۃ النور۔آیت ۳۵)

اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق آسمانوں اور زمین کے اندر جو کچھ ہے وہ نور پر قائم ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات نور ہے اور جس بیلٹ پر کائنات سفر کر رہی ہے وہ بھی نور ہے۔

’’قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی نور فرمایا۔

تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور آگیا ہے اور کتاب مبین ۔‘‘

(سورۃالمائدہ ۔آیت 15)

’’لوگو!تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس دلیل روشن آگئی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایسی روشنی(نور)بھیج دی ہے جو تمھیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔‘‘

(سورۃ النساء۔آیت174)

’’مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی (نور) بنادیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ۔ یقیناًتم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو ،اُس خدا کے راستے کی طرف ۔‘‘(سورۃ الشوریٰ۔آیت52)

’’اے نبی ہم نے تمھیں بھیجا ہے گواہ بناکر،بشارت دینے والااور ڈرانے والا بناکر،اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بناکر اور روشن چراغ بناکر ۔‘‘

(سورۃ احزاب۔آیت45تا46)

نور محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

ایک بار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت جابرؓ سے ارشاد فرمایا ۔

’’اے جابر! اللہ تعالیٰ نے تما م مخلوقات میں سب سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کے نور کو پید ا فرمایا‘‘(عبدالرزاق ابو بکر بن حمام)

ایک اور بارارشاد فرما یا:

’’سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور پیدا فرما یا اور میرے ہی نور سے ہر چیز پید ا فرمائی۔‘‘

(شیخ عبد الحق محدث دہلوی ،مدارج النبوۃ)

انجیل برنا باس کے مطابق جب حضرت آدمؑ نے آنکھ کھولی اور فضاؤں میں کلمہ طیبہ کی چمکتی ہوئی تحریر دیکھی تو عرض کیا ،کیا مجھ سے پہلے بھی انسان ہوئے ہیں؟

اس پر بارگاہ عالی سے جواب ملا۔

اے میرے بندے تمھارا آنا مبارک ہو۔میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو پہلا انسان ہے جس کو میں نے پیدا کیا ہے اور جس کا نام تونے دیکھا ۔وہ تیرا ہی بیٹا ہے لیکن وہ سالوں بعد دنیا میں آئے گا اور میرا رسول ہوگا۔اس کے لئے میں نے تمام اشیاء پیدا کی ہیں ۔وہ جب آئے گا تو دنیا کو روشن کر دے گا۔یہ وہی ہے ،جس کی روح تخلیق کائنات سے ساٹھ ہزار برس پہلے ایک آسمانی نور کی شکل میں تھی۔
(انجیل برناباس باب39)

یہ آیات،احادیث ،روایات ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کائنات کی تخلیق کے پہلے فرد ہیںیعنی کائنات کا نور ہیں ۔اسی نور سے تمام تخلیقات ہوئیں۔

حضرت سیدمحمد ذوقی شاہؒ (سرِ دلبراں)میں تحریر کرتے ہیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اللہ تعالیٰ کاوہ نور ہیں جو سب سے پہلے چمکا اور جس سے تمام کائنات کی تخلیق ہوئی ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اصل ہیں جملہ کائنات کی۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام خلاصتہ الموجودات ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جانِ عالم ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اجمال ہیں ان اسماو صفات کا جن کا ظہور تفصیلی کائنات میں ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ہی عقل اول ہیں ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ہی نور نبوت ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی حقیقت ہیں آدم علیہ السلام کی۔حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام ہی اصل ہیں جملہ انبیاء علیہم السلام کی ۔ جس طرح آدم ؑ پر تخلیق کائنات ختم ہوئی ،حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر تکمیل انسانیت ختم ہوئی۔

اس نور محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عالمین کس طرح وجود میں آئے؟اس بارے میں حضرت علی ؓ فرماتے ہیں:

جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ مخلوقات کو پیدا کر ے اور موجودات کو وجود میں لائے تو اپنی عزت و جلال کے نور سے ایک نور پھیلایا۔اس کی ضیاسے ایک لو چمک کر بلند ہوئی اور ایک صورت میں اکھٹا ہونے لگی۔اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت تھی ۔پس اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ تم برگزیدہ اور منتخب ہو اور تم ہی میں دوسرے انوار ودیعت ہیں ،تمہاری ہی بنا پر پہاڑوں کو قائم کیا ،آسمانوں کو بلند کیا اور پانی جاری کیا۔عالمین کو قائم کیا جو پانی کی موج کے جھاگ تھے اور دھوئیں کو بلند کیااور عرش کو پانی پر قائم کیاپھر مختلف قسم کے ملائکہ کو انوار سے خلق فرما یا ۔ اس کے بعد تمام مخلوق کو پیدا کیا۔(نہج الاسرار)

سلسلہ عظیمیہ کے حضور قلندر با با اولیا ءؒ فرماتے ہیں

’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد اول ما خلق اللہ نوری کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تخلیق فرمایا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مقام محمود میں جگہ عطا فرمائی جہاں اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کے علاوہ کسی بندے کی پہنچ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت ، جلال اور اس کی ربوبیت کے انوارات پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام قبول فرماتے ہیں اور وما ارسلنک الا رحمت اللعالمین کے تحت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال اور عظمت کو رحمت میں تبدیل کرکے عالمین میں تقسیم کردیتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ دوسری کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ کے جلال، عظمت ، تجلیات اور انوارات کو براہ راست برداشت نہیں کرسکتی۔ 

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام باعث تخلیق کائنات ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے، جب اللہ تعالیٰ کن فرماتے ہیں تو کن کی تمام تجلیات اور پوری مشیّت مقام محمود پر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذہن مبارک میں نزول کرتی ہیں اور مقام محمود سے لہروں کی صورت میں تبدیل ہوکر کائنات کو تخلیق کرتی ہیں۔ 

موجودہ سائنس تلاش و جستجو کے راستے پر چل کر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پوری کائنات ایک قوت کا مظاہرہ ہے، یہ انکشاف نیا نہیں ہمارے اسلاف میں کتنے ہی لوگ اس بات کو بیان کر چکے ہیں کہ کائنات کے تمام مظاہر کو ایک ہی توانائی کنٹرول کر رہی ہے اور اس قوت کا براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط ہے، قرآن اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔‘‘(سورۃ النور۔آیت 35)

ہم سائنس اور اسلاف کے علوم کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ دیکھ کر ہمارے اوپر حیرت کے باب کھل جاتے ہیں کہ اب سے تقریباً آٹھ صدی پہلے حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی ؒ ایک ایسے عظیم سائنسدان تھے جو فطرت کے قوانین کو جانتے تھے جن کے وجود مسعود سے آفاقی قوانین کے راز ہائے سربستہ کا انکشاف ہوا ہے حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی ؒ فطرت کے قوانین کے استعمال کا جو طریقہ بتا گئے ہیں اور انہوں نے ان قوانین کو سمجھنے کی جو راہ متعین کی ہے۔۔۔اس کے لئے فرماتے ہیں کہ مختلف اشیاء میں یہ لہریں مختلف تناسب اور مقداروں میں کام کرتی ہیں۔

شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ نے بتایا ہے کہ زمین اور آسمان کا وجود اس روشنی پر قائم ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ کا نور فیڈ کرتا ہے۔اگرانسان کا ذہن مادہ سے ہٹ کر اس روشنی میں مرکوز ہوجائے تو وہ یہ سمجھنے پر قادر ہو جائے گا کہ انسان کے اندر عظیم الشان ماورائی صلاحیتیں ذخیرہ کردی گئی ہیں جن کو استعمال کرکے نہ صرف یہ کہ وہ زمین پر پھیلی ہوئی اشیاء کو اپنا مطیع و فرمانبردار کر سکتا ہے بلکہ ان کے اندر کام کرنے والی قوتوں اور لہروں کو حسب منشا بھی استعمال کرسکتا ہے۔پوری کائنات اسکے سامنے ایک نقطہ یا دائرہ بن کر سامنے آجاتی ہے۔اس مقام پر انسان مادی وسائل کا محتاج نہیں رہتا۔وسائل اسکے سامنے سربسجود ہو جاتے ہیں۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان