Topics

طائف کا سفر

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو ابی لہب نے قبیلہ بدر کرنے کا اعلان کر دیا تھا کہ ”میں نے محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کو اپنے قبیلے سے نکال دیا اورآج کے بعد ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں“۔

جزیرۃ العرب میں جب کسی کو قبیلے سے نکال دیا جاتا تھا تو اس کی حیثیت اس قدر ناچیز ہوجاتی تھی کہ اسے قبائلی جرگہ میں انصاف کی درخواست کرنے کا بھی حق نہیں تھا۔جزیرۃ العرب میں قبیلے سے خارج ہونے والا شخص تمام سماجی اور معاشی حقوق سے محروم ہوجاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں اُس سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا تھا۔

 مکہ کے سرداروں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تبلیغ پربھی پابندی لگادی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کسی اجتماع سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان حالات میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام  نے مکے کے قرب و جوار کے شہر اور بستیوں کا انتخاب کیا تاکہ وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا یا جائے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام طائف تشریف لے گئے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طائف میں قبیلہ ثقیف کے سرداروں عبدیالیل، مسعود اور حبیب سے ملاقات کی اور انہیں حق وصداقت کا پیغام دیا۔ لیکن انہوں نے حق وصداقت کا پیغام قبول کرنے سے انکار کر دیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیچھے وہاں کے اوباش لڑکوں کو لگا دیا۔ جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر آوازیں کستے، تالیاں پیٹتے اور گالیاں دیتے تھے۔ انہوں نے اتنے پتھر مارے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نعلین مبارک(جوتے) خون میں بھر گئے۔ حضرت جبرائیلِ ؑامین حاضر ہوئے اور کہا:

اگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اجازت دیں تو بستی والوں پر پہاڑ اُلٹ دیئے جائیں۔

 رحمت اللعالمین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

میں مخلوق کے لئے زحمت نہیں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے بندے پیدا فرمائیں گے جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔

انگوروں کا باغ

زخموں سے چُور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک باغ میں پناہ میں لی۔ اس باغ کے مالک دو بھائی عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لہولہان دیکھ کر انہوں نے اپنے نصرانی غلام کے ہاتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں انگور بھیجے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے”بسم اللہ“ کہہ کر انگور لے لئے۔ نصرانی غلام نینوا کا باشندہ تھا۔ اس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان کلمات کی بابت دریافت کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

تم میرے بھائی یونس بن متی کے شہر کے رہنے والے ہو۔وہ بھی میری طرح اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔

یہ سن کر ابن ربیعہ کا غلام ”عداس“ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدموں میں جھک گیا۔ عداس نے کہا:

اگرچہ میرے آقا عتبہ نے مجھے یہ کہا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو انگور پیش کروں لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس باغ میں پناہ نہیں دے گا۔ میں اتنا ضرور کرسکتا ہوں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لوگوں کی نظروں سے سے بچا کر طائف سے باہر لے جاؤں۔

نصرانی خدمتگار عداس نے اپنے وعدے پر عمل کیا اورجیسے ہی رات تاریک ہوئی پیغمبر اسلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو طائف کے شہر سے باہر لے آیااور عرض کیا:

اللہ کے برگذیدہ بندے!اس شہر سے دور نکل جایئے کہ یہاں کے لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  کے دشمن ہیں۔

جنات میں اسلام

 حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام صحرا میں چلتے چلتے بطنِ نخلہ میں پہنچے۔ رات کا سماں تھا اور کائنات خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وہاں پہنچ کر پیغمبر اسلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن پاک کی تلاوت شروع کی۔جنات نے جب سوزوگداز سے بھرپور نورانی آواز میں قرآن سنا تو ان کی ایک جماعت خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام قبول کیا۔ قرآن پاک کی چھیالیسویں سورۃ میں ارشاد ہے۔

’’اور وہ وقت آن پہنچا جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تمہاری جانب بھیجا تاکہ وہ قرآنی آیات کو سنیں اور جب وہ حاضرہوگئے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ خاموش ہوکر سنو۔ پھروہ اپنی قوم کی طرف عذاب سے ڈرانے والے بن کر پلٹے۔ ‘‘(سورۃالاحقاف۔ آیت 29)

زخم زخم جسم ، بھوک سے نڈھال اور خستہ حال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام طائف کے شہریوں سے مایوس ہوکر مکہ لوٹ آئے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ جان لیا تھا کہ طائف مسلمانوں کی پناہ گاہ نہیں بن سکتا ، لیکن کسی قبیلے سے منسلک ہونا ضروری تھا۔ لہٰذا انہوں نے قبیلہ زہرہ کے سربراہ اخنس بن شریق کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ اس سے حق جوار چاہتے ہیں۔ اخنس بن شریق نے جواب دیا اگرچہ اس کی یہ خواہش ہے کہ وہ محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پناہ دے لیکن وہ ایسا کرنے سے معذور ہے کیونکہ اس نے قبیلہ قریش کے ساتھ معاہدہ کررکھا ہے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے سہیل بن عمرو کو پیغام بھجوایا اور اس سے کہا کہ وہ انہیں اپنے قبیلے میں جگہ دے۔ سہیل بن عمرو قبیلہ قریش سے دور کا تعلق رکھتا تھا۔ اس نے بھی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو پناہ دینے سے انکار کردیا۔عرب کا یہ دستور تھا کہ اگر کوئی دشمن بھی کسی سے پناہ طلب کرتا تو وہ اُسے پناہ دیتے تھے۔ معطم بن عدی نے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کا مثبت جواب دیا اور اپنی قوم کو جمع کرکے ہتھیار باندھے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام مکہ میں داخل ہوئے اور مسجد الحرام میں داخل ہوکر طواف کیا۔ مطعم بن عدی اپنی سواری پر سوار تھا۔ اس نے اعلان کیا:

’’ قریش کے لوگو! میں نے محمد( علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو پناہ دے دی ہے۔‘‘

مطعم بن عدی اور اس کے لڑکوں نے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گرد حلقہ بنا رکھا تھا۔ کعبہ میں حاضری کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے گھر تشریف لے گئے۔ 

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان