Topics
سیرۃ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کی جمع ’’سیر‘‘ ہے ۔یہ لفظ
سار،یسیر،سیراًومیسراً سے نکلا ہے اور اس کے معنی طریقہ ،راستہ ،جانا ،چلنا،سنت ،
حالت،کردار ہیں۔عام اصطلاح میں اس سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حالات
زندگی اور حیات مبارکؐ کا بیان ہے ۔
حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے لکھا ہے ۔’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہ کرامؓ کی سیرت طیبہ کے بارے میں
جو کچھ لکھا جائے اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ولادت سے وفات تک کے
واقعات پر مشتمل مضامین ہوں اُسے ’’سیرت ‘‘ کہتے ہیں۔‘‘محدثین کے نزدیک سیرت سے مراد’’ مغازی اور جہاد سے متعلق تفصیلات
ہیں۔‘‘ اسی لئے سیرت کے موضوع پر ابتدا میں جو کتابیں لکھی گئیں ،’’مغازی‘‘
کہلائیں چناچہ امام مسلم کی جامع میں ’’کتاب السیرو الجہاد‘‘ اور حافظ ابن حجر کی
فتح الباری میں ’’کتاب المغازی والیسر ‘‘کے عنوانات موجود ہیں اور فقہی کتب میں
بھی یہ استعمال ہے ۔
ابن اسحاق کی کتاب کو مغازی اور سیرۃ کے ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے
کیونکہ اولین دور کے سیرت نگار وں نے سیرت پر جو کتابیں لکھیں ان میں غزوات کے
واقعات کا کثرت سے تذکرہ کیا گیا ہے مگر بعد میں’’ سیرت‘‘ کا مفہوم غزوات تک محدود
نہیں رہا بلکہ اس میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بھی
تفصیلات بیان ہوئیں۔
مدینہ منورہ میں جب تابعین نے سیرت نگاری شروع کی توا ن کے پاس دو
اہم ماخذ تھے ۔ایک قرآن کریم ،دوسرا حدیث ،سیرت نگاری کے دوسرے ماخذ بھی سیرت
نگاری کا حصہ بنتے رہے۔سیرت نگاری کے اہم ماخذ درج ذیل ہیں۔
ا۔قرآن حکیم ۲۔احادیث ۳۔اسماء الرّجال ۴۔تاریخ عرب
۵۔کتب مغازی و سیر ۶۔عرب شاعری ۷۔کتب تفاسیر ۸۔کتب شمائل
۹۔کتب دلائل ۱۰۔آثارواخبار
قرآ ن حکیم ہمیں یہ ادراک عطا کرتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
پر وحی کا نزول انسانوں کے لئے ایسا نظریۂ حیات ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے۔قرآن
کریم میں وحی کے ذریعے جو احکامات نازل ہوئے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ان کی عملی
تفسیر ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے تخلیقی نظام کی تکمیل کے لئے سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی پیروی کرنے کی بار بار ترغیب دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک
میں جو علوم عطا کئے ہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کا مظہر اور عملی نمونہ
ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’کہہ دیجئے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیرلیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں سے
محبت نہیں کرتا۔‘‘
(سورۃ آلِ عمران۔آیت32)
’’بستی والوں کا جو مال اللہ تعالیٰ تمہارے
لڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے۔ اور رسول کا۔ اور قرابت والوں کا
اور یتیموں کا ، مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے۔ تاکہ تمہارے (دولت مندوں کے) ہاتھ
میں ہی یہ مال گردش نہ کرتا رہے اور تمہیں جو کچھ رسول دے ،لے لو، اور جس سے روکے،
رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناًاللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔‘‘
(سورۃ الحشر۔ آیت 7)
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا اعزاز ہے کہ حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی ذاتِ اقدس سے جو منسلک ہو گیا اس کی ذہنی اور فکری تربیت اس طرح
ہوجاتی تھی کہ وہ توحید پر عمل پیرا ہوجاتا تھا۔
قرآن حکیم، سیرتِ رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ماخذ ہے۔اس الہامی
کتاب کی ۱۱۴سورتوں میں حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی حیات مبارک ؐ مذکورہے۔
۱۔قرآن حکیم میں حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی کے اہم پہلو واضح کیے گئے ہیں۔
۲۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
کے عہد کے بعض واقعات پر بحث کی گئی ہے ۔
۳۔ حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے کردار کی خصوصیات بتائی گئیں ہیں۔
۴۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن
حکیم میں پیغمبرعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت و کردار کو مومنوں کیلئے ایک اعلیٰ
مثال قرار دیاہے۔
۲۔ احادیث
قرآن حکیم کے بعد سیرت نبوی کا دوسرا بڑا ماخذ احادیث نبوی علیہ
الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ جن کے راویوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔ محدثین نے بے حد
تلاش ، محنت اورکاوش کے بعد احادیث کی کتابیں مرتب کیں ہیں اورسیرت کیلئے ایسابے
مثال ریکارڈ محفوظ کر دیا ہے کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
عہد نبوی میں صحابہ کرامؓ کے نوشتوں میں سب سے زیادہ شہرت
صحیفہ’’صادقہ‘‘کو حاصل ہوئی۔ جسے حضرت عبداللہ بن مرو العاص (م۶۵ھ)نے مرتب کیا
تھا۔صحیفہ ‘‘صادقہ‘‘ میں بقول الاثیر ،ایک ہزار احادیث جمع تھیں۔
مشہور صحابی رسول حضرت ابو ہریرہؓ جو اصحاب صفہ میں شمار ہوتے تھے۔ ۷ھ میں مدینہ تشریف
لائے۔مدینہ آنے کے بعد اکثر و بیشتر وقت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی قربت میں
رہتے تھے۔تاکہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں۔آپؓ نے بھی احادیث کے کئی مجموعے مرتب
کیے تھے۔ لیکن سوائے ایک کے سب ضائع ہوگئے، جو صحیفہ بچ گیا ، وہ حضرت ابوہریرہؓکے
ایک شاگرد ہمام بن منبہ (م ۱۰۱ھ) نے روایت کیا اور اب انہی کے نام سے منسوب ہے۔ یہ تالیف مکمل طور
پر محفوظ رہنے کی وجہ سے اب تک دریافت شدہ مجموعوں میں اولیت کاشرف رکھتی ہیں۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے پہلی مرتبہ احادیث کو باقاعدہ کتاب و ابواب پر
مرتب کیں اور اس کا نام ’’کتاب الآثار ‘ ‘رکھا۔
احادیث کا دوسرا اہم مجموعہ ’’مؤ طا‘‘جو اہل مدینہ کی روایات اور
فتاویٰ پر مشتمل ہے۔ جسے امام مالک نے ۱۴۳ھ میں ترتیب دیا۔ اس کتاب کی تدوین کے وقت اس کے پیش نظر ہزاروں
احادیث کا ذخیرہ تھا، جس میں سے آپ ؒ نے صرف ایک ہزار سات سو بیس احادیث منتخب
فرمائیں ۔
احادیث نبوی کا ایک بڑا مجموعہ ’’ مسندامام احمد بن حنبل‘‘ ہے۔ امام
احمد بن حنبل نے ساڑھے سات لاکھ احادیث میں سے چالیس ہزار کے قریب احادیث اپنے
مجموعے میں شامل کیں۔
صحاح ستہ ان چھ کتابوں کو کہاجاتا ہے جو احادیث نبوی کے بہترین
انتخاب پر مشتمل ہیں ۔ یہ کتابیں اپنے مؤلفین کے نام سے مشہور ہیں ۔ یعنی:
۱۔ بخاری ۲۔ مسلم ۳۔ ابوداؤد
۴۔ نسائی ۵۔ ترمذی ۶۔ ابن ماجہ
۳۔ اسماء الرجال
سیرت رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کاایک اور ماخذ کتب اسماء الرجال ہیں
،جوسینکڑوں کی تعداد میں قدیم محدثین اور مصنفین نے بڑی محنت و کاوش کے بعد مرتب
کیں ۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حالات زندگی چونکہ صحابہؓ نے روایت کیے اور ان
سے تابعین نے سنے اور نوٹ کیے اور ان کے بعد تبع تابعین نے سن کر محفوظ کیے ، اس
لیے یہ ضروری سمجھا گیاکہ’’یہ بھی تحقیق کیا جائے کہ جو اشخاص سلسلہ روایت میں آئے
، کون تھے ؟ کیسے تھے؟ کیامشاغل تھے؟ ان کی کنیت لقب کیا تھا؟ کہاں کے رہنے والے
تھے ان کے آباؤ اجداد کون تھے؟کن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ؟غرض
ان ہزاروں راویوں کے بارے میں تحقیق کا اتنا بڑا ریکارڈ جمع کیا گیا
کہ دنیائے قدیم و جدیدکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں۔ان کا نام ’’اسماء الرجال
‘‘ہے۔یہ حالات جن کتابوں میں جمع کیے گئے ہیں انہیں ’’کتب اسماء الرجال‘‘ کہا جاتا
ہے۔ یہ کتابیں اس لحاظ سے بڑی مفید ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے حالات و کوائف تحریرکرتے
وقت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے واقعات بھی ان میں محفوظ ہوگئے ہیں۔ کیونکہ صحابہ
کرامؓ نے حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام سے جو کچھ سنا،سیکھا یا جو بھی واقعہ ان کی نظر
سے گزرا وہ سب کچھ صحابہؓ نے اپنے راویوں کے سامنے پیش کیا۔ یوں صحابہ کرامؓ کے
حالات سے بالواسطہ ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی کے واقعات سے آگہی
ہوئی۔
ان میں سے بیشتر کتابیں اب ناپید ہیں لیکن بعد کی تصانیف چونکہ انہی
سے ماخوذہیں اس لیے ان کا تذکرہ ناگزیر ہے۔
۱۔ طبقات ابن سعد از ابن
سعد ۲۔ تواریخ امام بخاری ۳۔ کتاب الجرح والتعدیل ۴۔ اسد الغابہ از ابن
کثیر ۵۔میزان الاعتدال از
امام ذہبی
قبل از اسلام عربوں میں تاریخ نگاری کا باقاعدہ کوئی رواج نہیں
تھا۔تاہم یمنی عربوں کے پاس تاریخ نگاری کی روایت ضرور تھی اور ان کے پاس کچھ
تاریخی تحریری سرمایہ بھی تھا۔پھر عربوں کی شاعری ،ایام العرب کے تذکرے اور علم
انساب کی وجہ سے ان کے پاس ایک تاریخی سرمایہ جمع ہوگیا تھا ۔جس نے آگے چل کر
تاریخ نگاری کی روایت قائم کرنے میں عربوں کی مدد کی ۔قصص اور اشعار کے ذریعے وہ
اپنی آنے والی نسلوں کو آبائی اور قبائلی روایات سے آگاہ کرتے تھے۔ اس کیلئے وہ
خاص اہتمام کرتے تھے۔ چاندنی راتوں میں کھلی جگہ پر جمع ہو کر اپنے قبائل کے
بہادرانہ کارنامے سنائے جاتے تھے۔
جب نزول قرآن کا سلسلہ شروع ہوا جس میں متعدد مقامات پر سابقہ امتوں
کے واقعات بیان کئے گئے ہیں تو مسلمانوں میں فطری طور پر تاریخ سے دلچسپی پیدا
ہونی شروع ہوگئی ۔قرآن نے ایک زبردست تاریخی سرمایہ بھی فراہم کردیا تھالہٰذا
عربوں نے تاریخ نویسی شروع کر دی تھی۔اس طرح عربوں کی تاریخ نویسی سیرت نگاری میں
معاون رہی ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ولادت مبارکؐ سے قبل کے واقعات حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے آباؤ اجداد کے حالات کی تفصیلات اور دیگر اہم معلومات ہمیں عرب
کی تاریخ فراہم کرتی ہے۔
سیرت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ایک اور اہم ماخذ ’’ مغازی‘‘ اور
سیرت کی وہ کتابیں ہیں جوابتدائی دور کے بزرگوں نے مرتب کیں۔ مغازی سے مراد وہ
جنگیں ہیں جن میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے خود شرکت فرمائی ۔ اصولاًتومغازی کو
صرف’’ غزوات نبوی‘‘ اور ان کے شریک صحابہ کرامؓ کے تذکرے تک محدود رہنا چاہیئے
تھا،لیکن اپنے تو سیعی مفہوم میں اس اصطلاح کا اطلاق حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی
پوری حیات مبارکؐ پر کیاجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی
(بالخصوص مدنی زندگی )کے تذکرے پرمشتمل کتابوں کومغازی کہاجاتا ہے اور سیرت بھی۔ ‘‘
سیرت رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ایک اور ماخذ حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے زمانے کی وہ شاعری ہے جوحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ذات مبارک
کے حوالہ سے کی گئی ہے۔اس زمانے کے شعرا میں حضرت ابوطالب ، اعشیٰ،حضرت کعبؓ بن
زہیر،حضرت حسانؓ بن ثابت،حضرت عبداللہؓ بن رواحہ،حضرت عبدؓاللہ بن زبعری ،حضرت
کعبؓ بن مالک،حضرت فضالہ لیثیؓ اورحضرت عباسؓ بن مرداس کے نام اہم ہیں۔ ان شعرا کے
اشعار سیرت نگاری میں بڑی افادیت کے حامل رہے۔
سیرت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ایک اور اہم ماخذ کتب تفاسیر ہیں
جو قرآن کریم کے معانی و مطالب کی وضاحت کے لئے سیرت نگاروں نے تحریر کیں۔ حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حالات دریافت کرنے کاسب سے مستند ذریعہ قرآن کریم ہے،
چنانچہ جب قرآن حکیم کی آیات کی تشریح کی جاتی ہے تو سیرت کی نسبت سے وہ مقامات
زیادہ اہم ہوجاتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو مخاطب کیا
ہے یاحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی کے مختلف واقعات بیان کیے ہیں ۔ یہ تفاسیر
ا سوقت بھی معلومات کا ایک قیمتی خزانہ ثابت ہوتی ہیں جب یہ معلوم کرناہوکہ آیات
قرآنی کے نزول کے اوقات ، اسباب اور مقامات کون کون سے تھے؟ اور ان کا حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی ذات مبارکؐ سے کیا تعلق تھا؟ اسی لیے تفسیر کی کتابیں ، سیرت
النبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ایک اہم سرچشمہ قراردی گئی ہیں ۔
قرآن حکیم کے اولین مفسر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ہیں ۔ کیونکہ اللہ
تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اس کتاب کا مفسر اور ترجمان قرار دیاہے۔
’’یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے
سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤان کے لئے اُتاری گئی ہے اور تاکہ لوگ
غور و فکر کریں۔‘‘(سورۃ النحل۔آیت 44)
تفسیر قرآن کا سلسلہ صحابہ کرامؓکے زمانے میں شروع ہوگیا تھا ۔
مفسرین صحابہ کی تعداد اگرچہ بہت زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی تفسیری روایات کی اہمیت
یہ ہے کہ انہوں نے وہی کچھ بیان کیا ہے جو انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے
بالواسطہ سنا یاوہ جس آیت کے نزول کے سبب سے واقف تھے ۔
سیرت رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کاایک اور ماخذ کتب شمائل ہیں۔جن میں
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حلیہ مبارک، عادات و خصائل اور فضائل ومعمولاتِ زندگی
کا تذکرہ ہے۔ یوں تو کتب احادیث میں بھی شمائل نبوی کاذکر ہوتا ہے، مثلاًصحاح ستہ
کی بعض کتابوں میں شمائل کاجداگانہ باب موجود ہے لیکن بعض کتابوں میں صرف شمائل کو
ہی موضوع بنایاگیاہے، چنانچہ امام ترمذی (م ۲۷۹ھ) کی ’’کتاب الشمائل‘‘ اس فن
کی سب سے پہلی اور مشہور تالیف ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتاہے کہ بڑے بڑے علماء، نے اس کی درجنوں شرحیں لکھیں ہیں۔ شمائل نبوی پر سب سے
بڑی کتاب قاضی عیاض اندلسی (م۵۴۴ھ) کی ’’کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ‘‘ہے۔ جسکی شرح شہاب الدین
خفاجی نے ’’نسیم الریاض ‘‘ کے نام سے لکھی ۔ اس فن کی دوسری کتابیں ابو العباس
مستغفری (م ۴۳۲ھ)کی ’’شمائل
النبیؐ‘‘ابن المقری غرناطی (م۵۵۲ھ)کی ’’شمائل النور ‘‘ اور مجدد الدین فیروز آبادی (م ۸۲۷ھ)کی
’’سفرالسعادۃ‘‘ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت طیبہؐ کاایک اور ماخذ کتب دلائلِ
نبوت ہیں، جن میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے معجزات اور روحانی تعلیمات کا ذکر
ہے۔ سید سلیمان ندویؒ نے ’’ خُطبا تِ مدارس‘‘ میں ایسی کئی کتابوں کے نام بتائے
ہیں جوحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی حیات کے اس خاص پہلو کے بیان کے لئے وقف ہیں
۔مثلاً
۱۔ ابن قتیبہ (م ۲۷۶ھ) کی ’’دلائل النبوۃ‘‘
۲۔ ابواسحٰق حربی (م ۲۵۵ھ) کی ’’دلائل النبوۃ ‘‘
۳۔ امام ابو بکر بیہقی(م
۴۳۰ھ)کی ’’دلائل النبوۃ‘‘
۴۔ ابونعیم اصفہانی (م۴۳۰ھ)کی ’’دلائل النبوۃ‘‘
۵۔ امام سیوطی (متوفی911ء)کی’’
خصائص الکبری ‘‘
۱۰۔ کتب آثار واخبار
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت طیبہ کاایک اور ماخذ وہ کتابیں ہیں
جومکہ معظمہ اور مدینہ کے حالات کے بارے میں لکھی گئی ہیں ۔ ان کتابوں میں ان
شہروں کے عام حالات کے علاوہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حالاتِ زندگی اوران
مقامات مقدسہ کے نام و نشان ہیں جن کا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے کوئی تعلق رہا
ہے۔
ان کتابوں کے مؤلفین نے ہزاروں سالوں پر محیط یہاں آباد ہونے والے
قبائل اور تہذیبی و تمدنی زندگی کی تفصیلات ہمارے لیے فراہم کی ہیں۔ اس موضوع پر سب سے قدیم کتاب
علامہ ازرقی (م ۲۲۳ھ)کی ’’اخبارمکہ‘‘ ہے جسے
انتہائی مستند ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔علامہ قطب الدین(م۹۸۶ھ)کی شہرہ آفاق تالیف ’’اعلام
الاعلام‘‘ میں مکہ کے معاشی، معاشرتی اورانتظامی امور پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
شیخ محمد ابراہیم رفعت پاشا مصری کی نادرہ روزگار تصنیف ’’مراۃ الحرمین‘‘ چھ جلدوں
پر محیط ہے۔ جس میں مصنف نے مکہ معظمہ کے بہت سے مقامات کی تاریخی اورجغرافیائی
حیثیت کو اجاگر کیاہے اور اہل مکہ کی تعلیمی، تمدنی اور اخلاقی قدروں کو بڑی وضاحت
و صراحت سے بیان کیا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان