Topics

تکوین

یہ علوم چونکہ براہِ راست خالق کے تخلیقی فارمولوں سے متعلق ہیں، اس لئے انسان کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے نائب کی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی نیابت و خلافت کے منصب پر فائز فرما دیا تویہ بات از خود یقین بن گئی کہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے تمام کائناتی شعبوں میں انسان کو تصرف کا حق حاصل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء کی روشنی میں انسان کو کائنات چلانے، کائنات کو متحرک اور قائم رکھنے کا اختیار عطا کردیاہے۔ نیابت کا یہی اختیار ہے جس کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت فرمایا ہے۔ 

نیابت کے تذکرہ میں یہ ضروری ہے کہ کائنات کی بنیادی حیثیت کو سمجھا جائے۔ کائنات جن اصولوں، قاعدوں اور فارمولوں پر تخلیق کی گئی ہے اور جن قاعدوں، ضابطوں اور مقداروں پر کائنات چل رہی ہے ان سب امور کے یکجائی پروگرام کا نام ’’تکوین‘‘ ہے۔
جس طرح ملک کے انتظامی شعبوں کو Administrationکہا جاتا ہے، اسی طرح کائناتی نظام کو تکوین کہا جاتا ہے۔ حکمتِ تکوین پر جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات زیر بحث آتی ہے کہ کائنات کس طرح وجود میں آئی؟

چار شعبے

روحانی ماہرین بتاتے ہیں کہ کائنات کی تشکیل چار شعبوں پر مشتمل ہے۔ 

۱۔ وسائل کے بغیر تخلیق

۲۔ حرکت کا آغاز

۳۔ ترتیب خود شناسی

۴۔ قضا و قدر (اللہ تعالیٰ کی مرضی جس طرح اللہ تعالیٰ چاہیں)

۱۔ کائنات کاپہلا مرحلہ اس طرح وجود میں آیا کہ کائنات کی موجودگی میں وسائل کا دخل نہیں ہے۔ بغیر اسباب و وسائل کے افراد کائنات کی موجودگی کے شعبے کو ابداء کہتے ہیں۔ یہ کائنات کا آغاز بھی ہے اور کائناتی انتظام کا پہلا شعبہ بھی۔ یعنی کائنات اس طرح وجود میں آئی کہ وسائل زیر بحث نہیں آئے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ’’کن‘‘ فرمایا تو کائنات وجود میں آگئی۔

۲۔ عالم موجودات میں شکل و صورت، حرکت و سکون کی طرزیں جب نمایاں ہوئیں اور زندگی کے مراحل وقوع میں آنا شروع ہوئے تو کائنات کا دوسرا شعبہ بنا۔ اس شعبہ کا نام ’’خلق ‘‘ ہے۔

۳۔ تیسرا شعبہ’’ تدبیر‘‘ ہے۔ جس میں موجودات کی زندگی کے تمام اعمال و حرکات ترتیب کے ساتھ مرتب ہوگئے۔
۴۔ چوتھا شعبہ تٰدّلیٰ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ افراد کائنات میں انتظامی امور کے تحت قضا و قدر کی حکمت اور فیصلے مرتب ہوگئے۔
Summary
۱۔ پہلا شعبہ جہاں تکوین کاآغاز ہوا یہ ہے

ساری کائنات وجود میں آگئی۔ لیکن اسباب و وسائل کے بغیر۔ جب کہ ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ کوئی چیز بغیر وسائل کے وجود میں نہیں آتی۔ زمین کے اوپر پھیلی ہوئی ایجادات اور تخلیقات اور نئی نئی چیزوں پر جب ہم تفکر کرتے ہیں تو ہمیں کوئی ایک چیز بھی نظر نہیں آتی جہاں وسائل کی محتاجی نہ ہو لیکن خالق کائنات کی تعریف یہ ہے:

خالق کائنات اسباب و وسائل کا محتاج نہیں ۔

اس کے ارادے اور اختیار سے از خود وسائل مہیا ہوجاتے ہیں اور یہ وسائل کائناتی خدوخال اختیار کرکے مظہر بن جاتے ہیں۔ 
۲۔ دوسرا شعبہ:

کائنات کے افراد کو اس بات کا علم حاصل ہوا کہ اس کے اندر حرکت و سکون ہے اور کائنات میں ہر فرد شکل و صورت کا محتاج ہے۔ دوسرے شعبے میں کائنات میں حرکت کا آغاز ہوگیا۔ 

۳۔ کائنات وسائل و اسباب کے بغیر موجود ہوگئی۔ اس کے اندر حرکت و سکون کی طرزیں نہیں تھیں اور نہ ہی کائنات کے افراد اپنی شکل و صورت سے واقف تھے۔ ایک حیرت کا عالم تھا اور بس۔!

۴۔ کائنات میں حرکت کا آغاز ہوا تو موجودات کی زندگی میں ترتیب واقع ہوئی اور موجودات نے یہ جان لیا کہ میری انفرادی حیثیت ہے۔

جب موجودات کے علم میں یہ بات آگئی کہ اس کی انفرادی حیثیت ہے اور اس کے اندر حرکت اور سکون کی طرزیں موجود ہیں تو اسے اس بات کا وقوف حاصل ہوا کہ زندگی ایک ایسے دائرے میں بند ہے جہاں انسان اور کائنات قضا و قدر کے فیصلوں کی محتاج ہے۔

نیابت و خلافت

آدم کو تکوین کے چار شعبوں کا علم اس لئے عطا کیا گیا ہے کہ وہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے اپنے فرائض پورے کرسکے اور کائناتی امور کو چلاسکے۔

انسانی علوم اور اللہ تعالیٰ کے علوم میں یہ واضح فرق ہے کہ انسان جب نائب کی حیثیت سے تکوینی نظام کو چلاتا ہے تو وہ اسباب و وسائل کا محتاج ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں وسائل کے بغیر تخلیقات عمل میں آجاتی ہیں اور قضا و قدر کے فیصلے صادر ہوجاتے ہیں۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو مرتبہ عطا کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کائنات میں بحیثیت نائب اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ اختیارات سے کائناتی نظام کو چلاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائنات کی حاکمیت عطا فرمادی ہے۔

حاکمیت کا وصف ہی دراصل نیابت و خلافت کے تقاضے پورے کرنا ہے اور جس طرح دنیاوی Administration میں بے شمار لوگ اپنے اپنے شعبوں کو چلاتے ہیں ، اسی طرح کائنات میں بھی مختلف شعبوں کے سربراہ ہوتے ہیں اور ان کی سربراہی میں کائناتی شعبے متحرک ہیں۔

کتاب ’’لوح و قلم‘‘ لکھتے ہوئے میں نے قلندر بابا اولیاءؒ سے سوال کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم ؑ کو نیابت و خلافت عطا کردی توانسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات میں کس طرح تصرف کرتا ہے۔جب کائنات پہلے سے وجود میںآگئی اور قضا وقدر کے فیصلے مدوّن ہوگئے اور افراد کائنات حرکت و سکون کی طرزوں سے واقف ہوگئے تو پھر انسان نائب کی حیثیت سے کیا کام کرتاہے؟ 
حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے فرمایا۔

کائنات مسلسل تخلیق پذیر ہے۔ ہر آن ہر لمحے نئے نئے سیارے بنتے ہیں اور پرانے سیارے ٹوٹتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بندے جو نیابت کے فرائض انجام دیتے ہیں ان امور کی نگہبانی کرتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کائناتی تخلیق میں کوئی نئی چیز تخلیق کرنا چاہتے ہیں تواللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اپنے نائب حضرات کی ڈیوٹی لگادیتے ہیں اور نائب حضرات اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق موجودات کی زندگی کے اسباب و وسائل، شکل و صورت، حرکت و سکون کی طرزیں متعین کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردیتے ہیں۔اس کو Administrationکی زبان میں یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نائبین پالیسی بناتے ہیں اس پالیسی کو اللہ تعالیٰ اگرقبول فرمالیتے ہیں توانتظامی امور چلانے والے دوسرے افراد اس نظام پر عمل در آمد کرتے ہیں۔ تکوینی امور میں نائبین کے ساتھ فرشتے بھی کام کرتے ہیں۔ لیکن فرشتوں کو ذاتی اختیار نہیں ہے۔ 

آدم بحیثیت خلیفۃ اللہ ، اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات کا حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات سے وہ کائنات کی حرکات و سکنات کو ایک ترتیب اور معین مقداروں کے ساتھ قائم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو اپنی نیابت و خلافت سونپی تو نیابت اور خلافت کے فرائض انجام دینے کیلئے کائنات کی ساخت اور کائنات کی حرکات و سکنات اور کائنات کی زندگی سے متعلق تمام اسرار و رموز حضرت آدم ؑ کو سکھادیئے۔اللہ تعالیٰ نے جب اپنے ذہن میں موجود کائنات کو وجود میں لانا چاہا تو فرمایا ’’کن‘‘۔ ’’وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو فرماتا ہے ’’ہوجا‘‘ اور وہ چیز ہوجاتی ہے۔‘‘

(سورۃ یٰسین ۔ آیت82)

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائناتی نظام جس ترتیب کے ساتھ موجود تھا وہ کن فرمانے کے بعد اس ہی طرح وجود میں آگیا۔اس کی تفصیل یہ ہے:

۱۔ ایک کتاب المبین

۲۔ ایک کتاب المبین میں تیس کروڑلوح محفوظ

۳۔ ایک لوح محفوظ میں(80,000) اسّی ہزار حضیرے

۴۔ ایک حضیر ے میں ایک کھرب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور بارہ کھرب غیر مستقل نظام 

۵۔ ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرۂ وسعت (پھیلاؤ) ہوتاہے۔

۶۔ ہر سورج (Star)کے گرد نو ، بارہ، یا تیرہ سیارے گردش کرتے ہیں۔

یہ سوچنا کہ انسانوں کی آبادی صرف ہماری زمین پر ہے یہ قیاس پر مبنی ہے۔ انسانوں اور جنات کی آبادیاں ہر حضیرے پر موجود ہیں۔ ہر آباد ی میں زندگی اسی طرح ہے جس طرح زمین پر زندگی ہے۔بھوک، پیاس، سونا، جاگنا (خواب اور بیداری) محبت، غصہ، حسد، اضطراب، بے چینی، سکون و راحت، افزائش نسل اور زندگی کا ہر تقاضہ ،ہر جذبہ اور زندگی کا ہرطرزِ عمل ہر سیارے پر موجود ہے۔
ایک حضیرے پر ایک کھرب سے زیادہ آباد نظام واقع ہیں۔ ایک آباد نظام کو قائم رکھنے کیلئے غیر مستقل نظام اسٹور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 
غیر مستقل نظام سے مراد یہ ہے کہ پورے نظام بنتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں اور اس ٹوٹ پھوٹ سے مستقل نظام (Feed)ہوتے رہتے ہیں۔ ہر نظام میں الگ الگ سماوات، زمین ،پہاڑ، حیوانات، جمادات، نباتات وغیرہ اس ہی طرح موجود ہیں جس طرح ہم زمین پر دیکھتے ہیں۔ 
’’
آپ کہہ دیجئے کہ دیکھو تو آسمان اور زمین میں کیا کچھ ہے مگر جو لوگ ایمان نہیں رکھتے ان کے لئے نشانیاں کچھ کام نہیں آتیں۔‘‘(سورۃ یونس۔ آیت1 10)

’’اور وہ کہ جب ان کو پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے اور بہرے ہوکر نہیں گرتے (بلکہ غور و فکر سے سنتے ہیں)۔‘‘(سورۃ الفرقان۔ آیت73)

بتایا جاتا ہے کہ حقیقت کی زندگی گزارنے،نیک اعمال کی ترغیب دینے اور عذاب سے بچنے کی تلقین کیلئے دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے ہیں اور پیغمبروں کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کیلئے ان کے وراثت یافتہ علمائے حق، اولیاء اللہ آتے رہے اور آتے رہیں گے۔

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وارث علمائے حق اپنے اپنے ماحول اور ماحول میں رائج زبان کے مطابق وحدانیت کا پرچار کررہے ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو یہ پیغام پہنچایا اور اب بھی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وارث علمائے حق اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں کو سنا رہے ہیں۔ 

’’اللہ تعالیٰ یکتا اور بے نیاز ہے ۔ نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور اس کا کوئی خاندان نہیں۔‘‘(سورۃ الاخلاص)
وحدت اور وحدانیت کی ہر مذہب نے تبلیغ کی ہے۔ علمائے حق صوفی ،ولی ، غوث،قطب اور ابدال اللہ تعالیٰ کے وہ ہاتھ ہیں جن کے ہاتھ میں نور کی مشعل ہے اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔

’’اللہ زمین اور آسمان کا نور ہے۔مثال اس نور کی ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں رکھا ہو چراغ ۔ یہ چراغ ایک فانوس میں ہو اور یہ فانوس ایسا ہو جیسے ایک ستارہ مو تی کی طرح چمکتا ہوا جو روشن کیا جاتا ہو زیتون کے مبارک درخت (کے تیل) سے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے خواہ نہ چھوئے اسے آگ۔ روشنی پر روشنی۔ رہنمائی عطا فرماتا ہے اللہ اپنے نور کی جسے چاہے اور بیان کرتاہے اللہ یہ مثالیں لوگوں کیلئے اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتاہے۔‘‘(سورۃ النور۔آیت35)

ہم جب کائنات کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ کائنات اللہ تعالیٰ کی آواز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ’’کن‘‘ فرمایا تو کائنات وجود میں آگئی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں مخلوق کا دوست ہوں۔اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ہر طرح کے وسائل پیدا کرتے ہیں اور ہمیں زندگی کے نئے نئے مراحل، نئے نئے تجربات سے گزارتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے جسمانی خدوخال کتنے ہی مختلف ہوں جب ہم تفکر کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں تخلیق ایک پروگرام کے مطابق عمل میں آرہی ہے۔ ’’پھر نطفے سے جمے ہوئے خون کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا بنایا گوشت کے ٹکڑے کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایاپھر اس کو نئی صورت میں بنادیااللہ جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔‘‘

(سورۃ المومنون۔ آیت14)

’’وہی تو ہے جس نے تم کو (پہلے) مٹی سے پیداکیا۔پھر نطفہ بنا کر پھر لوتھڑا بناکرپھر تم کو نکالتاہے (کہ تم)بچے ( ہوتے ہو) پھر تم اپنی جوانی کو پہنچتے ہو پھر بوڑھے ہوجاتے ہو اور کوئی تم میں سے پہلے ہی مرجاتا ہے اور تم (موت کے) مقررہ وقت تک پہنچ جاتے ہو اور تاکہ تم سمجھو۔‘‘ ( سورۃ المومن۔ آیت 67)

قرآن کریم اور مقدس کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد انکشاف ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے چاہے ہمارے جسمانی خدوخال کتنے ہی مختلف ہوں۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان