Topics

خطوطِ نبوی علیہ الصلوٰۃوالسلام

’’فتح‘‘ کے لغوی معنی’’کامیابی ‘‘ ہیں اور مبین کے معنی’’روشن اورکھلا ہوا‘‘ہیں۔اللہ تعالیٰ نے مسلما نو ں پر اپنا خا ص لطف و کر م فر ما تے ہو ئے حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے و سیلہ سے۔قیصرخط پڑھ کر خاموش رہا۔ پھر اس نے حکم دیا کہ اسے بیت المقدس کے دربار میں پیش کیا جائے۔ اس موقع پر جب قیصر کی خدمت میں ہر طرف سے مدحت نامے پیش ہو رہے تھے، یہ خط اپنے مضمون کے لحاظ سے انوکھا تھا اور اس کا اندازِ تخاطب بھی رسمی اور مؤدبانہ نہیں تھا۔ اس پر ہرقل کو برافردختہ ہوجانا چاہیئے تھا مگر اس کے برعکس اس کا تحمل اور سکوت معنی خیز تھا۔ اس نے روم میں ایک مسیحی عالم و پیشوا کے پاس قاصد کے ساتھ اس خط کو بھیج کر رائے طلب کی۔ جب وہ بیت المقدس میں تھا تو اسے عالم کا جواب مل گیا تھا، جس میں اس نے مبعوث ہونے والے رسول کی نشانیاں لکھیں تھیں اور یہ بھی بتایا تھا کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں رسول مبعوث ہوگا۔۔۔

بیت المقدس میں جشنِ فتح کے بعد قیصر کے دربار خاص میں جب نامۂ مبارک سنایا گیا تو وہاں قریش کا ایک سردارابو سفیان بھی موجود تھا خط پڑھنے کے بعد قیصر نے ابوسفیان سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے متعلق دریافت کیا اور ابوسفیان کو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی صدق بیانی اور دیانت داری کا اقرار کرنا پڑا۔ اس پر قیصر نے کہا:

’’نبوت کے مدعی کے متعلق تم نے جن باتوں کی تصدیق کی ہے بلاشبہ وہ ایک رسول کی صفات ہیں ۔ ‘‘

قیصر کے دربار کے اس مشہور مکالمے کی تفصیل مسلمان ہونے کے بعد خود حضرت ابوسفیانؓ نے بیان کی ہے۔ تاریخ میں اس کا ذکر موجود ہے۔ اس مکالمے کے بعد ہرقل تذبذب میں مبتلا ہوگیا کیوں کہ تمام آثار و قرائن سے یہی گمان ہوتا تھا کہ محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام ا پنے دعوے میں سچے ہیں اور یہی وہ رسول ہیں جن کی بشارت آسمانی صحیفوں میں دی گئی ہے۔ مورخین کا بیان ہے کہ قیصر نے اس جشن کے موقع پر اعلیٰ سطح کی ایک مذہبی مشاورت بھی منعقد کی تھی، جب سب لوگ جمع ہوگئے تو اس نے دروازے بند کرادیئے اور ان کے سامنے نامۂ مبارک پڑھ کر سنایا۔روم کے اس مذہبی عالم کا خط بھی ان کے سامنے رکھ دیا۔ پھر اس نے ان سے کہا :

’’ اگر یہ نشانیاں مدعی نبوت پر صادق آتی ہیں تو کیاہمیں ان کی رسالت کی تصدیق کرلینی چاہیئے؟‘‘

علمائے کلیسا کے درمیان اس مکالمہ کی وجہ سے،جودربارِ خاص میں ابوسفیان سے ہوا تھا، پہلے ہی چہ میگوئیاں ہورہی تھیں۔ اب جوہرقل نے اس طرح کی بات کی تو وہ سب برافردختہ ہوگئے اور بُڑبُڑاتے ہوئے مجلس سے اٹھ گئے۔ مگر چونکہ دروازے بندتھے اس لئے باہر نہیں جاسکے۔ ہرقل نے جب یہ حال دیکھا تواپنے سوچے سمجھے منصوبہ کے مطابق اس نے فوراً دوسرا رُخ اختیار کرلیا اور کہا:

’’ میں نے یہ بات آپ لوگوں کی آزمائش کے لئے کہی تھی اور اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ حضرات دینِ مسیحی کے لئے کس درجہ غیرت اور حمیت رکھتے ہیں۔‘‘

پھر اس نے عیسائیت کو پیش آنے والے خطرات سے مقابلے کیلئے اپنے عزائم کا اظہار کیا اور جوشیلی تقریر سے سب کو اپنے بارے میں مطمئن کردیا۔ پھر اس نے ان کو اور ان کی عبادت گاہوں کو بیش قیمت تحفے اور نذرانے دے کر رخصت کیااور قیصر نے حضور علیہ الصلوٰ والسلام کے قاصد سے کہا:

’’مجھے اپنی سلطنت کے چھن جانے کاخوف ہے۔‘‘

اورپھر اس نے حضور علیہ الصلوٰ والسلام کوخط میں لکھا کہ

’’میں مسلمان ہوگیا ہوں ۔‘‘

جب حضور علیہ الصلوٰ والسلام نے خط پڑھاتو فرمایا:

’’دشمنِ خدا جھوٹاہے ، وہ مسلمان نہیں ہوا نصرانیت پر قائم ہے ۔‘‘

قیصر نے خط کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰ والسلام کی خدمت میں دینار کانذرانہ بھی بھجوایاتھا۔ حضور علیہ الصلوٰ والسلام نے وہ دینار لوگوں میں تقسیم کرادیئے۔

خسرو پرویز شاہ ایران کے نام 

ایران روم کی طر ح قدیم تر ین شہنشا ہیت کا گہوا رہ تھا ۔ایران وسط ایشیا کا تاریخی اورمشہور ملک ہے ۔ عراق اور عرب کے اکثر علاقے یعنی یمن ، بحرین اورعمان بھی ایران کے زیر اقتدار تھے ۔ روم اور ایر ان کی یہ حکومتیں صدیوں سے چلی آرہی تھیں ۔ایران(فارس) کے شہنشاہ خسرو پرویز کو رومیوں نے۶۲۷ ؁ء میں نینوا پر شکست فاش دی اور اسے دجلہ کے دوسرے کنارے پر دھکیل دیا۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ہجرت مدینہ کو پانچ سال ہو گئے تھے، ہجرت کے چھٹے سال قریش سے صلح حدیبیہ پر معاہدہ ہوگیا تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے سلاطینِ عالم کے نام تبلیغی خطوط تحریر فرمائے۔ ان خطوط میں ایک خط خسرو پرویز شہنشاہِ ایران کے نام بھی تھا۔ یہ خط لے جانے والے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے صحابی حضرت عبداللہؓ بن حذافہ سہمی تھے۔ وہ اس نامۂ مبارک کو لے کر شہنشاہِ کسریٰ کے دربار میں حاضر ہوئے۔

خسرو ان دنوں سخت پریشان تھا۔ اس کے غم و غصہ کا شکا ر امرائے دربار اور سردارانِ فوج بنے ہوئے تھے، کیوں کہ وہ سمجھتا تھا کہ انہی امیروں اور سرداروں کی غفلت، بزدلی اور غداری کی بدولت اسے ہرقل روم کے مقابلے میں شکست ہوئی ہے۔ اب وہ ان کو قرار واقعی سزا دینا چاہتا تھا۔ اس وقت پورے ایرا ن میں خوف ودہشت کی فضا تھی۔ آئے دن کسی نہ کسی امیر کے قید ہونے، کسی وزیر کے پھانسی پر چڑھنے اورکسی سالارِ لشکر کے فرارہونے کی خبریں پھیل رہی تھیں۔ بادشاہ شدید غصے میں تھا اور شکست خوردہ قوم خوف ومایوسی کے عالم میں دم بخود تھی۔ 

اس پس منظر میں ایک اجنبی شخص سادہ لباس پہنے ہوئے محل میں داخل ہونے کیلئے اصرار کررہا تھا۔ محل کے چوکیداروں نے اسے محل کے اندر داخل نہیں ہونے دیا مگر ایک دن جب خسرواپنے مشیروں سے عرب قبائل کے رویے کے متعلق گفتگو کررہاتھا ،ایک امیر نے موقع پاکر اسے اطلاع دی کہایک شخص بارگاہِ سلطانی پر کئی دنوں سے حاضری دے رہاہے اور خودکو مدینہ کاسفیر بتاتا ہے ۔ خسرونے اسی وقت اس شخص کو حاضر کرنے کا حکم دیا اورقاصدِ رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام حضرت عبداللہؓ بن حذافہ حاضر ہوگئے۔

اہلِ دربار نے جب ا س کملی پوش کوبے خوفی اورشانِ استغنا سے آتے دیکھا تو حیران رہ گئے کہ یہ کیسا نڈر آدمی ہے۔جس بارگاہ میں بڑے بڑے بادشاہ بھی سربسجود داخل ہوتے ہیں، وہ اس طرح چلا آرہا ہے جیسے یہ دربارِ شاہی نہیں بلکہ کارواں ہے ۔ چوب داروں نے اسے سجدہ کرنے کیلئے کہا۔ مگر اس نے انکارکردیا اورکہا:

’’ہم اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔‘‘ 

یہ سن کر خسرو غصہ میں لال ہوگیااور بولا:

’’ اس وحشی کی یہ مجال کہ شہنشاہ فارس کی توہین کرے ۔‘‘

دربار میں موجود لوگ خسرو کے جلال اور غصہ سے کانپنے لگے۔ مگر نو وارد پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس نے اپنی آستین میں سے خط نکال کر اسی بے خوفی کے ساتھ خسرو کے آگے بڑھادیا۔ حاجب خط لے کر بادشاہ کے سامنے ادب کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ اس نے خط پڑھ کر بلند آواز میں سنایا:

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

’’ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسریٰ شاہ فارس کے نام ۔

سلامتی اس شخص کیلئے جو ہدایت کی پیروی کرے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لائے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ یکتا ہے ۔لاشریک ہے۔ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندہ اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام دنیا کے لئے رسول بنا کربھیجا ہے تاکہ ہر زندہ انسان کو آگاہ کردوں اور اللہ کاخوف دلاؤں۔ تم بھی اسلام قبول کرلو اور سلامتی کوپالو۔ اگر تم نے انکار کیا تو تمام مجوسی قوم (کی گمراہی)کا وبال بھی تمہارے سر پر ہوگا۔‘‘

خسرو پرویز نے نامۂ مبارک کا مضمون جب سنا مشتعل ہوگیا۔ القاب و خطاب اس طرح کے تھے جیسے کوئی مقتدر حاکم اپنے ماتحت سے مخاطب ہو۔ عربوں کے بارے میں بادشاہ کا تصور تھا کہ ایک طفیلی قوم ہے جو لو ٹ مارکرتی ہے۔

شہنشاہ نے تقریباً چیختے ہوئے کہا:

’’اُس کی کیامجال کہ اس نے اپنانام مجھ سے پہلے لکھا؟‘‘

پھر وہ اس سفیر کی طرف متوجہ ہو ا اورنہایت برہمی سے پوچھا :

’’تم نے ہماری بارگاہ میں سجدہ کیوں نہیں کیا؟‘‘

حضرت عبداللہؓ بن حذافہ نے بڑے تحمل اوروقار کے ساتھ اللہ کی توحید پرایک مختصرسی تقریر کی اوربتایا:

’’ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کے سواکسی کے آگے نہیں جھکتے۔رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے۔‘‘

خسرونے بگڑکر کہا:

’’اگرتم سفیر نہ ہوتے تو میں تمہارے قتل کا حکم دے دیتا۔‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے نامۂ مبارک کو چاک کردیا اورحکم دیا :

’’ اس قاصدکو دریا کے پار دھکیل دو۔ دوبارہ ہماری سرحد میں داخل نہ ہو۔‘‘

جب عبداللہؓ بن حذافہ مدینہ پہنچے توساری رودادسنائی اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہ بتایا کہ کسریٰ نے نامۂ مبارک کے پُرزے کرکے ہوا میں اُڑا دیا۔

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:

’’عنقریب اس کی حکومت بھی اسی طرح ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گی۔‘‘

کسریٰ کے حکم پر کچھ فوجی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو گرفتار کرنے کے لیے مدینہ آئے۔

چند ہی دنوں میں عرب، یمن، شام، ہر جگہ لوگوں نے یہ خبر سنی کہ فارس میں بغاوت ہوگئی ہے۔ باغیوں نے خسروپرویز کو قتل کردیا اوراس کے بیٹے شیرویہ کو تخت نشین کردیا ۔

مقوقس مصر کے نام

بر اعظم افریقہ کے شمال میں و ا قع ملک مِصر تا ریخ عا لم کی ابتداسے ہی تہذیب و تمدّن اور سیا سی عظمت کا حامل ہے ۔ مصر کے حکمران فر عون تاریخی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مِصر پر حکمرانی کر نے وا لے حا کموں کو فر عون کے لقب سے یا د کیا جا تا تھا ۔ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی بعثتِ مبارک کے وقت مِصر میں دوقومیں یعنی قبطی اور با زنطینی( رومی) آباد تھے ۔قطبی قوم مِصر کے اصل با شندےتھے جن کا ذِکر ہمیں حضرت مو سیٰ علیہ السّلام کے واقعات میں بھی ملتا ہے اور یہ رومی (باز نطینی ) وہ قوم تھی جس نے قوت با زو سے اہل مصر یعنی قبطیوں پر قا بوپا نے کے بعد مِصر کو اپنی نو آبادی بنایا ہو ا تھا۔مقوقس با زنطینی حکو مت کی طر ف سے مصرمیں بطور نا ئب السّلطنت مقر ر تھا ۔ یہ شخص نہا یت ہی دوراندیش ، عا قل اور بہت بڑا عا لم تھا ۔

ہجرت کے ساتویں سال مدینے کے قاصد حاطبؓ بن ابی بلتعہ قدیم مصر کے قلعہ بابلیون میں داخل ہوئے اورانہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا نامۂ مبارک، مقوقس کے نام پیش کیا ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

’’ محمدرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم القبط مقوقس مصر کے نام سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں اگر تم نے اسے قبول کرلیا تو تم سلامت رہوگے اور اللہ تعالیٰ اس کا دگنا اجر عطا فرمائیں گے۔ اور اگر انکار کیا تو اہلِ قبط کے گناہ کا وبال تمہارے سر ہوگا۔ اے اہلِ کتاب !اس بات کی طرف آجاؤ جو ہم دونوں کیلئے یکساں تسلیم شدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سواکسی اور کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کو ئی انسان کسی دوسرے انسان سے ایسا برتاؤ کرے گویا اللہ کو چھوڑ کر اسے اپنا رب بنا لیاہے۔ پھر اگر وہ روگردانی کرے تو آگاہ کیا جاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ماننے والے ہیں (اور اسکی یکتائی کا عقیدہ رکھتے ہیں)۔‘‘

حاکم مصرمقوقس نے جب یہ خط سنا تووہ بہت دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔ پھر اس نے قاصد سے کہا کہ جواب کے لئے انتظارکرے اوربابلیون میں   مہمان بن کررہے ۔خط کے مضمون نے بن یامن کے دل میں ہلچل مچا دی۔ یہ بہت پاکیزہ اور سیدھی بات تھی ۔مقوقس گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔اس نے سوچا ’’کیا واقعی محمد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ مگر یروشلم کے بجائے مکے میں کیسے پیدا ہوگئے؟‘‘رات ہوئی تواس نے قاصد کو رازدارانہ طور پر اپنے پاس بلایااورتخلیہ میں اس سے کہا :

’’مجھے اس شخص کے متعلق بتاؤجس نے میرے پاس خط بھیجا ہے۔ ان کی شکل و صورت کیسی ہے؟ حسب نسب میں،گفتگو میں چلنے پھرنے میں محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام کیسے ہیں؟وہ کیا دعوت دیتے ہیں؟ ان کے قبیلے اور انکے درمیان کیا معاملہ پیش آیا؟‘‘ 

خوش گفتار قاصد نے، جو مصرکی زبان بڑی روانی سے بول رہا تھا، وہ سب کچھ بتادیا جو مدینہ اور مکہ میں پیش آیا تھا۔ حراکی خلوت ، نزولِ وحی،صفاکاوعظ،قریش کی مخالفت ،مکہ سے جلاوطنی اور ہجرت، پھر بدر واحد اور خندق کے معرکے اور توحید، آخرت ، اخوت و مساوات کی وہ انقلاب انگیز دعوت،جس نے فکر ونظر کے زاویے بدل دیئے اور دلوں کی دنیا بدل دی۔ یہ سن کر حاکم مصر نے کہا!

’’میں جانتا تھا کہ خداوند کے آخری پیغمبر کو ابھی آنا ہے مگر خیال تھا کہ وہ شام میں ظہور کرے گا۔ کیونکہ اس سے پہلے تمام پیغمبر وہیں مبعوث ہوئے۔ مگر وہ رسول سرزمین عرب میں ظاہر ہوا ہے۔‘‘

وہ کچھ دیر تک سرجھکائے سوچتا رہا،پھربولا:

’’مگراے نووارد مہمان! میری قوم کے لوگ میرا ساتھ نہیں دیں گے۔ اے ابن ابی بلتعہ! میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ حضرت محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام کا غلبہ اس ملک پر ہوجائیگا۔‘‘

اس گفتگو کے بعدجب حضرت حاطبؓ رخصت ہوئے اور قصر بابلیون کے زینے سے اترے تو بن یامن نے اپنا ہاتھ حضرت حاطبؓ کے کندھے پر رکھا اور دھیمے لہجے میں کہا:

’’میں قبطیوں سے اس معاملے میں ایک حرف بھی نہیں کہوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ میری اور تمہاری گفتگو کا انہیں علم ہو۔ ہاں، جب تم اپنے ملک جاؤ تو محمد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہ ضرور بتادینا جو میں نے تم سے کہاہے۔‘‘

حاکم مصرمقوقس کا جواب

دوسرے دن بابلیون کے دربار میں رات والابن یامن نہیں بلکہ د ن والا عظیم القبط مقوقسِ مصر مدینہ سے آئے ہوئے خط کاجواب عربی ترجمان سے لکھوارہاتھا۔

’’عبداللہ کے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام عظیم القبط مقوقس کاسلام ،

میں نے آپ کاخط پڑھا اورجوکچھ آپ نے اس میں تحریر فرمایاہے اورجس بات کی طرف دعوت دی ہے اسے سمجھا۔میں جانتاتھا کہ ایک پیغمبر کوابھی آنا ہے،مگرمیراخیال تھا کہ وہ شام میں ظہور کرے گا۔میں نے آپ کے قاصد کااحترام کیا ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پرسلام ہو۔‘‘

جہاں تک بن یامن کے خط کا معاملہ ہے، تووہ ایک محتاط مدبرکاجواب تھا۔ کیونکہ اس میں نہ تو رسالت کا انکار ہے نہ اقرار۔تاہم قاصد کا احترام اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کے دل میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی قدر و منزلت تھی ۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بن یامن کو لکھا تھا کہ اگر تم نے اسلام کی دعوت قبول کرلی تو تم سلامت رہو گے۔ بن یامن نے چونکہ رسالت کا اقرار نہیں کیاتھا ،اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پانچ سال بھی نہیں گزرے تھے کہ رومیوں نے فوج کشی کرکے بابلیون پر قبضہ کرلیااوربن یامن وہاں سے فرارہوکر نیل کے بالائی حصہ کی طرف صحرا میں گم ہو گیا۔

گورنر یمن باذان کے نام 

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایران کے کسریٰ خسرو پرویز کے نام جب خط بھیجاتواس نے بے ادبی سے چاک کردیااورمدینے کے سفیرکو دربار سے نکلوادیا۔گورنر باذان اس زمانہ میں بڑاپریشان تھا کیونکہ چند ماہ پہلے قیصر روم نے نینوا کے مقام پر کسریٰ خسرو پرویزکو شکست فاش دی تھی ۔ایران کی اس شکست کی خبر جب یمن پہنچی تو وہاں کے قبائل جوایرانیوں کے تسلط سے بیزار ہوچکے تھے اپنے حکمرانوں کی مخالفت پرکمر بستہ ہوگئے اور دوسری جانب نجران کی عیسائی ریاست جوقیصر روم کی طرف دار تھی یمن کے قبائل کوگورنر باذان کے خلاف برابراکسارہی تھی ۔ اور پھر حبشہ کی حکومت تھی جس کا حکمران نجاشی مسلمان ہوگیا تھا۔ رومیوں کی بڑھتی ہوئی فتوحات سے بھی اندیشہ تھاکہ کہیں ادھر کا رخ نہ ہوجائے۔ ادھر ایران سے کسی قسم کی مددکی توقع نہیں تھی ،کیونکہ خسروکے خلاف پورے ایران میں غم وغصہ پھیلا ہوا تھا اور درباری سازشوں نے خسروکوسخت پریشان کررکھاتھا۔

اس وقت حاکم باذان بے یار و مددگار تھا۔یمن میں بغاوت کاآتش فشاں جو اندر ہی اندر کھول رہا تھا۔کسی وقت بھی پھٹ سکتاتھا۔ان حالات میں خسرو کاحکم نامہ باذان کو ملا جس میں تحریر تھا کہ’’ ایک عرب نے جو کہ نبوت کا مدعی ہے ہمارے پاس ایک خط بھیجا ہے جس میں ہماری سخت توہین کی گئی ہے اس شخص کو فوراً گرفتار کر کے ہمارے دربار میں حاضر کر و۔‘‘ حاکم باذان ذاتی طورپرخسروکی اس کاروائی کو دوراندیشی اور مصلحت کے خلاف سمجھتاتھا۔کیونکہ رومیوں کے مقابلے میں عربوں میں اپنی دوستی بڑھانے کے بجائے ان کو دشمن بنا لینا عقلمندی نہیں تھی۔دوسری طرف حبشہ سے تعلقات مزید خراب نہ ہونے کیلئے بھی ضروری تھاکہ اسلام کے بارے میں بظاہر ہمدردانہ رویہ اختیار کیاجائے ۔

باذان نے یہ سب کچھ سوچا۔۔۔ مگروہ شہنشاہِ ایران کانائب تھااورایرانی فوج کے افسروں کے ہوتے ہوئے اس کے حکم کی سرتابی نہیں کر سکتا تھا ۔ناچار اس نے اپنے ایک درباری بابویہ اورایک فوجی سردار خرخسرو کومدینے کی طرف بھیج دیا۔سردیوں کا موسم تھا۔ دونوں سردار ایک مختصر سی جمعیت کے ساتھ مدینے میں داخل ہوئے۔ وہ طائف کے راستے سے آئے تھے۔ سردارانِ طائف اورقریش مکہ کو جب یہ اطلاع ملی یہ شہنشاہِ ایران کے فرستادہ ہیں اور محمد علیہ الصلوٰۃوالسلام کو گرفتار کرنے آئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے ایرانیوں کی خوب آؤ بھگت کی۔ ان کو پہلی بار حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام، مسلمانوں اور انکے دین سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل ہوئیں اور وہ واقعات بھی معلوم ہوئے جو بعثت سے صلح حدیبیہ تک پیش آئے تھے۔ اگرچہ ان کو یہ سب کچھ اسلام کے مخالفین سے معلوم ہوا تھا، تاہم ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ جس شخص کو ہم گرفتار کرنے آئے ہیں، وہ غیر معمولی شخصیت ہے۔ وہ سوچ میں پڑگئے چھوٹی سی جمعیت کے ساتھ وہ کس طرح کسریٰ کے حکم کی تعمیل کریں گے ؟

مدینہ پہنچنے کے بعد جب انہوں نے لوگوں کے رہن سہن اور عقیدے کو دیکھا تو انہیں پہلی بار اندازہ ہو اکہ جو کام ان کے سپرد کیا گیا ہے، اس کو انجام دینے کی وہ قدرت نہیں رکھتے۔ چنانچہ انہوں نے گرفتار کرکے لے جانے کا خیال قطعاً ترک کردیا اور صرف شہنشاہِ ایران کا پیغام پہنچانے پر قناعت کی اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حضور عرض کیا:

’’ہمارے بادشاہ نے آپ کی گرفتاری کا حکم دیاہے اورحاکم باذان نے ہم کو اس کام پر مامور کیا ہے لہٰذا مناسب ہے آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ اسی میں آپ کی اور آپ کی قوم کی بھلائی ہے۔ اگر آپ انکار کریں گے تو یہ آپ کے حق میں بُرا ہوگا۔

آپ کی قوم تباہ کردی جائے گی اور آپ کاملک لوٹ لیاجائے گا۔‘‘

یہ پیغام انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو ڈرتے ڈرتے سنایا۔ ان کا خیال تھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام مشتعل ہوجائیں گے اور کوئی سخت جواب دے کر ہمیں رخصت کردیں گے۔ وہ دل سے چاہتے تھے کہ معاملہ رفع دفع ہو جائے اوروہ صحیح سلامت یمن لوٹ جائیں ۔

مگر وہ حیران ہوگئے جب انہوں نے دیکھاکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے چہرے پر اس پیغام کا کوئی ردعمل نہیں ہوا۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے قاصدوں کو بے قراری کے عالم میں پہلو بدلتے دیکھا توصحابہؓ کو ان کے قیام وطعام اور مہمانداری کے لئے ہدایات دیں اور جواب کے لئے اگلا دن مقرر فرمایا۔

دوسرے دن جب بابویہ اور خسروبارگاہِ رسالت میں پہنچے تو ان کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان کو ایک ایسی اطلاع دی جس کو سن کر وہ خوف زدہ ہو گئے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:

’’ کسریٰ کو کل رات قتل کردیاگیاہے۔‘‘

دونوں کچھ دیر تک بدحواس رہے ،پھر اس گمان میں کہ ان کامذاق اڑایا جارہا ہے ، انہوں نے کہا:

’’اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا اور ہمارا شہنشاہ تم کو اور تمہاری قوم کو تباہ کردے گا اور اس سرزمین کی خاک کابھی پتہ نہیں چلے گا۔‘‘حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے چہرۂ مبارک کو دیکھا مگر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا چہرہ مبارک پر سکون اور مطمئن تھا۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اسی شانِ بے نیازی سے فرمایا:

’’تم اس فکر میں نہیں پڑو اور جاؤ حاکم باذان کو اس واقعے سے مطلع کردو اور میری طرف سے اس سے کہہ دوکہ میری حکومت اور میرا دین تمام عالم میں پھیلنے والاہے۔اگرحاکم باذان اسلام لے آئے تومیں اسکو اسی زمین پر جس پر وہ حاکم ہے، میں بحال رکھوں گا اور وہ قوم کا سردار رہے گا۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان