Topics

اللہ تعالیٰ کا ہاتھ

’’اے نبی !جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ تعالیٰ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تھا۔‘‘(سورۃ الفتح۔آیت10)

۶ھ ؁ کا سب سے اہم واقعہ صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان ہے ۔اس سال حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام عمرے کی نیت سے اپنے دو ہزار ساتھیوں کے ہمراہ مکہ تشریف فرما ہوئے حدیبیہ کے مقام پرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے قیام فرما یا ۔اہل مکہ نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی اور مذاکرات کیلئے وقتاًفوقتاً اپنے قاصد روانہ کئے ۔

مسلمانوں کے سفیر

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمان ؓ کو قاصد بناکر مکہ بھیجا۔ حضرت عثمانؓنے جب قریش سے ملاقات کی تو اہل مکہ نے کہا :

’’آپ ہمارے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کعبہ کا طوا ف کریں اور عمرہ ادا کریں لیکن محمد( علیہ الصلوٰۃوالسلام )کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ خانہ کعبہ میں داخل ہوں۔‘‘

کور چشم قریش کی ضد اور ہٹ دھرمی سے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ حضرت عثمانؓ کی واپسی میں دیر ہوگئی اس دوران مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی حضرت عثمانؓ کو شہید کردیاگیاہے۔

بیعت الرضوان 

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ عثما نؓکے خون کا بدلہ لینافرض ہے۔ جو شخص اس میں شریک ہونا چاہتا ہے وہ میرے ہاتھ پر بیعت کرے کہ آخری دم تک وفادار ر ہے گا۔ تمام صحابہ کرامؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے اپنے دائیں ہاتھ کو حضرت عثمان ؓ کا ہاتھ فرمایا اور اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حضرت عثمان ؓ کی طرف سے بھی بیعت کی ۔

’’اے نبی !جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ تعالیٰ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تھا۔ اب جو اس عہد کو توڑے گا اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہوگااور جو اس عہد کو وفا کرے گا۔جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے ،اللہ تعالیٰ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا۔‘‘(سورۃالفتح۔آیت10)

’’اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔‘‘

(سورۃ ۔الفتح آیت 18)

’’خرید لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال اور اسکے بدلے ہی انکے لئے جنت ہے۔‘‘(سورۃ التوبہ۔آیت111)
بیعت ایک اصطلاح ہے۔بیعت کے معنی ’’خود کو بیچ دینے یا فروخت کردینا‘‘ہیں ۔بیعت دراصل ایک روحانی شاگردی ہے۔روحانی علوم کو سیکھنے کے لئے جب آپ کسی روحانی استاد کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر استاد کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرنے کا عہد کیا جاتا ہے تو یہ بیعت کہلاتی ہے ۔

’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو،اللہ سے ڈرو اور اس کی جناب میں باریابی کا وسیلہ تلاش کرو۔‘‘(سورۃالمائدہ۔آیت35)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں :

’’اگر نیک عمل وسیلہ ہے تو شیخ طریقت بھی مرید کیلئے نیک اعمال کرانے کا یا صراطِ مستقیم پر چلانے کا اور عرفان ذات کے بعد عرفان الٰہی حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔ ‘‘

حضرت بایزید بسطامیؒ ،حضرت جنید بغدادی ؒ ،حضرت معین الدین چشتی ؒ ، حضرت نظام الدین ؒ ، اور تمام اولیاء کرا م،قادریہ ،چشتیہ،سہروردیہ اور نقشبندیہ سلاسل اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ مولانا رومؒ ،حضرت فرید الدین عطارؒ ،علامہ اقبالؒ اور حضور قلندر بابا اولیاء ؒ لفظ وسیلہ سے مراد ’’شیخ‘‘ بتاتے ہیں۔

قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت میں نہ تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔ اس قانون کے تحت ازل سے ابد تک اللہ تعالیٰ کی سنت کا جاری رہنا ضروری ہے۔ چوں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پیغمبری ختم ہوچکی ہے، اس لئے فیضانِ نبوت کو جاری و ساری رکھنے کیلئے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث اولیاء اللہ کا ایک سلسلہ قائم ہوا جن کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’
اللہ کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنا زندگی سے مانوس ہوتے ہیں۔ ‘‘

(سورۃ یونس۔ آیت 62)

بنیادی طور پر دو طرح کے علوم ہیں علم ظاہر اور علم باطن یا علم شریعت اور علم طریقت۔انہیں علم حصولی اور علم حضوری بھی کہا جاسکتا ہے ۔ان دونوں علوم میں قدر مشترک یہ ہے کہ علم ظاہر ہو یا علم باطن دونوں کے لئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس طرح دنیاوی علوم کا استاد شاگرد کو اپنا علم منتقل کرتا ہے اسی طرح روحانی استاد اپنے شاگرد کو ،دین کی حقیقتوں کو پہچاننے کا طرز ،ادراک اور تعلیمات منتقل کرتا ہے ۔جس طرح ظاہری یا مادی علوم مثلاًمیڈیکل سائنس ،وکالت،انجینئرنگ اور اس جیسے دوسرے بے شمار علوم سیکھنے کے لئے استاد کی رہنمائی ضروری ہے اسی طرح روحانی علوم کی تفہیم کے لئے بھی استاد کا ہونا ضروری تسلیم کیا جاتا ہے۔

سچا روحانی استاد اپنے شاگرد کے اندر اللہ تعالیٰ سے ربط اور تعلق کے ذوق اور صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کی اس طرح ذہن سازی کرتا ہے کہ اسکا ذہن زندگی کے مختلف معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہٹے اور اس کے اندر یہ طرز فکر مستحکم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر حرکت ،ہر سانس اور سوچ کا مالک ہے ۔

روحانی استاد کو تصوف میں مرشد یا پیر کہا جاتا ہے ۔روحانی علوم کے حصول اور اللہ تعالیٰ کے عرفان کے لئے متعین کردہ راستہ اور روحانی (syllabus) کو سلسلہۂطریقت کہا جاتا ہے ۔کسی بھی علم کے حصول کے لئے رہنمائی ضروری ہے ۔پیغمبران علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کے لئے وحی اور ہدایت کے شارح اور ترجمان اور رہنمائی کا مرکز تھے۔اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کا نزول نبی آخری الزماں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے قلب اطہر پر ہوا ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نہ صرف امت مسلمہ کیلئے بلکہ پوری نوع انسانی کے لئے معلم،ہادی اورہنما ہیں۔

صحابہ کرامؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی صحبت میں رہ کر اپنے نفوس کا تزکیہ کیا ۔آئندہ کیلئے بھی ضروری تھا کہ ہر زمانہ میں ایسے خاصانِ خدا پیدا ہوتے رہیں جوحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے طرز عمل اور طرز فکر کا مقدس فریضہ انجام دیں اوراللہ تعالیٰ سے قربت کا راستہ بتائیں۔یہ سلسلہ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے علوم کے وارث علمائے حق نے جاری رکھا ۔ان میں علمائے شریعت اور علمائے طریقت دونوں شامل ہیں۔علم شریعت اورعلم طریقت کا اصل اصول یہ ہے کہ روح(انسان کی اصل)نور اور روشنیوں سے بنی ہوئی ہے جب تک روشنیوں کا انسان مادی جسم کو اپنا معمول بنائے رکھتا ہے انسان زندہ رہتا ہے اور جب روشنیوں کا انسان مادی عناصر سے بنے ہوئے جسم کو چھوڑ دیتا ہے تو آدمی مرجاتا ہے۔

شاگردیا مرید ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ شیخ کی زندگی کے احوال واعمال سے وہ مطمئن ہو اگر شاگرد اورشیخ میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو توشاگرد کرنا یاشاگرد ہونا دونوں باتیں عقل و شعور کے خلاف ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک شیخ اورشاگرد دونوں کے مزاج ، عادات وخصائل ، نشست برخاست ،وضع داری اور طریقت و شریعت میں پوری طرح مطابقت نہیں ہوگی بیعت کا فائدہ نہیں ہوگا۔مرشد کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن فہم ہو اور شریعت کا پا بند ہو۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان