Topics

تعلیم کتاب

قرآن پاک میں مختلف مقامات پر قرآن کی تلاوت کے ساتھ تعلیم کتاب کا ذکر ہے۔

’’میں نے تمہیں کتاب اور حکمت اور تورات اورانجیل کی تعلیم دی۔‘‘

(سورۃ المائدہ۔آیت 110)

’’یادکرو ، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمھیں کتاب اور حکمت سے نوازا ہے ۔‘‘ (سورۃ آل عمران ۔آیت 81)
’’
اللہ تعالیٰ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایاہے جو تمھیں معلوم نہ تھا ۔‘‘(سورۃ النساء۔آیت 113)
’’
وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اس نے تم پر نازل کی ہے اس کا احترام اور خیال رکھو۔‘‘(سورۃ البقرہ ۔آیت 231)
’’
ہم نے تو ابراہیم ؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی ۔‘‘ (سورۃ النساء ۔آیت 54)

غور طلب بات یہ ہے کہ تلاوت آیا ت کے بعدتعلیم کتاب وہ کونسی تعلیم ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے فرائض منصب کا حصہ ہے؟

علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں:

’’کتاب کی تعلیم کے معنی تلاوت کی طرح کتاب کے الفاظ سنا دینا اورپڑھادینا یا دوسروں کو یاد کرادینا نہیں بلکہ الفاظِ قرآنی کی تلاوت کے بعد جو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا پہلا کام تھا، اس کے معنی مطالب کو حل کرنے اور اپنے قول و عمل سے ان کی تشریح، تفسیر اوراسرار و رموز سکھانے کا نام تعلیم کتاب ہے ۔‘‘ 

تعلیم کتاب کا مفہوم

’’آدم کی نافرمانی اسے جنت سے دنیا میں لے آئی یعنی جنت کی سرزمین نے آدم کو اس کی کمزوریوں کے ساتھ قبول کرنے سے انکار کردیا آدم کا اصل مقام جنت ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا میں بھیجنے سے پہلے رکھا تھا۔ دنیا میں آنے کے بعد دوبارہ جنت میں جانے کے لئے ضروری ہے کہ آدم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لے اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے علوم کا جاننا ضروری ہے اور اسمائے الہیہ کے ان علوم سے واقف ہونا ضروری ہے جن کی بنیاد پر آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا ہے یہ علوم تعلیم کتاب یا علم لدنی کہلاتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں حضرت سلیمان ؑ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں:

حضرت سلیمان علیہ السلام نے درباریوں سے کہا

’’میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے پہنچنے سے پہلے اس کا تختِ شاہی دربار میں آجائے۔‘‘ (سورۃ النمل۔آیت38)

عفریت نے کہا جو قومِ جنات میں سے تھا :

’’اس سے پہلے کے آپ دربار برخاست کریں میں یہ تخت لا سکتا ہوں ۔‘‘

(سورۃ النمل۔آیت39)

جن کا دعویٰ سن کر ایک انسان نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا :

’’اس سے پہلے آپ کی پلک جھپکے تخت دربار میں موجود ہو گا ۔‘‘(سورۃ النمل۔آیت40)

حضر ت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا تو ملکہ سبا کا تخت دربار میں موجود تھا۔ حالانکہ یمن سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً پندرہ سو میل ہے ۔
اس قصہ میں یہ حکمت بیان ہوئی ہے کہ جو انسان کتاب کا علم جانتا ہے زمان ومکان (Time & Space)اسکے تابع فرمان ہوجاتے ہیں اور اسکی روشن مثال یہ ہے کہ دربار میں موجود ایک انسان پلک جھپکتے ملکہ سبا کا تخت دربار میں لے آیا۔اللہ تعالیٰ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قرآن پاک میں تمام علوم موجود ہیں جن سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں اور اس میں نبی ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے بلکہ ہر بندہ کے اند ریہ صلاحیت موجودہے ۔اب اس صلاحیت کو اگر کوئی بندہ ٹھکرادے اور یہ سمجھے کہ میری کیا حقیقت ہے؟ کہ میں اس علم کو سمجھ سکوں، یہ سوچ اسلئے غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق نے حضرت سلیمان ؑ کے قصے میں بندہ کا تذکرہ کر کے انسان کے لئے یہ علوم عام کردئیے ہیں بشرط یہ ہے کہ وہ تفکر سے کام لے ۔

قرآن حکیم میں دوسرا واقعہ حضرت مو سیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کا بیان ہواہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’موسیٰ ؑ نے کہا اس کی تو ہمیں تلاش تھی۔چنانچہ وہ دونوں اپنے نقوشِ قدم پر واپس ہوئے اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازاتھا اور اپنی طرف سے علم لدنی عطا کیا تھا ۔ موسٰی ؑ نے اس سے کہا ’’ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے۔‘‘

(سورۃ الکھف ۔آیت 64تا 66)

حضرت داود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی نسبت قرآن حکیم میں ارشاد ہے 

’’اور بلاشبہ ہم نے داؤ د اور سلیمان کو علم عطا کیا اور انہوں نے کہا کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضلیت عطا کی۔‘‘

(سورۃنمل۔آیت15) 
حضرت یوسف ؑ نے خواب کی تعبیر بیان کرنے سے قبل فرمایا :

’’یہ ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کئے ہیں۔‘‘

(سورۃ یوسف ۔آیت 37)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بحیثیت نائب خصوصی علم کتاب عطا کیا ہے اور یہی انبیاء کا ورثہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر دین کی تکمیل فرمائی اور اپنی تمام نعمتیں عطاکیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اللہ تعالیٰ کی نیابت اور خلافت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہیں۔ بحر و بر ، شجر و حجر ، سماوات اور زمین کے حاکم ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی نیابت کے تحت تمام اختیارات حاصل ہیں ۔سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ورثہ اللہ تعالیٰ کے وہ علوم ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ’’علم الاسماء‘‘ اور ’’علم کتاب‘‘ یعنی علم لدنی کے عنوان سے بیان فرمایا ہے۔

اسلام کا پہلا دور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اور صحابہ کرامؓ کا دور ہے ۔صحابہ کرامؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تربیت یافتہ تھے۔انھیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نسبت سے خصوصی علوم منتقل ہوئے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا:

’’تم پر ابو بکر کو فضیلت اس علم کی وجہ سے ہے جواس کے سینے میں ہے۔ ‘‘

حضرت علیؓ کے بارے میں ارشاد ہے :

’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔‘‘(جامع ترمذی ،جلد دوم۔حدیث165)

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں :

مجھے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے دو علوم ملے ۔ایک وہ ہیں جو میں نے ظاہر کر دیئے ہیں اور دوسرے علوم وہ ہیں جن کو میں ظاہر کردوں تو تم میری گردن اڑادو گے۔(صحیح بخاری ،جلد اول۔حدیث121)

بلاشبہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ان تربیت یافتہ حضرات کے سینے علوم سے لبریز تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے صحابہؓ کی ایک خاص جماعت اصحاب صفہ ہے۔ انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے عشق و محبت میں دنیا کی ہر شے کی نفی کردی تھی۔ ان لوگوں کے لئے مسجد نبوی ؐ میں ایک چبوترہ بنادیا گیا تھا ۔ یہ محترم حضرات حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سرپرستی میں عبادت و ریاضت اور مجاہدہ نفس میں مصروف رہتے تھے ۔علوم کا حصول ہی ان کی توجہ کا مرکز تھا ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام انہیں پسند فرماتے تھے اور ان کے ساتھ نشست و برخاست فرماتے تھے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے اور لوگوں کو اصحاب صفہ کا خیال رکھنے کی ہدایت فرماتے تھے ۔
اصحاب صفہ نے علوم پھیلانے کے لئے مینارہ نور کا کردار ادا کیا ۔ جس کی روشنی میں لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا آسان ہوگیا۔صحابہؓ کے بعد یہ علوم تابعین نے حاصل کئے اور تابعین کے بعد جن لوگوں نے علوم حاصل کرنے کی جدو جہد کی اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے راستے کھول دیئے۔

’’اور جن لوگوں نے محنتیں کیں ہماری راہ میں ہم ان کو ضرور دکھائیں گے اپنے راستے اور بے شک اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کے ساتھ ہیں۔‘‘(سورۃ العنکبوت۔ آیت69)

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان