Topics

صلح حدیبیہ

مشرکین کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمان مکہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ میں آباد ہوگئے تھے۔ مگر کفار نے انہیں یہاں بھی آرام کا سانس نہیں لینے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس ناروا سلوک کی مذمت کی ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

’’اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کوکیوں عذاب نہ دیں۔ حالانکہ انہوں نے اہل ایمان کو مسجد الحرام میںآنے سے روک دیا۔‘‘(سورۃ الانفال۔ آیت 34)

ایک رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواب دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام صحابہ کرامؓ کے ساتھ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ہیں اور عمرہ ادا کیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام ؓ کو خواب سنایا اور عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ جانے کا ارادہ فرمایا۔ 
مکہ جانے کی خبر سن کر مسلمان بہت خوش ہوئے ۔ مکہ مہاجرین کا آبائی اور محبوب وطن تھا مدت سے وہ لوگ مکہ نہیں گئے تھے مہاجرین کو اکثر مکہ کی یاد آتی تھی انہیں زیارت کعبہ کی بھی بڑی خواہش تھی۔ مدینہ کے مسلمان بھی بے چینی سے اس وقت کے منتظر تھے جب انھیں بھی اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت نصیب ہو۔ 

عمرے کے لئے روانگی

ہجرت کے چھٹے سال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دو ہزار ساتھیوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے۔ اس بار مسلمانوں کے قافلے میں کئی سو اونٹ بھی شامل تھے۔سردارانِ قریش کے لئے یہ وقت بہت سخت تھا۔ وہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھے۔ اگر اجازت دے دی جائے کہ مسلمان کئی سو اونٹ کے ساتھ مکہ میں داخل ہوجائیں تو یہ اندیشہ تھا کہ وہ مکہ پر قبضہ کرلیں گے۔ اگر دو ہزار مسلمان مکہ میں داخل ہوجائیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جب وہ وہاں سے جائیں گے تو دو ہزار سے زیادہ نہیں ہونگے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے خدشات اور اندیشوں کو دور کرنے کے لئے اپنے سفیر خراشؓ بن اُمیّہ خزاعی کو بھیجاتاکہ قریش کو بتائے کہ مسلمانوں کا مقصد صرف کعبہ کی زیارت کرنا ہے۔ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے، اگر مسلمان جنگ کے لئے آتے تو ہتھیار پہن کرآتے۔لیکن سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سفیر مکہ نہیں پہنچ سکا۔ دو سو سواروں کا دستہ جس کی قیادت عکرمہ ابنِ ابوجہل کررہا تھا، راستہ میں مزاحم ہوا اور قاصد اور اسکے ساتھیوں کو پکڑ لیا۔ انکے جتنے اونٹ تھے انکی ٹانگیں کاٹ دیں۔ مسلمان سفیراور اسکے ساتھی اونٹوں سے ہاتھ دھوبیٹھنے کے بعدریگستان میں بھٹک گئے۔قریب تھا کہ وہ ہلاک ہوجائیں اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ مسلمانوں کے قافلے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ 

حدیبیہ

مسلمانوں نے ’’ذوالحلیفہ‘‘کے مقام پر قربانی کے اونٹوں پر نشان لگانے کی رسم ادا کی۔اس ہی مقام پر عمرہ کیلئے احرام باندھے اور مکہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہر قسم کے ٹکراؤ سے بچنے کے لئے ذوالحلیفہ کا پہاڑی راستہ اختیار کیا اور مکہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھا۔ ذوالحلیفہ کی سرزمین سے گزرنے کے بعد وہ لوگ ایک انتہائی تنگ اور دشوار پہاڑی علاقے میں داخل ہوئے جہاں سے اونٹوں کا گزرنا مشکل اور خطرناک تھا۔ اس پہاڑی علاقے میں مسلمانوں کو سورج کی حدت اور پیاس کی شد ت کی وجہ سے بہت تکلیف ہوئی۔ لیکن انہوں نے کسی نہ کسی طرح راستہ طے کرلیا اور ایسے علاقے میں داخل ہوگئے جس کا نام ’’حدیبیہ‘‘ مشہور تھا۔حدیبیہ مکہ سے گیارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں سے پورا مکہ نظر آتا ہے۔ مکہ میں رہنے والوں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ ان کا دل تڑپ اٹھا کہ تھوڑی دیر بعد وطن کی مٹی کی سوندھی خوشبو سے جسم وجان معطر ہوجائیں گے۔ 

دل گرفتہ کیفیت

لیکن ٹھیک ایسے لمحات میں جبکہ مسلمان احترام کے جذبے اور والہانہ عشق سے مکہ پہنچنے کی تمنا کررہے تھے پیغمبر اسلام حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا اونٹ چلتے چلتے رکا اور زمین پر بیٹھ گیا۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اونٹ کو اٹھانا چاہا وہ اٹھ گیا لیکن اٹھنے کے بعد دو قدم پیچھے ہٹا اور دوبارہ بیٹھ گیا۔سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اونٹ سے اتر آئے اور مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا اللہ تعالیٰ کی مرضی یہی ہے کہ ہم اس جگہ قیام کریں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد سن کر سارے مسلمان اونٹوں سے اتر آئے۔ لیکن وہ بہت غمگین اور دل گرفتہ تھے۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ مکہ کی حدود میں داخل ہوکر، مکہ سے باہر ٹھہرنا پڑے گا۔ یہ جگہ حدیبیہ کے علاقے میں تھی۔ موسم بہار میں پانی وافر مقدار میں ہوتا تھالیکن اس وقت وہاں پانی نہیں تھا۔حدیبیہ ایک کنویں کا نام تھا۔ اس کے ارد گرد جو گاؤں آباد تھا وہ بھی اسی نام سے مشہور ہوگیا۔ اس کا کچھ رقبہ حدود حرم میں ہے اور کچھ حدودِ حرم سے باہر ہے۔ یہ مقام مکہ مکرمہ سے نو میل دور واقع ہے۔

مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے محبوب حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کیا:

’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! ہمارے ساتھ کئی سو اونٹ ہیں اور ہم تقریباً دو ہزار افراد ہیں۔ یہاں پانی نہیں ہے۔ ایسے خشک علاقے میں کیسے رہیں گے؟ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں ہماری گزارش ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور ایسی جگہ پہنچ جائیں جہاں پانی ہو۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعاکیلئے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھائے اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کی:

’’اے خالق و مالک اللہ تعالیٰ! اگرآپ پانی مہیا نہیں کریں گے تو مسلمان بے اختیار حرم میں داخل ہوجائیں گے۔‘‘ 

وہاں ایک کنواں تھا جو خشک تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک تیرلیا اور تیر کو کنوئیں میں گاڑنے کا حکم دیا۔ کنویں میں جیسے ہی تیر گاڑا گیا پانی کا چشمہ اُبل پڑا۔ 

مذاکرات

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کی خبر سن کر قریش کے لوگ اس الجھن میں گرفتار ہوگئے کہ اگر ہم مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں تو جزیرۃ العرب کے لوگ مخالف ہوجائیں گے۔ عرب قبائل یہ سمجھیں گے کہ ہم خانہ کعبہ کے مالک بن بیٹھے ہیں اور حج و عمرہ اور زیارت کعبہ اب قریش کی مرضی سے ہوگا اور اگر محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام )کے قافلے کو مکہ میں آنے دیتے ہیں پورے عرب میں شرمندگی ہوگی کہ محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام )ہم پر غالب آگئے۔اس مخدوش صورت حال سے نمٹنے کے لئے انہوں نے عروہ بن مسعود ثقفی کو سفیر مقرر کیا تاکہ وہ حدیبیہ جا کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مذاکرات کرے۔ عروہ بن مسعود نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا:

’’ تم لوگ کس مقصد سے آئے ہو؟ ‘‘

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’ہم خانہ کعبہ کی زیارت کرنے آئے ہیں ۔‘‘

عروہ بن مسعود کو قربانی کے وہ اونٹ دکھائے جن پر قربانی کے نشان لگے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران عروہ نے بڑی بدتمیزی سے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرہ اقدس کو ہاتھ لگایا۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ نے غضب ناک ہوکر تلوار کی نوک اس کے ہاتھ میں چبھوئی اور بولے، 

’’گستاخی نہیں کر ادب سے بات کر۔‘‘

حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے عروہ سے کہا،

’’ اے عروہ! اگر تو سفیر نہیں ہوتا تو ہم تجھے موت کی نیند سلادیتے۔‘‘

عروہ بن مسعود قریش کے پاس پہنچا تو اس نے قریش کے بزرگوں سے کہا:

’’میں نے روم کا دربار اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا دربار دیکھا ہے۔ لیکن جو وفاداری اور جان نثاری مسلمانوں کے دلوں میں محمد( علیہ الصلوٰۃوالسلام) کیلئے ہے وہ مجھے قیصر اور نجاشی کے دربار میں نظر نہیں آئی۔‘‘

عروہ بن مسعودکے بعد ایک اورشخص قریش کے سفیر کی حیثیت سے حدیبیہ آیا۔ اس نے دیکھا کہ مسلمان احرام باندھے ہوئے ہیں اور قربانی کے اونٹ انکے ساتھ ہیں۔ واپس جاکر قریش سے کہا

’’ میں نے قربانی کے اونٹوں کو دیکھا ہے۔ جن پر سلیقہ (قربانی کا مخصوص نشان) بنا ہوا تھا۔ اسکے علاوہ میں نے سنا، کہ وہ حج کا مخصوص ورد پڑھ رہے تھے۔ لہٰذا اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ وہ کعبہ کی زیارت کرنے آئے ہیں اور میرے خیال میں ان کے اوپر پابندی نہیں لگانی چاہیئے۔‘‘لیکن قریش مطمئن نہیں ہوئے۔ انہوں نے حلیس بن علقمہ کو بھیجا۔ حلیس جب وہاں پہنچا توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا

’’قریش کے نمائندے کو آزاد چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ جہاں جانا چاہے، جائے۔ جس سے چاہے ملاقات کرے اور جو چاہے دیکھے۔‘‘
حلیس بن علقمہ نے بھی یہی دیکھاکہ سارے مسلمان احرام باندھے ہوئے ہیں اور قربانی کے لئے اپنے ساتھ اونٹ لائے ہیں۔ حلیس کو کہیں بھی ہتھیار نظر نہیں آئے۔ حلیس تیزی سے مکہ پہنچا اور قریش کے سامنے اپنے تاثرات بیان کیے:

’’اے مکہ کے سردارو!میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مسلمان خانہ کعبہ کی زیارت کیلئے آئے ہیں۔انکی نیت میں کھوٹ نہیں ہے۔ میرے خیال میں انہیں مکہ آنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ہر شخص کو خانہ کعبہ کی زیارت کا حق ہے۔ خانہ کعبہ پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔‘‘قریش کے سردار مکہ میں مسلمانوں کے داخلہ پر رضامند نہیں ہوئے۔ تو حلیس ناراض ہوگیا۔ اور کہا:

’’اگر تم نے محمد علیہ الصلوٰۃوالسلام اور ان کے پیروکاروں کو مکہ میں آنے اور کعبہ کی زیارت سے روکا تو میں تم لوگوں سے علیحدہ ہوجاؤں گا اور تم بھی آج کے بعد سے مجھے اپنا اتحادی نہیں سمجھنا۔‘‘

مسلمانوں کے سفیر، حضرت عثمانؓ

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمان ؓ کو قاصد بناکر مکہ بھیجا۔ حضرت عثمانؓنے جب قریش سے ملاقات کی تو اہل مکہ نےکہا :’’آپؓ ہمارے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم آپؓ کو اجازت دیتے ہیں کعبہ کا طوا ف کریں اور عمرہ ادا کریں لیکن محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ خانہ کعبہ میں داخل ہوں۔‘‘کور چشم قریش کی ضد اور ہٹ دھرمی سے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ حضرت عثمانؓ کی واپسی میں دیر ہوگئی اور اس دوران مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کردیاگیاہے۔

بیعت الرضوان

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ عثما نؓکے خون کا بدلہ لینافرض ہے۔ جو شخص اس میں شریک ہونا چاہتا ہے وہ میرے ہاتھ پر بیعت کرے کہ آخری دم تک وفادار ر ہے گا۔ تمام صحابہ کرامؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے دائیں ہاتھ کو عثمان ؓ کا ہاتھ فرمایا اور اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حضرت عثمان ؓ کی طرف سے بھی بیعت کی ۔

سورۃ فتح میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقیناًاللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے ۔ تو جو شخص عہد شکنی کرے وہ اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔ ‘‘(سورۃ الفتح آیت۔10)

کفار کا سفیر

’’بیعت رضوان ‘‘ کے بعد اطلاع موصول ہوئی کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر درست نہیں تھی۔دودن دو رات کے مذاکرات کے بعد قریش نے ’’سہیل بن عمرو ‘‘کو سفیر بنا کر ایک وفد کے ساتھ حدیبیہ بھیجا تاکہ وہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ضروری مذاکرات کرے۔ تاکہ ’’عدم جارحیت‘‘ کا معاہدہ طے پایاجائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علی ؓ کو بلوایا اور ان سے کہا کہ وہ معاہدے کی دستاویز تیار کریں۔ حضرت علیؓ نے لکھنا شروع کیا۔

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم"

سہیل بن عمرو نے فوراً ٹوکا اور بولا

’’ہم رحمن اوررحیم کو نہیں جانتے، علی کو ’’باسمک اللّٰھم‘‘ لکھنا چاہیئے۔ کیونکہ قدیم زمانے سے ہم عربوں کے تمام معاہدے اسی نام سے شروع ہوتے ہیں۔‘‘

حضرت علیؓ نے اگلا فقرہ لکھا:

یہ معاہدہوا ہے محمد رسول اللہ (علیہ الصلوٰۃوالسلام) اور سہیل بن عمرو کے درمیان ۔‘‘لیکن سہیل بن عمرونے ایک بار پھر اعتراض کیا اورکہا:’’ اس طرح نہ لکھو کیونکہ ہم محمد ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) کو خداکا رسول نہیں مانتے اوراگر مانتے تو مکہ میں آنے سے کیوں روکتے ؟ لہٰذا اس معاہدے کا آغاز اس طرح ہونا چاہیئے: ’’ یہ معاہدہ ہے محمدبن عبداللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان۔‘‘

حضرت علیؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف دیکھا۔۔۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’یا علی!وہی لکھو جو سہیل کہتا ہے تاکہ اس کی رضامندی حاصل رہے۔‘‘ 

صلح نامہ 

معاہدے کے الفاظ یہ ہیں:

’’ باسمک اللّٰھم ۔یہ معاہدہ طے ہوتا ہے محمد ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان اور اس معاہدے کی رو سے قریش یہ منظور کرتے ہیں کہ 

۱۔ آئندہ دس سال تک مسلمانوں اور اہلِ مکہ کے درمیان جنگ نہیں ہوگی اور اگر ان دس سالوں میں کوئی شخص قریش کی اجاز ت کے بغیر مسلمانوں سے آملے تو مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ اسے قریش کے حوالے کردیں لیکن اگر کوئی شخص مسلمانوں سے علیحدہ ہو کر قریش کے پاس آجائے تو وہ اسے مسلمانوں کے حوالے نہیں کریں گے۔

۲۔ دس سالوں میں کوئی فریق دوسرے کی جان اور مال کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔

۳۔ دس سالہ مدت میں قریش کو اجازت ہوگی کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں آزادانہ معاہدہ کریں اور اپنی مرضی سے راہ و رسم بڑھائیں۔ 

۴۔ مسلمانوں کو اس سال مکہ میں داخل ہونے اور کعبہ کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی لیکن اگلے سال وہ کعبہ کی زیارت کے لئے آسکتے ہیں۔ تاہم شرط یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں نہیں ٹھہریں گے اور تلوار کے علاوہ کوئی دوسرا ہتھیار اپنے ساتھ نہیں لائیں گے۔‘‘یہ معاہدہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور قریش مکہ کے درمیان ہوا۔ مسلمان قریش کی طرف سے لگائی ہوئی پابندی پر دل گرفتہ تھے اور اسے اپنی توہین سمجھ رہے تھے۔

حضرت عمرؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کیا:

’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! کیا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم مکہ جائیں گے اور خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:’’تم انشاء اللہ مکہ ضرور جاؤگے اور خانہ کعبہ کا طواف کرنے کی سعادت حاصل کروگے۔‘‘
حضرت ابو جندلؓ کی واپسی معاہدہ حدیبیہ پر دستخط ہونے کے بعد حضرت ابوجندلؓ مکہ سے فرار ہوگئے اور حدیبیہ پہنچ کر مسلمانوں سے آملے۔ حضرت ابوجندلؓ کے حدیبیہ پہنچتے ہی سہیل بن عمرو بھی وہاں آگیا اور اس نے کہا:

’’ ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدے کی رو سے اگر کوئی شخص فرار ہوجائے اور تمہاری پناہ میں آجائے تو تمہارا یہ فرض ہے کہ اسے ہمارے حوالے کردو۔ لہٰذا میرے لڑکے ابو جندل کو میرے حوالے کیا جائے۔‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حضرت ابوجندل ؓ کو ان کے باپ کے حوالے کردیا۔

حضرت ابوجندلؓ نے عرض کیا،’’یارسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! میرا باپ مجھے مار ڈالے گا۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا،

’’ابوجندل ڈرو نہیں! اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کریں گے۔‘‘

لیکن ا س واقعہ سے مسلمانوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اور کعبہ کی زیارت سے محروم ہونے کے بعد ان کے اعصاب پر یہ دوسری کاری ضرب تھی۔ لیکن بیعت رضوان نے انہیں بے قابو نہیں ہونے دیا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب یہ دیکھا کہ عام مسلمان بہت رنجیدہ ہیں توحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے انہیں جمع کرکے سورۃ الفتح یہ آیتیں سنائیں:

’’اللہ خوش ہوا ایمان والوں سے، جب ہاتھ ملانے لگے تجھ سے اس درخت کے نیچے، پھر جانا جو ان کے جی میں تھا، پھر اتارا اُن پر چین اور انعام دی اُن کو ایک فتح نزدیک۔‘‘

(سورۃ الفتح۔ آیت 18)

صلح نامہ کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور ذبح کردو اور سر منڈوا کر احرام کھول دو۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تین مرتبہ حکم دیا مگر صحابہ کرامؓ اس قدر شکستہ دل اور رنج و غم میں ڈوبے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی۔سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام اس موقع پر بہت رنجیدہ ہوئے اور اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے۔ اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ سے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے عرض کیا :’’ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنا اونٹ ذبح کرکے سر منڈوا لیں مسلمان حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیروی کریں گے۔‘‘سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب قربانی کرکے سر منڈوا لیا تو صحابہ کرامؓ نے قربانیاں دیں اور سر منڈوا لیا اور احرام سے باہر آگئے۔

اسلامی فوج

عام مسلمان معاہدے کے دیرپا اثرات کو نہیں سمجھ سکے تھے۔ جب وہ اپنے سر منڈوانے اور احرام سے نکلنے کے بعد مدینہ روانہ ہوئے تو وہ بہت غم زدہ اور دل گرفتہ تھے۔ ایسی حالت میں جبکہ مسلمان دلوں میں درد چھپائے مدینہ کی جانب گامزن تھے۔ راستے میں ایک اور مسلمان حضرت ابو بصیرؓ نے جو مکہ سے بھاگ نکلے تھے، مسلمانوں سے پناہ کی درخواست کی۔حضرت ابوبصیرؓ ابھی اطمینان کا سانس نہیں لینے پائے تھے کہ قریش کے دو افراد بھی وہاں پہنچ گئے اور مطالبہ کیا’’یا محمد ( علیہ الصلوٰۃوالسلام)! معاہدے کی روسے ابوبصیر ؓ کو ہمارے حوالے کیا جائے۔‘‘ 

حضرت عمرؓ نے آگے بڑھ کر عرض کیا

’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! اس مرتبہ اس شخص کو واپس نہ بھیجیں۔ یہ ہم سے پناہ مانگنے آیا ہے اگر ہماری جان بھی چلی جائے تو اسے قریش کو نہیں دیں گے۔‘‘ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا:’’ ہم ایفائے عہد کے پابند ہیں۔‘‘

یہ جواب سن کر مکہ سے آنے والے دو آدمیوں نے مسلمانوں کے سامنے حضرت ابوبصیر ؓ کو اونٹ کی پیٹھ پر باندھا اور روانہ ہوگئے۔ حضرت ابوبصیرؓ نے راستہ میں اپنی رسیاں توڑ ڈالیں اور آزاد ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ حضرت ابوبصیرؓ نے دو میں سے ایک شخص کو موت کی نیند سلادیا جبکہ دوسرا جان بچاکر بھاگ گیا۔ حضرت ابوبصیرؓ دوبارہ مسلمانوں سے آملے اور ان سے پناہ کی درخواست کی۔ اگلے روز زندہ بچ جانے والا شخص مسلمانوں کے قافلے تک پہنچ گیا اور ابوبصیر ؓ کامطالبہ کرنے لگا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حکم دیاکہ حضرت ابوبصیر ؓ کو اس شخص کے حوالے کردیا جائے لیکن اس سے پہلے کہ قریش کا نمائندہ حضرت ابوبصیر ؓ کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے جائے وہ فرار ہوگئے۔ حضرت ابو بصیرؓ نے مکہ جانے کے بجائے ریگستان میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ 

حضرت ابوبصیرؓ ذوالمروہ کے مقام پر پناہ گزین ہوگئے۔ کچھ دنوں بعد حضرت ابو جندلؓ بھی مکہ سے فرار ہوکر ذوالمروہ پہنچ گئے اور حضرت ابوبصیرؓ سے آملے پھر رفتہ رفتہ دوسرے مسلمان بھی مکہ سے نکل کر ذوالمروہ پہنچنا شروع ہوگئے اور ایک گروہ تشکیل پاگیا۔
حدیبیہ کا معاہدہ ہوئے ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ذوالمروہ میں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ ایک فوج بن گئی۔ وہ مکہ جانے والے کاروانوں کا راستہ روک کر مال غنیمت حاصل کرنے لگے۔ ذوالمروہ کے مسلمانوں نے قریش کو اس طرح سے ناک چنے چبوادیئے کہ انہوں نے عاجز و لاچار ہوکر خود ہی پیغمبراسلام علیہ الصلوٰۃوالسلام سے درخواست کی کہ وہ ذوالمروہ میں جمع ہونے والے مسلمانوں کو مدینہ بلوالیں۔اس طرح ذوالمروہ کے مسلمان مدینے آگئے۔ 

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان