Topics

حضرت ایوب علیہ السلام

حضر ت ایوبؑ کے والد کا نام عموس تھا۔ آپ ؑ کے جدِاعلیٰ عیسوا دوم حضرت اسحق ؑ کے فرزند اور حضرت یعقوب ؑ کے بڑے بھائی تھے۔ آپ ؑ کی والدہ حضرت لوط ؑ کی اولاد میں سے تھیں۔عیسوا ’’کنعان ‘‘سے ہجرت کرکے ’’کوہ شعیر ‘‘ یا ’’ کو ہ سراۃ ‘‘ کے دامن میں آباد ہوئے۔یہ علاقہ عرب کے شمال مغرب میں اور خلیج عقبہ کے درمیان واقع ہے۔ مورخین کے مطابق یہ خطۂ سرخ رنگ کی مٹی پر مشتمل تھا۔ اس رنگ کو لغوی اعتبار سے ’’ادوم ‘‘کہا جاتاہے۔ اس وجہ سے یہاں کی آبادی کا نام ادوم مشہور ہوگیا۔

حضرت ایوب ؑ کا مسکن بصریٰ تھا۔ یہ بستی عرب کے شمال میں فلسطین کے قریب اب تک موجود ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شام کے سفر کے دوران یہاں قیام فرمایا تھا۔

لنگر عام

عبرانی میں حضرت ایوب ؑ کا نام ’’اوب‘‘ہے اور توراۃ میں ’’یوباب‘‘ (Job) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو منصب نبوت کے جلیل القدر مقام پر فائز کرنے کے ساتھ ساتھ قبیلے کا سردار بھی بنایا اور عزت وحترام اور جاہ و حشم سے نوازا۔ آپ ؑ کے مال مویشیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی اور خدمت گار سینکڑوں تھے۔ بے شمار باغات اور کھیت آپ ؑ کی ملکیت تھے۔ بے حد فیاض انسان تھے۔ غریبوں کی امداد، فقرا و مساکین کی اعانت، بیکسوں کی دستگیری، بیواؤں اور یتیموں کی کفالت اور سرپرستی، مظلوموں کی فریاد رسی اور عام لنگر کھلاناآپ ؑ کی زندگی کا محبوب مشغلہ تھا۔

حضرت ایوب ؑ کی زوجہ حضرت یوسف ؑ کے بیٹے افراہیم کی بیٹی تھیں۔ جن کا نام بی بی رحمہ (رحمت) تھا۔ آپ ؑ کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔حضرت ایوب ؑ لوگوں کو دین ابراہیمی کی تعلیم دیتے اور انہیں شرک و بت پرستی اور برے اعمال سے بچنے کی تلقین کرتے تھے۔ لوگوں کو اچھائی اور برائی کے تصور سے آشنا کرتے اور یہ بتاتے تھے کہ کون سے اعمال اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہیں اور کون سے اعمال ناپسندیدہ ہیں۔ ادوم کی سرزمین پر آباد قوم کو حضرت ایوب ؑ نے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان، عرفان ذات اور عارف باللہ کی تعلیم دی۔ راست بازی آپ ؑ کا طریق تھا اور شکر گزاری آپ ؑ کی عادت تھی۔

شیطان کا حیلہ

روایت ہے کہ ایک روز فرشتے آپ ؑ کی اطاعت گزاری اوراللہ کریم کے حضورعاجزی و فرمانبرداری پر تحسین و آفرین کررہے تھے۔ ابلیس نے دعوے سے کہا کہ اللہ نے ایوب پر انعام و اکرام کی بارش کی ہے اسی وجہ سے وہ نیک اور شکر گزار ہے۔ اگر اللہ اس پر مصیبت نازل کرے تو وہ شکر ادا نہیں کرے گا۔حضرت ایوب ؑ کے حالات اچانک خراب ہوگئے۔ مصیبتوں ، آزمائشوں اور ابتلا کے دور نے حضرت ایوب ؑ کو تہی دست کردیا۔ غلّہ کے گوداموں میں آگ لگ گئی، مال و اسباب جل کر راکھ بن گیا۔ ڈاکوؤں نے غلاموں اور نوکروں کو تہہ تیغ کرکے مال مویشی سب کچھ لوٹ لیا۔ آپ ؑ کی سب اولاد ضیافت میں شریک تھی کہ مکان کی چھت گر گئی اور سب کا انتقال ہوگیا۔ اولاد، مال و دولت اور جاہ وجلال ختم ہوگیا۔ خوش حالی کی ایک علامت بھی باقی نہ رہی۔ لیکن حضرت ایوب ؑ کی روشن پیشانی پر ایک شکن نہیں آئی۔ تباہی کے پے درپے واقعات سے لوگ حواس کھو بیٹھے۔ حضرت ایوب ؑ کی رہائش گاہ کے باہر آہ و فغاں اور نالہ و گریہ کرنے والوں کا ہجوم ہوگیا۔ حضرت ایوب ؑ نے سجدے میں گر کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی۔میں اپنی ماں کے پیٹ سے برہنہ پیدا ہوا تھا، برہنہ ہی دنیا سے جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ نے مجھے یہ سب کچھ دیا تھا اور آپ نے اپنی امانت واپس لے لی۔(سفر ایوب: باب ۱۔۲۱)

صبر و شکر

سب کچھ ختم ہوگیا لیکن آزمائش کا دور ابھی باقی تھا۔ پیروں کے تلوے سے لے کر سر کی کھال تک سارے جسم میں تکلیف دہ بڑے بڑے پھوڑے نکل آئے جن میں ٹیسیں اٹھتی تھیں۔ آپ ؑ راکھ پر بیٹھے رہتے تھے اور راکھ جسم پر ڈالتے رہتے تھے۔ زبان بدستور حمد و ثناء میں مصروف رہی اور شکایت کا ایک لفظ منہ سے نہیں نکلا۔ عزیزوں نے قطع تعلق کرلیا صرف رفیقۂ حیات شریک غم رہیں۔ زوجہ محترمہ نے بیمار شوہر کی تیمارداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ محنت مزدوری کرکے اخراجات پورے کرتی تھیں۔ اس اذیت میں اٹھارہ سال حضرت ایوب ؑ نے گزار دئیے۔زوجہ محترمہ ایک روز حرف شکایت زبان پر لے آئیں۔ حضرت ایوب ؑ ناراض ہوئے اور غصے میں قسم کھائی کہ صحت یاب ہونے کے بعد بیوی کو سو(۱۰۰) ڈنڈے ماروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے زوجہ محترمہ کی غلطی معاف فرمائی اور صحت یابی کے بعد حضرت ایوب ؑ کو حکم ہوا۔

زوجہ محترمہ پر اللہ تعالیٰ کا انعام

’’اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو اور اس سے مارو اور قسم نہ توڑو۔‘‘ (سورۃ ص۔آیت44)

حضرت ایوب ؑ نے سو تنکوں کی جھاڑو بنا کر ایک مرتبہ مار دیا اور قسم پوری ہوگئی۔ قرآن حکیم میں حضرت ایوب ؑ کے آخری دورکا تذکرہ ان الفاظ میں بیان ہواہے۔

معجزہ
’’اور ایوب کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ یا الٰہی ! شیطان نے مجھے ایذا اور تکلیف دے رکھی ہے۔‘‘(سورۃ ص۔آیت41)
رحمت خداوندی جوش میں آئی اور حکم ہوا۔

’’زمین پراپنا پاؤں مارو، یہ چشمہ نہانے کو ٹھنڈا اور پینے کو شیریں ہے۔‘‘

(سورۃ ص۔آیت42)

حضرت ایوب ؑ نے زمین پر پیر مار۱، زمین سے شفا بخش پانی ابل آیا۔ حضرت ایوبؑ نے غسل کیااور پانی پیا، دیکھتے ہی دیکھتے بدن زخموں سے صاف ہوگیا۔

بی بی رحمہ شام کو واپس لوٹیں تو بیمار اور ناتواں شوہر کو موجود نہ پاکر پریشان ہوگئیں ۔ آپ روتے ہوئے انہیں ڈھونڈ رہی تھیں کہ قریبی پل پر ایک جوان صحت مند مرد کو دیکھا۔ حضرت ایوبؑ نے مسکراتے ہوئے سارا احوال سنایا۔ حضرت ایوب ؑ اور ان کی زوجہ کا شباب لوٹ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے سے زیادہ اولاد سے نوازا اور آزمائش کے دنوں میں جن آسائشوں سے محروم کردئیے گئے تھے وہ کئی گنا بڑھا کر دوبارہ عطا کردی گئیں۔

سورۃ انبیاء میں حضرت ایوب ؑ کا ذکر اختصار اور اجمال کیساتھ اس طرح ہے۔

’’اور ایوب ؑ کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا ، میں دکھ میں پڑ گیا ہوں اور یا اللہ !تجھ سے بڑھ کر رحم کرنے والا کوئی نہیں۔ پس ہم نے ان کی پکار سن لی اور جس دکھ میں پڑ گئے تھے وہ دور کردیا، ہم نے ان کا گھر بسادیا اور ان کو اتنا ہی اور عطا کردیا۔ یہ ہماری طرف سے ان کے لئے رحمت تھی اور نصیحت ہے ان کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ انبیاء۔آیت83 تا84)

اللہ تعالیٰ سورۃ انبیاء میں دوسری برگزیدہ ہستیوں کے علم و فضل اور حکمت و دانش کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ایوب ؑ کے بارے میں فرماتے ہیں۔

’’اور یہی (ہوش مندی اورحلم و علم کی نعمت) ہم نے ایوبؑ کو دی۔‘‘(سورۃ انبیاء۔آیت 82)

پانی میں جوانی

حضرت ایوب ؑ کی مسجد اور کنواں(چشمہ)جس کے پانی سے شفا ملی تھی آج بھی اردن کے ایک قصبہ’’نوا‘‘میں موجود ہے۔لوگ اسے ایوبؑ ؑ کاحمام اور انکی قیام گاہ کومقام ایوب ؑ کہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی حکمت اور قدرت سے جب چشمہ ابل پڑا تو حضرت ایوب ؑ کو اس پانی سے شفا ہوگئی۔ پانی میں ایسے منرلز (Minerals) تھے جس سے بڑھاپا جوانی میں تبدیل ہوجاتاہے۔ اس پانی سے حضرت ایوب ؑ اور ان کی زوجہ محترمہ دونوں صحت مند ہوکر جوان ہوگئے اور چار پشتوں تک اپنی نسل کو پھلتے دیکھا۔

’’کہہ دو اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو۔ اپنے پروردگار کے ساتھ تقویٰ اختیار کرو جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ ہے۔ جو صبر کرنے والے ہیں۔ ان کو بے شمار اجر ملے گا۔‘‘

(سورۃ الزمر۔آیت10تا11)

اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں

صبر اللہ کا نور ہے جو مادی حواس میں نورانیت داخل کرکے انسان کو اللہ تعالیٰ سے قریب کردیتا ہے۔ صبر کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اپنی تدابیر اور کوششوں کا نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے۔ اپنے ارادے کی نفی کرکے اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق جان لے اور اپنے کاموں میں تاخیر اور ناکامی پر اللہ تعالیٰ کے ارادے اور فیصلے کا انتظار کرے۔ قدرت کی جانب سے جو کچھ حاصل ہو اس پر راضی ہوجائے۔ صبر کا پورا سسٹم فرمانبرداری کو ذہن میں راسخ کرنے کا پروگرا م ہے۔ صبر کرنے سے آدمی خود کو قدرت کے ہاتھوں میں مجبور اور بے بس ہونے کا تجربہ کرلیتا ہے۔ صبر کرنے سے آدمی کے اندر نور داخل ہوجاتا ہے۔ جب بندہ صبر کرنے کا خوگر ہوجاتا ہے تو اس کی ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ بندہ کا رابطہ مستقل طور پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم کہا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’آپؐ صبر کیجئے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا۔‘‘(سورۃ الاحقاف۔آیت35)

صبر آدمی کو اولوالعزم بناتا ہے۔ جو پیغمبروں کی صفت ہے۔ صبر زندگی کے آداب سکھاتا ہے۔ صبر بندے کو اسفل سے اعلیٰ کی جانب لے جانے والی قوت ہے۔

’’اور صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔ بے شک (یہ کام) دشوار ضرور ہے۔ مگر ان لوگوں پر (دشوار) نہیں جو عاجزی کرنے والے ہیں۔‘‘(سورۃالبقرہ۔آیت45)
’’
بارہا چھوٹی جماعتیں غالب آئی ہیں بڑی جماعتوں پر اللہ تعالیٰ کے اذن چاہنے سے۔ اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اے ہمارے رب ! اتار ہم پر صبر اور جمائے رکھ ہمارے قدموں کو اور فتح دے ہمیں قوم کفار پر۔‘‘(سورۃالبقرہ۔آیت249تا250)

’’اگر پہنچے تمہیں کوئی بھلائی توبری لگتی ہے انہیں۔ اور اگر پہنچے تمہیں کوئی تکلیف تو خوش ہوتے ہیں اس سے۔ اور اگر تم صبر کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تو نہ نقصان پہنچائے گا تمہیں انکا فریب کچھ بھی۔ بے شک اللہ تعالیٰ، جو کچھ وہ کرتے ہیں ۔اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔‘‘(سورۃ آل عمران۔آیت120)

’’اور کہتے ہیں کہ نبی گزرے ہیں کہ جہاد کیا ان کے ہمراہ بہت سے اللہ والوں نے۔ سو نہ ہمت ہاری انہوں نے بوجہ ان تکلیفوں کے جو پہنچیں انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں۔ اور نہ کمزور ہوئے۔ اور نہ انہوں نے ہار مانی۔ اور اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے صبر کرنے والوں سے۔‘‘(سورۃ آل عمران۔آیت146)

’’یقیناًتم آزمائے جاؤگے اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، اور یقیناًتم سنوگے ان سے جنہیں دی گئی کتاب تم سے پہلے، اور ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا اذیت دینے والی بہت باتیں اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ تو بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔‘‘(سورۃ آل عمران۔آیت186)

’’ہاں جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کئے یہی ہیں جن کے لئے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔‘‘

(سورۃ ھود۔آیت11)

’’اور آپ ؐ صبر کیجئے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا نیکیوں کے اجر کو۔‘‘

(سورۃ ہود۔آیت115)

’’اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل۔ یہ سب صبر کرنے والے تھے۔ اور انکو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔ بلاشبہ وہ نیک تھے۔‘‘(سورۃ انبیاء۔آیت85تا 86)

’’ان لوگوں کو دگنا بدلہ دیا جائے گا۔ کیونکہ صبر کرتے تھے۔ اور بھلائی کے ساتھ برائی کو دور کرتے رہے ہیں۔ اور جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘

(سورۃ القصص۔آیت54)

حضرت ایوب ؑ کے قصے میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبر کیا اور صبر حضرت ایوب ؑ کی طرح تمام پیغمبروں کا شیوہ اور ان کی طرز فکر ہے۔

پیغمبروں کا وصف ہے کہ وہ تکلیف کے وقت صبر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنا مالک تصور کرتے ہیں اور تکلیف میں اللہ تعالیٰ کی مصلحت ان کے پیش نظر رہتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے ہیں جبکہ ان کا حال ، ان کا مال سب اللہ تعالیٰ سے وابستہ رہتا ہے۔
حضرت ایوبؑ نے جو تکلیفیں برداشت کی ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت محیط ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کے اوپر بھروسہ کرلیتا ہے اور اس کا یقین کامل ہوجاتا ہے تو بڑی سے بڑی تکلیف میں بھی شکوہ و شکایت زبان پر نہیں لاتا۔

اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کی مثال دیتے ہوئے اپنے برگزیدہ پیغمبروں حضرت اسماعیل ؑ ، حضرت ادریس ؑ ، حضرت ذوالکفل ؑ ، حضرت نوح ؑ اور حضرت یعقوب ؑ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اور اپنے محبوب بندے باعث تخلیق کائنات ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایاہے:
’’
پس آپ ؐ صبر کیجئے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا۔‘‘(سورۃ الاحقاف۔آیت35)

ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتوں سے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے۔ انہیں ٹھہرائیں گے جنت کے بالاخانوں (محلات) میں رواں ہونگی جن کے نیچے نہریں۔ کتنا عمدہ صلہ ہے نیک کام کرنے والوں کا۔ وہ جنہوں نے صبر کیا۔ اور صرف اپنے رب پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں۔‘‘
(سورۃ العنکبوت۔آیت 58تا59)

حضرت ایوب ؑ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں۔ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کو یہ پیغام دیا ہے کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہیں اور جب بندہ صبر کرکے اللہ تعالیٰ کو یقین کے ساتھ اپنا ہمدرد اور محبت کرنے والی ہستی تسلیم کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اوپر آرام و آسائش کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ اور ایسے وسائل فراہم کردیتا ہے جن سے انسانی زندگی پر خوشیوں کے دریچے کھل جاتے ہیں۔جیسے حضرت ایوب ؑ کے لئے اللہ تعالیٰ نے چشمہ جاری کردیا اور ماشاء اللہ دونوں میاں بیوی جوان ہوگئے۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان