Topics
۱۔ملاءِ اعلیٰ ۲۔ملائکہ نورانی ۳۔ملائکہ سماوی ۴۔ملائکہ اسفل
۵۔ملائکہ رضوان ۶۔زمانیا ۷۔کراماً کاتبین
’’(اور فرشتے کہتے ہیں کہ )
ہم میں سے ہر ایک کا مقام مقرر ہے۔‘‘
(سورۃ الصٰفٰت۔ آیت 164)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ فرشتے جو عرش کو تھامے ہوئے ہیں اور وہ
فرشتے جو اس کے ارد گرد ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کرتے ہیں اور اللہ
تعالیٰ کا حکم ماننے کیلئے اپنے آپ کو ہردم تیار رکھتے ہیں اورایمان والے لوگوں
کیلئے دعاکرتے ہیں۔(صحیح بخاری۔ جلد سوئم۔حدیث 1331)
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا ہے:
’’جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی حکم دیتے
ہیں تو فرشتے اپنے پر پھڑپھڑاتے ہیں، پروں کے پھڑ پھڑانے سے ایسی آواز پیدا ہوتی
ہے جیسے پتھر پر زنجیر کھینچنے سے ہوتی ہے پھرنیچے کے فرشتے اوپر والے فرشتوں سے
پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا حکم ملا ہے اوپر والے فرشتے کہتے ہیں جو
حکم بھی دیا گیاہے وہ سچ ہے اللہ تعالیٰ بہت بلند اور بڑے ہیں اور اس کے بعد وہ
تفصیل بتا دیتے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ کوئی نیا حکم دیتے ہیں تو فرشتے جو عرش کو تھامے ہوئے
ہیں ’’سبحان اللہ‘‘ کہتے ہیںیہاں تک کہ آسمان اور زمین تک تسبیح پہنچ جاتی ہے اس
کے بعد حاملین عرش کے قریب رہنے والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں کہ اللہ
تعالیٰ نے کیا حکم فرمایاہے تو وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے آگاہ کردیتے ہیں اس
طرح نیچے کے آسمان والے اوپر کے آسمان والوں سے پوچھتے ہیں یہاں تک کہ آسمان دنیا
تک یہ حکم پہنچ جاتا ہے۔‘‘(مشکوٰۃ شریف۔ حدیث 530)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:
’’ایک روز کچھ رات گزری تھی کہ میں اٹھا وضو
کیا اور جس قدرمجھے وقت میسر آیامیں نے نماز قائم کی۔نماز میں مجھے اونگھ آگئی میں
نے دیکھا میرے پروردگار نہایت اچھی شکل میں میرے سامنے ہیں مجھ سے فرمایا، اے محمد
(صلی اللہ علیہ وسلم)! میں نے عرض کیا اے پروردگار میں حاضر ہوں۔ پوچھا ملاءِ
اعلیٰ کس بات پر بحث کررہے ہیں ؟
میں نے عرض کیا!میں نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات تین دفعہ
فرمائی اور میں نے تینوں دفعہ یہی جواب دیا پھر میں نے دیکھاکہ اللہ تعالیٰ نے
اپنی ہتھیلی میرے دونو ں شانوں کے درمیان رکھ دی یہاں تک کہ انگلیوں کی ٹھنڈک میرے
سینے میں محسوس ہوئی اب مجھ پر سب چیزیں روشن ہوگئیں۔ اور میں سب کچھ سمجھ گیا پھر
اللہ تعالیٰ نے مجھے پکارا: ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ‘‘
میں نے عرض کیا:’’ لبیک میں حاضر ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے پوچھا:’’ ملاءِ اعلیٰ کس بات پر بحث کررہے ہیں؟‘‘
میں نے عرض کیا :’’کفارات‘ ‘پر بحث ہورہی ہے۔‘‘
پوچھا:’’کفارات کیا چیز ہیں؟‘‘
میں نے عرض کیا’’ جماعت کی طرف پیدل چل کر جانا، نماز کے بعدمسجد میں
بیٹھنا اور تکلیف کے با وجود وضو کرنا ، جس نے یہ عمل کئے وہ خیر ہی کے ساتھ زندہ
رہے گا اور خیر پر ہی اس کو موت آئے گی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ اور کس بات پر بحث ہورہی ہے؟‘‘
میں نے عرض کیا’’ درجے حاصل کرنے والی چیزوں پر۔‘‘
فرمایا :’’ وہ کیاہیں؟‘‘
میں نے عرض کیا،
۱۔ بلا شرط کھانا
کھلانا۔ (یعنی مسکین اور محتاج ہونے کی شرط نہ ہو) بلکہ ہر ایک کوکھانے کی عام
اجازت ہو، اس لئے کہ بعض غیرت والے لوگ محتاجوں کے زُمرے میں آنا پسند نہیں کرتے۔
۲۔ ہر ایک انسان سے نرم
بات کرنا۔اور
۳۔ راتوں کو ایسے وقت
میں نماز قائم کرنا جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔
(جامع ترمذی۔ جلد دوئم۔ حدیث نمبر 1159)
حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا،
’’ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے پیار کرتے ہیں
تو جبرائیل ؑ کو بلا کر کہتے ہیں کہ میں فلاں شخص سے پیار کرتا ہوں تو بھی اس سے
پیار کر۔چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اس سے پیار کرتے ہیں پھر آسمانوں میں منادی
ہوجاتی ہے کہ فلاں شخص سے اللہ تعالیٰ پیار کرتے ہیں تم سب اس سے محبت کرو ۔
چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں پھر زمین پر اسے مقبول عام بنادیا
جاتاہے۔
ایسے ہی جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کو ناپسند کرتے ہیں تو جبرئیل ؑ کو
بلاکر کہتے ہیں کہ میں فلاں شخص کو پسند نہیں کرتا چنانچہ جبرئیل ؑ ا سے پسند نہیں
کرتے پھر آسمانوں میں منادی کرادی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو پسند نہیں
کرتے پھر وہ سب فرشتے اسے ناپسند کرتے ہیں۔
اس کے بعد زمین پر موجود مخلوق بھی اسے ناپسند کرتی ہے اور وہ
دنیامیں ناپسندیدہ شخص بن کر رہتا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری جلد سوئم۔ حدیث 978)
حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا :
’’ہر روز انسان جب صبح کے وقت اٹھتے ہیں تو
دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ایک کہتا ہے کہ یا اللہ !اچھی جگہ خرچ کرنے والوں کو
اور نعمتیں عطا کردیجئے۔دوسرا فرشتہ کہتاہے اے اللہ !دولت کو ذخیرہ کرنے والوں کو
ہلاک کردیجئے۔ جب یہ
فرشتے انسانوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو طبیعت میں اچھے کا م کرنے کے رجحانات پیدا
ہوتے ہیں ۔ فرشتے ٹکڑیوں کی شکل میں جمع ہوتے ہیں اور ٹکڑیوں کی شکل میں اڑتے
پھرتے ہیں۔ آپس میں گفتگو کرتے ہیں ۔ فرشتوں کی ٹکڑیوں میں نیک انسانوں کی روحیں
بھی شامل ہوتی ہیں۔‘‘
( صحیح بخاری جلد اول ۔ حدیث 1356، مسلم جلداول2330 )
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اے اطمینان والی روح !تو راضی اور خوش ہوکر
اپنے رب کی طرف متوجہ ہو پھر میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میری بہشت میں داخل
ہوجا۔‘‘(سورۃ الفجر۔آیت 27 تا30)
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
حظیرۃ القدس میں جمع ہونے والے فرشتے اور روحیں انسانوں کو تباہی اور
مصیبت سے بچانے کے طریقوں پر سوچ بچار کرتے ہیں اور سب متفق ہو کر یہ طریقے
انسانوں تک پہنچاتے ہیں ۔ اس کام کیلئے وہ انسان منتخب کیاجاتاہے جو انسانوں میں
سب سے زیادہ پاکیزہ ہو۔ پاکیزہ شخص کیلئے لوگوں کو Inspire کیاجاتا ہے کہ اس آدمی کی پیروی کریں ۔پھر ایک جماعت بن جاتی ہے
جوانسانیت کی خد مت کرتی ہے جن باتوں میں قوم کی بھلائی اور بہتری ہو، اس پاکیزہ
بندے کی روح میں وحی کے ذریعہ خواب میں اور کبھی غیب کی حالت میں وہ باتیں داخل
کردی جاتی ہیں ۔فرشتوں کے ذہن میں ذاتی نفع و نقصان نہیں ہوتا۔ صرف وہی عمل کرتے
ہیں جس کا انہیں اوپر کے فرشتوں کی طرف سے الہام ہوتا ہے۔
فرشتوں کی ایک قسم کراماًکاتبین ہے جن کی ہر انسان کے ساتھ ڈیوٹی ہوتی
ہے ایک فرشتہ ہر نیک کام کو لکھ لیتا (ویڈیو فلم بناتا) ہے اور دوسرا ہر بُرے کام
کو لکھ لیتا (ویڈیو فلم بناتا) ہے۔
’’کیا یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کی
چھپی ہوئی باتوں اور سرگوشیوں کو سنتے نہیں،ہاں ہاں (سب سنتے ہیں) اور ہمارے فرشتے
ان کے پاس (ان کی) سب باتیں لکھ لیتے ہیں۔‘‘(سورۃ الزخرف۔آیت 80)
سدرۃالمنتہیٰ کے نیچے بیت المعمور ہے۔ بیت المعمور حضرت ابراہیم ؑ
خلیل اللہ کا مقام ہے۔ اس مقام میں ملاءِ اعلیٰ رہتے ہیں ۔ ملاء اعلیٰ کے نیچے
ملائکہ نوری ، ملائکہ نوری کے نیچے ملائکہ سماوی اور ملائکہ سماوی کے نیچے ملائکہ
عنصری ہیں۔
فرشتوں کے گروہ
گروہ جبرائیل ؑ گروہ میکائیل ؑ گروہ عزرائیل ؑ گروہ اسرافیل ؑ
ہرگروہ کی الگ الگ صلاحیتیں ہیں اور ان صلاحیتوں کا الگ الگ استعمال
ہے۔
حضرت جبرائیل ؑ اللہ کے قاصد ہیں ۔ وحی پہنچانا اور الہام کرنا انکا
وصف ہے۔
گروہ میکائیل ؑ کے فرائض میں بارش کے سارے معاملات ہیں۔
گروہ عزرائیل ؑ کے ذمہ موت سے متعلق معاملات ہیں۔
گروہ اسرافیل ؑ کی ڈیوٹی میں قیامت سے متعلق معاملات ہیں۔
سات آسمان میں ہر آسمان ایک زون ہے۔ہر زون کے فرشتے الگ الگ ہیں لیکن
ساتوں آسمانوں میں موجود فرشتوں کو ملائکہ سماوی کہا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف
سے فرشتوں کو جو صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں وہ فرشتوں کے پروں سے ظاہر ہوتی ہیں۔
فرشتوں کے پر صلاحیتوں اور صفات کے مطابق چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔ پروں کی تعداد میں
بھی فرق ہوتا ہے۔ (جس طرح مور کے پر ہوتے ہیں اور پروں پر خوبصورت نقش و نگار ہوتے
ہیں اسی طرح فرشتوں کے پروں پر بھی لاشمار نقوش ہوتے ہیں)۔ ہر نقش ایک صلاحیت ہے۔
فرشتوں کے پروں میں سے نور کے جھماکے ہوتے رہتے ہیں ۔
’’سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لائق ہے جو
آسمانوں اور زمین کاپیدا کرنے والا (اور) فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جن کے دو
دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں۔ وہ مخلوق میں جو چاہتا ہے بڑھاتا ہے بے شک
اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘(سورۃ فاطر۔ آیت 1)
ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل، کراماً کاتبین، منکر نکیر،
ملائکہ رضوان، ملائکہ زمانیا وغیرہ، فرشتوں کے کئی طبقے ہیں۔ فرشتے کائناتی نظام
میں ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کے
حکم کی تعمیل میں ذرّہ برابر فرق نہیں کرتے فرشتوں کی تعداد کتنی ہے اس کا اندازہ
نہیں لگایا جاسکتا، تخلیقی نظام میں ہر انسان کے ساتھ 20ہزار فرشتوں کی ڈیوٹی ہوتی
ہے۔ اس
وقت ہماری دنیا کی آبادی چھ ارب ہے جبکہ ہماری دنیا کی طرح کروڑوں دنیائیں اور بھی
موجود ہیں۔ دوسری
دنیاؤں کے مقابلے میں ہماری زمین سب سے چھوٹا کرّہ ہے۔ سیر کے دوران صوفی کوہماری
زمین ایسی نظر آتی ہے جیسے بڑے گنبد پر سوئی کی نوک سے نشان لگا دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اگر یوں ہوکہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں اور
سمندر (کا تمام پانی) روشنائی ہو (اور) اس کے سات سمندر اور (روشنائی ہوجائیں) تو
اللہ تعالیٰ کی باتیں ختم نہ ہوں۔بے شک اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔‘‘(سورۃ
لقمان ۔ آیت 27)
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان