Topics

سیرت نگاری کا دوسرا دور

صحابہ کرامؓ ، تابعین ؒ اور تبع تابعین ؒ کے بعد آنے والے آئمہ کرام کا زمانہ سیرت نگاری کے دوسرے دور سے موسوم ہے۔ یہ دور دوسری صدی ہجری کے آخری نصف سے شروع ہوا اور اس دورکے نامی گرامی سیرت نگاروں میں واقدی، ابنِ سعد ، ابنِ ہشام یعقوبی اورابن کثیر کے نام شامل ہیں۔ 

۱۲۔ زیاد بن عبداﷲ بکائی 

سیرتِ نگاری میں ابنِ اسحٰق کے جن پندرہ شاگردوں کاتذکرہ ملتا ہے ان میں سب سے نمایاں نام زیاد بن عبداﷲ بکائی کا ہے۔ زیاد بن عبداللہ البکائی کوفہ کے رہنے والے تھے۔ سیرتِ محمد علیہ الصلوٰۃوالسلام سے لگاؤ اور علوم حدیث و مغازی کے حصول کے جذبہ کے تحت مدینہ چلے آئے ۔ مدینہ کی علمی مجالس میں ابنِ اسحٰق کا چرچا تھا اُن کی شاگردی اختیار کرلی اور اس وقت تک ان کے ساتھ رہے جب تک مغازی کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی۔

نوٹ:سیرت کے حوالہ سے زیاد کی کوئی تصنیف یا تالیف دستیاب نہیں ہے لیکن اُن کی مخلصانہ کوششوں کو مستند تسلیم کیا گیا ہے۔ ابنِ ہشام ، امام احمد بن حنبل، ابو غسان مہدی، سہل بن عثمان ، یوسف بن حماد اور عبداﷲ بن سعد بن ابان اُموی نے سیرت مطہرہ کی زیادہ روایت بکائی کے حوالہ سے بیان کی ہیں۔ امام بخاری نے اپنی کتاب الجہاد اور مسلم نے متعدد مقامات پر بکائی کی روایت نقل کی ہیں۔ زیاد بن عبداﷲ بکائی نے ۱۸۲ھ ؁ میں وفات پائی۔

۱۳۔ ابن ہشام ؒ 

ابنِ ہشام کا نام عبد الملک ہے۔ ۱۱۲ھ ؁ میں بصرہ میں آپ کی ولادت ہوئی والد کا نام ہشام اور دادا کا نام ایوب ہے۔ اس زمانہ میں مدینہ اور کوفہ کی طرح بصرہ بھی علوم و فنون کا گہوارہ تھا۔ محدثین اور مفسرین کی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں اور لوگ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے شیوخ اور اساتذہ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ ابن ہشام کو حصولِ علم کا ذوق و شوق اپنے والد اور دادا سے ورثہ میں ملاتھا۔علمی ذوق کی تسکین کے لئے ایسے حالات میسر تھے جس سے انہوں نے بھر پوراستفادہ کیا۔ محققین کے مطابق ابنِ ہشام تفسیر و حدیث کے علاوہ تاریخ و قصص ، نحو و لغت ، انساب و روایت اور مغازی کے علوم میں مہارت رکھتے تھے۔کوفہ کے سفر میں آپ نے بکائی سے بطورِ خاص ملاقات کی اور اُن سے سیرت النبیؐ کی روایات کی سماعت مکمل کی ۔ یہ ابنِ اسحٰق کی وفات کے بعد کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد آپ مصر چلے گئے اور وہاں کے علماء کی صحبت اختیار کی۔ امام شافعی سے بھی وہیں ملاقات ہوئی۔ امام شافعی آپ کی علمیت اور لغت میں مہار ت کے بہت معترف تھے۔ مصر میں رہائش کے دوران ابنِ ہشام کی زیادہ تر توجہ سیرت البنیؐکے درس و تدریس پر مرکوز رہی۔ یہ درس وہ ابنِ اسحٰق کی سیرتِ النبیؐ سے دیا کرتے تھے جس کا نسخہ بکائی سے لیکر آئے تھے۔ ابن ہشام کے تلامذہ کے نام یہ ہیں۔

۱۔ محمدبن عبداللہ ۲۔ احمد بن عبداللہ ۳۔ عبدالرحیم بن عبداللہابن ہشام کے حوالہ سے صرف دو تصانیف کا تذکرہ ملتا ہے ۔

۱۔ التیجان فی ملوک حمیر ۲۔ تہذیب سیرت النبی ؐ ابنِ اسحٰق۔ دوسری کتاب ہی دراصل ابنِ ہشام کی شہرت و ناموری کا سبب ہے۔ابنِ اسحٰق کی مرتب کردہ سیرت کی کتاب کو قبولیتِ عام حاصل تھی۔ محافل و مجالس میں پڑھی جاتی تھی۔ ممکن ہے کہ ابنِ ہشام نے یہ مناسب سمجھا ہو کہ اس کے بجائے کہ نئی کتاب تصنیف کی جائے، ابنِ اسحٰق کی کتاب میں سے معترضہ اور غیرمتعلقہ باتیں نکال دی جائیں ۔اسی لئے انہوں نے تلخیص کی راہ اختیار کی اور ایک ایسی جامع کتابِ سیرت مرتب کر دی جس نے ابنِ اسحٰق کی اصل کتاب کی جگہ لے لی۔
عرب میں تلخیص کا سلسلہ قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔ ابن ہشام نے کسی نئی طرز کی بنیاد نہیں رکھی تھی۔قدیم عرب میں جس کتاب سے تلخیص کی جاتی تھی اُس اصل کتاب کو ’’اُمہات‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور اُسے اولیت حاصل ہوتی تھی جبکہ تلخیص کی شناخت ’’اُمہات ‘‘ کی نسبت سے ہوتی تھی۔ سیوطی نے ابوذر کے حوالہ سے چار تلخیص کا تذکرہ کیا ہے ۔ابنِ ہشام کی مذکورہ بالا کتاب اُن میں سے ایک ہے۔ابن ہشام کی وفات ۲۱۸ ؁ ھ میں ہوئی۔

۱۴۔ محمد بن عمرالواقدی ؒ 

محمد بن عمربن واقدی ؒ ۱۳۰ھ ؁ میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ اُن کا تعلق بھی اسی طبقہ سے بیان کیا جاتا ہے جو ’’مولیٰ(آزاد کردہ غلام)‘‘کہلاتا ہے۔ آپ کے دادا واقد کو قبیلہ بنی اسلم کے ایک فرد عبداﷲ بن ابی بُریدہ سے نسبتِ ولایت رہی ہے۔اسی نسبت سے ان کا خاندان الاسلمی کہلایا اور اُن کی اولاد واقدی کے نام سے معروف ہوئی۔ مدینہ میں پیدائش اور وہاں تعلیم و تربیت نے واقدی کے علمی ذوق کو جِلا بخشی ۔ معروف محدثین، اکابر مفسرین اور جلیل القدر فقہا کی مجلسوں میں شرکت اور اُن سے اکتسابِ علم نے انہیں اُس پائے کا سیرت نگار بنا دیا کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ طیبہ کے مدنی دور سے متعلق واقدی کی جمع کردہ روایات ابنِ اسحٰق سے زیادہ جامع قرار دی گئیں۔ واقدی کے علمی ذوق و دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ جہاں سے بھی کوئی نئی کتاب مل جاتی اُسے نقل کرواکے اپنے کتب خانہ میں شامل کرلیتے تھے۔واقدی نے سیرتِ مطہرہؐ کے علاوہ فقہی اور عقائدی اختلافات پر بھی کتابیں لکھی ہیں اور اُن موضوعات پر بھی قلم اُٹھایا ہے جو امت مسلمہ میں وجہ اختلاف رہے ہیں۔الواقدی نے کئی کتابیں لکھیں ان کتابوں میں اگر کوئی کتاب مکمل حالت میں موجود ہے تو ان کی کتاب ’’المغازی ‘‘ ہے ۔ الواقدی نے ’’المغازی‘‘ میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے احکامات اور معاہدے درج کئے ہیں۔

سن ۲۰۷ہجری میں جب واقدی کا انتقال ہوا تو آپ کے ترکہ میں کتابوں سے بھری ہوئی چھ سو پیٹیاں شامل تھیں۔ آپ بغداد کے خیزراں قبرستان میں مدفون ہوئے۔ 

۱۵۔ محمد ابن سعد ؒ 

ابو عبداﷲ محمد بن سعدبن منیع البصری ۱۶۸ ؁ھ میں بصرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت بصرہ میں حاصل کرنے کے بعد حصولِ فضیلت اور کمالِ فن کے لئے سفر اختیار کیا۔ مختلف مقامات پر معروف علماء کی صحبت میں رہ کر اکتسابِ علم کیا۔ آپ دوسری ہجری کے اختتام سے قبل مدینہ پہنچ کر وہاں کے جید علما و فضلاء سے مستفیض ہوچکے تھے ۔ آپ کے اکابر شیوخ میں ۱۔ سفیان بن عینیہ ۲۔ وکیع بن الجراح ۳۔ سلیمان بن الحرب ۴۔ہشیم اور۵۔ الفضل بن دُکین کے اسمائے گرامی بتائے جاتے ہیں۔ علمائے رجال نے آپ کے شیوخ کو عادل (وہ شخص جس کی شرع میں گواہی معتبر ہو) قرار دیا ہے، اسی نسبت سے صاحبانِ علم و دانش محمد ابنِ سعد کو بھی عادل مانتے ہیں۔
سیرت نگاری کے ضمن میں ابنِ سعد کی تحقیق اور فہم کی بدولت محققین نے آپکا شمار ثِقَہ راویوں میں کیا ہے الواقدی کے مقابل آپ کو زیادہ فضیلت دی ہے۔سیرت کے علاوہ ابنِ سعد نے غریب الحدیث اور فقہ کے موضوعات پر بھی لکھا ہے لیکن آپ کی شناخت کی وجہ وہ کتا ب ہے جو ’’طبقاتِ سعد‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ جس کی ابتدائی دو جلدیں سیرتِ مطہرہ پر مشتمل ہیں۔

کتاب الطبقات الکبیر (یا الطبقات الکبریٰ) جو طبقاتِ ابن سعد کے نام سے معروف ہے ، پندرہ جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب بتائی جاتی ہے۔ اس میں ابتدائی غزوۃ میں شرکت کرنے والے اور تاریخِ اسلام کے اُن اکابر رجال کے بارے میں مستند روایات جمع کی گئی ہیں جو اسلام کی ترویج و اشاعت میں سرگرمِ عمل رہے تھے۔ابن سعد کی وفات ۲۳۵ھ ؁ میں بغداد میں ہوئی ۔ آپکا مقبرہ باب الشام میں ہے۔

۱۶۔ ابن کثیر

اسماعیل نام،ابو الفدا کنیت،عماد الدین لقب اور ابن کثیر عرف ہے۔آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن ذرع البصری ثم الد مشقی ہے۔آپ ایک ممتاز اور علمی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔آپ کے والد شیخ ابو حفض شہاب الدین عمراپنے شہر کے ایک ممتاز خطیب اور آپ کے بڑے بھائی شیخ عبدالوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہ تھے۔امام ابن کثیر کی ولادت 700ھ یا 701ھ میں بمقام مجدل ہوئی جو ملک شام کے مشہور شہر بصریٰ کے اطراف میں ایک گاؤں ہے ، اس وقت آپ کے والد یہاں کے خطیب تھے ،ابھی آپ تیسرے یا چوتھے برس میں ہی تھے کہ والد کی703ھ میں وفات ہوگئی اور نہایت ہی کم سنی میں آپ کو یتیمی کا داغ اٹھانا پڑا باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو بڑے بھائی نے اپنی آغوش میں لے لیا ۔والد کی وفات کے تین سال بعد یعنی 706ھ میں آپ اپنے بردار بزرگوار کے ساتھ دمشق چلے آئے اور پھر یہیں آپ کی پرورش ہوئی ، ابتدا میں اپنے بڑے بھائی سے فقہ کی تعلیم پائی ۔بعد میں شیخ برہان الدین ابراہیم بن عبدالرحمان فرازی اور شیخ کمال الدین ابن قاضی سے اس فن کی تکمیل کی ۔اس زمانہ میں دستور تھا کہ طالبعلم جس فن کوحاصل کرتا اس فن کی کوئی مختصر کتاب زبانی یاد کر لیتا ۔چناچہ آپ نے بھی فقہ میں التنبیہ فی فروع الشافیعہ ،مصنفہ شیخ ابو اسحاق شیرازی کو حفظ کرکے سنادیا اور اصول فقہ میں علامہ ابن حاجب مالکی کو زبانی یا د کیا ۔اصول کی کتابیں آپ نے علامہ شمس الدین محمود بن عبدالرحمان اصفہانی شارح مختصر ابن حاجب سے پڑھیں تھیں۔وہ علماء جن سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا وہ حسب ذیل ہیں۔

۱۔ عیسی بن المطعم ۲۔ بہاؤ الدین قاسم بن عساکر ۳۔ محمد بن زراد ۴۔ عفیف الدین اسحاق بن یحییٰ الامدی ۵۔ بن الرضی ۶۔ بدر الدین محمد بن ابراہیم معروف بہ ابن سویدی ۷۔ حافظ مزی ۸۔ شیخ الااسلام امام ابن تیمیہ  ۹۔ حافظ ذہبی ۱۰۔ عماد الدین محمد بن شیرازلیکن ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو استفادہ ہوا وہ محدث شام حافظ جمال الدین یوسف بن عبدالرحمان مزی شافعی مصنف ’’تہذیب الکمال‘‘ ہیں۔حافظ مزی نے خصوصی تعلق کی بنا پر اپنی اکلوتی صاحبزادی کا آپ سے نکاح کردیا تھا۔اس رشتہ نے اس تعلق کو اور زیادہ استوار کر دیا ۔ شاگرد اپنے استاد کی خدمت میں حاضر رہے انکی اکثر تصانیف کا جس میں تہذیب الکمال بھی شامل ہیں خود ان سے سماع کیا اور اس فن کی پوری تکمیل ان ہی کی خدمت میں رہ کر کی ۔اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ سے بھی آپ نے بہت کچھ علم حاصل کیا تھا اور عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے تھے۔

امام ابن کثیر کو علم حدیث کے علاوہ فقہ ،تفسیر،اورعربیت میں کمال حاصل تھا مورخین نے حافظ ابن کثیر کے حافظہ اور فہم کی خاص طور پر تعریف کی ہے ۔ابن کثیر کی تمام عمر درس اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی۔حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکزیہ (جو اس زمانہ میں علم حدیث کے مشہور مدرسے تھے)میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے۔ابن کثیر کو اپنے استاد علامہ ابن تیمیہ ؒ سے خصوصی تعلق تھا جس نے آپ کی علمی زندگی پر گہرااثر ڈالا تھا ۔امام ابن کثیر کی آخر عمر میں بینائی جاتی رہی ، جمعرات کے دن شعبان کی چھبیس تاریخ 774ھ میں وفات پائی اور مقبرہ صوفیہ میں اپنے محبوب استاد شیخ الاسلام حضرت امام ابن تیمیہ ؒ کے پہلو میں دفن کئے گئے ۔پسماندگان میں دو صاحبزادے بڑے نامور چھوڑے تھے ،ایک زین الدین عبدالرحمان اور دوسرے بدر الدین ابوالبقاء محمد۔یہ بڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں۔ آپ کی اہم تصانیف حسب ذیل ہیں۔

تصانیف

۱۔ تفیسر القرآن العظیم ۲۔ طبقات الشافیعہ مناقب الشافعی ۳۔ البدایہ والنہایہ ۴۔ تخیر ج احادیث ادلتہ التنیہ ۵۔ شرح صحیح بخاری ۶۔ الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول۷۔ الاحکام الکبیر ۸۔ التکمیل فی معرفتہ الثقات ۹۔ اختصار علوم الحدیث ۱۰۔ رسالتہ فی فضائل القرآن۱۱۔ مسند الشیخین ۱۲۔مختصر کتاب المدخل للبہقی ۱۳۔ کتاب المقدمات ۱۴۔ الاجتہاد فی طلب الجہاد۱۵۔مسندامام احمد بن حنبل 

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان