Topics
مکہ میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوران تبلیغ سخت ترین مصیبتیں
برداشت کیں ۔مشرکین نے جینادوبھر کردیاتھا۔ جسمانی تکالیف کے علاوہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کو جو ذہنی اذیتیں دی گئیں اس کے تذکرہ سے نوع انسانی کا سر شرم و
ندامت سے جھک جاتا ہے ۔جس معاشرے میں بیٹیوں کو اس لئے زندہ درگور کر دیا جاتا
تھاکہ بیٹی کا باپ کہلاناباعث ندامت تھا۔ جس معاشرہ میں اولاد نرینہ سے محروم باپ
ایک بے نشان فرد کی حیثیت سے زندگی گزارتا تھا۔اس معاشرے میں حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے دونوں صاحبز ادے حضرت قاسمؓ اور حضرت عبداللہؓ کم سنی میں انتقال کر
گئے تو ابلیس کے نمائندوں نے حضور علیہ لصلوٰۃ والسلام کے ’’بے نشان‘‘ہوجانے کی
خوشی میں جشن کیا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوسرے صاحبزادے کے انتقال کی خبر جب
ابو لہب کو ملی تو وہ خوشی سے چلاتا ہوا اور دوڑادوڑاکفارِ مکہ کے پاس آیا اور
کہا’’محمد(علیہ الصلوٰۃ والسلام)ابترہوگئے‘‘۔اس کے بعد جہاں سے بھی حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کا گزر ہوتا مشرکین مکہ چلّا کر کہتے تھے ،وہ دیکھو !وہ ابتر آرہا
ہے۔ (ابتر کے لفظی معنی ایسے درخت کے ہیں جس کی جڑ کٹ گئی ہو،یعنی ایساآدمی جس کی
نسل کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہو۔) ابتر کا لفظ لوگوں کے لئے ہتک آمیز اورگالی کے
مترادف تھا۔کفار کی زیادتیوں کا جواب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہیں دیا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تسلی اور
تشفی فرمائی اور سورۃ الکوثر نازل ہوئی ۔
’’(اے نبی) ہم نے تمہیں
کوثر عطا کر دیا۔پس اپنے رب ہی کیلئے نماز قائم کرو اور قربانی کرو ۔تمھارا دشمن
ہی جڑ کٹا ہے۔‘‘(سورۃ الکوثر)
عربی لغت کی رو سے دیکھا جائے تو کوثر ’’کثرۃ‘‘ سے ماخوذ ہے اور اسی
مناسبت سے اس کے معنی خیر کثیر لئے جاتے ہیں۔چناچہ اکثر مفسرین نے کوثر کی
تشریح’’خیر کثیر ‘‘ کی ہے ۔
صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس تابعی حضرت سعید بن جبیر ؒ
حاضر ہوئے اور کہا کہ لوگ ایساکہتے ہیں کہ کوثر جنت میں ایک نہرکا نام ہے ۔حضرت
ابن عباسؓ نے فرمایا ’’یہ خیر کثیرکی ایک قسم ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دونوں جہان کی اتنی بھلائیاں عطا فرمائی ہیں کہ
اس کی کوئی حد نہیں ہے۔‘‘
کوثر کی کئی دیگر اہلِ علم حضرات نے بھی تشریح کی ہے ۔مثلاًحضرت
عکرمہؓ فرماتے ہیں کہ ’’کوثر سے مراد نبوت ہے ۔‘‘
حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایاکہ کوثر سے مراد’’ قرآن‘‘ ہے ۔‘‘
مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح لکھا ہے
’’اے محبوب !بے شک ہم نے تمھیں بے شمار
خوبیاں عطا فرمائیں ‘‘۔
یعنی انہوں نے کوثر کا ترجمہ’’بے شمار خوبیاں ‘‘کیا ہے ۔
مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں
’’کوثر میں ہر خیر کثیر داخل ہے اور اس خیر
میں مراتب قرب و درجات عالی سے لے کر بقائے دین اور ترقہ ء اسلام سب کچھ شامل ہے جو
بذات خود موجب کثرت ہے ۔‘‘
مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے اس کی تشریح یو ں کی ہے
’’اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کو فضائل کثیرہ عنایت کرکے تمام خلق پر افضل کیا ہے ۔ حسن ظاہر،حسن باطن،نسب
عالی،نبوت،کتاب وحکمت،شفاعت،حوض، کثرت فتوح،نعمتیں اور جن کی کوئی حد نہیں یہ سب
کوثرمیں شامل ہیں ۔‘‘
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اس کے مفہوم میں لکھتے ہیں کوثر سے مراد
دنیا اور آخرت کی بے شمار بھلائیاں ہیں۔
ان تمام بزرگوں کے متفرق بیانات میں قدرمشترک یہی ہے کہ سب نے کوثر
سے مراد خیر کثیر لیا ہے جو اس لفط کا لغوی مطلب بھی ہے۔یہ تمام مفاہیم اپنی جگہ
اسی لغوی معنی کی تشریحات معلوم ہوتے ہیں خیر کثیر میں بے شمار لطیف اشارے مخفی
ہیں۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اورہم نے آپ کو تمام عالمین کیلئے رحمت بنا
کر بھیجا ہے۔‘‘
(سورۃ الانبیاء۔آیت107)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کائنات کی سب سے بلند مرتبہ اور برگزیدہ
ہستی ہیں۔نظامِ تکوین میں، اللہ کے بندے کام کرتے ہیں اور ان بندوں کی معاونت
فرشتے کرتے ہیں ، دراصل یہی وہ بندے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ’’فی
الارض خلیفہ‘‘ ہیں، تکوینی نظام میں اللہ تعالیٰ کے اختیارات استعمال کرنے والے
بندوں میں سب سے اعلیٰ عہدہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ہے۔
اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل حاصل ہونا پھر ان کو تقسیم کرنا خیرِ
کثیر (کوثر )میں شامل ہوتا ہے ۔ یعنی ہم اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو کوثر سے مراد وہ
تما م اختیارات ،وسائل،انعامات ،اکرامات،اور امتیازات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا کئے ہیں اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے
مخلوق کو مل رہے ہیں اسی تکوینی حیثیت کی بنا پرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو باعث
تخلیق کائنات کہا جاتا ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وسائل کی تقسیم کا اختیا ر
دیا گیا ہے اسی عظیم اعزاز کی جانب اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’ہم نے
آپکوکوثرعطا فرمایا‘‘ ۔جسے اتنے عظیم اختیارات حاصل ہوں ان کو ابتر کہنے والوں کو
ہی ابتر ،بے نشان ،محروم اور نامراد کہاجائے گا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان