Topics

زیارت نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام

خوب سمجھ لوکہ تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کا رسول موجود ہے۔(الحجرات ۔آیت 7)

قرآن حکیم قیامت تک نوعِ انسانی کے لئے ہدایت ہے ۔اللہ تعالیٰ کے کلمات زمان و مکان کے پابند نہیں بلکہ یہ کائناتی فارمولے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمتِ مقدسہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جسد خاکی کی پیدائش سے پہلے بھی اس دنیا بلکہ کائنات پر سایہ فگن تھی اور دنیا کی ظاہری آنکھوں سے پردہ فرمانے کے بعد بھی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنی امت کی دستگیری فرما رہے ہیں ۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں ’’امت کے علماء میں اتنے اختلافات کے باوجود کسی شخص کو اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام حقیقی زندگی کے ساتھ قائم اورموجود ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں مجاز کی آمیزش و تاویل کا وہم نہیں ہے امت کے اعمال پر حاضر وناضر ہیں۔(اخبار الاخبارصفحہ 161)

حضرت شاہ ولی ؒ اللہ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی روح پُر فتوح سے فیض حاصل کرنے کو اویسی طریقہ کہتے ہیں ۔آپ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے قرآن کریم حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے بلاواسطہ پڑھا ۔ جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح مقدسہ (فیض باطنی اکتساب میں) میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اویسی ہوں ،بالمشافہ اور عالم خواب میں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے احادیث سنیں۔بعض کی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فوراًاصلاح فرمائی۔‘‘

حضرت شاہ ولی ؒ اللہ نے ان احادیث مقدسہ کو ایک رسالے کی صورت میں مرتب فرما کر ’’دُرِ ثمین‘‘ نام رکھا۔(الفوز الکبیر۔ص47)
حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلویؒ فرماتے ہیں ’’ صوفیا ء کا قول ہے کہ معلم عالم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت ہوتی ہے۔‘‘(خصائص نبوی شرح شمائل ترمذی۔ص260)

حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ فرماتے ہیں ’’ہمارے اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی یہ حیات دنیا کی سی ہے۔‘‘ (المھند۔ص16)

عصر حاضرمیں عالم عرب کے معروف مفکر الشیخ ڈاکٹر محمد علوی ساکن مکہ المکرمہ اپنی بے مثال کتاب ’’الذخائر المحمدیہ ‘‘میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’علم شریعت کے ساتھ ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا علم طریقت بھی ہر جگہ موجود ہے پس آپ کی روح طیبہ مجالس ذکر و فکر اور خیر میں حاضر رہتی ہے۔علما امت نے بیان کیا ہے کہ تمام اہلِ زمین کیلئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار ممکن ہے کیونکہ تمام عالم آئینے کی مانند ہے اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیثیت ایک سورج کی مانند ہے اور جب یہ سورج چمکتا ہے تو ہر ایک آئینے کی مقدار کے مطابق اس میں سورج کی صورت نظر آتی ہے ۔اب یہ آئینے پر منحصر ہے کہ وہ بڑا ہے یا چھوٹا لطیف ہے یا کثیف پس جس طرح کا شیشہ ہو گا سورج بھی اسی لحاظ سے اس میں چمکے گا۔‘‘

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

’’جو لو گ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہوئے انہیں مردہ نہ سمجھو وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔‘‘(سورۃ الِ عمران ۔آیت169)

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق شہید کے اوپر موت وارد نہیں ہوتی جبکہ شہادت کا واقع ہونااس بات کے تابع ہے کہ شہید حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان رکھتا ہواور نبی مکرم کی تعلیمات کو پھیلانے میں شہید ہوا ہو۔

جب شہدا زندہ ہیں تو قرآن پاک کے بیان کردہ اس قانون کے مطابق انبیاء بھی زندہ ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو تمام انبیاء کے سردار اور امام ہیں وہ بھی اسی طرح زندہ ہیں جس طرح اپنی حیات مبارک میں اس دنیا میں موجود تھے اور اب بھی اُسی طرح موجود ہیں۔صحابۂ کرامؓ ،امت کے علما اور اولیا ء اللہ نے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پردہ فرمانے کے بعد امت کی دست گیری کے واقعات تواتر کے ساتھ کتابوں میں موجود ہیں۔آئیے چند واقعات بیان کرکے سعادت حاصل کرتے ہیں۔

حضرت فاطمہ زہرہؓ

صحیح بخاری میں تحریر ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وصال کے بعد کسی نے حضرت فاطمہ زہرہؓ کو ہنستے نہیں دیکھا ۔ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے وصال کو ابھی چھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ حضرت فاطمہؓ نے اپنے اباجان(حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو خواب میں دیکھا کہ سرہانے کھڑے ہیں اور اِدھر اُدھرملاحظہ فرما رہے ہیں جیسے کسی کا انتظار ہو۔حضرت فاطمہ زہرہؓ کی نگاہ جیسے ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پرپڑی تو بے تاب ہو کر پکارا ’’اباجان آپ کہاں ہیں؟میں تو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فراق میں بے چین و بے قرار ہوں‘‘حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ’’بیٹی!میں یہاں تمھارا منتظر ہوں۔اب اس مادی دنیا کو خیر باد کہہ کر عالم ارواح میں ہم سے آملو گی۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی اور دوسرے دن آپؓ کا وصال ہوگیا۔

(انا للہ وانا الیہ راجعون)(بخاری شریف ،اوراق غم از علامہ ابوالحسنات قادری صفحہ 107 )

حضرت بلالؓ 

حضرت بلالؓ نے خواب دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام فرمارہے ہیں ’’اے بلال !کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم میری زیارت کے لئے آؤ۔‘‘یہ خواب دیکھتے ہی حضرت بلالؓ کی عجیب حالت ہوگئی ۔صبح ہوتے ہی ملک شام سے مدینے کے لئے روانہ ہوگئے۔
مدینہ طیبہ پہنچ کر روضہ اطہر پر حاضر ہوئے اورقبر مبارک پر سر رکھ کر زارو قطار رونے لگے ۔ حضرت حسنینؓ کے اصرار پر مسجد نبوی میں اس جگہ کھڑے ہوئے جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات میں کھڑے ہوتے تھے اور اذان شروع کی ۔جوں ہی اللہ اکبر ،اللہ اکبر،کہا اہل مدینہ میں شور برپا ہوگیا ، جب اشھد ان لا الہ الا اللہ کہا تو محسو س ہوا کہ مدینہ منورہ کے لوگوں میں ہلچل پیدا ہو گئی ۔لوگوں کا گریہ شدید تر ہو گیااور جب اشھد ان محمد رسول اللہ کہا تو لوگوں کے ذہنوں میں عہد نبوی کی یاد اس طرح تازہ ہوگئی کہ وہ تڑپ اُٹھے ۔مدینہ منورہ میں کوئی مرد،عورت،چھوٹابڑا،ایسا نہ تھاجو گریہ وزاری نہ کر رہا ہو۔

حضرت امام موسی کاظم ؒ 

عبداللہ خزاعی خلیفہ ہارون رشید کا کوتوال تھا ۔اس نے حضرت امام موسٰی کاظمؒ کو قید کر رکھاتھاحضرت امام موسیٰ کاظم ؒ نے خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زیارت کی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام فرما رہے تھے کہ ’’موسیٰ تم ظلماً قید خانے میں ہو۔ اگر تم ان کلمات کو پڑھوتو آج رات ہی قیدسے نجات پالوگے۔‘‘ حضرت امام موسیٰ کاظمؒ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی عطاکردہ دعا پڑھی ،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک کالا بھجنگ حبشی ہاتھ میں تلوار اُٹھائے عبد اللہ خزاعی کے خواب میں آیا اور امام صاحب ؒ کی رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر تونے ایسا نہیں کیا تو میں تجھے قتل کردونگا ۔ عبداللہ خزاعی پر دہشت سوار ہوگئی اور اس نے امام موسیٰ کاظمؒ کو رہا کر دیا ۔

(خیرالموانس حصہ اول صفحہ 172)

علامہ احمد بن قسطلا نی ؒ 

مشہور محدث علامہ احمد بن قسطلا نی ؒ ’’ مواہب لدنیہ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’میں ایک مرتبہ اس قدر سخت بیمار ہوا کہ طبیب علاج سے عاجز آگئے اور میں کئی سال تک مسلسل بیمار رہا ۔ایک مرتبہ جب میں مکہ مکرمہ میں تھا تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وسیلے سے دعا مانگنی شروع کی دعا کے بعد مجھے نیند آگئی ۔میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی کے ہاتھ میں کاغذہے جس میں یہ تحریر ہے کہ یہ دوااحمد بن قسطلانی کیلئے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ارشاد کے مطابق عطاہوئی ہے ۔جب میں خواب سے جاگا تو حیرت انگیز طور پر مرض باقی نہ رہا‘‘۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ 

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ جب میری عمر ۴۰ سال کی ہوئی تو ایک روز میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام میرے پاس تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم دین کی ترویج کیلئے تقریر کیوں نہیں کرتے ہو۔میں نے عرض کیا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام میں عجم کا رہنے والا ہوں عرب کے عمدہ کلمات کے سامنے کیوں کر زبان کھول سکتا ہوں۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا اچھا منہ کھولو،میں نے منہ کھول دیاحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سات بار سورہ نحل کی آیت پڑھ کر دم فرمایا ۔اسی دن ظہر کی نماز کے بعد میں منبر پر گیا اور چند کلمات سامعین کوسنائے کہ وہ وجد میں آگئے پھر تو یہ عالم ہو گیا کہ پورے بغداد میں میرے وعظ کی دھوم مچ گئی۔

(انواراصفیاء صفحہ119)

علامہ شرف الدین بوصیریؒ 

علامہ شرف الدین بوصیریؒ کا نعتیہ قصیدہ جسے قصیدہ بردہ شریف کہتے ہیں اس نعتیہ کلام کے پس پردہ نہایت روح پرور واقعہ موجود ہے۔علامہ بوصیریؓ کو عمر کے ایک حصہ میں فالج ہوگیا جس سے جسم کا آدھا حصہ بے حس و معطل ہوگیا ۔علاج معالجہ سے بھی افاقہ نہیں ہوا ۔اسی تکلیف کے زمانے میں علامہ بوصیری ؒ کے ذہن میں نعتیہ قصیدہ لکھنے کا خیال آیا ۔علامہ صاحب قصیدہ لکھنے میں منہمک ہوگئے اور دس فصلیں لکھ دیں ۔ ایک رات خواب میں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے دربارِ اقدس کی حاضری نصیب ہوئی ۔ خود کو دیکھا وہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں قصیدہ بُردہ پڑھ رہے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بہت محبت سے سماعت فرما رہے ہیں۔جب علامہ بوصیر ی ؒ نے یہ شعر پڑھا ؔ 

’’بارہا مریض حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک کے لمس سے اچھے ہوگئے اور کتنے ہی محتاج غنی ہوگئے ۔‘‘

تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنا دست مبارک علامہ بوصیریؒ کے جسم پر پھیرا اور ایک یمنی چادر عطا فرمائی ۔جب بیدارہوئے توخود کو بالکل صحت مند اور تندرست پایا جیسے کبھی کوئی مرض لاحق ہی نہیں ہوا تھا ۔ علامہ صاحب کے جسم پر وہ چادر بھی موجود تھی جو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے عطافرمائی تھی عربی میں چادر کو ’’بُردہ ‘‘ کہتے ہیں اس لئے یہ قصیدہ ’’قصیدہ بُردہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ 

حج بیت اللہ سے فارغ ہوکر ؒ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ اپنے مرشدخواجہ عثمان ہارونی ؒ کے ہمراہ مدینے تشریف لائے جہاں بصد ادب و احترام حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے سلام عرض کیا توروضہ مبارک سے آواز آئی ’’وعلیکم السلام یا قطب المشائخ معین الدین۔رات خواب میں دیکھا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں ’’معین الدین!ہم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے تمھیں ہندوستان کی ولایت عطا کی تم صبح ہوتے ہی اپنے مرشد سے اجازت لے کر ہندوستان چلے جاؤ۔‘‘ (بستان اویسیہ بہ فیوضات عبدیہ)

حضرت لعل شہباز قلندرؒ 

حضرت شہبازقلندر ؒ ایک رات حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی زیارت با برکت سے مشرف ہوئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے ارشاد فرمایا ’’مروند سے ہند پہنچواور توحید کا پرچم بلند کرو۔‘‘صبح آپ ؒ نے اس خواب کا ذکر اپنے شاگردوں سے کیا اور فوراً ہندوستا ن کیلئے روانہ ہوگئے۔(حدیقتہ الاولیاء)

علامہ ابن جوزیؒ 

علامہ ابن جوزیؒ نے دوسال تک قرآنی آیت ’’ہر آن وہ نئی شان میں ہے ۔پس اے جن و انس ،تم اپنے رب کی کن کن صفات حمیدہ کو جھٹلاؤ گے؟‘‘ (سورۃ رحمٰن۔آیت 29تا30)کی فضیلت پر خطبہ دیا ۔ایک دن اپنی نکتۂ آفرینی پر ناز کرنے لگے ۔ ایک شخص نے کہا ہمارا خدا اس وقت کس شان میں ہے اور کیا کر رہا ہے؟ علامہ لاجواب ہوگئے۔وہ شخص تین دن تک بدستور یہی سوال کرتا رہا اور ابن جوزیؒ خاموش رہے۔چوتھی شب اسی پریشانی میں سوئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جلوہ افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا ’’ابن جوزی یہ شخص خضر ہے تم اس کو یہ جواب دینا کہ ہمارا خدا اپنی ازلی اور قدیمی شانوں کو وقتاً فوقتاً ظاہر کرتا ہے اس لئے اس وقت بھی وہی ہو رہا ہے جو ازل میں ہوچکا ہے‘‘۔

حضرت خضر ؑ نے جو اب سن کر ابنِ جوزی سے کہا آپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود بھیجئے جنہوں نے آپ ؒ کو تعلیم دی۔

(خیرالموانس جلد دوم صفحہ 443)

حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ 

روایت ہے کہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ جب اپنے مرشد حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہ انتظار رہا کہ مرشد انہیں خرقہ پہنائیں گے۔ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا آراستہ مکان ہے جو انوار و تجلیات سے جگمگا رہا ہے ۔درمیان میں ایک مُرصع تخت پر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام جلوہ افروزہیں۔دائیں جانب حضرت مرشد دست بستہ کھڑے ہیں اور قریب ہی چند خرقے لٹکے ہوئے ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے طلب فرمایا اورمرشد حضرت شہاب الدین ؒ نے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے قدموں میں بٹھا دیا کہ میں قدم بوسی کروں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان لٹکے ہوئے خرقوں میں سے ایک خرقہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’یہ خرقہ بہاؤالدین کو پہناؤ۔‘‘ مرشد نے ارشاد کی تکمیل کی ۔اگلے دن صبح مرشد نے مجھے طلب کیا ۔ جب میں حاضر خدمت ہوا تو دیکھا کہ وہی مکان ہے اور اسی طرح خرقے لٹکے ہوئے ہیں۔میرے مرشد نے وہی خرقہ جس کی جانب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا تھااتارکر مجھے پہنادیا اور فرمایا

’’اے بہاؤ الدین!یہ خرقہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بخشش ہے اور میں درمیان میں صرف ایک واسطہ کی حیثیت رکھتاہوں ۔کسی کو بغیر اجازت نہیں دے سکتا۔پھر حکم دیا کہ اب تم ملتان جاکر ہدایت اور خدمت خلق میں مصروف ہوجاؤ‘‘۔

حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ 

حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ فرماتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام غریب خانہ تشریف لائے ہیں اور مکان کی اوپر والی منزل کی چھت پر چارپائی پر لیٹ گئے۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کسی نے نیچے سے دروازہ کھٹکھٹایا۔میں نے جھانک کر دیکھا اور دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ ،خاتون جنت حضرت بی بی فاطمۃ الزہرہؓ کے ہمراہ تشریف لائے ہیں ۔دونوں مقدس ہستیوں نے دریافت فرمایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام یہاں تشریف لائے ہیں ؟میں نے عرض کیا جی ہاں..... ابھی ابھی تشریف لائے ہیں اوپر آرام فرما ہیں۔آپؓ بھی تشریف لے چلئے چناچہ دونوں بزرگ ہستیاں اوپر تشریف لے آئیں اور حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاس بیٹھ گئیں۔ میں ادب سے پاس کھڑا رہا۔چند منٹ کچھ باتیں ہوئیں اور اس کے بعدحضرت فاطمہ زہرا ؓ نے 1947ء میں پیش آنے والے فسادات کا پورا نقشہ بیان فرمایا ۔لوٹ مار ،قتل عام،آتش زنی،غرض جو جو کچھ ہونے والا تھا اور ساتھ ہی میری جانب اشارہ فرمایا کہ ’’آپ کوئی فکر نہ کریں۔انشاء اللہ حفاظت میں رہیں گے۔‘‘۔۔۔۔۔۔ یہی ہوا کہ میں ان فسادات میں بالکل محفوظ رہا۔(علم لدنی یا علم الٰہی صفحہ101تا 102)

سلطان نور الدین زنگی

علامہ نور الدین سمہودیؒ نے یہ واقعہ اپنی کتاب ’’خلاصتہ الوفا‘‘ میں بیا ن کیا ہے اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے اپنی مشہو ر کتاب ’’جذ ب القلوب‘‘ میں بھی تحریر کیا ہے ۔

ایک رات سلطان نور الدین زنگی نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خواب میں زیارت کی ۔دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نیلی آنکھوں والے دو اشخاص کی جانب اشارہ کر کے فرما رہے ہیں ۔’’مجھے ان دونوں کے شر سے بچاؤ ‘‘۔سلطان گھبرا کر اٹھ بیٹھے فوراً وضو کیا ۔نماز قائم کی اور لیٹ گئے ۔پھر یہی خواب دیکھا ۔گھبرا کر دوبارہ اٹھے وضو کیا ،نماز قائم کی پھر سو گئے تیسری بار پھر یہی خواب دیکھا ۔اب گھبرا کر اٹھے۔اسی وقت خادم کو دوڑایا کہ وزیر جمال الدین موصلی کو بلا لائے ۔جمال الدین موصلی کو خواب بیان کیا تو اس نے کہا ’’ تاخیر نہ کیجئے ۔فوراً مدینہ روانہ ہوجائیے ۔کسی سے اس خواب کا ذکر مناسب نہیں۔‘‘

نور الدین زنگی نے یہ خیال کیا کہ شاید مدینہ طیبہ میں کوئی حادثہ پیش آیا ہے لہٰذ ا جلد ازجلدوہاں پہنچنا چاہیئے اور نور الدین زنگی صبح صادق ہونے سے پہلے اپنے وزیر ، بیس اراکین مجلس اور دوسو سپاہیوں کو ہمراہ لے کر بہت سے مال وزر کے ساتھ نہایت تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہوکر روانہ ہوگئے۔مسلسل دن رات سفر میں رہنے کے بعد سولہ روز میں شام سے مدینہ طیبہ پہنچے ۔اس وقت عرب کا علاقہ بھی سلطان نور الدین زنگی کے زیراثر آچکا تھا ۔سلطان کی اچانک آمد سے مدینے کے لوگ حیران رہ گئے ۔امیر مدینہ نے اچانک آمد کی وجہ دریافت کی تو سلطان نے سارا ماجرا کہہ سنایا او ر اس سے مشورہ طلب کیا ۔امیر مدینہ نے شہر میں منادی کرادی کہ ’’سلطان وقت تمام اہلیان مدینہ کی دعوت کر رہے ہیں اور ساتھ انعام و کرام سے نوازنا چاہتے ہیں ۔ اسلئے یہاں کا رہنے والا کوئی محروم نہ رہے ۔ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ سلطان کے حضورحاضر ہو۔‘‘

چناچہ تمام اہلیان شہر سلطان کی دعوت میں شریک ہوئے ۔انعام دیتے وقت سلطان ہر فرد پر گہری نظر ڈال کر پہچاننے کی کوشش کرتے رہے ۔ یہاں تک کے تمام شہری رخصت ہوگئے ۔لیکن نیلی آنکھوں والے دونوں اشخاص نظر نہیںآئے۔نور الدین زنگی نے امیر مدینہ اور دیگر حاضرین سے مخاطب ہوکر دریافت کیا کہ ’’کیا مدینے کی آبادی کے تمام افراداتنے ہی ہیں کوئی باقی تو نہیں رہ گیا؟
ایک خادم نے عرض کیا ’’حضور !صرف دو اہل مغرب جو نہایت صالح ،سخی ،عبادت گزار اور گوشہ نشین ہیں باقی رہ گئے ہیں ۔وہ دونوں جنت البقیع میں پانی پلانے کی خدمت انجام دیتے ہیں ۔‘‘

سلطان فوراً ان کے حُجرے میں پہنچا ۔سلطان نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا۔ گفتگو کے دوران سلطان کی آنکھیں حجرے کا مسلسل جائزہ لیتی رہیں حجرہ کے فرش پر ایک معمولی سی چٹائی بچھی ہوئی تھی طاق میں قرآن پاک اور وعظ و نصیحت کی چند کتابیں ۔ایک طرف کچھ کھانے پینے کا سامان ۔بس حجرہ میں کل یہی سامان تھا۔سلطان سخت حیران ہوا کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔۔۔؟مایوس ہوکر واپس جانے والے تھے کہ ان کو چٹائی کے نیچے ہلتی ہوئی کوئی چیز محسوس ہوئی ۔چٹائی کو ہٹایا تو ایک تختہ نظر آیا ۔تختے کو ہٹایا گیا توایک سرنگ نظرآئی۔جو روضہ رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سمت جارہی تھی ۔اسی وقت دونوں کو گرفتار کرلیا گیااور ان سے پوچھ گچھ کی گئی ۔ دونوں نے اقبال جرم کرلیا اوراعتراف کیا کہ وہ روم کے عیسائی باشندے ہیں ۔ روم کے بادشاہ فریڈرک اول نے ہمیں اس کام کے لئے باقاعدہ تربیت دلائی اور ہمیں عرب کی معاشرت کے بارے میں بتایا گیا اور یہا ں کی زبانوں کا علم سکھایا گیا۔ہم مسلمانوں کا حلیہ بناکر یہاں پہنچے کہ ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جسد مبارک لحد مبارک سے نکال کر روم لے جائیں تاکہ مسلمانوں کی مرکزیت ختم ہوجائے۔ 

ہم نے جب حُب رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دیندا ری کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم تو صرف اس لئے ترک وطن کرکے یہاں آئے ہیں کہ شہر رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام میں رہیں تو مدینے والے بھی ہماری بے پناہ عقیدت اور خیرات وصدقات دیکھ کر ہم پر مہربان ہوگئے اور روضہ کے بالکل متصل رہنے کیلئے ہمیں حجرہ دے دیا۔نہایت رازداری کے ساتھ ہم نے روضہ مبارک کی طرف سرنگ کھودنا شروع کردی ۔ رات بھر کھودتے اور صبح سویرے چمڑے کے دو تھیلوں میں بھر کر وہ مٹی جنت البقیع میں فاتحہ کے بہانے جاکر ڈال آتے اور دن میں اردگرد کے نخلستانوں اور زیارت گاہوںمیں گھوم پھر کر پانی پلاتے ۔ برس ہابرس کی محنت کے بعد آج ہم جسدِ مبارک کے قریب پہنچ گئے تھے۔یہ واقعات سن کر سلطان پر رقت طاری ہوگئی ۔ وہ زارو قطار رونے لگے اور اسی وقت حجرہ میں ان دونوں کا سرقلم کر دیاپھر سلطان سجدہ شکر بجالائے اور اس کے بعد روضہ شریف کے اردگرد اتنی گہری خندق کھدوائی کہ پانی نکل آیا۔پھر اس خندق میں سطح زمین تک سیسہ پگھلا کر بھر وادیا کہ آئندہ ایسے خطرہ کا کوئی امکان ہی نہ رہے۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان