Topics
جس
جگہ اس خیال فاسد کا وہ حصہ جنت میں دفن کیا گیا تھا۔ وہاں ایک پودا نمودار ہو گیا
تھا۔ جس کی شکل آج کل کے گیہوں سے بہت کچھ ملتی جلتی تھی۔ یہ وہی درخت تھا جس کے
متعلق بعد میں آدم ؑ کو ہدایت کی گئی تھی کہ یہ پیڑ تمہارا دشمن ہے اور اس کا
استعمال تمہاری تباہی کا سبب بن جائے گا۔ اس واسطے اس پیڑ کے قریب بھی نہ جانا۔
پروردگار
عالم الغیب ہے وہ جانتا تھا کہ اگر آدم ؑ نے یہ پودا یا اس کا پھل کھا لیا تو وہی
خیال فاسد جو اس سے علیحدہ کیا گیا تھا دوبارہ اس کے ذہن اور روح پر سوار ہو جائے
گا۔ اور پھر وہی اس کی ندامت اور مصیبتوں کا پیش خیمہ ہو گا۔ اس واسطے محض اتمام
حجت کے لئے آدم ؑ کو ہدایت ہوئی کہ یہ پھل تمہارے لئے ممنوع ہے۔ اگر کھائو گے تو
گھاٹے میں رہو گے۔
اس
جگہ مجھ جیسی طبعیتیں یہ سوال کر سکتی ہیں کہ جب خدا عالم الغیب ہے اور آئندہ کے
حالات پر بھی وہ نظر کر سکتا ہے تو یقیناً اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ آدم ؑ
نافرمانی کرے گا۔ اور مختلف ترکیبوں سے عدول حکمی بھی کرے گا۔ مگر میں سمجھتا ہوں
کہ یہ سوال کچھ کمزور سا ہے۔ پروردگار نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں اپنی مخلوق
کو آزاد رکھتا ہوں۔ اچھا برا پہلے ہی سمجھا دیتا ہوں۔ اگر قوم اس پر عمل کرتی ہے
اجر پاتی ہے اور اگر سرکشی کرتی ہے تو کیفرکردار کو پہنچتی ہے۔ بہرحال قدرت پر یہ
الزام کہ ہونے والے گناہ اس کے علم میں ہوتے ہیں۔ کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ عالم
الغیب کے لئے یہ کیا ضروری ہے کہ مخلوق کے افعال کا صرف ایک ہی راستہ کھولے۔ اگر
ایسا ہوتا تو قدرت کا یہ کائناتی کھیل ہی ادھورا رہ جاتا۔
یہی
اسباب ہیں جن کی بنا پر مخلوق کو آزادی ملی ہے۔ البتہ اگر پہلے سے گناہوں کی سزا
کا علم نہ ہو اور کوئی مخلوق گناہ کرے تو ممکن ہے کہ معترض قدرت پر الزام لگانے
میں حق بجانب سمجھا جائے۔ لیکن جب قدرت نے بھلے برے کی پہچان بتا دی اور دونوں
راستوں کا انجام بتایا۔ اس کے بعد کیسے ممکن ہے کہ گناہگار کو اپنے گناہوں کا
خمیازہ بھگتنا نہ پڑے۔ اگر چشم پوشی کھلے بندوں قدرت کی طرف سے ہو سکتی ہے تو زاہد
و اتقا کی کیا قیمت رہ جاتی ہے۔ بہرحال خدا سے سخت مخالفت اور اپنے معتوب ہونے کے
باوجود مجھے تسلیم ہے کہ قدرت اس معاملہ میں کسی اعتراض کی حقدار نہیں ہے۔ فاعل
اپنے فعل کی اچھائی برائی کا آپ ذمہ دار ہے اور آپ ہی جواب دہ ہو گا۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔