Topics
’’ایک نجومی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام پہاڑ پر تشریف فرماتھے۔نجومی نے عرض کیا:
’’اگر آپ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے پیر کے نیچے پہاڑ موم کی طرح نرم ہوجائے
تو میں مسلمان ہوجاؤں گا۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر، پیرپہاڑ پر رکھا تو
پہاڑ نرم ہوگیا۔ نجومی نے آسمان کی طرف دیکھا اور ایمان لے آیا۔
نجومی نے بتایا :
’’آسمان پر ایک ستارہ ایسا ہے کہ جب وہ کسی کے سرپر سایہ فگن ہوتا ہے تواس
شخص کے پیر کے نیچے پہاڑ موم بن جاتا ہے۔ اس مقام تک ستارہ کو پہنچنے میں ایک لاکھ
سال کا وقفہ چاہئیے تھا۔ میں نے دیکھا کہ جیسے ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
پیر اُٹھا کر پہاڑ پر رکھا ستارہ تیزی سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سرپر آگیا
اور واپس چلا گیا۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مرتبہ کوہِ نبیر پر تشریف لے گئے۔ حضرت
ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت عثمان غنی ؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے ہمراہ تھے۔ کوہ نبیر ہلنے لگا یہاں تک کہ اس کے پتھر لڑھک کر دامن کوہ میں
جاگرے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کوہِ نبیر کو ٹھوکر لگاکر فرمایا،
’’اے نبیر! ساکن رہ، تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہید ہیں‘‘۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا یہ فرمان سنتے ہی کوہ نبیر ساکت ہوگیا۔
***
ایک نظریہ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ زمین ابتدا میں سورج کا حصہ تھی، جو ایک
ٹکڑے کی طرح اچھل کر سورج سے علیحدہ ہوگئی۔ دوسرا نظریہ بگ بینگ(BIG BANG) کی تھیوری ہے۔ دونوں نظریات
کے مطابق زمین نے رفتہ رفتہ بیضوی شکل اختیار کرلی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ قطبین اور
خطِ استوا پر کرہء ارض کا ڈایا میٹر الگ الگ ہے۔ خطِ استوا پر زمین کا ڈایا
میٹر6378 کلومیٹر ہے اور قطبین پر زمین کا ڈایا میٹر 6356 کلومیٹر ہے۔ زمین 23.5 ڈگری زاویے پر جھکی ہوئی
ہے اور تقریباً 24 گھنٹوں میں گھوم جاتی ہے۔ اس گردش سے دن رات وجود میں آتے ہیں۔
زمین سورج کے گرد ایک چکر ایک سال میں پورا کرتی ہے اور اس حرکت سے موسم تبدیل
ہوتے ہیں۔ زمین کی ساخت ، جھکاؤ، پھیلاؤ، گردش اور ترتیب و توازن ، قدرت کی معین
کردہ مقداروں کا بہترین شاہکار ہے۔سائنس دانوں کے خیال میں اگر زمین کا جھکاؤ ۲۵ ڈگری
پر ہوتا تو قطبین پر جمی ہوئی برف پگھل کر سمندروں میں آجاتی اور اگر جھکاؤ ۲۲ ڈگری
پر ہوتاہے تو یورپ قطب شمالی کی برف سے ڈھک جاتا۔زمین محوری گردش چوبیس گھنٹے میں
پوری کرتی ہے اگر زمین محوری گردش ۳۰ گھنٹوں میں پوری کرتی تو تیز
ہوائیں چلتیں اور ان طوفانی ہواؤں سے زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی۔اگر محوری گردش
کا دورانیہ ۲۴ گھنٹوں کے بجائے ۲۰ گھنٹے ہوتا تو زمین خشک اور
بنجر بن جاتی۔ زمین کے اندر ایک سیال مادّہ ہے۔ جس کے ارد گرد مختلف اقسام کی ٹھوس
تہیں ہیں۔ زمین کے قطر کا اکثر حصہ پگھلی ہوئی دھاتوں اور چٹانوں پر مشتمل ہے۔
زمین اور آسمان میں موجود ہر شئے شعور رکھتی ہے۔ وہ اس بات سے واقف
ہے کہ رحمۃ اللعالمین سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے لئے کائنات کی ہر شئے
محکوم ہے۔ پہاڑ کے اوپر جیسے ہی سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لے گئے تو
محکوم پہاڑ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی جاری و ساری حاکمیت کے رعب سے ہلنے لگا۔
یعنی اس پر زلزلہ آگیا۔ زلزلہ کے معنی ہیں زور سے ہلادینا۔
’’جب زمین اپنی پوری شدت کے
ساتھ ہلا ڈالی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی۔
‘‘(سورۃ الزلزال۔ آیت1تا2)
’’جب وہ ہونے والا واقعہ
پیش آجائے گا۔ تو کوئی اس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔ وہ تہہ و بالا
کردینے والی آفت ہوگی۔ زمین اس وقت یکبارگی ہلا ڈالی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ
ریزہ ہوجائیں گے جیسے اڑتا ہوا غبار۔‘‘( سورۃ الواقعہ۔آیت 1تا 6)
پہاڑ میں شعور ہے۔ قرآن کریم اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔
’’اور ہم نے اپنی امانت پیش
کی آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر، سموات، ارض اورپہاڑوں نے کہا کہ ہم اس
امانت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب۔آیت 72)
کسی چیز کے بارے میں انکار یا اقرار اس بات کی علامت ہے کہ اس شئے کے
اندر شعور ہے۔ جس طرح کوئی فرد اپنے شعور کو نہیں دیکھ سکتا اور شعور کی مزاحمت یا
شعور کی پسندیدگی کا وزن محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح ہم پہاڑوں کو وزنی اورجما ہوا
دیکھتے ہیں۔
’’تم دیکھتے ہو پہاڑ اور گمان کرتے ہو کہ یہ
جمے ہوئے ہیں۔ حالانکہ پہاڑ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔‘‘(سورۃ النمل۔آیت88)
یعنی پہاڑ کثیف مادّے پر قائم نہیں ہے۔ جب
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہاڑ سے مخاطب ہوکر فرمایا، ’’ٹھہر جا تجھ پر نبی اور
صدیق اور دو شہیدہیں‘‘
تو پہاڑ نے حکم کی تعمیل کی اور وہ ہلنے
اور لرزنے سے رُک گیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان