Topics
ہر زندگی میں پانی کا عمل دخل تین حصے ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پانی کی فطرت نشیب میں
بہنا ہے لیکن اس کے برعکس پانی ۸۰ فٹ ناریل کے اونچے درخت میں سربند پیالے
(ڈاب)میں جمع ہوجاتا ہے اور جب نشیب میں طوفانی صورت اختیار کرتا ہے تو پورے پورے
شہر روندکر ویران کردیتا ہے۔
زمین جب سے وجود میں آئی ہے اس وقت سے لے کر اب تک سمندر کئی بار اپنی جگہ
بدل چکا ہے، جہاں اب خشکی ہے، کبھی وہاں پانی تھا اور جہاں اب سمندر ہے، وہاں کسی
زمانے میں زمین پر آبادی تھی۔ ماہرین کے مطابق دنیا کے بہت سے حصوں میں سمندر خشکی
کی طرف بڑھ رہے ہیں، بہت سے جزیرے سمندر میں چھپ گئے ہیں اور سمندر میں غرق خشکی
کے حصے دوبارہ نمودار ہورہے ہیں۔
زمین کی سطح متحرک ہے۔ سطح زمین کے نیچے چٹانیں ہیں۔ سیاہ چٹانوں پر مشتمل مادہ(Matter) بھی سست روی سے متحرک ہے۔
جسکی وجہ سے قشر ارض بڑی بڑی پلیٹوں میں ٹوٹ گیا ہے۔ پلیٹیں جہاں سے کھسک جاتی
ہیں، زمین وہاں سے پھٹ جاتی ہے اور کھائیاں اور سمندر بن جاتے ہیں۔ بعض جگہوں پر
کھنچاؤ کی وجہ سے سلوٹیں بن جاتی ہیں۔ زمین کی سطح پر نمودار ہونیوالی یہ سلوٹیں
پہاڑی سلسلے ہیں۔
زمین پر تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایک خلئے پر
مشتمل جاندار سے لے کر بارہ کھرب سیلز سے مرکب آدمی اور عظیم الجثہ حیوانات سب کی
زندگی پانی سے شروع ہوئی ہے۔ خشکی پر رہنے والی مخلوق اور پانی میں آباد مخلوق تمام
جانداروں کے خون میں سوڈیم، پوٹاشیم اور کیلشیم کی نسبت وہی ہے جس نسبت سے یہ
کیمیاوی عناصر سمندر کے پانی میں پائے جاتے ہیں۔
سمندر میں نمک، گھاس پھونس، Sea Food اور دیگر سمندری مخلوق کے علاوہ بیش بہا معدنیات اور کیمیائی اجزا
موجود ہیں۔
بتایا جاتا ہے ایک مکعب میل سمندری پانی میں بارہ کروڑ تراسی لاکھ ٹن سادہ نمک،
اورایک کروڑ اسّی لاکھ ٹن میگنیشیم کلورائیڈ، اٹھتّر لاکھ ٹن میگنیشیم سلفیٹ،
انسٹھ لاکھ ٹن کیلشیم سلفیٹ اور تین لاکھ ساٹھ ہزار ٹن میگنیشیم برومائیڈ کے علاوہ
آیوڈین، لوہا، تانبا، چاندی اور سونا بھی شامل ہے۔
سمندر کا پانی کھاری ہوتا ہے لیکن بعض ساحلوں کے قریب اس میں میٹھے پانی کے چشمے
ملتے ہیں۔ سمندروں کی تہہ کے نیچے میٹھے پانی کے چشمے جاری رہتے ہیں۔ میٹھا پانی
سمندر کے پانی سے ہلکا ہوتا ہے۔ جہاں کہیں سمندر کی تہہ کو توڑ کر میٹھا پانی باہر
نکلتا ہے اور ہلکا ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے ایسی جگہ سمندر کی
سطح پر بلبلے بنتے رہتے ہیں۔سمندر کے پانی میں نمک کی مقدار دیگر کیمیاوئی اجزا کی
نسبت زیادہ ہے۔ جن مقامات میں دریا میٹھا پانی لے کر سمندرمیں آملتے ہیں وہاں
سمندری پانی میں نمک کم ہے اور جہاں میٹھے پانی کی آمیزش کم ہے یا جہاں جہاں پانی
زیادہ مقدار میں بخارات بن کر اڑتا ہے وہاں سمندر کے پانی میں نمک زیادہ ہے۔
سورج کی گرمی سے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں کا پانی بخارات میں تبدیل ہوتا
ہے۔ بخارات بادل بن جاتے ہیں اور ہوا بادلوں کو اڑا کر لے جاتی ہے۔ پہاڑوں اور
میدانوں میں بارش برستی ہے۔ فضا میں موجود گیسز اور پہاڑوں سے مختلف عناصر اس میں
شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ پانی زمین کی مٹی میں نمی پیدا کرتا ہے اور حیاتیاتی پروسس کا
لازمی جزو ہے۔بخارات سے بھری ہوئی ہوا کا درجہ حرارت کسی وجہ سے کم ہوجائے تو
بخارات قطروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ جب یہ قطرے بھاری ہوجاتے ہیں تو بارش کی
شکل میں زمین پر گرنے لگتے ہیں۔
بادلوں کے اندر موجود پانی کے ہر قطرے پر مثبت یا منفی چارج موجود ہوتا ہے۔ یہ
ذرّات جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو بیشتر مثبت چارج بادلوں کے اوپر کے حصے میں اور
بیشتر منفی چارج بادلوں کے نچلے حصے میں جمع ہوجاتا ہے۔ اس چارج کی طاقت لاکھوں
وولٹ ہوتی ہے۔ ایک بادل کے منفی ذرّات جب دوسرے بادل کے مثبت ذرات سے ٹکراتے ہیں
تو بجلی گرنے لگتی ہے۔بجلی گرنے سے آس پاس کی ہوا شدید گرم ہوجاتی ہے۔ ہوا کا درجہ
حرارت تقریباً تینتیس ہزار سنٹی گریڈ تک بڑھ جاتا ہے۔ گرم ہوا تیزی سے پھیلتی ہے
اور ارد گرد کی سرد ہوا سے ٹکراتی ہے۔ جس سے شدید دھماکہ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
گرج اور چمک کا یہ عمل اگرچہ بہ یک وقت واقع ہوتا ہے لیکن آواز کی لہریں روشنی سے
کم رفتار ہونے کی وجہ سے گرج، چمک کے بعد سنائی دیتی ہے۔
سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک سیکنڈ میں دنیا بھر میں تقریباً ایک
سو اسپارک وجود میں آتے ہیں اور بجلی کے ایک اسپارک میں اتنی توانائی موجود ہوتی
ہے جس سے ایک چھوٹے شہر کی سال بھر کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ بجلی کی چمک
سے پیدا ہونے والی حرار ت اور توانائی سے بادلوں میں پانی کے ذرات شکست و ریخت کے
عمل سے گزرتے ہیں اور فضا میں موجود دیگر گیسز کے ساتھ کیمیائی تعامل کرتے ہیں۔ جس
سے آکسیجن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن کی ایسی کیمیائی ترکیب بنتی ہے جس کا اصطلاحی
نام امونیم نائٹریٹ ہے۔ یہ ایک بہترین کھاد ہے۔یہ کھاد پانی میں حل ہوکر جب زمین
میں جذب ہوتی ہے تو پودوں اور فصلوں کو نئی زندگی عطا کردیتی ہے۔ ایک مرتبہ کی چمک
سے پیدا ہونے والی کھاد ہزاروں لاکھوں ٹن مقدار میں ہوتی ہے۔
سائنسی انکشافات کے مطابق تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار مکعب کلومیٹر پانی
بارش کی صورت میں دنیا کے بر اعظموں کو مہیا ہوتا ہے۔ یہ مقدار سطح زمین پر موجود
پانی کا صرف ایک فیصد ہے اور زیر زمین پانی کا ہزارواں حصہ ہے۔ بارش کا پانی ندی،
نالوں،جھرنوں، آبشاروں اور دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندر میں مل جاتا ہے۔
بارش کا چار حصے پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے یا بہہ کر سمندر میں چلا جاتا
ہے، ایک حصہ پانی زمین میں جذب ہوجاتا ہے۔ زمین کے اندر چٹانوں میں مسام ہوتے ہیں۔
پانی مٹی اور مسام دار چٹانوں سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ پانی کی گزرگاہ میں جہاں غیر
مسام دار چٹانوں کی کوئی تہہ آجاتی ہے، پانی وہیں رک جاتا ہے۔ پانی آگے نہیں بڑھتا
اور جمع ہوتا رہتا ہے اور اس طرح مسام دار چٹانوں کے مسام اور دراڑیں پانی سے بھر
جاتی ہیں۔
زمین دوز پانی کے ذخائر ہزاروں کلومیٹر سالانہ کی رفتار سے زمین کے اندر
سفر کرتے رہتے ہیں۔ زمین کی نچلی تہوں میں ہزاروں سال تک پانی محفوظ رہتا ہے۔ زمین
دوز پانی کی بالائی سطح موسم کے ساتھ ساتھ اونچی نیچی ہوتی رہتی ہے۔ خشک موسم میں
زمین تھوڑا پانی جذب کرتی ہے اور برسات میں چٹانوں کی دراڑیں اور مسام بالکل بھر
جاتے ہیں، جہاں کہیں زیر زمین پانی کی سطح اونچی ہوتی ہے پانی کا چشمہ ابل پڑتا ہے
اور جہاں ضرورت ہو کنواں کھود کر زیر زمین پانی کے ذخائر کو استعمال کیا جاتا ہے۔
’’لوگو!بندگی کرو اپنے رب کی جس نے بنایا تم کو اور تم سے اگلوں کو شاید تم
پرہیزگاری اختیار کرو۔ جس نے بنادیا زمین کو تمہارے لئے بچھونا اور آسمان کو چھت
اور اتارا آسمان سے پانی پھر نکالے اس سے میوے تمہارے لئے رزق، پس تم یہ جانتے ہو
تو دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے برابر نہ بناؤ۔(سورۃ البقرہ ۔آیت21تا22)
’’اور جس نے خاص مقدار میں آسمان سے پانی اتارا۔ اس کے ذریعہ سے مردہ زمین
کو زندگی دی اسی طرح ایک روز تم زمین سے برآمد کئے جاؤگے۔‘‘
(سورۃ الزخرف ۔آیت11)
’’ اس نے آسمانوں اور زمین کو تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہی رات کو دن پر
لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے۔ اور سورج اور چاند اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ سب ایک وقت
مقررہ تک حرکت کرتے ہیں ۔ دیکھو وہی غالب بخشنے والا ہے۔ ‘‘
(سورۃالزمر۔آیت5)
’’ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوش خبری لئے ہوئے بھیجتا
ہے۔ پھر وہ پانی سے بھرے ہوئے بادل اٹھالیتی ہیں تو انہیں کسی مردہ سرزمین کی طرف
حرکت دیتا ہے اور وہاں مینہ برسا کر طرح طرح کے پھل نکالتا ہے اور اسی طرح ہم
مُردوں کو حالت موت سے نکالتے ہیں شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق حاصل کرو۔ جو زمین
اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے
اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اس طرح ہم نشانیوں کو بار بار دکھاتے
ہیں اس قوم کے لئے جو کہ شکر کرنے والی ہے۔‘‘(سورۃالاعراف۔آیت57تا58)
’’اللہ تعالیٰ ہی تو ہیں جو ہواؤں کو چلاتے ہیں تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں
پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتے ہیں۔ جس طرح چاہتے ہیں اور انہیں ٹکڑیوں
میں تقسیم کرتے ہیں پھر تم دیکھتے ہو کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکتے ہیں۔ یہ
بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتے ہیں برساتے ہیں تو یکایک وہ خوش و خرم
ہوجاتے ہیں حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہورہے تھے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ کی
رحمت کے اثرات کہ مُردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح زندہ کردیتے ہیں۔ یقیناًوہ
مُردوں کو زندگی بخشنے والے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہیں۔ اور اگر ہم ایک ایسی
ہوا بھیج دیں جسکے اثرات سے وہ اپنی کھیتی کو زرد پائیں تو وہ کفران نعمت اور
ناشکری کرنے لگیں۔‘‘
(سورۃالروم۔آیت48تا51)
آیات مقدسہ کے معانی اور مفہوم پر غور کرنے سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ
زندگی کا دارومدار پانی کے اوپر ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم آسمان سے
پانی نازل کرتے ہیں اور اس میں سے تمہارے لئے رزق اور پھل پیدا کرتے ہیں اور جب
مردہ زمین پر بارش برستی ہے تو اس کے اند ر زندگی دوڑ جاتی ہے۔ خشک زمین بظاہر
بنجر نظر آتی ہے لیکن زمین کے اندر مخلوق کی ہزاروں قسمیں ہیں۔ جو سطح زمین پر نظر
نہیں آتیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک گرام مٹی میں کھربوں جراثیم ہوتے ہیں۔ جب طویل
عرصہ تک بارش نہیں ہوتی تو زمین کے اندر یہ جراثیم بے حرکت ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب
بارش برستی ہے تو یہ کھربوں جراثیم زندہ اور متحرک ہوجاتے ہیں۔ بارش کے بعد زمین کے
اندر نمو کا یہ عمل ہزاروں جاندار اشیاء کیڑوں، مکوڑوں، درختوں، پودوں اور پھول،
پھلواری کی پیداوار کا سبب بنتا ہے۔ بارش کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ زیر زمین شہر کے
شہر آباد ہوگئے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ پانی زندگی کے لئے ناگزیر ہے۔ تخلیقات کے عمل
میں پانی کی اہمیت سے کسی بھی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تخلیقی عمل پر غور کیا
جائے تو زمین پر تولیدی سلسلہ پانی کے اوپر قائم ہے۔
جب ہم پانی کا تذکرہ کرتے ہیں تو روحانی نقطہ نظر سے دو رُخوں کا تذکرہ
کرتے ہیں۔ ایک پانی اور دوسرے پانی کی ماہیت۔ جس طرح ہر انسان میں شعور اور لاشعور
کام کررہے ہیں اور انسان کی ساری زندگی لاشعور سے شعور کے اوپر انفارمیشن پر قائم
ہے اسی طرح پانی کی ماہیت اور خاصیت پر پانی کا وجود ہے۔ پانی کا پھیلنا، سمٹنا،
زمین کے اندر پانی کا بہنا، چشمے، آبشار، ندی، نالے، دریا، سمندر اور آسمان سے
برسنے والا پانی اپنے باطنی وجود (لاشعور) پر قائم اور متحرک ہے۔
باعث تخلیق کائنات سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے اسرار و
رموز کے امین، اللہ تعالیٰ کی نیابت اور خلافت کے اعلیٰ منصب پر فائز، حامل علم
لدنی، تخلیقی فارمولوں کے ماہر، بحر و بر، شجر و حجر، سماوات اور زمین کے حاکم ہیں
اور انہیں اللہ تعالیٰ کی نیابت کے تحت حاکمیت کے تمام اختیارات حاصل ہیں۔ سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب چاہا کہ پانی میں اضافہ ہو یا خشک کنویں میں پانی
کا چشمہ ابل پڑے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پانی کے باطن (لاشعور) میں تصرف
فرمادیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تصرف سے پانی کے ظاہر میں پھیلنے اور بہنے
کی صلاحیت متحرک ہوگئی۔ خشک کنویں سے چشمہ ابل پڑا اور یہی تصرف جب مشک کے پانی پر
ہوا تو قانون الٰہی کے تحت آدمیوں کی بہت بڑی تعداد نے پانی پی لیا لیکن مشک خالی
نہیں ہوئی۔
’’اس نے تمہارے لئے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کررکھا ہے اور
سب ستارے بھی اسی کے حکم سے مسخر ہیں۔ اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو
عقل سے کام لیتے ہیں۔‘‘(سورۃالنحل ۔آیت12)
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان