Topics
کتاب
کے شروع ہی میں الٹی میٹم دے چکا ہوں کہ میں صرف اپنی زندگی کے حالات لکھوں گا۔ اس
واسطے یہاں سے آدم ؑ اور حوا کے ساتھ ساتھ مور، سانپ اور انجیر وغیرہ کو بھی
چھوڑتا ہوں۔ مجھے اس سے بحث نہیں کہ آدم کب تک اپنے گناہوں پر روتے رہے اور کس
طرح صبر آیا۔ نہ مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ حوا انہیں کب ملیں اور کہاں ملیں،
نہ اس کی ضرورت سمجھتا ہوں کہ آدم اور حوا کے وہ حالات بتائوں جنہیں آج بہت حیرت
اور تعجب سے سنا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ بی بی حوا کے ہاں صبح لڑکا اور
شام کو لڑکی ہوتی تھی اور اگلے دن بھی اسی طرح دو بچے ہوتے تھے اور پہلے دن کے
لڑکے سے اگلے دن کی لڑکی کی شادی ہوا کرتی تھی۔
کہیں
یہ مشہور ہے کہ ہر چھے مہینے کے بعد بی بی حوا کے ہاں وضع حمل ہوا کرتا تھا۔ بعض
یہ یقین رکھتے ہیں کہ روزانہ توام پیدا ہوتے تھے۔ بحرحال دنیا کی اوندھی سیدھی
تاریخ لکھنے والوں نے جو کچھ لکھا ہے نہ مجھ کو ان پر رائے زنی کی ضرورت ہے اور نہ
قرآن مجید کے بتائے ہوئے واقعات پر ریویو کرنے کا حق۔ اور سچ بات تو یہ ہے کہ
میری زندگی سے ان واقعات کو کوئی نسبت ہی نہیں اس واسطے میں ان تفصیلات کو ہی غیر
ضروری سمجھتا ہوں۔ جن لوگوں کو میری زندگی کے علاوہ ان واقعات کے بھی معلوم کرنے
کی ضرورت ہو وہ کوئی ایسی کتاب پڑھیں جو اس مقصد کے لئے لکھی گئی ہو۔ نیاز مند کا
یہ کام نہیں ہے کہ اپنی مقدس سوانح عمری کے ساتھ کسی غیر کے حالات کو شریک کر سکے۔
کیونکہ شرک سراسر گناہ ہے اور میں گناہوں کی دنیا سے بہت دور رہنا چاہتا ہوں۔
عام
لوگوں کا خیال ہے کہ میری شیطنت کی ابتدا اس وقت ہوئی جب میں نے جنت میں پہنچ کر
آدم کو گیہوں کھلانے کا انتظام کیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ خیال غلط ہے وہ تو ایک
انتقامی جذبہ تھا۔ چونکہ آدم کا وجود میری تباہی کا باعث ہوا تھا۔ اس واسطے میں نے
ان کے خلاف جو امر کیا وہ صرف انتقام کا کرشمہ کہا جا سکتا ہے۔ اگر وہ شیطنت ہے تو
میں آدم کی اولاد میں سو فیصدی یہ شیطنت دکھانے کو تیار ہوں۔ خصوصاً آج کل ہر
گھر میں بچہ بچہ یہی کام کرتا ہے۔ ایک کی تباہی کے لئے ایک کو تیار کرتا ہے اور چپ
چاپ تماشہ دیکھتا رہتا ہے۔ پھر کچھ دن کے بعد اس کے بھی کوئی فرعون نکل آتا ہے
اور کوئی تباہی اس کے لئے بھی تیار کر دیتا ہے۔
خیر!
مجھے دنیا والوں سے کیا غرض۔ جو جی میں آئے کہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میری شیطنت
کا پہلا کارنامہ وہ ہے جو میں نے آدم کے بیٹے ہابیل اور قابیل کے ساتھ انجام دیا
کیونکہ اس میں میری نیت مفسدانہ تھی اور اس فعل سے مجھے ذاتی طور پر کوئی فائدہ
نہیں تھا۔ در اصل شیطنت کے معنی ہی یہ ہیں کہ بغیر کسی فائدے کے دوسرے کو جان بوجھ
کر مبتلائے آلام کر دیا جائے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔