Topics
مشرکین کی کاروائیاں حق کے پرچار کو روکنے میں کامیاب اور
مؤثر ثابت نہیں ہورہی تھیں۔کفار اس صورت حال سے پریشان تھے۔ بالآخر ۵۲ سردارانِ قریش کی
ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا سربراہ ابو لہب تھا۔ کمیٹی نے طے کیا کہ اسلام کی
مخالفت، پیغمبراسلام کی ایذا رسانی اور اسلام لانے والوں پر طرح طرح کے ستم اور
ظلم و تشددکیا جائے۔
ابو لہب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عداوت میں اس قدر آگے
بڑھ گیا کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوسرے صاحبزادے حضرت عبداللہ کا
انتقال ہوا تو ابو لہب خوشی سے دوڑتا ہوا اپنے رفقا کے پاس پہنچااور انہیں بتایاکہ
محمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام) ابتر (نسل بریدہ) ہوگئے ہیں۔ قرآن حکیم نے ابو لہب کے
اس عمل پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہنچنے والے دکھ کامداوا سورۃکوثرمیں
کیاہے۔
”(اے نبی ؐ)ہم نے
آپ کو کوثر عطاکردیا۔ پس آپ اپنے رب کے لئے نماز قائم کیجئے اور قربانی کیجئے۔بے
شک آپ کادشمن ہی لاوارث اور بے نام ہے۔“ (سورۃ الکوثر)
ایک دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خانہ کعبہ میں اللہ
تعالیٰ کی عبادت کررہے تھے۔ ابو جہل اپنے قبیلے کے کچھ افراد کے ہمراہ وہاں پہنچ
گیا۔ ابوجہل کے ہاتھ میں اونٹ کی اوجڑی تھی جس میں خون اور دوسری گندگیاں بھری
ہوئی تھیں۔
جزیرۃالعرب میں کسی کو سزائے موت دینے کا ایک طریقہ یہ بھی
تھاکہ پانی یاخون یا دوسری گندگیوں سے بھری ہوئی اونٹ کی اوجڑی کو سر پر اس طرح
چڑھا دیتے تھے کہ سر اور چہر ہ اوجڑی کے اندر پھنس جاتا تھا اور پھر اوجڑی کے نچلے
حصے کو کسی تھیلے کے منہ کی طرح مضبوطی سے گردن میں باندھ دیا جاتا تھا۔ اس طرح
ناک اور منہ مکمل طور پر اوجڑی کے غبارہ میں بند ہوجاتے تھے اور سانس رک جاتا تھا
…… ……دم گھٹنے کے باعث جلد ہی موت واقع ہوجاتی تھی۔
اس روز ابوجہل اور اس کے ساتھی یہ فیصلہ کرکہ آئے تھے کہ وہ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اوجڑی کے ذریعے ہلاک کردینگے۔ ابوجہل اور اس کے
ساتھی جب خانہ کعبہ میں داخل ہو ئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے گرد و پیش
سے بے خبر اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود تھے۔ابوجہل نے اونٹ کی اوجڑی سجدہ کی حالت
میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سرپر رکھ دی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چہرہ
اور سر اس اوجڑی میں مبتلا ہوگیا۔ پھر ابوجہل نے بڑی پھرتی کے ساتھ اوجڑی کے دوسرے
سرے کو ایک تھیلی کی طرح حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی گردن پر باندھ دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جیسے ہی یہ
احساس ہوا کہ کوئی چیز ان کے سر پر رکھ دی گئی ہے۔ جب سانس گھٹنے لگا اور شدید
تکلیف ہوئی تو اوجڑی کو منہ پر سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔
جو لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب تھے انہیں بخوبی
احساس تھا کہ سانس رکنے کے باعث حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جلد ہی اپنی جان سے
ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے قراری و بے تابی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے یہ
سوچا کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرے سے اوجڑی کا غلاف اتار دیں لیکن
انہیں ابوجہل کا خوف تھا اور وہ جانتے تھے کہ اگر وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی
مدد کریں گے تو ابوجہل جیسے خوفناک شخص کی دشمنی مول لیں گے۔
قریش کی ایک عور ت جو وہاں موجود تھی وہ اس کربناک منظر کی
تاب نہ لاسکی اور دوڑتی ہوئی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر پہنچی اور ان کی
صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کو اطلاع دی۔ حضرت
فاطمہ ؓ سراسیمہ حالت میں روتے ہوئے خانہ کعبہ میں پہنچیں۔ ابوجہل اور دوسرے لوگوں
نے جب حضرت فاطمہ ؓ کو آتے دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے اور حضرت فاطمہ
ؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرے اور سر کو اوجڑی کی گرفت سے آزاد کیا اور
اپنے دامن سے ان کے چہرے کو صاف کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دم گھٹنے کے باعث
ایک گھنٹہ تک حرکت کے قابل نہ ہوسکے اور اس کے بعد اپنی بیٹی کے سہارے کھڑے ہوئے
اور آہستہ آہستہ قدم اٹھا تے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ گھر پہنچ کر حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے حضرت فاطمہ ؓ کی مددسے
اپنے چہرے اور سر کو خون اور دیگر کثافت سے صاف کیا، کپڑے تبدیل کیے۔ حضرت فاطمہ ؓ
نے اپنے والد کے کپڑے دھوکر سکھانے کے لئے دھوپ میں ڈال دیئے۔ اگلے دن حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام گذشتہ روز کے واقعہ سے خوف زدہ ہوئے بغیر دوبارہ خانہ کعبہ میں
تشریف لے گئے اور وہاں عبادت میں مشغول ہوگئے۔
اس مرتبہ عقبہ ابن ابی معیط نامی شخص نے سجدے کی حالت میں
اپنی چادر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر
ڈال دی اور اتناشدید حملہ کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ناک اور منہ سے خون
جاری ہوگیا۔ عقبہ یہ کوشش کررہا تھاکہ سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے ہی پے درپے وار
کرکے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاتمہ کردے (نعوذ باللہ)۔ لیکن وہ اپنے مقصد
میں کامیاب نہ ہوسکا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے آپ کو حملہ آور سے چھڑانے
میں کامیاب ہوگئے اور خون آلودہ چہر ہ کے ساتھ گھر واپس تشریف لے آئے۔
ابولہب کی بیوی ام جمیل جس کا نام ارویٰ بنت حرب بن امیہ
تھا۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایذا پہنچانے میں
پیش پیش تھی۔ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے راستہ میں او ر ان کے دروازے پر
کانٹے ڈال دیا کرتی تھی۔ اس ظالمانہ فعل پر قرآن میں سورہ لہب نازل ہوئی۔
”ٹوٹ گئے ابو لہب کے ہاتھ اور وہ
نامراد ہوگیا۔ اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا اس کے کچھ کام نہیں آیا۔ ضروروہ
شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا اور (اس کے ساتھ) اس کی بیوی بھی۔ لگائی بجھائی کرنے
والی، اس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی۔“ (سورۃ اللہب)
ام جمیل کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی اور اس کے شوہرکی مذمت
میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تو وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تلاش کرتی ہوئی
خانہ کعبہ پہنچ گئی، اس کے ہاتھ میں پتھر تھے جو وہ مارنے کیلئے لائی تھی۔ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمراہ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی موجود تھے۔ ام جمیل حضرت ابوبکر
صدیق ؓ کے پاس آئی اور پوچھا:”تمہارا
ساتھی کہاں ہے؟ مجھے معلوم ہوا ہے وہ میری (ہجو) برائی کرتا ہے۔اگر میں نے اسے
ڈھونڈلیا تو یہ پتھر اس کے سرپر ماروں گی۔“
اس شور شرابے کے بعد وہ چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد حضرت
ابو بکر صدیق ؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام سے دریافت کیا کہ کیا وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہیں دیکھ رہی تھی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو وقتی طور پر اندھا
کردیاتھا۔
امیہ بن خلف ابولہب کی ٹیم کارکن تھا۔ وہ جب سیدناحضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کو دیکھتا لعن طعن کرتا اورمغلظات بکتا تھا۔ قرآن پاک کی سورۃ
ھمزہ کی پہلی آیت اسی سیاہ بخت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
”لعن طعن اور برائیاں کرنے والے کے
لئے تباہی ہے۔“ (سورۃ
الھمزہ۔آیت 1)
اخنس بن شریق ثقفی بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ستانے
والوں میں تھا۔ قرآن نے سورۃالقلم میں اس کی خباثتیں گنوائی ہیں۔
”ہرگز خوف نہ کرو کسی ایسے شخص سے
جوبہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے، طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے،
بھلائی سے روکتا ہے، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانیوالا ہے، سخت بد اعمال ہے،
جفاکار ہے،اور ان سب عیوب کے ساتھ بد اصل ہے، اس بنا پر کہ وہ بہت مال اور اولاد
رکھتا ہے۔ جب ہماری آیات اس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے
افسانے ہیں۔“ (سورۃ القلم۔ آیت 10تا15)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف کفارمکہ کی کارستانیاں
اپنے عروج پر تھیں باوجود اس کے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلیٰ کردار اور
کریمانہ اخلاق کے مشرکین معترف تھے اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معززچچا
ابوطالب کی حمایت و حفاظت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاصل تھی۔ دیگر مسلمانوں
خصوصاً کمزور افراد کی ایذا رسانی کی کاروائیوں کی تفصیل کچھ زیادہ ہی سنگین اور
تلخ ہے۔ابوجہل نے یہ وطیرہ اپنا رکھا تھا کہ جب کسی معزز اور طاقتور آدمی کے
مسلمان ہونے کی خبر سنتا تو اسے برا کہتا۔ ذلیل و رسوا کرتا اور مال و جاہ کو سخت
خسارے سے دوچار کرنے کی دھمکیاں دیتا اور اگر کوئی کمزور ہوتا تو اسے مارتا اور
دوسروں کو بھی برانگیختہ کرتا۔
حضرت عثمانؓ بن عفان بہت مالدار سخی اور نرم خو تھے۔
آپؓ کا تعلق خاندان بنی امیہ سے تھا۔ جب
مسلمان ہوئے توان کے چچاانہیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیتے تھے۔
حضرت مصعبؓ بن عمیر بھی بڑے نازونعم میں پلے تھے۔ اعلیٰ
ترین لباس پہنتے، بیش قیمت جوتے استعمال کرتے اور ہر وقت خوشبو میں بسے رہتے۔ ان
کے قبول اسلام کی خبرجب ان کے گھر والوں کو ملی گھر والوں نے ان کا دانہ پانی بند
کردیا اور انہیں گھرسے نکال دیا۔ حالات کی شدت سے دوچار ہوئے توکھال اس طرح ادھڑ
گئی جس طرح سانپ کینچلی اتارتا ہے۔
حضرت عمارؓ بن یاسر بنو مخزوم کے غلام تھے۔ انہوں نے، ان کے
والد حضرت یاسر ؓ اور والدہ حضرت سمیہؓ نے اسلام قبول
کرلیاتوکفار نے اس قدر ظلم کیاکہ ان کے والدین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سخت
دھوپ میں حضرت عمارؓ کو پتھریلی زمین پر
لٹا کر سینے پر سرخ پتھر رکھ دیتے تھے اور کبھی پانی میں ڈبویا جاتا تھا۔ مشرکین
ان سے مطالبہ کرتے کہ جب تک محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام) کو برا نہیں کہو گے یا لات
وعزیٰ کے بارے میں کلمہ خیر نہ کہوگے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ حضرت عمارؓان کی
بات ماننے پر مجبور ہوگئے اور روتے ہوئے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو یہ آیت نازل
ہوئی:
”جوکوئی منکر ہو اللہ سے یقین لائے
پیچھے مگر وہ نہیں جس پر زبردستی کی اور اس کا دل برقرار رہے ایمان پر، لیکن جو
کوئی دل کھول کر منکر ہوا سو ان پر غضب ہے اللہ کا اور ان کو بری مارہے۔“ (سورۃالنحل۔آیت 106)
حضرت خباب ؓ، ام انمار کے غلام تھے، ان کی مالکہ قبیلہ خزاء
سے تعلق رکھتی تھی۔ قبیلہ والوں نے حضرت خباب
ؓ کو سزا دینے کا یہ طریقہ استعمال کیا کہ دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاکر ان
کے اوپر پتھر رکھ دیتے تھے۔جسم جلتا، چربی پگھلتی اور آگ بجھ جاتی مگر سزا ختم نہ
ہوتی۔
حضرت فکیہہ ؓ صفوان ابن امیہ کے غلام تھے، ان کے پاؤں رسی
سے باندھ دیئے جاتے اور زمین پر گھسیٹا جاتاتھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے ان کے مالک کو قیمت ادا کی اور آزاد کردیا۔
پہلے غلام جوحضرت زید ؓکے بعد حلقہئ اسلام میں داخل ہوئے وہ
حضرت بلال حبشیؓ تھے۔ جزیرۃالعرب میں تین
چیزیں مکمل بد بختی کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔ ایک اجنبی یا بیگانہ ہونا، دوسرا
غلام ہونا اور تیسرا سیاہ فام ہونا اور حضرت بلالؓ میں یہ تینوں چیزیں موجود تھیں۔
جب ان کے مالک امیہ بن خلف کو یہ اطلاع ملی کہ حضرت
بلال ؓ مسلمان ہوگئے ہیں تووہ انہیں مکہ
سے باہر لے گیا اور ان کے کپڑے اترواکر انہیں پورے سورج کے نیچے تپتی ہوئی ریت میں
لٹا دیا۔ ان کے ہاتھ باندھ دیئے اور سینے پر بھاری پتھر رکھوادیا اور ان سے کہا کہ
یا تو اسلام کو چھوڑدے یا دھوپ میں پڑا رہ یہاں تک کہ تو مرجائے۔ حضرت بلال ؓ یہ
جانتے تھے کہ ان کامالک اپنے کہے پر عمل کرے گا اور ان کے ہاتھ پیر نہیں کھولے گا
لیکن انہوں نے دینِ حنیف سے دستبردارہونے کے بجائے موت سے ہم آغوش ہونا قبول کرلیا
اور مرنے کے لئے تیار ہوگئے۔ لیکن اسی دوران حضرت ابوبکرؓ حضرت بلال
ؓ کو نجات دلانے کی غرض سے ان کے مالک کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے حضرت
بلال ؓ کو خریدنے کی تجویزپیش کردی۔ حضرت
بلالؓ کے مالک نے جب یہ دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ اس کے غلام کو بہت زیادہ قیمت پر
خریدرہے ہیں تواس نے انہیں بیچنے پر رضامندی ظاہر کردی اورحضرت ابوبکر ؓنے حضرت
بلال ؓکو خریدنے کے بعد آزاد کردیا۔
حضرت ابوذرغفاری
ؓجلیل القدر صحابی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جاں نثارساتھی تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ غفارسے
تھا۔ یہ قبیلہ مکہ کے شمال میں سکونت پذیر تھا۔ بادیہ نشین عربوں کی رسم کے مطابق
سال میں چار مہینوں کیلئے غارت گری اور ڈکیتی حرام تھی اور ان مہینوں کو ماہِ حرام
کہتے تھے۔مکہ کی زیارت پر جانے والے افراد پر حملہ کرنے کی ممانعت تھی لیکن قبیلہ
غفار کے لوگ مذکورہ رسومات اور قوانین کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ وہ ماہِ حرام کے
مہینے میں قافلوں پرلوٹ مار کی غرض سے حملہ کرتے اور مکہ کی زیارت پر جانے والواں
کو بھی معاف نہیں کرتے تھے۔
ایک مرتبہ ذیقعد کے مہینے میں قبیلے والوں نے اپنی حدودسے
گزرنے والے ایک قافلے پر حملہ کرکے قافلے کامال اسباب لوٹ لیا اور قافلہ میں شامل
مرد،عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا۔ حضرت ابو ذرغفاریؓ جو اس وقت تک مسلمان نہیں
ہوئے تھے انہیں شدید ندامت ہوئی اور انہوں نے اپناقبیلہ چھوڑ دیا۔ کئی ماہ صحرانوردی
کرنے کے بعد مکہ پہنچے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام سنا۔ انہیں معلوم ہوا
کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام لوگوں کو اللہ وحدہ لاشریک کی طرف بلاتے ہیں اور برے
کام کرنے سے روکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے منع کرتے ہیں۔
حضرت ابوذر غفاری ؓنے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنے کا
فیصلہ کرلیا۔ ایک راہ گیر سے پوچھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا گھر کہاں
ہے؟ اس نے تعجب خیز نگاہوں سے حضرت ابوذر
غفاری ؓ کو دیکھا اور اونچی آواز میں
چلانے لگا:”اے لوگو! ادھر آؤ اور اسے پکڑو اور مار ڈالو کیونکہ یہ ایک مسلمان ہے
جو ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے۔“
پلک جھپکتے ہی لوگوں نے حضرت ابوذر غفاری ؓ پر حملہ کردیا
اور وہ جان بچانے کے لئے وہاں سے فرار ہوگئے۔ لیکن قریش نے ان کا پیچھا کیا اور ان
پر پتھروں کی بارش کردی۔ اتنے پتھر مارے کہ حضرت
ابو ذر غفاریؓ نڈھال ہوکر زمین پر گرگئے اور مکہ والوں نے انہیں مردہ سمجھ
کرچھوڑدیا۔ ایک مسلمان کے سنگسار کئے جانے کی اطلاع حضرت ابوبکر ؓ کو مل گئی تھی لہٰذاوہ رات کی تاریکی میں آئے
اور ایک دوسرے مسلمان کی مددسے حضرت ابوذر غفاریؓ کو اٹھا کرلے گئے۔ بعد میں پتہ
چلا کہ حضرت ابوذر غفار ی ؓ مسلمان نہیں بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات
کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے دن حضرت ابوذر غفاریؓؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے
ملاقات کی۔حضرت ابوذر غفاری ؓ کا شماراسلا م کے نامور مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ حضرت
ابوذر غفاری ؓ نے اپنے پورے قبیلے کو مسلمان کرلیا۔ ان کا قبیلہ جو لوٹ مار کے
ذریعے زندگی گزارتا تھا اس نفرت خیز عمل سے ہمیشہ کے لئے دستبردار ہوگیا۔
اس واقعے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ مکہ کے باشندے حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دشمنی میں اتنا بڑھ گئے تھے کہ اگر کوئی ان کے گھر کاپتہ
پوچھتا تھا تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ پتہ پوچھنے والا یا تو مسلمان ہے یا مسلمان
ہوناچاہتا ہے لہٰذااس پر سنگ باری شروع کردیتے تھے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان